• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈیا پر مجہول آئی ڈی کےساتھ دین کی تبلیغ کا حکم

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جہاں تک یہ سوال ہے کہ مجہول آئی ڈی بنانا جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں تو میری راے میں اسے جھوٹ کہنا درست نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر یہ اصول اگرچہ درست ہے کہ جب نام پوچھا جائے تو اس حقیقی نام پوچھنا ہی مراد ہوتا ہے لیکن فورموں کی دنیا میں ایسا نہیں۔
نیٹ فورمز میں اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آپ اس فورم پر کیا نام استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہاں یوزر نیم پوچھا جاتا ہے،وہاں حقیقی نام مراد و مطلوب ہی نہیں ہوتا۔
یہ مسئلہ اصل میں عرف سے متعلق ہے اور فورمز کا عرف یہی ہے کہ وہاں کوئی بھی نام رکھا جا سکتا ہے حقیقی نام بتانا یا رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔
حاصل یہ کہ فورمز پر کسی بھی نام سے آئی ڈی بنائی جا سکتی ہے خواہ وہ معلوم ہو یا مجہول اور اس طرح تبلیغ بھی کی جاسکتی ہے؛کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں کہ دعوت کے باب میں داعی اور مبلغ کے لیے ہر حال میں اپنا نام پتا بتلانا ضروری ہے۔
البتہ جہاں سوال متعین ہو وہاں خلاف واقعہ جواب دینا جھوٹ شمار ہو گا،مثلاً جنس کے بارے میں یہ سوال کہ آپ مرد ہیں یا عورت تو یہاں درست جواب دینا ضروری ہے بہ صورت دیگر کذب ہو گا۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آج کے واقعات کے لیے راوی کا معلوم ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟جیسا کہ علامہ صاحب کے حوالے کوئی واقعہ بیان کرنے کی بات ہے تو یہ بھی قابل غور ہے کہ اس کی روایت کو رد کرنا بھی ضروری نہیں جب کہ مجہول کی رویت حدیث ہر حال میں مردود ہوتی ہے؛دوسرے اسے ماننا یا نہ ماننا سرے سے ضروری ہی نہیں لہٰذا یہ دلیل زیر بحث مسئلے پر منطبق نہیں ہوتی۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
باقی اگر کوئی شخص قرآن کی کوئی آیت، یا حدیث کا کوئی جزء یا کسی عالم کی کوئی رائے کتاب کے متعین حوالے کے مطابق پیش کر دیتا ہے اور اس میں اپنی رائے نہیں دیتا تو یہ میری مراد نہیں تھی۔
اگر یہ مراد نہیں تو پھر عنوان درست فرما دیں کہ تبلیغ کا لفظ عام ہے اور جو آپ کی مراد ہے وہ اصلاً تبلیغ کے معروف معنی میں آتا ہی نہیں؛اس کا تعلق اجتہاد ،استدلال اور فتویٰ سے ہے تو عنوان یہ ہونا چاہیے کہ مجہول آئی ڈی سے کوئی فتویٰ یا اجتہاد پیش کرنا اور اسے قبول کرنا جائز ہے یا نہیں اور پھر اس پر کتاب و سنت سے دلائل پیش فرمائیں۔جزاکم اللہ خیراً
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
انسان کی پہچان معروف نام ہی ہوتا ہے اور اسے اپنا معروف نام ہی استعمال کرنا چاہئے ۔خواہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی ۔کفار کے مقابلے میں استعمال کرنا ہو یا بدعتیوں کے مقابلے میں ۔
مجہول آئی ڈی سے بات کرنے والے کی بات قرآن و حدیث کے موافق ہے تو موافقت کی وجہ سے لی جائے گی مجہول آئی ڈی کی وجہ سے نہیں ۔اگر کسی کی بھی قرآن و حدیث کے مخالف ہے تو رد کر دی جائے گی خواہ معروف آئی ڈی سے کرے یا مجھول سے !!!
