• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ اخلاص

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سورۃ اخلاص کو ایک مرتبہ مکمل پڑھنے سے ایک تہائی قرآن کا ثواب ملتا ہے کیا مکمل پڑھنا "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے ساتھ پڑھنا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو رات کو 100 بار سورۃ اخلاص پڑھے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہیں گے کہ اے میرے بندے اپنے دائیں ہاتھ پر جنت میں چلا جا۔(اس حدیث کی سند کے بارے میں میں نہیں جانتا یہ حدیث کا مفہوم ہے)
تو کیا رات کو سو مرتبہ پڑھنے سے یہ خوشخبری کے ساتھ ایک تہائی والا ثواب بھی ملے گا۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ البراءۃ یا سورۃ التوبۃ کے علاوہ قرآن مجید فرقان حمید کی تمام تر سورتوں کی پہلی آیت ہے ۔ جب بھی کوئی سورۃ پڑھنے کا کہا جاتا ہے یا اسکے پڑھنے کی فضیلت بیان کی جاتی ہے تو وہ اسکی تمام تر آیات سمیت ہوتی ہے ۔ اور اس سورت کی کوئی بھی ایک آیت چھوڑنے والا اس اجر وثواب کا مستحق نہیں بنتا ہے ۔
مزید تفصیلات کے لیے یہ درس سماعت فرمائیں :
دين خالص || بسم اللہ الرحمن الرحیم
دين خالص || تسميہ کے مسائل
۲۔ یہ روایت ضعیف ہے ، جامع ترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص ح ۲۸۹۸ میں امام ترمذی نے اسے کچھ یوں نقل فرمایا ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو سَهْلٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَتَيْ مَرَّةٍ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ مُحِيَ عَنْهُ ذُنُوبُ خَمْسِينَ سَنَةً إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ عَلَى فِرَاشِهِ فَنَامَ عَلَى يَمِينِهِ ثُمَّ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ مِائَةَ مَرَّةٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقُولُ لَهُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا عَبْدِيَ ادْخُلْ عَلَى يَمِينِكَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ ثَابِتٍ
اسکی سند میں ابو سہل حاتم بن میمون الکلابی البصری صاحب السقط ، ضعیف ہے ۔
امام بخاری اسکے بارہ میں فرماتے ہیں روى منکرا ، منکر روایات بیان کرتا تھا
ابن عدی کہتے ہیں یروی احادیث لایرویہا غیرہ ، ایسی روایات بیان کرتا تھا کہ جنہیں اور کوئی بیان ہی نہیں کرتا۔
ابن حبان کہتے ہیں منكر الحديث على قلته ، يروي عن ثابت ما لا يشبه حديثه ، لا يجوز الاحتجاج به بحال قلیل الروایۃ ہونے کے باوجود منکر الحدیث ہے ،ثابت سے ایسی روایات بیان کرتا تھا جو اسکی روایات سے میل ہی نہیں کھاتیں ، کسی حال میں بھی اسے حجت ماننا جائز نہیں ہے ۔
ابن حجر نے تقریب میں اسے ضعیف کہا ہے
اور ذہبی نے کاشف میں کہا ہے کہ لہ مناکیر اسکے پاس منکر روایات تھیں
۳۔ جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو آپ کا یہ سوال ہی نہیں بنتا ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ البراءۃ یا سورۃ التوبۃ کے علاوہ قرآن مجید فرقان حمید کی تمام تر سورتوں کی پہلی آیت ہے ۔ جب بھی کوئی سورۃ پڑھنے کا کہا جاتا ہے یا اسکے پڑھنے کی فضیلت بیان کی جاتی ہے تو وہ اسکی تمام تر آیات سمیت ہوتی ہے ۔ اور اس سورت کی کوئی بھی ایک آیت چھوڑنے والا اس اجر وثواب کا مستحق نہیں بنتا ہے ۔
