• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ اعراف کی آیت ۱۰۷ کے متعلق سوال

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میں اس فورم میں نیا ہوں اور یہ میری پہلی پوسٹ ہے۔
میرا سوال سورہ اعراف کی آیت ۱۰۸ سے متعلق ہے۔

۱۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ :
جب فرعون حضرت موسی علیہ سلام سے کہتا ہے کہ " فرعون نے کہا کہ اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر"(آیت ۱۰۶)
تو حضرت موسی علیہ سلام دو معجزے دیکھاتے ہیں ۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں ہے کہ فرعون نے ایک نشانی کی بات کرتا ہے اور حضرت موسی علیہ سلام دو دیکھاتے ہیں ؟


۲۔ اس موضوع پر ان کا کہنا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک ہی معجزہ دیکھایا تھا اور یدبیضا اصل میں ججت اور دلیل کو کہتے ہیں اس لئے یہ حجت حضرت موسی علیہ سلام نے فرعون کے دربار میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت ۱۰۷ اور ۱۰۸ کے درمیان "و" واو تفسیری ہے۔ جس نے پہلے والے جملے کی تفسیر کی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

واو تفسیری کے استعمال کے عربی میں کیا اصول ہیں ۔ رہنمای فرمائیں شکریہ
 
Last edited by a moderator:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (106) فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (107) وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (108) ﴿ سورة الأعراف﴾
کہا اگرتو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ لا اگر تو سچا ہے ﴿﴾ پھر اس نے اپنا عصا ڈال دیا وہ اس وقت صریح اژدھا ہو گیا ﴿﴾ او راپنا ہاتھ نکالا تو اسی وقت دیکھنے والوں کے لیے سفید نظر آنے لگا ﴿﴾​
﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾

سرخ رنگ میں فعل یعنی Verb ہیں، سبز رنگ میں، مفعول یعنی Object ہیں!
اب آپ خود دیکھیں، کہ دو مختلف مفعول یعنی Object کے ساتھ، دو مختلف أفعال یعنی Verb آئیں ہیں، ایسی صورت میں یہاں ان فقروں کے درمیان کے ''و'' کو واؤ تفسیری کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے! کہ امر ایک ہے اور اگلی بات پہلے کی تفسیر ہے!
رہی یہ بات کہ موسی نے کہا تھا کہ ''کوئی نشانی'' تو دو یا دو سے زائد ''کوئی کے برخلاف نہیں!
اور'' کوئی'' کا یہ مفہوم یہاں ''ایک ہی سہی'' ہے، اللہ نے فرعون کے تکبر وگھمنڈ کو توڑتے ہوئے ایک کے مطالبہ پر دو نشانیاں دکھلائیں!

مزید کہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود اسے دوسری نشانی کہا ہے:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (17) قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (18) قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى (19) فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (22) ﴿ سورة طه﴾
اور اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے (17) کہا یہ میری لاٹھی ہے ا س پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں (18) فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو (19) پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا (20) فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر ہم ابھی اسےپہلی حالت پر پھیر دیں گے (21) اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے (22) ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾​


باقی عربی گرامر کے أصول کے حوالہ سے ان شاء اللہ! کوئی شیخ بیان کردیں گے!
اب ایک نہیں دو شیوخ بیان کر دیں، تو یہ میرے بیان ''کوئی'' کے مخالف نہ ہو گا!
 
Last edited by a moderator:

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام و علیکم،

بہت شکریہ ابن داود صاحب کہ آپ نے جواب دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ فارمٹ کا مسلہ ہے یا کچھ اور لیکن آپ کا جواب پڑھنا انتہائ دشوار ہے کیوں کہ آپ کے تمام حروف الگ الگ ظاہر ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ربط میں نہیں ہیں۔ میں نے بڑی مشکلوں سے اندازے لگا کر آپ کی پوسٹ کو پڑھا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اگر اس مسلہ کو حل کردیا جائے تو بہت بہتر ہے تاکہ آپ کے علم سے استفادہ کیا جاسکے۔ شکریہ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
غالباً فارمیٹ کا ہی کوئی مسئلہ ہے، !
میں تبدیل کیا ہے اب شاید آپ کو نظر آجائے!

Time New Roman

ورنہ ہمارے پاس اس ان معاملات میں پروفیشنل موجود ہیں، @محمد نعیم یونس بھائی! متوجہ ہوں!

قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (106) فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (107) وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (108) ﴿ سورة الأعراف﴾
کہا اگرتو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ لا اگر تو سچا ہے ﴿﴾ پھر اس نے اپنا عصا ڈال دیا وہ اس وقت صریح اژدھا ہو گیا ﴿﴾ او راپنا ہاتھ نکالا تو اسی وقت دیکھنے والوں کے لیے سفید نظر آنے لگا ﴿﴾
﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾

سرخ رنگ میں فعل یعنی Verb ہیں، سبز رنگ میں، مفعول یعنی Object ہیں!
اب آپ خود دیکھیں، کہ دو مختلف مفعول یعنی Object کے ساتھ، دو مختلف أفعال یعنی Verb آئیں ہیں، ایسی صورت میں یہاں ان فقروں کے درمیان کے ''و'' کو واؤ تفسیری کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے! کہ امر ایک ہے اور اگلی بات پہلے کی تفسیر ہے!
رہی یہ بات کہ موسی نے کہا تھا کہ ''کوئی نشانی'' تو دو یا دو سے زائد ''کوئی کے برخلاف نہیں!
اور'' کوئی'' کا یہ مفہوم یہاں ''ایک ہی سہی'' ہے، اللہ نے فرعون کے تکبر وگھمنڈ کو توڑتے ہوئے ایک کے مطالبہ پر دو نشانیاں دکھلائیں!

مزید کہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود اسے دوسری نشانی کہا ہے:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (17) قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (18) قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى (19) فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (22) ﴿ سورة طه﴾
اور اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے (17) کہا یہ میری لاٹھی ہے ا س پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں (18) فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو (19) پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا (20) فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر ہم ابھی اسےپہلی حالت پر پھیر دیں گے (21) اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہدوسری نشانی ہے (22) ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی عربی گرامر کے أصول کے حوالہ سے ان شاء اللہ! کوئی شیخ بیان کردیں گے!
اب ایک نہیں دو شیوخ بیان کر دیں، تو یہ میرے بیان ''کوئی'' کے مخالف نہ ہو گا!​
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے تو موبائل اور کمپیوٹر دونوں پر درست نظر آ رہا ہے، بہرحال میں نے کچھ تبدیلی کی ہے، شائد کہ تبدیلی آ جائے۔۔ ابتسامہ!
ملاحظہ کیجیئے!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿١٠٦﴾ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿١٠٧﴾ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴿١٠٨﴾ ﴿سورة الأعراف﴾
کہا اگر تو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ لا اگر تو سچا ہے ﴿﴾ پھر اس نے اپنا عصا ڈال دیا وہ اس وقت صریح اژدھا ہو گیا ﴿﴾ اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی وقت دیکھنے والوں کے لیے سفید نظر آنے لگا ﴿﴾
﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾

سرخ رنگ میں فعل یعنی Verb ہیں، سبز رنگ میں، مفعول یعنی Object ہیں!
اب آپ خود دیکھیں، کہ دو مختلف مفعول یعنی Object کے ساتھ، دو مختلف أفعال یعنی Verb آئیں ہیں، ایسی صورت میں یہاں ان فقروں کے درمیان کے ''و'' کو واؤ تفسیری کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے! کہ امر ایک ہے اور اگلی بات پہلے کی تفسیر ہے!
رہی یہ بات کہ موسی نے کہا تھا کہ ''کوئی نشانی'' تو دو یا دو سے زائد ''کوئی کے برخلاف نہیں!
اور'' کوئی'' کا یہ مفہوم یہاں ''ایک ہی سہی'' ہے، اللہ نے فرعون کے تکبر و گھمنڈ کو توڑتے ہوئے ایک کے مطالبہ پر دو نشانیاں دکھلائیں!

مزید کہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود اسے دوسری نشانی کہا ہے:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿١٧﴾ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ ﴿١٨﴾ قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَىٰ ﴿١٩﴾ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَىٰ ﴿٢٠﴾ قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَىٰ ﴿٢١﴾ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَىٰ ﴿٢٢﴾ ﴿سورة طه﴾
اور اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے (17) کہا یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں (18) فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو (19) پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا (20) فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر ہم ابھی اسے پہلی حالت پر پھیر دیں گے (21) اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے (22) ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾


باقی عربی گرامر کے أصول کے حوالہ سے ان شاء اللہ! کوئی شیخ بیان کر دیں گے!
اب ایک نہیں دو شیوخ بیان کر دیں، تو یہ میرے بیان ''کوئی'' کے مخالف نہ ہو گا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ :
جب فرعون حضرت موسی علیہ سلام سے کہتا ہے کہ " فرعون نے کہا کہ اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر"(آیت ۱۰۶)
تو حضرت موسی علیہ سلام دو معجزے دیکھاتے ہیں ۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں ہے کہ فرعون نے ایک نشانی کی بات کرتا ہے اور حضرت موسی علیہ سلام دو دیکھاتے ہیں ؟

