• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ الفاتحہ سے پہلے دعائے استفتاح

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
۱۔ اس عمومی قاعدہ سے ہم نے انکارنہیں کیا ہے ۔ہاں البتہ اتنا ضرور کہا ہے کہ
یہاں پر یہ لفظ تو عام ہیں لیکن عموم پر باقی نہیں ہیں اسکی بہت سی دلیلیں ہیں ۔ جی ہاں وہ تمام تر دلائل اسکے عموم کو خاص کردیتے ہیں جن کی بناء پر آپ قراء حضرات ایک ہی کمرے میں بیٹھ سارے بآواز بلند تلاوت فرماتے ہیں ۔
میرے اقوال کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ آیت ان مشرکوں کے جواب میں تھی جو والغوا فیہ کہتے تھے اور اب بھی اپنے عموم کی بناء پر تلاوت قرآن کے دوران لغویات سے ممانعت پر دلالت کرتی ہے ، البتہ اس دوران تلاوت کی جاسکتی ہے
رفیق طاھر بھائی، یہاں کچھ بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ الفاظ عام ہیں یا نہیں؟ یا عام بھی ہیں اور خاص بھی ہیں؟

نیز ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ، عمومات سے استدلال اپنی جگہ، لیکن کیا مقتدی کیلئے قرات کی ممانعت میں خودبخود خارج از قرآن چیزیں داخل نہیں ہو جاتیں؟ یعنی جب خاص طور پر مقتدی کیلئے حکم ہے کہ امام کی تلاوت قرآن کے وقت مقتدی تلاوت قرآن تک نہ کرے ، اور وجہ بھی آ گئی احادیث میں کہ ’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں‘ لہٰذا فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، تو خارج از قرآن تلاوت کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ کیا دعائے استفتاح کو بھی یہ مقام حاصل ہے کہ اس کے بغیر نماز نہ ہو؟ وضو خانے پر بیٹھنے والا، قرات کی کلاسز وغیرہ میں تو لفظ مقتدی کا حصر نہیں، تو کیا خاص مقتدی کیلئے ایسی کوئی شرعی دلیل موجود ہے، جو اس عموم کی تخصیص کر دے کہ اسے فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھنا ہے؟