محترم رفیق طاہر بھائی! روایت ِحفص کے مطابق بسملہ سورۃ التوبۃ کے علاوہ تمام سورتوں میں پہلی آیت نہیں، بلکہ صرف سورۃ الفاتحۃ میں پہلی آیت ہے۔ آپ مجمع ملک فہد کا مصحف المدینۃ النبویۃ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو صرف سورۃ الفاتحۃ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پر آیت نمبر لگا نظر آئے گا، اور کسی سورت میں بسملہ پر آیت نمبر لگا نہیں نظر آئے گا، ہمارے ہاں چونکہ مصاحف مکمل اہتمام کے ساتھ نہیں چھاپے جاتے لہٰذا ہمارے ہاں بعض مصاحف میں تو سورۃ الفاتحۃ میں بسم اللہ پر آیت دی گئی ہے اور بعض مصاحف میں نہیں دی گئی، لیکن پاکستانی مصاحف میں بھی دیگر کسی سورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پر آیت کا نشان نہیں دیا گیا۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ سورۃ الاخلاص کی آیات آپ کے نزدیک 4 ہیں یا 5؟ سورۃ الکوثر کی آیات 3 ہیں یا 4؟
نیز یہ بتائیے کہ آپ کے نزدیک سورۃ الملک کی آیات مبارکہ 30 ہیں یا 31؟ اگر بسم اللہ کو آیت شمار کیا جائے تو 31 آیات بن جاتی ہیں حالانکہ صحیح احادیث مبارکہ کے مطابق سورۃ الملک کی آیات 30 ہیں۔
فرمان نبویﷺ ہے: «إن سورة من القرآن ثلاثون آية شفعت لرجل حتى غفر له وهي سورة ﴿ تبارك الذي بيده الملك ﴾ » ... صحيح جامع الترمذي: 2891
کہ ’’قرآن کریم میں ایک سورت تیس آیات والی ہے، جس نے ایک شخص کی سفارش کی، حتیٰ کہ اسے بخش دیا گیا، اور وہ سورت ﴿ تبارك الذي بيده الملك ﴾ (یعنی 29 ویں پارے کی پہلی سورت: سورۃ الملک) ہے۔‘‘
مزید تفصیل کیلئے شيخ محمد امین شنقیطی﷫ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں :
"اختلف العلماء في البسملة ، هل هي آية من أول كل سورة ، أو من الفاتحة فقط ، أو ليست آية مطلقاً ، أما قوله في سورة النمل : (إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِاِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) : فهي آية من القرآن إجماعاً . وأما سورة " براءة " : فليست البسملة آية منها اجماعاً ، واختُلف فيما سوى هذا ، فذكر بعض أهل الأصول أن البسملة ليست من القرآن ، وقال قوم : هي منه في الفاتحة فقط ، وقيل : هي آية من أول كل سورة ، وهو مذهب الشافعي رحمه الله تعالى .
ومِن أحسن ما قيل في ذلك : الجمع بين الأقوال : بأن البسملة في بعض القراءات - كقراءة ابن كثير - آية من القرآن ، وفي بعض القرآءات : ليست آية ، ولا غرابة في هذا .
فقوله في سورة "الحديد" (فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) لفظة (هُوَ) من القرآن في قراءة ابن كثير ، وأبي عمرو ، وعاصم ، وحمزة ، والكسائي ، وليست من القرآن في قراءة نافع ، وابن عامر ؛ لأنهما قرءا ( فإن الله الغني الحميد ) ، وبعض المصاحف فيه لفظة (هُوَ) ، وبعضها ليست فيه .
وقوله : (فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ) ، (وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا) الآية ، فالواو من قوله ( وقالوا ) في هذه الآية من القرآن على قراءة السبعة غير ابن عامر ، وهي في قراءة ابن عامر ليست من القرآن لأنه قرأ (قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا) بغير واو ، وهي محذوفة في مصحف أهل الشام ، وقس على هذا .
وبه تعرف أنه لا إشكال في كون البسملة آية في بعض الحروف دون بعض ، وبذلك تتفق أقوال العلماء " انتهى .
