• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنی معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ علیہ نے کہا ہے۔۔۔
اسلامی بادشاہوں میں سے کوئی امیر معاویہ سے اچھا بادشاہ نہیں ہوا اور جتنی خوبیاں اور بھلائیاں لوگوں میں اس کے دور میں پیدا ہوئیں اتنی کبھی نہ ہوئی تھیں۔۔۔ بشرطیکہ آپ امیر معاویہ کے بعد ک بادشاہوں سے مقابلہ کریں اور اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کریں تو بہت فرق ہے۔۔۔(منہاج السنۃ جلد ٣ صفحہ ١٣٥)۔۔۔

ابوبکر اثرم اور بن بطۃ نے اپنے اپنے طریق سے حضرت قتادۃ سے باسند روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔۔۔
اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کے اعمال دیکھتے تو تم میں سے اکثر کہتے کے مہدی ہیں اور ابن بطۃ نے دو صحیح سندوں سے مجاہد کا قول نقل کیا ہے اگر معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور اثرم نے باسند ابوہریرہ مکتب کا قول نقل کیا ہے کے ہم اعمش رحمۃ اللہ کے پاس بیٹھے تھے تو عمر بن عبدالعزیز اور اُس کے عدل وانصآف کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی تو اعمش نے کہا اگر تم!۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمان دیکھ لیتے تو تمہیں معلوم ہوتا کے حکمرانی اور انصآف کیا چیز ہے تو لوگوں نے پوچھا ان کے حلم کی بابت آپ کہہ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا نہیں اللہ کی قسم اس کے عدل کے بابت کہہ رہا ہوں۔۔۔

اور عبداللہ بن احمد بن حنبل نے باسند ابو اسحٰق سبیعی کا قول نقل کیا ہے انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگر تم اُس کو اور اُس کے زمانے دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور یہ شہادت جو ان بڑے بڑے علماء سے امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق مل رہی ہے دراصل یہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دُعا کی بازگشت ہے جو آپ نے اس نیک خلیفہ کے متعلق کی تھی کہ۔۔۔

یا الٰہی اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشینگوئیوں میں سے ہے۔۔۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب)۔۔۔۔

ابن عباس سے ایک روایت ہے کے آپ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں دیکھتے تھے کہ وہ ایک ہی وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے فریایا وہ فقیہ آمی ہے۔۔۔ (رواہ بخاری کتاب مناقب الصحابہ)۔۔۔
اس کا کیا کریں؟؟؟۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جیسا کے میں نے پہلے کہا تھا۔۔۔ ہم یعنی اہل سلف ان موضوعات پر سکوت اخیتارکرتے ہیں اس کی وجہ ایک سے کئی زیادہ ہیں۔۔۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کے ہماری وہ شان نہیں جو ہم ان کے اجتہادی یا اختیاری فیصلوں پر اپنی رائے قائم کرسکیں لیکن جہاں تک حق و سچ بات بیان کرنے کی بات ہے وہ بھی اس شکل میں جب اس کو غلط بیانی سے لوگوں میں پھیلایا جارہا ہوتو بیان کرنی پڑتی ہے لیکن اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کے ہم کسی ایک کے ساتھ ہیں یہ تاثر دینا قطعی طور پر غلط ہے ہم جانبداری سے بات کرتے ہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کےدرمیان اختلاف خلافت پر نہیں تھا بلکہ قصاص عثمان پر تھا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔

اللہ نے ارشاد فرمایا کے یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے نرم ہیں اور کفار پر سخت ہیں۔۔۔
تو آپ کے نظریئے کی رو سے قرآن کی یہ آیت بھی غلط ہوئی (نعوذباللہ)۔۔۔
مگر ہم اس کو الحمداللہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں اختلاف اجتہادی تھا۔۔۔ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ پر۔۔۔
خلاصہ کلام
حرب بھائی
میں بھی آپ ہی کے سلف کے اقوال ہی پیش کررہا ہوں معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں اورآپ کے سلف ہی انہیں بدعتی علی علیہ السلام اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والا ثابت کررہے ہیں اور آپ اپنے ہی سلف کے منہج سے روگردانی فرمارہے ہیں اور ایسے غلط بیانی سے تعبیر کررہے ہیں اور جہاں تک بات ہے قصاص عثمان کی تو میں آپ ہی کے سلف جناب نواب صدیق حسن خان قنوجی بھوپالی کا قول پیش کرچکا کہ
جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
اس کے علاوہ میں بدعتی ہونے پر کتاب صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کرچکا کہ
معاویہ بن ابی سفیان کے مدینہ کے گورنر مروان بن حاکم نےعید کی نماز سے قبل خطبہ دینے کی بدعت جاری کی
اور بقول مصنف کتاب " خلیفہ ذاھد عمر بن عبدالعزیز "جناب عبدالعزیز الا ہل کہ یہ بدعت معاویہ بن ابی سفیان کے حکم سے جاری کی گئی اور آگے لکھتے ہیں کہ اس بدعت کو جاری کرنے کی وجہ یہ تھی کہ معاویہ بن ابی سفیان کا حکم تھا کہ خطبے میں آل محمد پر لعنت کی جائے نعوذباللہ اس فعل بد کی وجہ سے لوگ عید کی نماز پڑھتے ہی چلے جایا کرتے تھے اس لئے نماز عید سے قبل خطبے کی بدعت جاری کی گئی ۔ بدعت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
اور یہ فعل بد آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض کی بناء پر تھا
بغض مولا علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کا یہ ارشاد صحیح مسلم سے پیش کرچکا کہ " علی سے سوائے منافق کے کوئی بغض نہیں رکھے گا " معاویہ بن ابی سفیا ن مولا علی علیہ السلام سے بغض رکھتے تھے اس کے بارے میں سنی کتب حدیث کی یہ روایت پیش کرچکا کہ
كنت مع ابن عباس بعرفات ، فقال : ما لي لا أسمع الناس يلبون ؟ قلت : يخافون من معاوية . فخرج ابن عباس من فسطاطه ، فقال : لبيك اللهم لبيك ، لبيك . . . فإنهم قد تركوا السنة ، من بغض علي

