یعنی عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں معاویہ کہ پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں دو آدمی آئے اور دونوں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ حضرت عمار کو اس نے قتل کیا اس پر عبداللہ نے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک باد دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما یا عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہل سنت کی صحیح حدیث سے پتا چلا کہ حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے قتل کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کن خراب لوگوں میں رہ گئے تھے
جہاں تک بات ہے اجتہادی غلطی کی تو میں اس پر بھی آپ ہی کے سلف جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کا یہ فتوہ پیش کرچک
والسلام
اہل صفین کے حق میں رؤیائے صالحہ۔
میں اہل صفین کے حق میں دو عدد بشارتیں بطریق خواب اہلسنت والجماعت کی کتابوں جیسے ذکر کیا گیا ہے بین اُسی طرح بیان کرنا چاہوں گا جو مسئلہ ہذا یعنی حق اور ناحق کی تائید میں ہے۔۔۔ اُمید ہے قارئین کرام انہیں بنظر استحسان پڑھیں گے۔۔۔ اور فسادی اس سے سبق آموز ہونگے۔۔۔
یہ رؤیائے صالحہ جن کو اکابر محدثین اور مؤرخین نے اپنی معتمد تصانیف میں ذکر کیا ہے اور اہل صفین کے حق میں یہ |بشارت عظمٰی| تصور کی جاتی ہیں ملاحظہ کیجئے۔۔۔
علماء حق (اہل سلف) فرماتے ہیں کے دلائل شرعیہ اور تاریخی شواہد کی موجودگی میں اگر اس کی چنداں جاجت نہیں تاہم فطری طو پر رؤیائے صالحہ اور مبشرات صادقہ سے ایک قسم کا اطمعنان اور سکون نیک طبائع میں پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔
بنابرین ذیل میں اس واقعہ کے متعلق چند مبشرات صحیحہ درج کی جاتی ہیں جنھیں کبار علماء نے اپنی تصانیف میں درج کیا ہے اور اُن کو رد نہیں کیا یہ چیز عندالعلماء قبولیت کی علامت ہے۔۔۔
ابومیسرہ کا خواب!۔
تابعین میں ایک بزرگ عمر بن شرجیل رحمہ اللہ علیہ گزرے ہیں جن کی کُنیت ابومیسرہ ہے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضٰٰی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشہور تلمیذ اور اُن سے ثقہ راوی ہیں۔ آپ بڑے راست گو اور معتمد شخصیت تھے علماء (سلف) نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابو میسرہ رحمہ اللہ صفین میں حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں شریک قتال تھے ابو میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اہل صفین کے معاملہ کے متعلق بڑے تردد اور پریشانی میں تھا اور میں ان دونوں فریق کے درمیان کوئی فیصلہ کن بات معلوم نہیں کرسکا تھا۔۔۔
پس اس حالت میں مجھے ایک خواب میں دکھایا گیا کہ میں جنت میں داخل ہو کر اہل صفین کے پاس پہنچا ہوں اور ایک سرسبز باغ میں ہیں اور وہاں نہریں چل رہی ہیں پھر میں نے جنتیوں کے خیمے لگے ہوئے دیکھے میں نے پوچھا کہ یہ کن لوگوں کے خیمے ہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ خیمے ذوالکلاع اور حوشب کے لئے ہیں (یہ دونوں بزرگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں جنگ صفین میں شہید ہوئے تھے) اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھ کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔ تو مجھے بتایا گیا اُن کا مقام اور قیام آگے ہے میں نے کہا یہ کیسے ہوا حالانکہ بعض نے بعض کو قتل کیا تھا؟؟؟۔۔۔ جواب دیا گیا کہ ان لوگوں کی اللہ تعالٰی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالٰی کو واسع المغفرت پایا بس اس نے ان سب کی مغفرت فرمادی پھر میں نے پوچھا کہ اہل نہراون کا کیا ہوا؟۔۔۔ تو اس کے متعلق جواب ملا کے وہ شدت اور سختی میں ڈال دئے گئے ہیں۔۔۔