چونکہ یہاں بات نماز کے دوران کی ہے اس لیے قاری کی تلاوت کے دوران نمازی دعائے استفتاح پڑھ سکتا ہے ۔ آیات رحمت پر دعاء ، اورآیات عذاب پر پناہ مانگ سکتا ہے ۔۔۔۔الخ
نماز نبوی از ڈاکٹر شفیق الرحمٰن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’مقتدی کیلئے آیات رحمت پر دعاء اور آیات عذاب پر پناہ مانگنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔‘۔یا تو امام کیلئے نفلی نماز میں خود ہی آیات رحمت و عذاب پر دعا و پناہ مانگنے کی دلیل ہے یا خارج از نماز تلاوت کیلئے دلیل موجود ہے۔ لیکن ایسی کوئی دلیل نہیں کہ مقتدی اور وہ بھی فرض نماز میں آیات کا جواب دے۔ آپ کا مؤقف برعکس ہے تو کیا آپ کے پاس اس کی کوئی خاص دلیل موجود ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
السلام علیکم
لا تفعلو ا الا بام القرآن میں ’حصر‘ ہے اور کلمہ حصر اس بات کا متقاضی ہے کہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہ پڑھا جائے، چاہے قراء ت ہو یا غیر قراء ت، ورنہ تو حصر کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا ہے۔
2۔ اس کلمہ حصر سے استفتاح کے استثنا کی دلیل چاہیے جبکہ ابھی تک آپ نے جو عمومی دلائل پیش کیے ہیں کہ تلاوت قرآن کی موجودگی میں تلاوت بھی کی جا سکتی ہے اور دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں تو وہ غیر نماز کے دلائل ہیں۔ یہ روایت جو آپ نقل فرما رہے ہیں، نماز کے بارے میں ہے لہذا نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھنے کی دلیل چاہیے یا دوسرے الفاظ میں کلمہ حصر کے استثنا کی دلیل چاہیے۔
3۔ جہاں تک آیات جزا وسزا پر نماز میں دعائیں پڑھنے کا معاملہ ہے تو یہ اختلافی مسئلہ ہےیعنی امام تو ان دعاؤں کو پڑھے گا جبکہ مقتدیوں کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ نصوص سے امام کا دعاپڑھنا ثابت ہے اور امام کےدعا پڑھنے کی صورت میں قراء ت امام سے کوئی تعارض نہیں رہتاہے ۔
4۔ ’تفعلوا‘ سے اگر ’تقرؤوا‘ مراد لے بھی لی جائے تو قراء ت کا لفظ عربی زبان میں قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے آتا ہے۔اور یہ بات عربی زبان کے ادنی سے طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے۔ قرا علیک السلام اور قرا الکتاب معروف استعمالات ہیں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
السلام علیکم
لا تفعلو ا الا بام القرآن میں ’حصر‘ ہے اور کلمہ حصر اس بات کا متقاضی ہے کہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہ پڑھا جائے، چاہے قراء ت ہو یا غیر قراء ت، ورنہ تو حصر کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا ہے۔
2۔ اس کلمہ حصر سے استفتاح کے استثنا کی دلیل چاہیے جبکہ ابھی تک آپ نے جو عمومی دلائل پیش کیے ہیں کہ تلاوت قرآن کی موجودگی میں تلاوت بھی کی جا سکتی ہے اور دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں تو وہ غیر نماز کے دلائل ہیں۔ یہ روایت جو آپ نقل فرما رہے ہیں، نماز کے بارے میں ہے لہذا نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھنے کی دلیل چاہیے یا دوسرے الفاظ میں کلمہ حصر کے استثنا کی دلیل چاہیے۔
3۔ جہاں تک آیات جزا وسزا پر نماز میں دعائیں پڑھنے کا معاملہ ہے تو یہ اختلافی مسئلہ ہےیعنی امام تو ان دعاؤں کو پڑھے گا جبکہ مقتدیوں کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ نصوص سے امام کا دعاپڑھنا ثابت ہے اور امام کےدعا پڑھنے کی صورت میں قراء ت امام سے کوئی تعارض نہیں رہتاہے ۔
4۔ ’تفعلوا‘ سے اگر ’تقرؤوا‘ مراد لے بھی لی جائے تو قراء ت کا لفظ عربی زبان میں قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے آتا ہے۔اور یہ بات عربی زبان کے ادنی سے طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے۔ قرا علیک السلام اور قرا الکتاب معروف استعمالات ہیں۔
1۔ یہاں مستثنى منہ کو آنجناب بھول ہی گئے ہیں کہ وہ قراءت ہے ۔ اور قراءت بھی معہود یعنی قراءت قرآن ہے ۔ تو گویا یہ حصر قراءت قرآنی کو فاتحہ میں محصور کرر ہاہے ۔
خوب سمجھ لیں۔
۲۔ یعنی آپ بھی مان ہی گئے کہ غیر نماز میں آیت فاستعموا لہ وأنصتوا اپنے عموم واطلاق پر باقی نہیں ہے ۔ تو اس سے نماز کو آپ تاحال مستثنی کیے ہوئے ہیں ۔ یعنی اس آیت کے عموم میں جو دلائل تخصیص پیدا کرتے ہیں ان دلائل سے آپ نے نماز کو خارج کر رکھا ہے ۔ از راہ کرم اس تخصیص سے نماز کو خارج کرنے کی دلیل عنایت فرمائیں ۔
نیز یہ کہ سورۃ الفاتحہ کے علاوہ قراءت کی ممانعت کی دلیل تو موجود ہے ، جو کہ میں دے چکا ہوں آپ تلاوت کے علاوہ باقی سب کچھ نہ پڑھنے کی دلیل مرحمت فرمائیں ۔ کلمہ " لا تفعلوا " کی میں وضاحت کر چکا کہ وہ لا تقرءوا کے معنى میں ہے کیونکہ مستثنى منہ قراءت ہی ہے اور وہ بھی معہود قراءت جو نماز کے دوران کی جاتی ہے نہ کہ ہمہ قسم کے کلمات کا پڑھنا۔ فتدبر !!!!
۳۔ جب مسئلہ کو آپ اختلافی مان رہے ہیں تو یقینا حق توکسی ایک فریق کے پاس ہو گا دو نوں کے پاس نہیں ۔ ہم اس حق کی تلاش میں ہیں ۔ فافہم !
۴۔ اسکا جواب میں دے چکا ہوں کہ قراءت سے مراد معہود قراءت ہے جس سے منع کیا جا رہا ہے اور وہ فاتحہ کے بعد قراءت قرآن ہے ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
رفیق طاھر بھائی، یہاں کچھ بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ الفاظ عام ہیں یا نہیں؟ یا عام بھی ہیں اور خاص بھی ہیں؟