الراوي: سعيد بن جبير المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 3006
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
یعنی ابن عباس فرماتے ہیں کہ " معاویہ نے بغض علی (علیہ السلام )میں سنت کو ترک کردیا
اور یہ اس وقت کی بات ہے جب معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ تھے اور علی علیہ السلام وصال فرما چکے تھے وصال کے بعد بھی علی علیہ السلام سے بغض پر آپ ابن عباس کی گواہی نہیں مان رہے جبکہ کے آپ یہ مانتے ہیں کہ ابن عباس عدول ہیں ۔
جبکہ اس سے بھی پہلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرچکا کہ " افسوس عمار کو باغی گروہ شہید کرے گا "
اور عبداللہ بن عمرو سے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ " اے عبداللہ بن عمرو تیرا کیا حال ہو جب تو خراب لوگوں میں رہ جائے گا "
ان دونوں بشارتوں کے پورا ہونے کی دلیل سنی کتب حدیث کی اس صحیح حدیث سے پیش کرچکا کہ
إني لجالسٌ عندَ معاويةَ إذ دخَل رجلانِ يختصمانِ في رأسِ عمارٍ وكلُّ واحدٍ منهما يقولُ: أنا قتلتُه فقال عبدُ اللهِ بنُ عمرٍو: ليطِبْ أحدُكما به نفسًا لصاحبِه فإني سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ: تقتلُه الفئةُ الباغيةُ قال معاويةُ: ألا تُغني عنا مجنونَكَ يا عمرُو فما له معَنا قال: إني معَكم ولستُ أقاتلُ إنَّ أبي شَكاني إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أطِعْ أباكَ ما دام حيًّا ولا تَعصِهِ فأنا معَكم ولستُ أقاتلُ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 8/15
خلاصة حكم المحدث: صحيح

یعنی عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں معاویہ کہ پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں دو آدمی آئے اور دونوں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ حضرت عمار کو اس نے قتل کیا اس پر عبداللہ نے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک باد دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما یا عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہل سنت کی صحیح حدیث سے پتا چلا کہ حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے قتل کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کن خراب لوگوں میں رہ گئے تھے
جہاں تک بات ہے اجتہادی غلطی کی تو میں اس پر بھی آپ ہی کے سلف جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کا یہ فتوہ پیش کرچکا کہ
"بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ "سباب المومن فسوق و قتالہ کفر" یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔" اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔ "
لیکن جہاں تک حق و سچ بات بیان کرنے کی بات ہے وہ بھی اس شکل میں جب اس کو غلط بیانی سے لوگوں میں پھیلایا جارہا ہوتو بیان کرنی پڑتی ہے لیکن اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کے ہم کسی ایک کے ساتھ ہیں یہ تاثر دینا قطعی طور پر غلط ہے ہم جانبداری سے بات کرتے ہیں۔
اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میرا مقصد حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی تنقیص کرنا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی وضاحت ہے
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
خلاصہ کلام
حرب بھائی
میں بھی آپ ہی کے سلف کے اقوال ہی پیش کررہا ہوں
والسلام
بہرام بھائی جو اقوال آپ پیش کررہے۔۔۔ وہ چبے ہوئے لقمے ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتاہے۔۔۔
اور اپنی پہلی پوسٹ سے اب تک آپ خود دیکھیں کے کتنی بار آپ ان باتوں کو دہرا چکے ہیں۔۔۔

اس کا عربی متن فراہم کیجئے!۔
معاویہ بن ابی سفیان کے مدینہ کے گورنر مروان بن حاکم نےعید کی نماز سے قبل خطبہ دینے کی بدعت جاری کی
اور بقول مصنف کتاب " خلیفہ ذاھد عمر بن عبدالعزیز "جناب عبدالعزیز الا ہل کہ یہ بدعت معاویہ بن ابی سفیان کے حکم سے جاری کی گئی اور آگے لکھتے ہیں کہ اس بدعت کو جاری کرنے کی وجہ یہ تھی کہ معاویہ بن ابی سفیان کا حکم تھا کہ خطبے میں آل محمد پر لعنت کی جائے
شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ!۔
مراد اشخاص مذکورین مرتدین اند کہ موت آنہار برکفر شدو ہیچ کس از اہل سنت آن جماعب راصحابی نمی گوید ومعتقد خوبے وبزرگے آنہانمی شودا اکثر نبی حنفیہ وبنی کہ بطریق وفادت بزیارت آنحضرت مشرف شدہ بودند باین بلا مبتلا گشتند وخائب وخاشر شدند
مخالفین صحابہ (رافضی) نے روایت مذکورہ میں اکابر اور مشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مراد لے کر طعن ہذا وارد کیا ہے۔۔۔

مشہور مقولہ پیش خدمت ہے فارسی میں ہے اعتصام بھائی سے ترجمہ کروالینا۔۔۔
یک من علم رادہ من عقل باید
یہ چیز ہرگز درست نہیں اس لئے کہ ان حضرات کے حق میں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں بےشمار مقامات میں ان کے اوصاف حمیدہ بیان کئے ہیں اور ان کے ایمان، اسلام، اور اعمال صالحہ پر بشارت ذکر فرمائی ہیں اور احسن جزاء کاوعدہ فرمایا ہے۔۔۔

مناسب یہ ہے اب آپ اپنی گریبان میں بھی جھانک لیں۔۔۔

ملاباقر مجلسی اپنی مشہور تالیف عین الحیوۃ میں لکھتے ہیں۔۔۔
بسند معتبر منقول است کہ حضرت امام جعفر صادق ازجائے نماز خود برنمی خواستندتا چہار ملعون وچار ملعونہ رالعنت نمی کردندپس باید کہ بعداز ہرنماز بگوید۔
اللھم العن ابابکر وعمر وعثمان ومعاویۃ وعائشہ وحفصہ وھند وام الحکم۔
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ ہرنمازی ہر نماز میں نماز کے بعد یہ الفاظ کہے کے اے اللہ!۔ (ان چاروں مردوں) پرلعنت فرما اور ان (چار خواتین) عائشہ، حفصہ، ہند اور ام الحکم پر لعنت فرما۔(استغفراللہ ربی انا للہ وان الیہ راجعون)۔۔۔
کتاب عین الحیوۃ تالیف مالاباقر مجلسی شیعہ صفحہ ٦٦٩ طبع تہران، تحت عنوان اذکار وادعیہ کہ درعقب ہرنماز بایدخواندہ شود (فصل دوم)۔۔۔

واضع ہو کہ مردوں میں حضرات خلفائے ثلاثہ اور حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ہیں (رضی اللہ عنھم) اور چار خواتیں میں سے پہلی دو خواتیں حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما اُمہات المومنین ہیں تیسری خاتوں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنھا ہیں اور چوتھی خاتوں ام الحکم رضی اللہ عنہا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خواہر (بہن) ہیں۔۔۔

