اجتہادی غلطی
وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا
یہ حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کی تعمیر بُرے طریقے سے کردی جائے اور اس میں مغالطے کا شائبہ بھی ہو تو غلط چیز کا وہم پڑ جاتا ہے اور پھر اس کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے بھی اختلاف ہوجاتا ہے۔۔۔ لہذا اگر کوئی آدمی کسی چیز کو خلاف واقعہ ہی سمجھنا چاہے تو وہ جس طرح چاہے سمجھتا رہے باقی رہا معاملہ تو یہ تو ہر اُس آدمی پر واضح ہے جو اسے اپنی اصلی صورت پر دیکھنا چاہئے
ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ٢٠ میں امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کو صحیح اسناد سے اس طرح روایت کیا ہے!۔
عبدالرزاق بن ہمام صنعانی (جو ایک بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے) اپنے شیخ معمر بن راشد بصری سے روایت کرتے ہیں ( اور یہ بھی بہت بڑے عالم ہیں) وہ زہری سے (جس نے حدیث کی تدوین کی اور یہ آئمہ حدیث کے استاد ہیں) کہ عبداللہ بن صفوان جمجی نے کہا کہ صفین والوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ یا الٰہی شام والوں پر لعنت فرما۔۔۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سے فرمایا!۔ اہل شام کو گالی نہ دو وہاں ابدال ہیں وہاں ابدال ہیں۔۔۔ یہ حدیث ایک اور سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی ثابت ہے۔۔۔
اور ابو ادریس خولانی نے روایت کیا ہے (یہ نسبت اور شریعت کے بہت بڑے عالم اور حسن بصری ابن سیرین اور مکحول جیسے لوگوں کے استاد ہیں) کہ حضرت ابوالدرداء نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! میں سویا ہوا تھا میں نے ایک کتاب دیکھی جسے میں نے اپنے سر کے نیچے سے اُٹھایا تھا تو مجھے خیال گذرا کہ یہ کتاب چلی جائے گی تو میں اسے دیکھتا رہا تو وہ شام کی طرف چلی گئی اور جب فتنے اُٹھیں گے تو اس وقت ایمان شام میں ہوگا اور اس حدیث کو ابوالدرداء کے علاوب حضرت ابو امامہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص نے بھی روایت کیا ہے۔۔۔
اہل شام اور ان سے جنگ کرنے والو کا مقابلہ کرنے کے لئے میں
ابن کثیر جلد ٧ صفحہ ٢٢٥ سے ایک باسند حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتا ہوں (راوی یہ ہیں) اعمش، عمرو بن مرہ بن عبداللہ بن حارث زبیر بن ارقم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کے بُسر یمن پر غالب آگیا ہے اور اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ عنقریب تم پر غالب آجائیں گے اور غالب آنے کی وجہ یہ ہے کہ تم اپنے امیر کی نافرماتنی کرتے ہو اور وہ فرمابرداری کرتے ہیں تم خیانت کرتے ہو او وہ امین ہیں تم اپنے علاقے میں فساد کرتے ہو اور وہ اصلاح کرتے ہیں میں نے فلاں آدمی کو بھیجا اس نے خیانت کی اور دھوکہ کیا پھر فلاں کو بھیجا اس نے بھی خیانت کی دھوکے کا ارتکاب کیا اور مال معاویہ کے پاس بھیجدیا اگر میں تم سے کسی کو ایک پیالہ امانت کے طور پر دوں تو وہ اس کو دبالے گا اے اللہ میں ان سے تنگ آگیا ہوں اور وہ مجھ سے تنگ آچکے ہیں اور میں ان کو ناپسند کرتا ہوں اور وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں اے اللہ ان کو مجھ سے الگ کردے اور مجھ کو ان سے۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر اور جماعت کی یہ تعریف کی اور ان کے بخلاف شامیوں کے فضائل بیان کئے جو کہ مجبور ہوکر میدان جنگ میں آئے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل شام کی اطاعت، امانت، اور اصلاح کی تعریف کرنے کے بعد یہی بات رہ جاتی ہے کہ جن لوگوں نے ان کو دین میں فسق اورکفر کی طرف منسوب کیا ان کی اس بات کو اُن کے منہ پر دے مارنا چاہئے۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا امیر معاویہ کا پنی رعیت سے برتاو بہت اچھا تھا اور اس کے اخلاق بہترین والیوں کے اخلاق تھے اور