" مذكرة في أصول الفقه " ( ص 66 ، 67 ) .
والله أعلم

الاسلام سوال وجواب
واللہ تعالیٰ اعلم
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم انس نضر صاحب !
سورۃ التوبہ کے سوا باقی تمام تر سور میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پہلی آیت ہے !!!
اور یہ تو آپکو معلوم ہے کہ تعدادبتلاتے ہوئے عموما کسر کو گرا دیا جاتا ہے ۔ لہذا سورۃ الملک کو "تیس آیات پر مشتمل ہونا "کہنا اسی قبیل سے ہے ۔
اسی قسم کے مزید اشکالات و اعتراضات کا جواب میں نے یہاں دیا ہے
دين خالص || بسم اللہ الرحمن الرحیم
دين خالص || تسميہ کے مسائل
آپ اسے ضرور سنیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم انس نضر صاحب !
سورۃ التوبہ کے سوا باقی تمام تر سور میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پہلی آیت ہے !!!
میرے محترم بھائی! علوم القرآن میں ایک علم ’عد الآی‘ (یعنی آیات کے شمار کا) ہے۔ جس پر ہمارے اسلاف قرائے کرام﷭ کی کافی کتب موجود ہیں۔ (جس پر معروف ترین کتاب امام دانی﷫ کی ’البیان فی عد آی القرآن‘ ہے) یہ علم ہمارے ہاں جامعہ میں کلیہ القرآن میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے قراءات سبعہ وعشرہ بمعہ ان علوم کے پاکستان کے کبار قراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی﷾، قاری محمد ادریس العاصم﷾، قاری احمد میاں تھانوی﷾ سے سیکھ رکھی ہیں، قاری محمد ابراہیم میر محمدی﷾ اور قاری محمد ادریس العاصم﷾ سے عشرہ کبریٰ پڑھ رکھی ہے، اور میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں اس کی تدریس بھی کرتا ہوں، ولله الحمد والمنة!
رسم عثمانی کی طرح آیاتِ قرآنی کا علم بھی ’مجموعی طور پر‘ توقیفی ہے، جس میں آج اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ بسملہ کو سورۃ البراءۃ کے علاوہ ہر سورت کی آیت شمار کیا جائے یا نہیں؟ اس کا تعلّق بھی علم عد الآی سے ہے، اگر تو آپ اس علم میں مہارت رکھتے ہیں تو بات چیت آگے بڑھائی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن کریم کی متواتر قراءات ہیں، اور جن قراء کی طرف یہ قراءات منسوب ہیں، انہوں نے آیاتِ قرآنی کے مختلف شمار (جو سات ہیں) کو اپنایا ہوا ہے، ہم روایتِ حفص پڑھتے ہیں جس میں ’کوفی شمار‘ کو لیا گیا ہے، جس کے مطابق آیاتِ قرآنی کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 6236 ہے، جبکہ دیگر قرائے کرام نافع، ابن کثیر، ابو عمرو، ابن عامر، حمزہ، کسائی، ابو جعفر، یعقوب اور خلف﷭ نے جو مختلف شماروں کو اپنایا ہوا ہے، ان کے نزدیک قرآن کریم کی آیات کی تعداد: 6204، 6205، 6214، 6217، 6218، 6219، 6226 اور 6232 ہے۔ (ترتیب صعودی کے مطابق)