مجھول آئی ڈی میں بے شمار دھوکے اور جھوٹ ہیں ۔۔۔۔۔۔
معروف نام ہی اصل ہے مجہول نام اصل نہیں ہے ہر ہر جگہ اصل نام ہی استعمال کرنا چاہئے ۔
لکھنا ایک عمل ہے جو کوئی بھی لکھتا ہے قیامت کو اپنا عمل دیکھ لے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن و حدیث میں اصل نام استعمال کرنے کے بے شمار دلائل ہیں ۔
مجھول نام استعمال کرنے کی مذمت کی جائے گی ۔
انسان کو صاف گو ہونا چاہئے ،نہ کہ اس کے الٹ۔
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سوشیل میڈیا میں ”آئی ڈی“ کا استعمال:
  1. اصلی نام اور قلمی نام کے بعد فرد کی ”نیٹ آئی ڈی“ ایک جدید ترین ”ضرورت“ ہے۔ یہ آئی ڈی ای میل سمیت سوشیل میڈیا کے دیگر سائیٹس جیسے فیس بک، اور فورمز وغیرہ میں بھی استعمال ہوتی ہے۔
  2. ہم ای میل آئی ڈی، اگر چاہیں بھی تو اپنے اصلی نام ، قلمی نام سے نہیں بنا سکتے، اگر اسی نام سے دنیا بھر میں کسی نے بھی ہم سے پہلے ہی اسی نام کی آئی ڈی بنا لی ہے۔ پھر ہمیں مجبوراً یا تو اپنے نام میں کچھ ردو بدل، ترمیم و اضافہ کرنا پڑتا ہے یا پھر کوئی اور فرضی نام کی آئی ڈی بنانی پڑتی ہے۔ مشرقی اور مسلمان خواتین بھی اپنے اصلی شناخت والے نام سے آئی ڈی بنانی پسند نہیں کرتیں۔
  3. اسی طرح سوشیل میڈیا میں بھی اگر کوئی نام پہلے سے معروف یا رجسٹرڈ ہو تو الگ اپنی الگ پہچان بنانے کے لئے کوئی اور نام اختیار کرتے ہیں۔
  4. لیکن جو احباب نیٹ ورلڈ سے باہر بھی تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے کوئی نام (اصلی یا قلمی) استعمال کرتے ہیں، وہ بالعموم اپنے اسی نام کی نیٹ آئی ڈی استعمال کرنا چاہتے ہیں، الا یہ کہ تیکنیکی طور پر ایسا ممکن نہ ہو۔
  5. جو لوگ صرف اور صرف ”سوشیل میڈیا رائٹر“ ہیں۔ ان کے لئے کوئی فرق نہین پڑتا کہ وہ اصلی نام سے لکھیں یا قلمی نام سے یا ہر جگہ الگ الگ نام سے۔ ایسے ”رائٹرز“ کی کوئی خاص ”اہمیت“ بھی نہیں ہوتی کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا کوئی خاص نوٹس بھی نہیں لیا جاتا الا یہ کہ ان کے ”فرینڈز سرکل“ کے احباب لائک اور واہ واہ کریں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جہاں تک یہ سوال ہے کہ مجہول آئی ڈی بنانا جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں تو میری راے میں اسے جھوٹ کہنا درست نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر یہ اصول اگرچہ درست ہے کہ جب نام پوچھا جائے تو اس حقیقی نام پوچھنا ہی مراد ہوتا ہے لیکن فورموں کی دنیا میں ایسا نہیں۔
نیٹ فورمز میں اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آپ اس فورم پر کیا نام استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہاں یوزر نیم پوچھا جاتا ہے،وہاں حقیقی نام مراد و مطلوب ہی نہیں ہوتا۔
یہ مسئلہ اصل میں عرف سے متعلق ہے اور فورمز کا عرف یہی ہے کہ وہاں کوئی بھی نام رکھا جا سکتا ہے حقیقی نام بتانا یا رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔
حاصل یہ کہ فورمز پر کسی بھی نام سے آئی ڈی بنائی جا سکتی ہے خواہ وہ معلوم ہو یا مجہول اور اس طرح تبلیغ بھی کی جاسکتی ہے؛کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں کہ دعوت کے باب میں داعی اور مبلغ کے لیے ہر حال میں اپنا نام پتا بتلانا ضروری ہے۔
البتہ جہاں سوال متعین ہو وہاں خلاف واقعہ جواب دینا جھوٹ شمار ہو گا،مثلاً جنس کے بارے میں یہ سوال کہ آپ مرد ہیں یا عورت تو یہاں درست جواب دینا ضروری ہے بہ صورت دیگر کذب ہو گا۔
میری رائے میں یہ طے کرنا کہ فورم والوں نے نام پوچھا ہے تو ان کا مقصد کیا ہے، اسے عرف کے اصول سے طے کرنے کی بجائے فورم کی انتظامیہ کی طرف رجوع کر لیا۔ جب متکلم خود اپنے کلام کی تفسیر پر قادر ہو تو پھر اس مفسر کلام کی موجودگی میں شاید کسی دوسرے اصول سے اس کلام کی تشریح کم از کم اصول فقہ کی روشنی میں معتبر نہیں ہے۔ اور عرف بھی وہ معتبر ہوتا ہے جو شرع کے موافق ہو۔ اگر عرف ہی یہ بن جائے جیسا کہ بن چکا ہے کہ لوگ اپنی جنس بھی چھپاتے ہیں تو کیا یہ معتبر ہو گا؟ آپ نے کہا نہیں ہو گا؟ تو پھر نام چھپانے میں عرف کیسے معتبر ہو گا۔ میری رائے میں یہ عرف فاسد ہے۔ جزاکم اللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
آج کے واقعات کے لیے راوی کا معلوم ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟جیسا کہ علامہ صاحب کے حوالے کوئی واقعہ بیان کرنے کی بات ہے تو یہ بھی قابل غور ہے کہ اس کی روایت کو رد کرنا بھی ضروری نہیں جب کہ مجہول کی رویت حدیث ہر حال میں مردود ہوتی ہے؛دوسرے اسے ماننا یا نہ ماننا سرے سے ضروری ہی نہیں لہٰذا یہ دلیل زیر بحث مسئلے پر منطبق نہیں ہوتی۔
اگر ہم اصول حدیث پر غور کریں تو یہ اپنی اصل میں مطلق خبر کے اصول ہیں نہ کہ دینی خبر کے کیونکہ خود اصول حدیث کی بنیاد یا اصل مطلق خبر کے اصول ہیں جو اصول حدیث کے وضع کرنے سے پہلے معاشرے میں یونانی فلسفہ ومنطق وغیرہ کی ابحاث میں موجود تھے۔ اور ان اصول احادیث کے اثبات میں جو کتاب وسنت سے دلائل دیے جاتے ہیں، وہ بھی اکثر وبیشتر مطلق خبر کے دلائل ہیں نہ کہ دینی خبر کے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات کی آیت کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے۔ اس سے مراد محض دینی خبر نہیں ہے بلکہ مطلق خبر مراد ہے۔ کم از کم اصول تفسیر یہی بتلاتے ہیں۔ اس لیے خبر کی بحث کو صرف حدیث تک محدود کرنا درست نہیں ہے جبکہ حدیث خود خبر ہی کی ایک قسم ہے۔ اصول حدیث اور اصول فقہ میں خبر کی جو بحثیں ہیں کیا وہ ان علوم کے مدون ہونے سے پہلے فلسفہ ومنطق میں نہیں تھیں؟ بالکل تھیں۔ تو جب اصول حدیث کے اثبات کے قرآن وسنت میں موجود دلائل عام ہیں تو ہم خبر سے مراد مطلق خبر کیوں نہ لیں؟