یہ تشریح میں نے عام دوستوں کے لئے لکھ دی ہے ورنہ اہل علم حضرات اس مفہوم سے اچھی طرح واقت ہیں۔۔۔ یہ ان لوگوں کا ورد اور وظیفہ ہے جو یہ نماز کے بعد ادا کرتے ہیں اس وظیفہ کے بغیر ان کی نماز تمام نہیں ہوتی۔۔۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت!۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال، جاء جبریل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا محمد! استوص معاویۃ فانہ امین علی کتاب اللہ ونعم الامین ھو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا کے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت فرمائیے یہ اللہ کی کتاب کے امین ہیں اور عمدہ امین ہیں (معجم الاوسط (طبرانی) جلد ٤ صفحہ ٥٣٧ روایت ٣٩١٤)۔۔۔

عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت! لما کان یوم ام حبیبۃ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم دق الباب داق فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انظروا من ھذا؟۔ قالوا! معاویۃ، فقال! ائذنوالہ، ودخل وعلی اذنہ قلم لہ یخط بہ، فقال ماھذا القلم علی اذنک یامعاویۃ؟ قال اعددتہ للہ ولرسولہ، قال جزاک اللہ عن نبیک خیرا واللہ مااستکتبتک الا بوحی من اللہ عزوجل وما افغل من صغیرہ ولا کبیرہ الا بوحی من اللہ عزوجل کیف بک لوقد قمصل اللہ قمیصاً؟ یعنی الخلافۃ، فقالت ام حبیبہ رضی اللہ عنھا وجلست بین یدیہ فقالت یا رسول اللہ! وان اللہ مقمص اخی قمیصا؟۔ قال نعم، ولکن فیہ ھنات وھنات وھنات فقالت یارسول اللہ! فادع لہ فقال اللھم اھدہ بالھدی وجنبہ الردی واغفرلہ فی الاخرۃ والاولی۔
عروہ رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذوجہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کے ہاں تشریف فرما تھے باہر سے کسی نے دروازے پر دستک دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو کون ہے؟۔ عرض کیا گیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں فرمایا! اسے اندر آنے کی اجازت ہے معاویہ رضی اللہ عنہ اندر آئے اس حالت میں کہ ان کے کان پر قلم لٹکا ہوا تھاجس سے وہ لکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! معاویہ یہ تیرے کان پر کیا قلم ہے؟؟؟۔۔۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کے لئے ہے جواب میں جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تجھے اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جزائے خیر عطاء فرمائے۔۔۔

اور اللہ کی قسم! میں تجھ سے کتابت اس کی وحی کی بناء پر کراتا ہوں، چوٹا کام یا بڑا میں وحی الٰہی کے تحت بجا لاتا ہوں۔۔۔

اگر اللہ تعالٰی تجھے قمیض (خلافت) پہنائے تو اس وقت تیری حالت کیا ہوگی؟؟؟۔۔۔ (تو کس طرح معاملہ کرے گا؟؟؟۔۔۔)

یہ فرمان سُن کر اُم حبیبہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں یارسول اللہ کیا میرے برادر کو اللہ تعالٰٰی قمیض پہنائے گا؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں!! لیکن (اس دور میں) شرور ہوں گے تو ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنھا نے عرض یا یارسول اللہ اس کے حق میں دعائے خیر فرمائئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر بیان کئے ہوئے کلمات کے ساتھ دُعا دی۔۔۔ اللھم۔۔۔ الخ (معجم الاوسط (طبرانی) جلد ٢ صفحہ ٤٩٨ روایت ١٨٥٩)۔۔۔

حاصل کلام یہ ہے کہ زبان نبوت سے یہ دعا جو ذکر کی ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ارشاد فرمائیں کے اللہ! ان کو ہادی بنا اور ان کو ہدایت یافتہ کردے اور ان کو دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنا۔۔۔ اے اللہ ان کو حساب وکتاب کی تعلیم فرما اور اپنے عذاب سے محفوظ فرما نیز ارشاد نبوی ہے کہ اے اللہ! ان کو علم وحلم سے سرفراز فرما۔۔۔

لٰہذا بہرام بھائی یہ واضح امر اور یقین کی حدتک اہل سلف کا ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے حق میں دُعائیں فرمائیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اہل اور مستحق سمجھا، کسی نااہل اور غیر مستحق کے لئےنہیں فرمائیں۔۔۔فتدبر!۔

اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میرا مقصد حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی تنقیص کرنا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی وضاحت ہے۔
درست فرمایا جزاکم اللہ خیراً

اپنی بڑوں کے کلام پر جو اُن کےکتابوں سے پیش کیا ہے اب ذرا اس پر بھی کچھ تاویل پیش فرمادیں۔۔۔
اب بھی اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو بھائی پھر کب سمجھ آئے گی۔۔۔ آجائے تو بہتر ہے ورنہ دل لگی تو چل ہی رہی ہے۔۔۔

واللہ اعلم۔
والسلام علیکم۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یعنی عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں معاویہ کہ پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں دو آدمی آئے اور دونوں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ حضرت عمار کو اس نے قتل کیا اس پر عبداللہ نے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک باد دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما یا عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہل سنت کی صحیح حدیث سے پتا چلا کہ حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے قتل کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کن خراب لوگوں میں رہ گئے تھے
جہاں تک بات ہے اجتہادی غلطی کی تو میں اس پر بھی آپ ہی کے سلف جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کا یہ فتوہ پیش کرچک
والسلام
اہل صفین کے حق میں رؤیائے صالحہ۔
میں اہل صفین کے حق میں دو عدد بشارتیں بطریق خواب اہلسنت والجماعت کی کتابوں جیسے ذکر کیا گیا ہے بین اُسی طرح بیان کرنا چاہوں گا جو مسئلہ ہذا یعنی حق اور ناحق کی تائید میں ہے۔۔۔ اُمید ہے قارئین کرام انہیں بنظر استحسان پڑھیں گے۔۔۔ اور فسادی اس سے سبق آموز ہونگے۔۔۔

یہ رؤیائے صالحہ جن کو اکابر محدثین اور مؤرخین نے اپنی معتمد تصانیف میں ذکر کیا ہے اور اہل صفین کے حق میں یہ |بشارت عظمٰی| تصور کی جاتی ہیں ملاحظہ کیجئے۔۔۔