المختصر یہ کہ اگر بسملہ کو سورۃ التوبہ کے علاوہ ہر سورت (یعنی 113 سورتوں) کے ابتداء میں پہلی آیت شمار کیا جائے، تو روایتِ حفص کے مطابق آیات کی تعداد 6236 نہیں، بلکہ 6349 ہوجائے گی، جس کا قائل نبی کریمﷺ کے زمانے سے آج تک کوئی ایک شخص بھی نہیں۔ اسی لئے میں نے آپ سے سوال پوچھا تھا کہ آپ کے نزدیک سور الاخلاص، الکوثر، الملک وغیرہ کی آیات کی تعداد کیا ہے؟ جس کا آپ نے دو ٹوک واضح جواب نہ دیا۔ البتہ آپ کے جواب
اور یہ تو آپکو معلوم ہے کہ تعدادبتلاتے ہوئے عموما کسر کو گرا دیا جاتا ہے ۔ لہذا سورۃ الملک کو "تیس آیات پر مشتمل ہونا "کہنا اسی قبیل سے ہے ۔
سے یہ مترشّح ہو رہا ہے کہ آپ کے نزدیک شائد سورۃ الملک کی آیات کی تعداد 31، سورۃ الاخلاص کی آیات کی تعداد 5، سورۃ الکوثر کی آیات کی تعداد 4 ہے، اور حدیث مبارکہ میں سورۃ الملک کی آیات 30 بطور کسر بتائی گئی ہیں۔ جو سراسر اس صحيح حديث مبارکہ کی غلط تاویل ہے۔ اس طرح گویا آپ کے نزدیک سورة التوبةکے علاوہ تمام سورتوں کی آیات کی تعداد میں ایک ایک کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا؟؟؟ گویا آپ کے نزدیک دُنیا جہاں کے تمام مصاحف (جن میں بسملہ کو ہر سورۃ کی پہلی آیت نہیں بنایا گیا۔) مسلسل غلط چھپ رہے ہیں؟
میرے محترم! ’بسملہ‘ ایک مستقل آیت ہے، اور یہ سورۃ النمل کی ایک آیت کریمہ ﴿ إنه من سليمن وإنه بسم الله الرحمن الرحيم ﴾ کا جزء ہے، لیکن اسے ہر سورت کی پہلی آیت قرار دینا صحیح نہیں، البتہ ہر سورت کے شروع میں اسے برکت، دو سورتوں کے درمیان فرق کرنے اور دیگر مقاصد کیلئے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
آپ کے علم میں ہوگا کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تحت شائع ہونے والے مجلّے ’رشد‘ کا ہم نے علوم القراءات کا ضخیم خاص نمبر ’قراءات نمبر‘ تین جلدوں میں (تقریباً 3000 صفحات میں) نکالا تھا، یہ خاص نمبر ہماری ویب سائٹ کتاب وسنت ڈاٹ کام میں پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہیں، ان میں سے آپ درج ذیل مضامین سے اس سلسلے میں مزید استفادہ کر سکتے ہیں:
1. نص قرآنی کے متعلّق چند علوم کا تعارُف از حافظ محمد مصطفیٰ راسخ (رشد قراءات نمبر 1؍530)
2. علم الفواصل ... توقیفی یا اجتہادی از محسن علی (رشد قراءات نمبر: 3؍869)
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اگر آپ اس موضوع پر مستقل بحث کرنا چاہتے ہیں تو ان بحث والی پوسٹوں کو ایک نئے موضوع کے طور پر علوم قرآن والے فورم میں لے چلیں تاکہ اس پر تفصیلی بحث ہو جائے ۔
باقی جوباتیں آپ نے پیش کی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جو " دلیل " بن سکے کیونکہ دلیل صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہی ہے ۔۔!!!
