السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ :
جب فرعون حضرت موسی علیہ سلام سے کہتا ہے کہ " فرعون نے کہا کہ اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر"(آیت ۱۰۶)
تو حضرت موسی علیہ سلام دو معجزے دیکھاتے ہیں ۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں ہے کہ فرعون نے ایک نشانی کی بات کرتا ہے اور حضرت موسی علیہ سلام دو دیکھاتے ہیں ؟
۲۔ اس موضوع پر ان کا کہنا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک ہی معجزہ دیکھایا تھا اور یدبیضا اصل میں ججت اور دلیل کو کہتے ہیں اس لئے یہ حجت حضرت موسی علیہ سلام نے فرعون کے دربار میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت ۱۰۷ اور ۱۰۸ کے درمیان "و" واو تفسیری ہے۔ جس نے پہلے والے جملے کی تفسیر کی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟
واو تفسیری کے استعمال کے عربی میں کیا اصول ہیں ۔ رہنمای فرمائیں شکریہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
جواب :
سورۃ الاعراف میں فرعون کے دربار میں پہلی دعوت کی تفصیل بیان ہوئی ہے ،
فرعون نے سیدنا موسیٰ کی دعوت کے جواب میں پوچھا کہ آپ کے پاس اپنے دعویٰ رسالت کے ثبوت میں کوئی آیت یعنی آپ کی صداقت کی نشانی (معجزہ ) ہے یا نہیں ؟
قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (106)
فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں ،تواگر آپ سچے ہیں اس کو پیش کیجئے! ‘‘
فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (107)
(فرعون کے مطالبہ پر )موسی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی، تو فوراً وہ ایک اژدھا بن کر ظاہر ہوگئی ‘‘
امام ابوجعفر محمد بن جریر الطبریؒ (المتوفی ۳۱۰ھ) نے
’’ثعبان ‘‘ کی تفسیر میں عظیم تابعی امام قتادۃؒ (جو سنۃ ۶۰ھ) میں پیدا ہوئے ،اور کئی صحابہ کرام اور بڑے بڑے تابعین سے علم حاصل کیا ان )کا قول نقل کیا ہے کہ :
عن قتادة: "فإذا هي ثعبان مبين" قال: تحولت حية عظيمة.
(جب موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینکی تو اچانک ایسا ہوا کہ وہ لکڑی بہت بڑا سانپ بن گئی )
’’ مبین ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :( تتبين لمن يراها أنها حية ) وہ ایک نمایاں اژدھا بن کران کے سامنے تھا،
مفسر شہیرعلامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
سعيد بن جبير عن ابن عباس قال {فألقى عصاه} فتحولت حية عظيمة فاغرة فاها، مسرعة إلى فرعون، فلما رآها فرعون أنها قاصدة إليه، اقتحم عن سريره، واستغاث بموسى أن يكفها [عنه] ففعل.
مشہور تابعی جناب سعید بن جبیرؒ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ : ’’
جب موسی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی ‘‘ کا مطلب ہے کہ جب سیدنا موسی ٰنے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈالی تو وہ بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ۔ وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور سیدنا موسیٰ سےفریاد کرنے لگا کہ کے لیے اسے روک ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے گڑگڑانے پر اسے روک لیا ، ( یعنی اس پر ہاتھ رکھا اور وہ اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ) ( تفسیر ابن کثیرؒ)
دوسرا معجزہ :
وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (108)
اور اپنا ہاتھ باہر کیا، تو وہ دیکھنے والوں کو سفید چمکتا ہوا نظر آنے لگا ‘‘
تیسری صدی کے عظیم محدث جناب امام أبو يعلى أحمد بن علي الموصلي (المتوفى: 307 ھ) نے ان آیات کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی مطول روایت نقل کی ہے ،جس میں فرعونی دربار میں سیدنا موسیٰ کے ان معجزات کے متعلق فرماتے ہیں کہ :
قال: ائت بآية إن كنت من الصادقين، فألقى عصاه فإذا هي حية عظيمة فاغرة فاها مسرعة إلى فرعون، فلما رآها فرعون قاصدة إليه خافها فاقتحم، عن سريره واستغاث بموسى أن يكفها عنه ففعل، ثم أخرج يده من جيبه فرآها بيضاء من غير سوء - يعني من غير برص - ثم ردها فعادت إلى لونها الأول، فاستشار الملأ حوله فيما رأى، فقالوا له: {إن هذان لساحران يريدان أن يخرجاكم من أرضكم بسحرهما ويذهبا بطريقتكم المثلى} [طه: 63]
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :سیدنا موسیٰ کی دعوت کے جواب میں فرعون کہنے لگا کہ آپ کے پاس اپنے دعویٰ رسالت کے ثبوت میں کوئی آیت یعنی آپ کی صداقت کی نشانی (معجزہ ) ہے تو دکھایئے ، تو سیدنا موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا ‘‘
تو وہ بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ۔ وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور سیدنا موسیٰ سےفریاد کرنے لگا کہ کے لیے اسے روک ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے گڑگڑانے پر اسے روک لیا ، ( یعنی اس پر ہاتھ رکھا اور وہ اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا )
پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے (دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو ، وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو یہ ویسا ہی ہو گیا ۔‘‘
یہ معجزے دیکھ کر فرعون نے اپنے آس پاس موجود وزرا اور مشیروں سے مشورہ کیا ، سب نے کہا کہ :
’’ یہ دونوں (بھائی ) جادو گر ہیں ،جو اپنے جادو کے ذریعے تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں ،
اور ان کا مقصد یہ بھی ہے کہ تمہارے مثالی طریق زندگی (بہترین مذہب ) کو ختم کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