علماء حق (اہل سلف) فرماتے ہیں کے دلائل شرعیہ اور تاریخی شواہد کی موجودگی میں اگر اس کی چنداں جاجت نہیں تاہم فطری طو پر رؤیائے صالحہ اور مبشرات صادقہ سے ایک قسم کا اطمعنان اور سکون نیک طبائع میں پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔

بنابرین ذیل میں اس واقعہ کے متعلق چند مبشرات صحیحہ درج کی جاتی ہیں جنھیں کبار علماء نے اپنی تصانیف میں درج کیا ہے اور اُن کو رد نہیں کیا یہ چیز عندالعلماء قبولیت کی علامت ہے۔۔۔

ابومیسرہ کا خواب!۔
تابعین میں ایک بزرگ عمر بن شرجیل رحمہ اللہ علیہ گزرے ہیں جن کی کُنیت ابومیسرہ ہے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضٰٰی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشہور تلمیذ اور اُن سے ثقہ راوی ہیں۔ آپ بڑے راست گو اور معتمد شخصیت تھے علماء (سلف) نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابو میسرہ رحمہ اللہ صفین میں حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں شریک قتال تھے ابو میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اہل صفین کے معاملہ کے متعلق بڑے تردد اور پریشانی میں تھا اور میں ان دونوں فریق کے درمیان کوئی فیصلہ کن بات معلوم نہیں کرسکا تھا۔۔۔

پس اس حالت میں مجھے ایک خواب میں دکھایا گیا کہ میں جنت میں داخل ہو کر اہل صفین کے پاس پہنچا ہوں اور ایک سرسبز باغ میں ہیں اور وہاں نہریں چل رہی ہیں پھر میں نے جنتیوں کے خیمے لگے ہوئے دیکھے میں نے پوچھا کہ یہ کن لوگوں کے خیمے ہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ خیمے ذوالکلاع اور حوشب کے لئے ہیں (یہ دونوں بزرگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں جنگ صفین میں شہید ہوئے تھے) اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھ کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔ تو مجھے بتایا گیا اُن کا مقام اور قیام آگے ہے میں نے کہا یہ کیسے ہوا حالانکہ بعض نے بعض کو قتل کیا تھا؟؟؟۔۔۔ جواب دیا گیا کہ ان لوگوں کی اللہ تعالٰی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالٰی کو واسع المغفرت پایا بس اس نے ان سب کی مغفرت فرمادی پھر میں نے پوچھا کہ اہل نہراون کا کیا ہوا؟۔۔۔ تو اس کے متعلق جواب ملا کے وہ شدت اور سختی میں ڈال دئے گئے ہیں۔۔۔

ابن ابی شیبہ نے اس واقعہ کی عبارت ذیل نقل کیا ہے۔
عن ابی وائل قال رای فی المنام ابومیسرہ عمرو نن شرجیل وکان افضل اصحاب عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) قال رایت کانی اخلت الجنۃ فرایت قبابا مضروبۃ فقلت لمن ھذہَ؟۔ فقیل ھذا لی الکلاع وحوشب وکانا ممن قتل مع معاویۃ رضی اللہ عنہ یوم صفین قال قلت واین عمار واصحابہ؟ قال امامک قلت کیف وقد قتل بعضھم بعضا؟ قال فقیل انھم لقوا اللہ فوجدوہ واسع المغفرۃ قال قالت فما فعل اھل النھر؟ قال فقیل لقوا برحا

ابو میسرہ عمرو بن شرجیل رحمہ اللہ کے اس واقعہ خواب کو مندرجہ ذیل محدثین اور مورخین نے بھی اپنی اپنی عبارات کے ساتھ اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے ذیل میں، صرف ان کے حوالہ جات نقل کردوں تاکہ اہل تحقیق رجوع فرما کرتسلی کرسکیں، عبارات نقل کرنے میں تطویل ہوتی ہے ان تمام حوالہ جات میں سب سے مفصل واقعہ سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے اور مندرجہ بالاعبارت مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے۔۔۔

١۔ مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ٢٩۔٢٩١ جلد ٥ تحت باب ماذکر فی صفین طبع کراچی۔
٢۔ کتاب السنن (سعید بن منصور خراسانی) صفحہ ٣٦٩ جلد ٣ بات جامع الشہادہ طبع مجلس علمی۔
٣۔ طبقات ابن سعد صفحہ ١٨٨-١٨٩ جلد ٣ آخر ترجمہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (طبع لندن)۔
٤۔ کتاب المعرفہ والتاریخ (بسوی) صفحہ ٣١٤ جلد ٣ طبع بیروت۔
٥۔ حلیہ الاولیاء (ابو نعیم اصفہانی) صفحہ ١٤٣ جلد ٣ تحت عمرو بن شرجیل ابومیسرہ رحمہ اللہ۔
٦۔ السنن الکبرٰٰی (بیہقی) صفحہ ١٧٤ جلد ٨ تحت قتال اہل البغی، طبع حیدرآباد دکن۔
٧۔ تاریخ بلدہ دمشق (ابن عساکر) (محفوظہ) صفحہ ٣٧٩ جلد ٥ تحت حوشب بن سیف۔
٨۔ العبر (ذھبی) صفحہ ٤٠ جلد ١ تحت سنہ ٣٧ھ۔
٩۔ مراہ الجنان (یافعی) صفحہ ١٠٣-١٠٤ جلد ١ تحت سنہ ٣٧ھ۔
١٠۔ الاصابہ (ابن حجرعسقلانی) صفحہ ٣٨٢ جلد ١ تحت الحوسب ذوظلیم۔
١١۔ الناہیہ عن طعن معاویہ رضی اللہ عنہ (مولانا عبدالعزیز) صفحہ ٧ طبع ملتان۔


تنبیہ!۔
مذکورہ بالاقریبا دس عدد علمائے کرام کے حوالہ جات پیش کئے گئے ہیں ان حضرات میں سے بعض نے ان اسناد کی صحیح ہونے کی تصریح فرمادی ہے مثلا!۔ حافظ ذھبی، بسوی، یافی، اور حافط ابن حجر عسقلائی رحمہم اللہ نے اس روایت کی صحت کی تصریح کی ہے نیز ان حضرات نے واقعہ ہذا کے نقل کرنے کے بعد اس کی تردید نہیں کی۔۔۔