صحیح مسلم صفحہ ٣٣ حدیث نمبر ٦٥-٦٤
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ تمہارے بہترین امام وہ ہونگے جن سے تم محبت رکھو اور وہ تم سے محبت رکھیں اور وہ تمہارا جنازہ پڑھیں اور تم اُن کا جنازہ پڑھو۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے منہاج السنہ جلد ٣ صفحہ ١٨٥ میں بیان کیا ہے!۔
اسلامی بادشاہوں میں سے کوئی بھی امیر معاویہ سے اچھا بادشاہ نہیں ہوا اور جتنی بھلائیاں اور خوبیاں لوگوں میں اُس کے دور میں پیدا ہوئی تھیں اتنی کبھی نہ پیدا ہوئی تھیں۔۔۔
صحیح بخاری کتاب مناقب الصحابہ جلد ٤ صفحہ٢١٩ میں روایت ہے۔۔۔
ابن عباس سے کہا گیا آپ امیر المومنین معاویہ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ہی وتر پڑھتے ہیں تو آپنے فرمایا وہ فقیہ آدمی ہیں۔۔۔
ابوعمیرہ مزنی کی روایت ہے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ کے لئے دُعا فرمائی اے اللہ اسے ہدایت دینے والا ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے
(جامع ترمذی کتاب المناقت)۔۔۔
کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میرا مقصد حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی تنقیص کرنا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی وضاحت ہے
اور یہ ہی وجہ ہے کہ اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے اجتہادی مسائل پرزبان بند رکھنی چاہئے کیونکہ ان کے فضائل ثابت ہوچکے ہیں اور اُن کی دوستی اور محبت واجب ہے
رافضی اُس شخص کو کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مذمت اور کردار کشی کو جائز سمجھتا ہے (القاموس الوحید صفحہ ٦٤٨)۔۔۔
حافظ ذھبی (متوفی ٧٤٨ھ) فرماتے ہیں!۔
ومن ابغض الشیخین واعتقد صحۃ اما متھما فھو رافضی مقیت ومن سبھما واعتقد انھما لیسا بامامی ھدی فھو من غلاۃ الرافضۃ۔
جو شخص شیخین (ابوبکررضی اللہ عنھم) سے بغض رکھے اور انہیں خلیفہ برحق بھی سمجھے تو یہ شخص رافضی، قابل نفرت ہے اور جس شخص انہیں (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما کو) خلیفہ برحق بھی نہ سمجھے اور بُرا کہے تو یہ شخص غالی رافضیوں میں سے ہے۔
(سیراعلام النبلاء ١٦\٤٥٨ ترجمہ الدراقطنی رحمہ اللہ)۔۔۔
حافظ ابن حجر العسقلانی (متوفی ٨٥٢ھ) فرماتے ہیں!۔
فمن قدمہ علی ابی بکر وعمر فھو غال فی تشیعہ ویطلق علیہ رافضی۔
جو شخص (سیدنا) علی کی (سیدنا) ابوبکر و(سیدنا) عمر پر (افضلیت میں) مقدم کردے تو وہ شخص غالی شیعہ ہے اور اس پر رافضی کا لفظ استعمال ہوتا ہے
(ہدی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ ٤٥٩)۔۔۔
اثنا عشری جعفری فرقہ، رافضی فرقہ ہے۔
دلیل نمبر ١۔
غلام حسین نجفی رافضی نے اپنے کتاب جاگیرفدک میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ جناب ابوبکر اور مرزا صاحب میں کوئی فرق نہیں
(صفحہ ٥۔٩)
اس نجفی بیان میں صدیق اکبر کو مرزا غلام احمد قادیانی کے برابر قرار دیا گیا ہے (العیاذ باللہ)۔۔۔
دلیل نمبر ٢!۔
محمد الرضی الرضوی الرافضی کہتا ہے۔۔۔
اما برائتنا من الشیخین فذاک من ضرورۃ دیننا۔۔۔۔ الخ
اور شیخین (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم ناقابل) سے برآت (تبرا) کرنا ہمارے دین کی ضرورت میں سے ہے
(کذبواعلی الشیعہ صفحہ ٤٩)۔۔۔