علم عد الآی اور دیگر علوم قرآن میں اس فقیر إلى اللہ الغنی کو اللہ رب العزت نے وثوق و رسوخ عطاء فرما رکھا ہے فللہ الحمد على ذلک۔
اسی بناء پر انتہائی مختصر اور جامع سا جملہ آپ کی ساری بحث کا جواب ہے کہ :
اس بارہ میں ایک سے زائدآیات کو اکٹھا ، بغیر فصل ، درمیان میں وقفہ کیے بغیر پڑھنے پر جس طرح عصر حاضر کے قراء و مجودین سنت کی مخالفت پر ہیں ایسے ہی بسم اللہ کو ہر سورت کی آیت نہ شمار کرنے پر بھی ناحق پر ہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم بھائی! جس طرح ساری بحث کو آپ نے ایک انتہائی مختصر اور جامع جملے میں نمٹا دیا، تو اگر قاری نہ ہونے کے باوجود آپ کا موقف یہ ہے کہ آج تمام دنیا کے مصاحف اس سلسلے میں غلط چھپ رہے ہیں؟ اگر چودہ صدیوں میں کوئی ایک شخص بھی روایت حفص میں 6349 آیات ہونے کا قائل آپ کے علاوہ نہیں، اور اگر آپ اس بارے میں ہمارے قرائے اسلاف جن سے متواتر قراءات ثابت ہیں، کو بیک جنبش قلم غلط سمجھتے ہیں، میرا بھی ایک جملے میں جواب سن لیجئے:
کہ میں اس نازک موضوع پر آپ جیسے محقّق سے بحث نہیں کر سکتا۔
اللہ آپ کو خوش رکھیں!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔ میں نے یہ قطعا نہیں کہا کہ مصاحف غلط چھپ رہے ہیں ۔!!!!
۲۔ محترم بات دلائل اور انکی قوت کی ہوتی ہے۔
اور یہ ایک علمی بحث ہے آپ اپنے دلائل پیش فرمائیں کتاب وسنت سے اورمیں اپنے دلائل پیش کرتا ہوں ہوسکتا ہے کہ اللہ ہم میں سے اس شخص کو صحیح بات سمجھا دے جسے سمجھ نہیں ہے ۔
اور حق پر ہوتے ہوئے بحث برائے افہام وتفہیم سے ہاتھ کھینچنا نہ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا منہج ہے اور نہ صحابہ وتابعین ومحدثین و سلف صالحین کا ۔
میں اپنے موقف پر دلائل رکھتا ہوں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے مگر یہاں اس لیے نہیں تحریر کررہا کہ یہ سوال وجواب کا فورم ہے ، اسی بناء پر عرض کیا تھا کہ اس بحث کو اسکے خاص فورم یعنی علوم قرآن کے فورم میں منتقل کر دیا جائے تووہاں کھل کر بحث ہو سکے گی ۔ إن شاء اللہ تعالى۔
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
محترم بھائی! جس طرح ساری بحث کو آپ نے ایک انتہائی مختصر اور جامع جملے میں نمٹا دیا، تو اگر قاری نہ ہونے کے باوجود آپ کا موقف یہ ہے کہ آج تمام دنیا کے مصاحف اس سلسلے میں غلط چھپ رہے ہیں؟ اگر چودہ صدیوں میں کوئی ایک شخص بھی روایت حفص میں 6349 آیات ہونے کا قائل آپ کے علاوہ نہیں، اور اگر آپ اس بارے میں ہمارے قرائے اسلاف جن سے متواتر قراءات ثابت ہیں، کو بیک جنبش قلم غلط سمجھتے ہیں، میرا بھی ایک جملے میں جواب سن لیجئے:
کہ میں اس نازک موضوع پر آپ جیسے محقّق سے بحث نہیں کر سکتا۔
اللہ آپ کو خوش رکھیں!