۲۔ اس موضوع پر ان کا کہنا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک ہی معجزہ دیکھایا تھا اور یدبیضا اصل میں ججت اور دلیل کو کہتے ہیں اس لئے یہ حجت حضرت موسی علیہ سلام نے فرعون کے دربار میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت ۱۰۷ اور ۱۰۸ کے درمیان "و" واو تفسیری ہے۔ جس نے پہلے والے جملے کی تفسیر کی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

واو تفسیری کے استعمال کے عربی میں کیا اصول ہیں ۔ رہنمای فرمائیں شکریہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
جواب :
سورۃ الاعراف میں فرعون کے دربار میں پہلی دعوت کی تفصیل بیان ہوئی ہے ،
فرعون نے سیدنا موسیٰ کی دعوت کے جواب میں پوچھا کہ آپ کے پاس اپنے دعویٰ رسالت کے ثبوت میں کوئی آیت یعنی آپ کی صداقت کی نشانی (معجزہ ) ہے یا نہیں ؟
قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (106)
فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں ،تواگر آپ سچے ہیں اس کو پیش کیجئے! ‘‘
فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (107)
(فرعون کے مطالبہ پر )موسی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی، تو فوراً وہ ایک اژدھا بن کر ظاہر ہوگئی ‘‘

امام ابوجعفر محمد بن جریر الطبریؒ (المتوفی ۳۱۰ھ) نے’’ثعبان ‘‘ کی تفسیر میں عظیم تابعی امام قتادۃؒ (جو سنۃ ۶۰ھ) میں پیدا ہوئے ،اور کئی صحابہ کرام اور بڑے بڑے تابعین سے علم حاصل کیا ان )کا قول نقل کیا ہے کہ :
عن قتادة: "فإذا هي ثعبان مبين" قال: تحولت حية عظيمة.
(جب موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینکی تو اچانک ایسا ہوا کہ وہ لکڑی بہت بڑا سانپ بن گئی )
’’ مبین ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :( تتبين لمن يراها أنها حية ) وہ ایک نمایاں اژدھا بن کران کے سامنے تھا،

مفسر شہیرعلامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
سعيد بن جبير عن ابن عباس قال {فألقى عصاه} فتحولت حية عظيمة فاغرة فاها، مسرعة إلى فرعون، فلما رآها فرعون أنها قاصدة إليه، اقتحم عن سريره، واستغاث بموسى أن يكفها [عنه] ففعل.
مشہور تابعی جناب سعید بن جبیرؒ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ : ’’ جب موسی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی ‘‘ کا مطلب ہے کہ جب سیدنا موسی ٰنے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈالی تو وہ بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ۔ وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور سیدنا موسیٰ سےفریاد کرنے لگا کہ کے لیے اسے روک ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے گڑگڑانے پر اسے روک لیا ، ( یعنی اس پر ہاتھ رکھا اور وہ اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ) ( تفسیر ابن کثیرؒ)