ابن ابی شیبہ نے اس واقعہ کی عبارت ذیل نقل کیا ہے۔
عن ابی وائل قال رای فی المنام ابومیسرہ عمرو نن شرجیل وکان افضل اصحاب عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) قال رایت کانی اخلت الجنۃ فرایت قبابا مضروبۃ فقلت لمن ھذہَ؟۔ فقیل ھذا لی الکلاع وحوشب وکانا ممن قتل مع معاویۃ رضی اللہ عنہ یوم صفین قال قلت واین عمار واصحابہ؟ قال امامک قلت کیف وقد قتل بعضھم بعضا؟ قال فقیل انھم لقوا اللہ فوجدوہ واسع المغفرۃ قال قالت فما فعل اھل النھر؟ قال فقیل لقوا برحا
ابو میسرہ عمرو بن شرجیل رحمہ اللہ کے اس واقعہ خواب کو مندرجہ ذیل محدثین اور مورخین نے بھی اپنی اپنی عبارات کے ساتھ اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے ذیل میں، صرف ان کے حوالہ جات نقل کردوں تاکہ اہل تحقیق رجوع فرما کرتسلی کرسکیں، عبارات نقل کرنے میں تطویل ہوتی ہے ان تمام حوالہ جات میں سب سے مفصل واقعہ سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے اور مندرجہ بالاعبارت مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے۔۔۔
١۔ مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ٢٩۔٢٩١ جلد ٥ تحت باب ماذکر فی صفین طبع کراچی۔
٢۔ کتاب السنن (سعید بن منصور خراسانی) صفحہ ٣٦٩ جلد ٣ بات جامع الشہادہ طبع مجلس علمی۔
٣۔ طبقات ابن سعد صفحہ ١٨٨-١٨٩ جلد ٣ آخر ترجمہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (طبع لندن)۔
٤۔ کتاب المعرفہ والتاریخ (بسوی) صفحہ ٣١٤ جلد ٣ طبع بیروت۔
٥۔ حلیہ الاولیاء (ابو نعیم اصفہانی) صفحہ ١٤٣ جلد ٣ تحت عمرو بن شرجیل ابومیسرہ رحمہ اللہ۔
٦۔ السنن الکبرٰٰی (بیہقی) صفحہ ١٧٤ جلد ٨ تحت قتال اہل البغی، طبع حیدرآباد دکن۔
٧۔ تاریخ بلدہ دمشق (ابن عساکر) (محفوظہ) صفحہ ٣٧٩ جلد ٥ تحت حوشب بن سیف۔
٨۔ العبر (ذھبی) صفحہ ٤٠ جلد ١ تحت سنہ ٣٧ھ۔
٩۔ مراہ الجنان (یافعی) صفحہ ١٠٣-١٠٤ جلد ١ تحت سنہ ٣٧ھ۔
١٠۔ الاصابہ (ابن حجرعسقلانی) صفحہ ٣٨٢ جلد ١ تحت الحوسب ذوظلیم۔
١١۔ الناہیہ عن طعن معاویہ رضی اللہ عنہ (مولانا عبدالعزیز) صفحہ ٧ طبع ملتان۔
تنبیہ!۔
مذکورہ بالاقریبا دس عدد علمائے کرام کے حوالہ جات پیش کئے گئے ہیں ان حضرات میں سے بعض نے ان اسناد کی صحیح ہونے کی تصریح فرمادی ہے مثلا!۔ حافظ ذھبی، بسوی، یافی، اور حافط ابن حجر عسقلائی رحمہم اللہ نے اس روایت کی صحت کی تصریح کی ہے نیز ان حضرات نے واقعہ ہذا کے نقل کرنے کے بعد اس کی تردید نہیں کی۔۔۔
بس یہ چیز اس کے قابل قبول ہونے کے لئے کافی ہے۔۔۔
٢۔ بشارت ثانیہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خواب!۔
صالح خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ پنے دور کے اکابر تابعین میں مشہور ثقہ اور معتمد شخصیت ہیں ان کا ایک خواب محدث ابوبکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔
وہ لکھتے ہیں کے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور دیکھتا ہوں کے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما جناب کی خدمت اقدس میں حاضر ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کی اور ایک طرف بیٹھ یا تھوڑی دیر بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے پھر ان دونوں کو ایک مکان میں داخل کرکے دروازہ بند کردیا گیا۔۔۔ میں اس منظر کو دیکھ رہا تھا پھر جلد ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اس مکان سے برآمد ہوئے اور کہنے لگے رب کعبہ کی قسم اس معاملہ کا میرے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے پھر تھوڑی ہی دیر بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس مکان سے باہر آئے اور یوں کہ رہے تھے کہ رب کعبہ کی قسم! میرے لئے مغفرت فرمادی گئی۔۔۔