بس یہ چیز اس کے قابل قبول ہونے کے لئے کافی ہے۔۔۔

٢۔ بشارت ثانیہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خواب!۔
صالح خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ پنے دور کے اکابر تابعین میں مشہور ثقہ اور معتمد شخصیت ہیں ان کا ایک خواب محدث ابوبکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔

وہ لکھتے ہیں کے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور دیکھتا ہوں کے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما جناب کی خدمت اقدس میں حاضر ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کی اور ایک طرف بیٹھ یا تھوڑی دیر بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے پھر ان دونوں کو ایک مکان میں داخل کرکے دروازہ بند کردیا گیا۔۔۔ میں اس منظر کو دیکھ رہا تھا پھر جلد ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اس مکان سے برآمد ہوئے اور کہنے لگے رب کعبہ کی قسم اس معاملہ کا میرے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے پھر تھوڑی ہی دیر بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس مکان سے باہر آئے اور یوں کہ رہے تھے کہ رب کعبہ کی قسم! میرے لئے مغفرت فرمادی گئی۔۔۔(کتاب الروح (ابن قیم) صفحہ ٣١ تحت مسئلہ ثالثہ طبع حیدرآباد دکن، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣٠ جلد ٨ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ(ماوردنی مناقبہ وفضائلہ) طبع مصر)۔

ابن کثیر نے البدیہ میں ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ تمام واقعہ نقل کیا ہے اصل عبارت اہل علم کے اطمعنان کے لئے تحریر کردوں۔۔۔
عن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام وابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما جالسان عندہ فسلمت علیہ وجلست فیبینما انا جالس اذا اتی بعلی ومعاویہ رضی اللہ عنہ فادخلابیتا واجیف الباب وانا انظر فما کان باسرع من ان خرج علی رضی اللہ عنہ وھو یقول قضی لی ورب الکعبۃ ثم ماکان باسرع ان خرج معاویۃ رضی اللہ عنہ وھو یقول غفرلی ورب الکعبہ۔

مندرجہ بالا رؤیائے صالحہ کو امام غزالی نے بھی اپنی تصنیف کیمائے سعادت میں بہ عبارت ذیل نقل کیا ہے اہل علم کی تسلی کے لئے عبارت بعینہ درج کرتا چلوں۔۔۔

امام غزالی فرماتے ہیں!ِ
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ میگوید کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رابخواب دیدم باابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم نشتہ چون باایشان تشستم ناگاہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنھما رابیا وردندو درخانہ فرستاد ندو دربہ بستند دروقت علی رضی اللہ عنہ را دیدم کہ بیروں آمد گفت قضی الی ورب الکبعہ یعنی حق مرانہا ندپس بزودی معاویہ بیروں آمد وگفت غفرلی ورب الکعبہ مرانیز عفوکردندوبیا مرزیدند۔

اس کا مفہوم!
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو میں نے خواب میں دیکھا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب میں بھی آپ کی خدمت اقدس میں بیٹھ گیا توناگہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا اور ایک مکان میں داخل کرکے اس کا دروازہ بند کردیا گیا تھوڑی دیر بعد میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ باہر تشریف لائے اور فرمایا کے رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوا ہے اور پھر جلد ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور آکر کہا کہ رب کعبہ کی قسم! مجھے معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا ہے۔۔۔(کیمائے سعادت فارسی صفحہ٤٨٤ مطبع محمدی ممبی تحت پیداکردن احوال مردگان کہ مکشوف شدہ است بطریق خواب)

ان بشارات کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوا کہ اللہ تعالٰی کی شان کریمی نے صفین والے حضرات کے ساتھ عفواور معافی کا معاملہ فرمادیا ہے اور ان کی باہمی آویزشوں سے درگزر فرما کر مغفرت فرمادی ہے فلہذا ہم لوگوں کو بھی ان کے حق میں حسن ظن رکھنا لازم ہے اور ان کے متعلق بدگمانی اور سوء ظن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔۔۔

فلہذا اہل صفین کے حق میں ہمارا حُسن ظن یہی ہے کہ مالک کریم نے ان کی مغفرت کا سامان فرما کر ان کو نجات دے دی ہے وماذلک علی اللہ بعزیز۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ایک سازش جس کو ہمیشہ چھپانے کی سازش کی جاتی رہی ملاحظہ کیجئے۔۔۔
بیعت خلافت سیدنا حسن رضی اللہ تعالٰٰی عنہ!۔
سیدنا علی المرتضٰی پر قاتلانہ حملہ کے بعد انتقال سے قبل بعض لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد کیا ہم آپ کے فرزند حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں؟؟؟۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو حسن سے بیعت کا نہ حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے منع کرتا ہوں۔۔۔

چنانچہ اہل عراق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جلد ہی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی کچھ قلیل عرصہ حالات حسب معمول پر سکون رہے چند ماہ بعد سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بعض امراء اور اہل جیش نے آپ کو اہل شام کے ساتھ قتال پر آمادہ کیا۔۔۔

اگرچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر قتال بین المسلمین کو پسند نہیں فرماتے تھے مگر حالات کے تقاضوں کے تحت مجبورا ملک شام کے خلاف اقدام کرنے لئے مدائن کے عسکری مستقرمیں تشریف لے گئے۔۔۔

اس موقع پر بقول بعض مورخین حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اہل عراق (شیعان علی)کے سربرآور وہ لوگوں کو مدائن کے ایک قصر (محل) میں جمع کیا اور ارشاد فرمایا!۔

جمع الحسن رضی اللہ عنہ روس اھل العراق فی ھذا القصر، قصر المدائن فقال، انکم قد بایعتمونی علی ان تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وانی قد بایعت معاویۃ فاسمعوا لہ واطیعوہ۔
کہ تم لوگوں نے ہمارے ساتھ اس شرط پر بیعت کی ہے کہ جس سے میں صلح کروں گا تمہاری بھی اس سے صلح ہوگی اور میں جس سے محاربت اور قتال کروں گا تم بھی اس سے قتال کروگے حالات کے پیش نظر میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کرلیا ہے پس تمہیں بھی ان کی اطاعت قبول کرنی ہوگی۔۔۔( کتاب المعرفہ والتاریخ (یعقوب بسوی) صفحہ ٣١٧-٣١٨ تحت العصر الاموی خلافت معاویہ بن ابی سفیان الاصابہ (ابن حجر) صفحہ ٣٣٠ جلد ١ تحت تذکرہ امام حسن رضی اللہ عنہ (مع الاستیعاب)۔۔۔