محترم قاری انس نضر بھائی ۔ اس میں ناراض ہونی والی کوئی بات نہیں ۔ اللہ نے آپ کو اس حوالے سے علم دیا ہے تو اس کو شیئر کرنے میں کیا حرج ہے ۔ نازک موضوع ضرور ہے لیکن دلائل کے ساتھ بات کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا ۔ ہم بھی کوشش کریں گئے کہ اس حوالے سے کچھ شیئر کرسکیں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کے علوم میں اصل مسئلہ سند کا ہے۔ ہر قاری کے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک اسناد موجود ہیں۔ قراء اپنے شیوخ سے قرآن کی تلقی وتلاوت کو متواتر روایات سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں اور اس کی اسناد معروف ہیں۔قراء کا کہنا ہی ایک دلیل ہے کیونکہ وہ سند کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ یہ سند وہ والی نہیں جو حدیث میں معروف ہے کہ کسی شیخ سے صحیح بخاری کا اجازہ حاصل کر لیا۔
دین میں اصل اہمیت سند کی ہے، اس کو اسلاف نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے:
لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء۔
اگر اسناد نہ ہوتیں تو جو شخص چاہتا جو مرضی کہہ دیتا۔
الاسناد من الدین۔
سند دین میں سے ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول تو بہت ہی اہم ہے:
العلم ما قال فیہ حدثنا
وماسوی ذلک وسواس الشیاطین
علم اصل میں وہی ہے جس میں حدثنا ہواور اس کے سوا جو علم ہے وہ شیاطین کے وساوس ہیں۔
قرآن کی آیات کتنی ہیں ، یہ انتہائی نازک مسئلہ ہے اور اس کے ماہرین فن قراء کرام ہیں جن کے پاس تلقی وتلاوت کی اسناد محفوظ ہیں۔
ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم علوم القرآن کی چند کتابوں کا مطالعہ کر کے کبار قراء کرام پر نقد شروع کر دیں۔قاری کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ عالم نہیں ہوتا۔ یہ قاری کا غلط تصور ہے جو فی زمانہ عام ہو گیا ہے۔ ہمارے قراء سلف ، علماء بھی تھے۔کچھ محققین قرآن سے ایک دفعہ ایک مجلس میں قاری حمزہ مدنی صاحب کی بحث ہوئی تو انہوں نے ان سے قرآن کا ایک حصہ تلاوت کرنے کا مطالبہ کیا اور وہ صحیح تلاوت نہ کر سکے۔ہمارے ہاں قرآن کے بارے اکثر محققین کا یہی عالم ہے اور وہ قرآن کی ادائیگی فن تجوید و قراء ات کی روشنی میں کرنے سے قاصر ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ علوم قرآن اور قراء ات ایک سمندر ہے ۔ کسی بھی فن میں اسی شخص کی بات معتبر ہوتی ہے جو اس فن کے ماہرین میں سے ہو ۔پرویز ، غامدی ، تمناعمادی اگر خود سے حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کر کےمحدثین پر نقد کریں تومتجددین کہلائیں اور ہم خودسے علوم قرآن اور قراء ات کی کتابوں کا مطالعہ کر کے قراء کرام پر نقد شروع کر دیں اور پھر بھی اہل الحدیث کہلائیں تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟
قرآن میں بحث تو اس سے ہو سکتی ہے جس کے پاس کوئی سند ہو اور وہ قرآن کی ادائیگی صحیح طرح سے کرنے کے قابل ہو۔ اگر کسی پاس قراء کی سند نہیں ہے اور وہ قرآن کی ادائیگی صحیح طور پر کرنے سے قاصر ہے تو اسے اس مسئلہ میں قراء کی سند پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی اتباع کرنی چاہیے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیں حدیث نے قرآن نہیں سکھایا اور نہ ہی احادیث میں مکمل قرآن بیان ہوا ہے اور نہ ہی دینی کتابوں سےہم کبھی قرآن سیکھ سکتے تھے ۔ہمیں قرآن قراء نے سکھایا ہے ۔ کیا ہمارے پاس قراء کے علاوہ قرآن کو سیکھنے کا کوئی اور مصدر ہے ۔ جب ہم نے قرآن کی ادائیگی میں یعنی تلقی وتلاوت میں قراء پر اعتماد کیا ہے تو آیات قرآنیہ میں ان پر اعتماد کرناتو ایک بہت ہی چھوٹی با ت ہے۔کوئی بھی شخص محض مصاحف سے بھی قرآن نہیں سیکھ سکتا۔ بلکہ مصاحف کی اغلاط قراء درست کرتے ہیں اور دنیا میں جہاں بھی قرآن شائع ہوتا ہے ، وہاں قراء کی تصدیق سے شائع ہوتا ہے۔مصحف بھی اپنی تصحیح کے لیے قراء کا محتاج ہے۔قرآن کے علم میں اصل قراء ہیں۔
آپ میں سے ہر ایک ذرا غور کرے کہ اسے قرآن کس نے پڑھایا، قراء نے پڑھایا ہے۔ جیسے قاری صاحب نے کہا پڑھناہے، ہم میں سے ہر ایک نےاسے ویسے ہی پڑھا ہے، اگرچہ بعض اوقات لکھا ہوا کچھ اور ہوتا ہے لیکن ہم رسم اور مصحف میں لکھے ہوئے پر نہیں چلتے بلکہ قاری صاحب پر اعتماد کرتے ہیں مثلا’بسم اللہ مجریھاومرسھا‘ میں ’مجریھا‘ پر کھڑی زیر ہے لیکن ہم میں کوئی بھی کھڑی زیر نہیں پڑھتا ہے بلکہ ’مجرے‘ پڑھتا ہے۔اگرکتابوں سے قرآن اور اس کا علم حاصل ہوتا تو آج قرآن اس امت میں متفق علیہ نہ ہوتا۔
ایک انجینئر کا فیلڈ میڈیکل سائنس نہیں ہے اور اگر وہ کامیاب انجینئر ہونے کا مطلب یہ سمجھے کہ میں ایک کامیاب ڈاکٹر بھی ہوں تو لوگوں کی جانیں ضائع کرے گا۔ اسی طرح ایک عام عالم دین اور محقق کا فیلڈ قرآن اور قراء ات نہیں ہیں۔ ہاں! اگر کسی نے قراء کرام سے اس علم وفن کو سیکھا ہے اور تلقی وتلاوت کی وادیوں کو سر کیا ہے تو وہ اس اہل ہے کہ اس فن میں اپنی کوئی رائے دےسکے ۔
آخری اور فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہم میں ہر ایک اپنے آپ سے سوال کرے کہ وہ قراءات متواترہ کا قائل ہے یا نہیں؟ اگر تو میں قراء ات متواترہ کا قائل ہوں تو میرا یہ اعتراض ہی لغو ہے کہ آیات قرآنیہ کو شمار کرنے میں قراء کا متبع نہیں ہوں کیونکہ قراءا ت کا یک ادنی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ قراء ات میں قراء کے وصل وفصل کے طرق پڑھتے ہوئے بسم اللہ کو آیت کا حصہ شمار کرنا یا نہ کرنا قراءات متواترہ کا ایک جزء اور حصہ ہے۔
اور اگر میں قراء ات متواترہ کا قائل نہیں ہوں تو پھر میں تحقیق میں آزاد ہوں۔ جب میں نے عشرہ قراء ات کے فروش و اصول کےہزاروں اختلافات کو قراء کے کہنے پر مان لیا ہے جبکہ یہ جمیع اختلافات قراء ات نہ تو احادیث میں موجود ہیں اور نہ ہی مطبوعہ مصاحف میں، محض قراء کے بیان پر ان پر اعتماد کیا جاتا ہے اورکتابیں طبع کی جاتی ہیں تو پھر آیات کا اختلاف قرا ء سے لینے میں کیا حرج ہے؟
اس بات کو ایک اور طرح سے سمجھیں۔ معذرت کے ساتھ ، کیا ہم میں کوئی بھائی عشرہ قراء ات کے ہر اصولی اور فرشی اختلاف کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل دکھا سکتا ہے یقینا قراء کے علاوہ ان ہزاروں قراء ات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ حدیث میں تو یہ ہے کہ ایک سے زائد قراء ات یا سبعہ احرف ہیں لیکن وہ سبعہ احرف ہیں کیایا کہاں ہیں؟ یہ حدیث میں نہیں ہے۔ یہ توآپ کو قراء نے بتلایا ہے۔جب قرآن اور قراءا ت اور الفاظ قرآن میں قراء پر اعتماد ہے تو آیات کی گنتی میں ان پر اعتماد میں کیا مانع ہے؟
واللہ اعلم بالصواب
 
Top