(کتاب الروح (ابن قیم) صفحہ ٣١ تحت مسئلہ ثالثہ طبع حیدرآباد دکن، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣٠ جلد ٨ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ(ماوردنی مناقبہ وفضائلہ) طبع مصر)۔
ابن کثیر نے البدیہ میں ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ تمام واقعہ نقل کیا ہے اصل عبارت اہل علم کے اطمعنان کے لئے تحریر کردوں۔۔۔
عن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام وابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما جالسان عندہ فسلمت علیہ وجلست فیبینما انا جالس اذا اتی بعلی ومعاویہ رضی اللہ عنہ فادخلابیتا واجیف الباب وانا انظر فما کان باسرع من ان خرج علی رضی اللہ عنہ وھو یقول قضی لی ورب الکعبۃ ثم ماکان باسرع ان خرج معاویۃ رضی اللہ عنہ وھو یقول غفرلی ورب الکعبہ۔
مندرجہ بالا رؤیائے صالحہ کو امام غزالی نے بھی اپنی تصنیف کیمائے سعادت میں بہ عبارت ذیل نقل کیا ہے اہل علم کی تسلی کے لئے عبارت بعینہ درج کرتا چلوں۔۔۔
امام غزالی فرماتے ہیں!ِ
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ میگوید کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رابخواب دیدم باابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم نشتہ چون باایشان تشستم ناگاہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنھما رابیا وردندو درخانہ فرستاد ندو دربہ بستند دروقت علی رضی اللہ عنہ را دیدم کہ بیروں آمد گفت قضی الی ورب الکبعہ یعنی حق مرانہا ندپس بزودی معاویہ بیروں آمد وگفت غفرلی ورب الکعبہ مرانیز عفوکردندوبیا مرزیدند۔
اس کا مفہوم!
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو میں نے خواب میں دیکھا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب میں بھی آپ کی خدمت اقدس میں بیٹھ گیا توناگہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا اور ایک مکان میں داخل کرکے اس کا دروازہ بند کردیا گیا تھوڑی دیر بعد میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ باہر تشریف لائے اور فرمایا کے رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوا ہے اور پھر جلد ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور آکر کہا کہ رب کعبہ کی قسم! مجھے معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا ہے۔۔۔
(کیمائے سعادت فارسی صفحہ٤٨٤ مطبع محمدی ممبی تحت پیداکردن احوال مردگان کہ مکشوف شدہ است بطریق خواب)
ان بشارات کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوا کہ اللہ تعالٰی کی شان کریمی نے صفین والے حضرات کے ساتھ عفواور معافی کا معاملہ فرمادیا ہے اور ان کی باہمی آویزشوں سے درگزر فرما کر مغفرت فرمادی ہے فلہذا ہم لوگوں کو بھی ان کے حق میں حسن ظن رکھنا لازم ہے اور ان کے متعلق بدگمانی اور سوء ظن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔۔۔
فلہذا اہل صفین کے حق میں ہمارا حُسن ظن یہی ہے کہ مالک کریم نے ان کی مغفرت کا سامان فرما کر ان کو نجات دے دی ہے
وماذلک علی اللہ بعزیز۔۔۔