لہذا جب آپ کے اس ارادے کی خبر آپ کی جماعت کے دیگر افراد اور اہل جیش کو ہوئی تو ان میں کئی قسم کے انتشار اور افتراق رونما ہوئے اور اہل عراق کی طرف سے اطاعت امیر سے روگردانی کے آثار پیدا ہوگئے چنانچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان حالات کو دیکھ کر اپنی جماعت سے ہی دل برداشتہ اور رنجیدہ خاطر ہوگئے۔۔۔۔

اس موقع پر مورخین نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ (شیعان علی) اور ان کی جماعت کے انتشار واختلاف کو بڑی رنگ آمیزی سے ذکر کیا ہے کہ آپ کی جماعت کے بعض برگشتہ افراد نے آپ کے لئے ایذا رسانی کی اور براسلوک اختیار کیا جس کی بناء پر آپ بہت ملول ہوئے اور اپنے سیاسی مقابلین کے ساتھ صلح کرنے کا ارداد کرلیا۔۔۔

عن عمار الدھنی قال نزل الحسن بن علی المدائن وکان قیس بن سعد علی مقدمتہ ونزل الابنار فطعنوا حسن رضی اللہ عنہ وانتھبوا سرداقہ۔۔۔
یعنی عمار دھنی کہتے ہیں کہ (حسب پروگرام) علاقہ مدائن میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے آپ کے جیش کے مقدمہ پر قیس بن سعد رضی اللہ عنہ حاکم تھے پھر اس کے بعد انبار کے مقام پر پہنچے تو وہاں ان کے اپنے لشکریوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو نیزوں سے زخمی کرڈالا اور آپ کے خانگی اموال لوٹ لئے(کتاب المعرفہ والتاریخ (بسوی) صفحہ ٧٥٥-٧٥٦ جلد ٢ تحت ماجاء فی الکوفہ۔۔۔۔ الخ، تاریخ بغداد صفحہ ١٧٨ جلد ١ تحت قیس بن سعد بن عبادہ)۔۔۔

اب شیعان علی کے اس ظلم عظیم جو اپنی حسن علیہ السلام کے شان میں کی گئی پر شیعہ کی طرف تائید پیش کرتا ہوں۔۔۔۔

چنانچہ شیعہ علماء کی معتبر کتابوں میں اس مقام پر اس مضمون کو بایں نوع ذکر کیا ہے کہ!۔
عن یزید بن وھب الجھنی قال لماطعن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ بالمدائن اتبتہ وھو متوجع فقلت ماتری یا ابن رسول اللہ فان الناس متحیرون فقال اری واللہ معاویہ خیر لی من ھؤلاء یزعمون انھم لی شیعہ ابتغوا قتلی وانتھبوا ثقلی واخذوا مالی ۔۔۔۔ الخ۔

مطلب یہ ہے کہ یزید بن وہب جہنی کہتا ہے کہ جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو مدائن میں نیزہ سے زخمی کیا گیا تو میں آپ کی خدمت میں پہنچا آپ درد کی تکلیف میں مبتلا تھے میں نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند! لوگ اس معاملہ میں (مجوزہ صلح میں) متحیر اور حیران ہیں جناب کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟۔۔۔ امام نے فرمایا!۔ اللہ کی قسم!۔ میں خیال کرتا ہوں کے ان لوگوں سے تو معاویہ رضی اللہ عنہ میرے لئے بہتر ہیں جو لوگ میرے شیعہ ہونے کے دعویدار ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا، میرے مال اموال کو لوٹ لیا۔۔۔۔ الخ۔۔(الاحتجاج (شیخ ابومنصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی) صفحہ ١٤٨ تحت احتجاج حسن بن علی علٰٰی معاویہ فی امامۃ من یستحقھا، طبع قدیم ایران)۔۔۔

اسی طرح اسی مضمون کو ملا باقر مجلسی نے اپنی مشہور تصنیف بحار الانوار میں لکھا ہے!۔۔۔ ملاحظہ کیجئے!۔
لما طعن الحسن بی علی المدائن اتیتہ وھو متوجع فقلت ماتری یا ابن رسول اللہ فان الناس متحیرون فقال مااری واللہ معاویہ خیر لی من ھؤلاء یرعمون انھم لی شیعہ ابتغوا قتلی ونتھبوا ثقلٰٰی واخذوا مالی واللہ لان اخذ من معاویہ عھدا احقن بہ دمی وامن بہ فی اھلی خیر من ان یقتلونی فتضیع اھل بیتی واھلی۔۔۔

ملا باقر مجلسی نے یہ بات طبرسی کی مذکورہ بالا روایت کے مطابق یہاں بیان کی ہے اور مزید آپ کہتے ہیں کہ!۔
امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا! اللہ کی قسم!، میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایسا عہد لوں جس میں میری جان کی حفاظت ہو اور میرے اہل کی امان ہو، وہ میرے لئے اس چیز سے بہتر ہے کہ میرے شیعہ مجھے قتل کرڈالیں اور میرے اہل بیت کو تباہ وبرباد کردیں۔۔۔(بحار الانوار از ملا باقر مجلسی شیعی صفحہ ٨٧ جلد ١٠ تحت مالی امور ہما۔۔۔۔ الخ)۔۔۔

مندرجہ بالا روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے پر آمادہ تھے اور اس چیز کو بہتر خیال کرتے تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شیعوں سے بہتر قرار دیتے تھے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ علیہ نے کہا ہے۔۔۔
اسلامی بادشاہوں میں سے کوئی امیر معاویہ سے اچھا بادشاہ نہیں ہوا اور جتنی خوبیاں اور بھلائیاں لوگوں میں اس کے دور میں پیدا ہوئیں اتنی کبھی نہ ہوئی تھیں۔۔۔ بشرطیکہ آپ امیر معاویہ کے بعد ک بادشاہوں سے مقابلہ کریں اور اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کریں تو بہت فرق ہے۔۔۔(منہاج السنۃ جلد ٣ صفحہ ١٣٥)۔۔۔
ابن تیمیہ کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی کی رائے
يوسف والد الحسن بن المطهر الحلي کے ضمن میں امام امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ " ابن مطہر حلی نے علی رضي الله عنه کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی ابن تیمیہ نے ابن مطہر کے رد میں کتاب لکھی [یعنی منہاج السنہ ]
اور ابن تیمیہ نے ابن مطہر کے رد کرنے میں ایک بڑی تعداد احادیث کی جو حسن ا ور معتبر تھی رد کی اور ان احادیث کا انکار کیا ہےاور کبھی اس رافضی [ابن مطہر حلی ] کو رد کرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ علی رضي الله عنه کی تنقیص تاک پہونچ گئے"
لسان الميزان ابن حجر العسقلاني الصفحة : 1137۔ 1136