دوسرا معجزہ :
وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (108)
اور اپنا ہاتھ باہر کیا، تو وہ دیکھنے والوں کو سفید چمکتا ہوا نظر آنے لگا ‘‘
تیسری صدی کے عظیم محدث جناب امام أبو يعلى أحمد بن علي الموصلي (المتوفى: 307 ھ) نے ان آیات کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی مطول روایت نقل کی ہے ،جس میں فرعونی دربار میں سیدنا موسیٰ کے ان معجزات کے متعلق فرماتے ہیں کہ :
قال: ائت بآية إن كنت من الصادقين، فألقى عصاه فإذا هي حية عظيمة فاغرة فاها مسرعة إلى فرعون، فلما رآها فرعون قاصدة إليه خافها فاقتحم، عن سريره واستغاث بموسى أن يكفها عنه ففعل، ثم أخرج يده من جيبه فرآها بيضاء من غير سوء - يعني من غير برص - ثم ردها فعادت إلى لونها الأول، فاستشار الملأ حوله فيما رأى، فقالوا له: {إن هذان لساحران يريدان أن يخرجاكم من أرضكم بسحرهما ويذهبا بطريقتكم المثلى} [طه: 63]
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :سیدنا موسیٰ کی دعوت کے جواب میں فرعون کہنے لگا کہ آپ کے پاس اپنے دعویٰ رسالت کے ثبوت میں کوئی آیت یعنی آپ کی صداقت کی نشانی (معجزہ ) ہے تو دکھایئے ، تو سیدنا موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا ‘‘
تو وہ بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ۔ وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور سیدنا موسیٰ سےفریاد کرنے لگا کہ کے لیے اسے روک ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے گڑگڑانے پر اسے روک لیا ، ( یعنی اس پر ہاتھ رکھا اور وہ اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا )
پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے (دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو ، وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو یہ ویسا ہی ہو گیا ۔‘‘
یہ معجزے دیکھ کر فرعون نے اپنے آس پاس موجود وزرا اور مشیروں سے مشورہ کیا ، سب نے کہا کہ :
’’ یہ دونوں (بھائی ) جادو گر ہیں ،جو اپنے جادو کے ذریعے تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں ،
اور ان کا مقصد یہ بھی ہے کہ تمہارے مثالی طریق زندگی (بہترین مذہب ) کو ختم کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
واو تفسیری کے استعمال کے عربی میں کیا اصول ہیں
عطف مغایرۃ
مثلاً : خلق السموٰت والارضاس نے آسمان اور زمین بنائے ‘‘
یعنی جس طرح اس نے آسمان بنائے اسی طرح اسی نے زمین بھی تخلیق کی ‘‘
اس مثال میں دو چیزیں کے متعلق بتایا ہے کہ انہیں اللہ نے تخلیق کیا ، لیکن یہ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں زمین الگ چیز اور آسمان الگ ،ان دونوں کے درمیان ’’ واو ‘‘ اسی کو ۔۔عطف مغایرۃ ۔۔ کہتے ہیں ، یعنی واو دو الگ الگ چیزوں کے درمیان واقع ہے ،
لیکن کبھی کبھی یہ ۔۔واو ۔۔ دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کے درمیاں نہیں بلکہ ایک ہی چیز اور اس کی تفسیر و صفت کے درمیان واقع ہوتی ہے :
مثال ؛
آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ (ہم نے موسیٰ کو کتاب ۔۔یعنی ۔۔ فرقان دی )
یہاں ۔۔کتاب اور فرقان ۔۔دو الگ الگ چیزوں کے نام نہیں ،بلکہ فرقان اسی کتاب کا صفاتی نام ہے اور اس واو کو تفسیری کہیں گے ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے تو موبائل اور کمپیوٹر دونوں پر درست نظر آ رہا ہے، بہرحال میں نے کچھ تبدیلی کی ہے، شائد کہ تبدیلی آ جائے۔۔ ابتسامہ!
اس کے درست نظرآنے میں ’’فقیروں ‘‘ کا ہاتھ ہے ،
ع
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے ۔۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس کے درست نظرآنے میں ’’فقیروں ‘‘ کا ہاتھ ہے
جی درست کہا آپ نے۔۔ دراصل میں نے وہ خفیہ ہاتھ جو متعدد بار چلائے گئے تھے، اپنی پوسٹ کرنے کے بعد دیکھے۔۔ ابتسامہ!
 

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام و علیکم!

ابن داود صاحب، اب آپ کی پوسٹ صاف دیکھائ دے رہی ہے۔ بہت مہربانی!

آپ بے اپنے جواب نمبر ۲ میں کہا کہ :

"موسی نے کہا تھا کہ ''کوئی نشانی'' تو دو یا دو سے زائد ''کوئی کے برخلاف نہیں!"

ایک بات کی تصحیح کردوں کہ کہیں پڑھنے والے کوئ اور مطلب نہ لیں تو یہ بات فرعون نے کہی تھی حضرت موسی علیہ سلام نے نہیں ۔

آپ کی بات بلکل درست ہے کہ "کوئ" کے مطلب میں ایک یا دو سے زیادہ "کوئ کے برخلاف نہیں" لیکن عربی بہت فصیح اور بلیغ زبان ہے اس ہی لئے اللہ نے اپنے آخری پیغام کے لئے اس کو چنا۔ اوپر کی آیت میں "نشانی" کا لفظ نکرہ آیا ہے اور نکرہ کوئ کے ساتھ ساتھ "ایک" کا بھی مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے ۔ اس لئے اگر بات صرف "کوئ" کو ہو تو پھر تو آپ کی بات میں وزن ہے ورنہ اگر بات "کوئ ایک" کی ہو تو پھر اس سے مراد صرف ایک ہی نشانی ہوگی ۔

آپ کی عربی مجھ سے یقینن بہتر ہوگی اس لئے سوچا اپنی گزارشات بھی پیش کردوں تاکہ ہر پہلو سے مضمون کا احاطہ ہوسکے۔

شکریہ۔
 
Top