نیز ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ، عمومات سے استدلال اپنی جگہ، لیکن
۱۔ کیا مقتدی کیلئے قرات کی ممانعت میں خودبخود خارج از قرآن چیزیں داخل نہیں ہو جاتیں؟ یعنی جب خاص طور پر مقتدی کیلئے حکم ہے کہ امام کی تلاوت قرآن کے وقت مقتدی تلاوت قرآن تک نہ کرے ،
۲۔ اور وجہ بھی آ گئی احادیث میں کہ ’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں‘ لہٰذا فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، تو خارج از قرآن تلاوت کیسے جائز ہو سکتی ہے؟
۳۔ کیا دعائے استفتاح کو بھی یہ مقام حاصل ہے کہ اس کے بغیر نماز نہ ہو؟ وضو خانے پر بیٹھنے والا، قرات کی کلاسز وغیرہ میں تو لفظ مقتدی کا حصر نہیں،
۴۔ تو کیا خاص مقتدی کیلئے ایسی کوئی شرعی دلیل موجود ہے، جو اس عموم کی تخصیص کر دے کہ اسے فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھنا ہے؟


۵۔ نماز نبوی از ڈاکٹر شفیق الرحمٰن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’مقتدی کیلئے آیات رحمت پر دعاء اور آیات عذاب پر پناہ مانگنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔‘۔یا تو امام کیلئے نفلی نماز میں خود ہی آیات رحمت و عذاب پر دعا و پناہ مانگنے کی دلیل ہے یا خارج از نماز تلاوت کیلئے دلیل موجود ہے۔ لیکن ایسی کوئی دلیل نہیں کہ مقتدی اور وہ بھی فرض نماز میں آیات کا جواب دے۔ آپ کا مؤقف برعکس ہے تو کیا آپ کے پاس اس کی کوئی خاص دلیل موجود ہے؟
۱۔ نہیں ہرگز داخل نہیں ہوتی ہیں !!!
کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صرف اور صرف قراءت قرآن سے منع فرما رہے ہیں ۔
۲۔ خارج از قرآن کے لیے لفظ تلاوت نہیں بولا جاتا ہے ہاں قراءت کالفظ بول لیا جاتا ہے مگر وہ یہاں مراد نہیں کیونکہ میں اس بات کی وضاحت کرچکا کہ جس قراءت سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا وہ قراءت قرآن تھی ۱
۳۔ ہم نے یہ دعوى کبھی نہیں کیا ۔ ہاں اتناضرور کہا ہے کہ یہ پڑھنا افضل بہتر اور موجب ثواب ہے اور جائز ہے ۔
۴۔ خاص مقتدی کے لیے فاتحہ کے علاوہ کچھ اور قراءت نہ کرنے کی دلیل میں مسند احمد کے حوالے ذکر کرچکا ہوں اسے بغور دوبارہ پڑھیے ۔!!!
۵۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے ۔
جبکہ ہمارا دعوى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جو کام بھی سر انجام دیا ہو خواہ وہ فرض نماز میں ہو یا نفل نماز میں امامت کی حالت میں ہو انفرادی حالت میں وہ مقتدی اور اامام سب کے لیے جائز ہوتا ہے الا کہ استثناء کی دلیل موجود ہو یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ کا خاصہ ہونے پر کوئی قرینہ ہو۔
اور صحیحین کی احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم آیت عذاب پر پناہ اور آیات رحمت پر دعاء مانگا کرتے تھے ۔ لہذا اپنے عموم واطلاق کی بناء پر یہ رخصت ورعایت مقتدی اور امام دونوں کے لیے ہے کیونکہ اسکے امام کے ساتھ خاص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قراء ت میں معہود کی بات تو اس وقت درست ہوتی جبکہ ’لاتفعلوا‘ کی جگہ ’لاتقرووا‘ ہوتا۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’لاتقرووا‘ کی جگہ ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ استعمال کرنا اس لیےتھا کہ کوئی شخص اس ممانعت کو قراءت کے ساتھ خاص نہ سمجھ لے۔
پس ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ کے استعمال میں ممانعت عام ہے اور اس کی تاویل ’لا تقرووا‘ سے کرنا درست نہیں ہے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لاتفعلوا“ کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال اس لیے کیے کہ قراء ت اور غیر قراءت دونوں کو شامل ہو سکیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ’لاتقرووا‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں یہ وہم باقی رہ سکتا تھا کہ اس سے مراد معہود قراء ت ہے اور اس کو ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ سے ختم کیاگیاہے۔واللہ اعلم بالصواب
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ رفیق طاھر بھائی۔ میں نے ساری بحث دوبارہ پڑھی ہے اور اگر میں غلط نہیں سمجھا تو اس پوری کا مدار اس مرکزی نکتہ پر ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کی قرات بالجہر کے دوران مقتدی کو ’صرف اور صرف قرات قرآن‘ سے منع کیا ہے؟
جس کی دلیل آپ نے یہ دی ہے:
۱