جو مولا علی علیہ السلام کے بغض میں ان کی تنقیص تک پہونچ جائے ایسے ناصبی کہتے ہیں
والنَّواصِبُ والنَّاصبيَّةُ وأهلُ النَّصْبِ: المُتَدَيّنونَ بِبِغْضَةِ عليّ، رضي الله عنه،
(القاموس المحيط)

الباحث العربي: قاموس عربي عربي
ایک طرف تو ابن تیمیہ بغض علی علیہ السلام میں صیح احادیث کا انکار کرتے ہیں اور دوسری جانب خلفہ ثلاثہ کے مناقب میں اس حد تک غلو سے کام لیتے ہیں کہ جن حدیثوں کا صحیحین میں کہیں نام و نشان نہیں ان کو صحیحین کی حدیث بتاتے ہیں
ابن تیمیہ اپنی کتاب منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔؎،الجزء السابع ، صفحہ ٣٣٠
میں لکھتےہیں
ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه وسلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر ، وأشار بالفداء ، واستشار عمر فأشار بالقتل . قال : " سأخبركم عن صاحبيكم ن ، م ، س : عن صاحبكم . . مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم إذ قال: ( فمن تبعني فإنه مني ومن عصاني فإنك غفور رحيم ) ( سورة إبراهيم : 36 ) ، ومثل عيسى إذ قال: ( إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم ) ( سورة المائدة : 118 ) ، ومثلك يا عمر مثل نوح إذ قال: ( رب لا تذر على الأرض من الكافرين ديارا ) ( سورة نوح : 26 ) ، ومثل س ، ب : أو مثل . موسى إذ قال: ( ربنا اطمس على أموالهم واشدد على قلوبهم فلا يؤمنوا حتى يروا العذاب الأليم ) ( سورة يونس : 88 ) سبق هذا الحديث فيما مضى 6 \ 133 .

فقوله لهذا : مثلك كمثل ن ، م : مثل . إبراهيم ، وعيسى ، ولهذا : مثل نوح ، وموسى - أعظم من قوله : أنت مني بمنزلة هارون من موسى ; فإن نوحا ، وإبراهيم ، وموسى ، وعيسى أعظم من هارون
ترجمہ
بخاری و مسلم میں یہ حدیث ثابت ہے کہ ۔۔۔۔ ابوبکر مثل ابرہیم ہیں اور مثل عیسی ہیں اور عمر مثل نوح اور مثل موسی ہیں ۔۔۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا:اے ابوبکر تم مثل ابرہیم اور عیسی ہو اور اسکی [حضرت عمر] کی مثل نوح و موسی سی ہے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے أنت مني بمنزلة هارون من موسى زیادہ افضل ہے اس لئے نوح اور ابراہیم ، موسی ، عیسی، تمام کے تمام ہارون سے افضل ہیں ۔
آن لائن لنک :
http://www.islamweb.net/newlibrary/d...artno=793#docu
کیونکہ ابن تیمیہ کو حدیث بمنزلة هارون من موسى ہضم نہیں ہورہی
ابوبکر اثرم اور بن بطۃ نے اپنے اپنے طریق سے حضرت قتادۃ سے باسند روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔۔۔
اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کے اعمال دیکھتے تو تم میں سے اکثر کہتے کے مہدی ہیں اور ابن بطۃ نے دو صحیح سندوں سے مجاہد کا قول نقل کیا ہے اگر معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور اثرم نے باسند ابوہریرہ مکتب کا قول نقل کیا ہے کے ہم اعمش رحمۃ اللہ کے پاس بیٹھے تھے تو عمر بن عبدالعزیز اور اُس کے عدل وانصآف کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی تو اعمش نے کہا اگر تم!۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمان دیکھ لیتے تو تمہیں معلوم ہوتا کے حکمرانی اور انصآف کیا چیز ہے تو لوگوں نے پوچھا ان کے حلم کی بابت آپ کہہ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا نہیں اللہ کی قسم اس کے عدل کے بابت کہہ رہا ہوں۔۔۔

اور عبداللہ بن احمد بن حنبل نے باسند ابو اسحٰق سبیعی کا قول نقل کیا ہے انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگر تم اُس کو اور اُس کے زمانے دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور یہ شہادت جو ان بڑے بڑے علماء سے امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق مل رہی ہے دراصل یہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دُعا کی بازگشت ہے جو آپ نے اس نیک خلیفہ کے متعلق کی تھی کہ۔۔۔
اگر حوالہ درج کردیتے تو کیا بات تھی
یا الٰہی اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشینگوئیوں میں سے ہے۔۔۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب)۔۔۔۔
اس حدیث کی صحت کے بارے میں محدث کی رائے بھی پیش کر دیں اور عربی متن بھی
ابن عباس سے ایک روایت ہے کے آپ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں دیکھتے تھے کہ وہ ایک ہی وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے فریایا وہ فقیہ آمی ہے۔۔۔ (رواہ بخاری کتاب مناقب الصحابہ)۔۔۔

کیا اگر کوئی فقیہ ہو تو اس کے لئے یہ جائز ہوجاتا ہے کہ وہ سنت کو ترک کرکے بدعت جاری کردے کیا فقیہ کے لئے یہ جائز ہوجاتا ہے کہ وہ علی علیہ السلام سے بغض رکھے اور ان پر بد گوئی کرے اور ایسا کرنے کا حکم اپنے گورنر وں کو دے کہ مسجد کے منبروں پر علی کی بد گوئی کریں انا للہ وانا الیہ راجعون