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ مِنْ صَلَاتِهِ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ "، قَالَ: قُلْنَا: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا "
اور حدیث میں مذکور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لا تفعلوا بمعنى لاتقرؤوا ہیں کیونکہ سیاق متن میں تقرءون کے الفاظ ہیں ۔
یہاں لاتفعلو بمعنی لاتقرؤو لینے کی بجائے ، لاتفعلو میں لا تقرؤو کو شامل نہیں سمجھا جانا چاہئے؟ مطلب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو امام کے پیچھے قرآن کی قرات کیا کرتے تھے، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لا تفعلوا کہہ کر بشمول قرات قرآن ہر قسم کی قرات کو منع کر دیا؟

اسی بات پر ابوالحسن علوی صاحب نے لکھا:
۔ ۴۔’تفعلوا‘ سے اگر ’تقرؤوا‘ مراد لے بھی لی جائے تو قراء ت کا لفظ عربی زبان میں قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے آتا ہے۔اور یہ بات عربی زبان کے ادنی سے طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے۔ قرا علیک السلام اور قرا الکتاب معروف استعمالات ہیں۔
اور آپ کا جواب تھا:
۴۔ اسکا جواب میں دے چکا ہوں کہ قراءت سے مراد معہود قراءت ہے جس سے منع کیا جا رہا ہے اور وہ فاتحہ کے بعد قراءت قرآن ہے ۔
اس جواب کی دلیل؟ جبکہ آپ کے جواب ہی پر یہ اعتراض کیا گیا ہے۔ قرات کو قرات قرآن ہی میں حصر کرنے کی آپ کے پاس کیا خاص دلیل ہے؟ جبکہ حدیث میں تو لا تفعلوا کے الفاظ قرات قرآن سے کچھ زیادہ ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

پھر احادیث میں فاتحہ کے علاوہ قرات کی ممانعت کے ساتھ یہ صراحت موجود ہے کہ کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لہٰذا یہ تو پڑھ لیا کرو۔ لیکن اس کے علاوہ قرات نہ کرو۔ اس سے کیا خودبخود ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ ہے کہ سوائے اس قرات (قرآن یا خارج از قرآن) کے کچھ نہ پڑھا جائے کہ جس کے نہ پڑھنے سے نماز ہی نہ ہوتی ہو۔؟ جبکہ آپ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دعائے استفتاح کے نہ پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے۔۔؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ رفیق طاھر بھائی۔ میں نے ساری بحث دوبارہ پڑھی ہے اور اگر میں غلط نہیں سمجھا تو اس پوری کا مدار اس مرکزی نکتہ پر ہے کہ کیا رسول اللہﷺ نے امام کی قرات بالجہر کے دوران مقتدی کو ’صرف اور صرف قرات قرآن‘ سے منع کیا ہے؟
جی شاکر بھائی! آپ بالکل صحیح سمجھے ہیں کہ اس پوری بحث کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ جیسے نبی کریمﷺ نے صرف ’قراءت خلف الامام‘ سے منع فرمایا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں۔ میں کافی پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا، اور اسی لئے میں نے محترم رفیق طاہر بھائی سے گزارش کی تھی کہ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون جیسے بہت سے دلائل کو صرف مشرکین کے ساتھ خاص کرنے کی بجائے آج تک عام رکھیں، جس کی تخصیص اگرچہ فاتحہ خلف الامام والی صحیح وصریح احادیث مبارکہ اور دیگر کئی چیزوں سے ہوجاتی ہے۔ گویا استماع و انصات کا حکم آج بھی باقی ہے، جو اگرچہ اپنے عموم پر نہیں، جن جن کی دلیل ملتی جائے گی وہ خاص ہوتی جائیں گی۔ اسی لئے میں نے رفیق بھائی سے تقاضا کیا تھا کہ آپ قراءت خلف الامام کے ممنوع ہونے کی دلیل دیں، جواب میں انہوں نے فرمایا کہ آپ میرا لیکچر سن لیں، میں نے عرض کی کہ پتہ نہیں میں آپ کے لیکچر سے آپ کے دلائل سمجھ پاؤں یا نہیں، آپ ہی مجھے اپنے لیکچر سے مختصراً قراءت خلف الامام کی سب سے مضبوط دلیل مہیا کریں، جس کے جواب میں انہوں نے مسند احمد والی حدیث پیش کی ہے، جو قراءت خلف الامام کے ممنوع ہونے کے متعلق مضبوط ترین دلیل نہیں، بلکہ ایک محتمل دلیل ہے، جس کو استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
خلاصہ یہ ہے کہ ان صحیح وصریح نصوص سے دعائے استفتاح کو خاص کرنے کی کوئی دلیل محترم رفیق بھائی کے پاس موجود نہیں، اگر ہے، تو براہ مہربانی پیش کریں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم شاکر صاحب ۱
جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا سوال ہی قراءت کے متعلق ہے تو لا تفعلوا سے صرف اور صرف قراءت ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ سیاق کلام اسی بات پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
محترم انس نضر صاحب !
میں اس دلیل سے دعائے استفتاح کو خاص نہیں کر رہا ہوں ۔ بلکہ اس دلیل سے صرف اور صرف قراءت علاوہ از فاتحہ کے ممنوع ہونے کو ثابت کرر ہا ہوں ۔
اور یہ دلیل جو مسند احمد سے میں نے پیش کی ہے یہ محتمل ہے ہی نہیں ۔ یہ محکم دلیل ہے ۔ محتمل تو تب ہوتی جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے لعلکم تذکرون اللہ خلف إمامکم والإمام یقرأ ، ( او ما یفید مفادہا) ، جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے لعلکم تقرؤون کہہ کر قراءت کو خاص فرمایا ہے ۔!!!
خوب سمجھ لیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں نے رفیق بھائی سے تقاضا کیا تھا
خلاصہ یہ ہے کہ ان صحیح وصریح نصوص سے دعائے استفتاح کو خاص کرنے کی کوئی دلیل محترم رفیق بھائی کے پاس موجود نہیں، اگر ہے، تو براہ مہربانی پیش کریں۔
جواب میں رفیق بھائی نے میرے سوال کا دوٹوک جواب دینے کی بجائے پھر اپنی پرانی بات دہرادی کہ
محترم انس نضر صاحب !
میں اس دلیل سے دعائے استفتاح کو خاص نہیں کر رہا ہوں ۔ بلکہ اس دلیل سے صرف اور صرف قراءت علاوہ از فاتحہ کے ممنوع ہونے کو ثابت کرر ہا ہوں ۔
اور یہ دلیل جو مسند احمد سے میں نے پیش کی ہے یہ محتمل ہے ہی نہیں ۔ یہ محکم دلیل ہے ۔ محتمل تو تب ہوتی جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے لعلکم تذکرون اللہ خلف إمامکم والإمام یقرأ ، ( او ما یفید مفادہا) ، جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے لعلکم تقرؤون کہہ کر قراءت کو خاص فرمایا ہے ۔!!!
خوب سمجھ لیں ۔
گویا رفیق بھائی کے پاس دعائے استفتاح کو خاص کرنے کی کوئی ایک بھی صریح وصحیح دلیل موجود نہیں!!
کیا میری بات صحیح ہے؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
واہ کیا بات ہے اسے کہتے ہیں مناظرانہ رنگ
ازراہ کرم ذراہ وہ عموم بھی بتائیے جس سے میں دعائے استفتاح کو خاص کررہاہوں ؟؟؟؟
میں بارہا کہہ چکا کہ میں نے دعائے استفتاح کو کبھی خاص نہیں کیا ہے میں نے تو صرف اور صرف لا تفعلوا کے عموم سے قراءت فاتحہ کو خاص کیا ہے ۔!!!! اور اسکی دلیل بھی دی ہے ۔
کیونکہ میں صرف دعائے استفاح ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ پڑھنے اور کہنے کا قائل ہوں کہ جسکی وضاحت میں کر چکا ۔
گویا آپکے پاس دلائل ختم ہو چکے اور آپ کوئی ایسی دلیل نہیں پیش کرسکے جس سے فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی اور پڑھنے کی ممانعت نکلتی ہو ۔!!!
رہی بات آیت فاستمعوا لہ وانصتوا کی تو اسکے بارہ میں تو آنجناب بھی تسلیم فرما چکے ہیں کہ یہ اپنے عموم پر نہیں بلکہ اس سے بہت کچھ مستثنى ہے اور خاص ہے ۔
لہذا اگر آپکے پاس کوئی " دلیل " موجود ہے فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی اور نہ پڑھنے کی تو پیش فرمائیں ۔ کیونکہ آپ نے اگر لا تفعلوا کو لا تقرؤوا کے معنی میں تسلیم نہیں کیا مگر اسے محتمل تو کہہ ہی دیا ہے تو آپکے نظریہ کے مطابق احتمال ہے لہذا اس سے آپکا استدلال باطل ہے ۔
 
Top