............غیر متعلقہ بحث حذف۔۔۔انتظامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بہرام صاحب، آپ کی بالا پوسٹ کا کافی حصہ آپ پہلے ہی ایک اور دھاگے میں پیش کر چکے ہیں۔ ایک ہی بحث کو ایک ہی وقت میں دو مختلف دھاگوں میں پیش کرنا مناسب نہیں۔
ازراہ کرم اس حدیث پر بحث متعلقہ دھاگے میں ہی جاری رکھیں۔ یہاں نہ لائیں۔ شکریہ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی جو اقوال آپ پیش کررہے۔۔۔ وہ چبے ہوئے لقمے ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتاہے۔۔۔
اور اپنی پہلی پوسٹ سے اب تک آپ خود دیکھیں کے کتنی بار آپ ان باتوں کو دہرا چکے ہیں۔۔۔
چبے ہوئے لقمے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جو بات نفس کے خلاف ہو وہ چبے ہوئے لقمے ماشاء اللہ اچھا طریقہ ہے
یہ دہرانہ نہیں بلکہ ان ساری پوسٹوں کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کیا
اس کا عربی متن فراہم کیجئے!۔
قال أبو سعيد فلم يزل الناس على ذلك حتى خرجت مع مروان وهو أمير المدينة في أضحى أو فطر،‏‏‏‏ فلما أتينا المصلى إذا منبر بناه كثير بن الصلت،‏‏‏‏ فإذا مروان يريد أن يرتقيه قبل أن يصلي،‏‏‏‏ فجبذت بثوبه فجبذني فارتفع،‏‏‏‏ فخطب قبل الصلاة،‏‏‏‏ فقلت له غيرتم والله‏.‏ فقال أبا سعيد،‏‏‏‏ قد ذهب ما تعلم‏.‏ فقلت ما أعلم والله خير مما لا أعلم‏.‏ فقال إن الناس لم يكونوا يجلسون لنا بعد الصلاة فجعلتها قبل الصلاة‏.‏

ترجمہ از داؤد راز
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے (یعنی عیدین کی نماز میں نماز کے بعد خطبہ) لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عیدالاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے (خطبہ دینے کے لیے) چڑھے اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔
صحیح بخاری ،کتاب العدین، باب ، باب: عیدگاہ میں خالی جانا منبر نہ لے جانا، حدیث نمبر: 956
اس حدیث کے ترجمہ میں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مترجم داؤد راز نے ابو سعید خدری کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا ہے مگر معاویہ کے نام کے آگے نہیں لکھا ۔
شاید اس حدیث پر ایک اعتراض یہ ہو کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان کے پیچھے نماز پڑھی اس بدعت کے باوجود
جبکہ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان کی اقتداء میں نماز پڑھی یا نہیں لیکن ایسی حدیث کو امام مسلم نے بھی بیان کیا ہے اور اس میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ جب مروان عید کی نماز سے قبل ہی خطبہ دینے کھڑا ہوا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اپنے گھر چلے گئے
یہ تو ہوا حدیث کا عربی متن و ترجمہ
کتاب خلیفہ ذاھد کے اگر عربی متن کی بات کی گئی ہے تو اس کہ لئے عرض ہے کہ میں نے اس کتاب کا پیج جوں کا توں آپ کی خدمت میں پیش کردیا ہے اور یہ پیج اس کتاب کا اردو ترجمہ ہے جو کہ راغب رحمانی نے کیا ہے اور یہ کتاب محدث لائیبریری میں بھی اپ لوڈ کی گئی ہے محدث لائیبریری کی انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ " مجلس تحقیق اسلامی کے علماء کی باقاعدہ تصدیق و اجازت کتابیں اپ لوڈ کی جاتی ہیں " اگر آپ کو راغب رحمانی اور مجلس تحقیق اسلامی کے علماء پر اعتبار نہیں تو پھر اس کا عربی متن پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ان شاء اللہ

باقی باتیں بعد میں ان شاءاللہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
شاید اس حدیث پر ایک اعتراض یہ ہو کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان کے پیچھے نماز پڑھی اس بدعت کے باوجود
پورا نام کیا ہے؟؟؟۔۔۔
جن کو میں نے مارک کیا ہے۔۔۔
اُمید ہے کے جلد مطلع کریں گے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
پورا نام کیا ہے؟؟؟۔۔۔
جن کو میں نے مارک کیا ہے۔۔۔
اُمید ہے کے جلد مطلع کریں گے۔۔۔
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن أقصى الأموي أبو عبد الملك
وولي إمرة المدينة أيام معاوية وبويع له بالخلافة بعد موت معاوية بن يزيد بن معاوية
تهذيب التهذيب ، ابن حجر العسقلاني
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم بن أبي العاص أبو عبد الملك الأموي القرشي
التاريخ الكبير، البخاري
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم الأموي
ميزان الاعتدال ،الذهبي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي القرشي الأموي أبو عبد الملك
وكان كاتباً لعثمان وولي إمرة المدينة لمعاوية
تهذيب الكمال في أسماء الرجال ،المزي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہوئے اسماء رجال کی کتب سے حوالے اب باری ہے تاریخ کی کتب
عن عبدِ اللَّهِ بنِ الزُّبيرِ أنَّهُ قال وهوَ على المنبرِ وربِّ هذا البيتِ الحرامِ والبلدِ الحرامِ إنَّ الحَكمَ بنَ أبي العاصِ وولدَه ملعونونَ على لسانِ محمد صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم
الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث: ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/271

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں سب سے بھاری دلیل
حدثنا إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن يحيى بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن القاسم بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنه سمعه يذكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن يحيى بن سعيد بن العاص،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ طلق بنت عبد الرحمن بن الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فانتقلها عبد الرحمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأرسلت عائشة أم المؤمنين إلى مروان وهو أمير المدينة اتق الله وارددها إلى بيتها‏.‏ قال مروان في حديث سليمان إن عبد الرحمن بن الحكم غلبني‏.‏ وقال القاسم بن محمد أوما بلغك شأن فاطمة بنت قيس قالت لا يضرك أن لا تذكر حديث فاطمة‏.‏ فقال مروان بن الحكم إن كان بك شر فحسبك ما بين هذين من الشر‏.‏


صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5321

ترجمہ از داؤد راز
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے ، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر (جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو، جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑ تا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا) مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ عن أبي بشر،‏‏‏‏ عن يوسف بن ماهك،‏‏‏‏ قال كان مروان على الحجاز استعمله معاوية،‏‏‏‏ فخطب فجعل يذكر يزيد بن معاوية،‏‏‏‏ لكى يبايع له بعد أبيه،‏‏‏‏ فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئا،‏‏‏‏ فقال خذوه‏.‏ فدخل بيت عائشة فلم يقدروا ‏ {‏ عليه‏}‏ فقال مروان إن هذا الذي أنزل الله فيه ‏ {‏ والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني‏}‏‏.‏ فقالت عائشة من وراء الحجاب ما أنزل الله فينا شيئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذري‏.‏

صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4827
ترجمہ ازداؤد راز
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے ابو بشر نے ، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ ”تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ
الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
 
Top