آپ نے کہا کہ آج اگر کوئی شخص اگر کسی عالم دین کے حوالے سے کوئی واقعہ بیان کریں تو اس کی تصدیق یا تکذیب ضروری نہیں ہے۔ مجھے آپ سے اس مسئلہ میں اتفاق نہیں ہے۔ اس طرح تو جو چاہے گا، مجہول آئی ڈی سے کسی معزز مسلمان پر، جیسے چاہے گا، کیچڑ اچھالے گا۔ کیا کسی مسلمان کی عزت کو محفوظ کرنا مقاصد شریعت میں سے نہیں ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اگر یہ مراد نہیں تو پھر عنوان درست فرما دیں کہ تبلیغ کا لفظ عام ہے اور جو آپ کی مراد ہے وہ اصلاً تبلیغ کے معروف معنی میں آتا ہی نہیں؛اس کا تعلق اجتہاد ،استدلال اور فتویٰ سے ہے تو عنوان یہ ہونا چاہیے کہ مجہول آئی ڈی سے کوئی فتویٰ یا اجتہاد پیش کرنا اور اسے قبول کرنا جائز ہے یا نہیں اور پھر اس پر کتاب و سنت سے دلائل پیش فرمائیں۔جزاکم اللہ خیراً
جہاں تک مجھے بات سمجھ آتی ہے، وہ یہ ہے کہ تبلیغ کوئی شیئ نہیں ہے بلکہ ایک ذریعہ ہے، منہج ہے، طریق کار ہے۔ اس طریق کار سے آپ کتاب وسنت اسکین شدہ صفحات دوسروں تک پہنائیں یا اپنا دینی فہم پھیلائیں، یہ دونوں تبلیغ میں شامل ہیں۔ اپنے فتوی اور اجتہاد کو جب آپ نشر کریں گے، یا پھیلائیں گے، یا عام کریں گے، یا سوشل میڈیا پر دیں گے تو کیا یہ عمل تبلیغ نہیں کہلائے گا؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میراخیال ہے کہ دونوں نقطہ ہاے نظر سامنے آچکے ہیں ؛ابوالحسن علوی صاحب نے جو مزید نکات پیش کیے ہیں ان پر بھی میرے تحفظات ہیں
اور مناسب یا ضروری ہوا تو میں انھیں بیان بھی کر دوں گا؛
اس بحث کی روشنی میں عام ناظر یا قاری خود فیصلہ کر سکتا ہے۔
فورمز کی دنیا میں اب تک مجہول آئی ڈیز کے ساتھ تبلیغ کے جواز پر تقریبآ اتفاق ہی رہا ہے؛
عالم عرب میں سلفیوں کے بلا مبالغہ بیسیوں فورمز موجود ہیں اور ان پر مجہول آئی ڈیز کے ساتھ بہت قیمتی دینی معلومات اور آرا(فتاویٰ) پیش کیے جاتے ہیں
جن سے ہم آج تک بے کھٹک استفادہ کرتے آئے ہیں اور وہاں اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
میں نے ابھی فورم کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ کیا ہے جنھیں علوی صاحب ہی نے تحریر کیا ہے وہاں ایسی کوئی ہدایت نہیں کہ نام اصل ہو
بل کہ اس ضمن میں سرے سے کوئی ہدایت ہی موجود نہیں؛
پھر وہاں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ

(یہ ایک دعوتی و تبلیغی فورم ہے نہ کہ دار الافتاء، )
اس سے تو پتا چلتا ہے کہ دعوت و تبلیغ اور شے ہے اور فتویٰ شے دیگر لیکن اب فرمایا جا رہا ہے کہ فتویٰ بھی تبلیغ ہی ہے!!
جب تبلیغ کے باب میں مجہول ہونامانع شرعی ہے تو اتنا بنیادی قاعدہ ہنوز ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟!اب تک تو بہت سے مجہولین یہ کام کر رہے ہیں۔
پھر اگر کوئی فتویٰ کے ذریعے تبلیغ کرتا ہے تو اس کے لیے الگ سے کوئی اصول بھی موجود نہیں،اس کی کیا وجہ ہے؟؟؟
اصل بات یہ ہے کہ یہ کوئی بحث ہی نہیں ایک نکتہ سنجی ہے،جتنی مرضی فرمالیں؛البتہ میں تو اب یہ سوچ رہا ہوں کہ فورم کے جن لوگوں سے میں واقف نہیں ان کی پوسٹیں ہی پڑھنا ترک کردوں کہ وہ میرے لیے مجہول ہیں؛
کہیں ایسا نہ ہوں میں حرام کا مرتکب ہو جاؤں،وہ تو ہو ہی رہے ہیں!!

اور ہاں ،اب جب کہ اصول حدیث کو تبلیغ اور پھر فتویٰ و اجتہاد پر چسپاں کرنے کا مبارک کام شروع ہو گیا ہے تو بات محض جہالت ہی تک کیوں محدود رہے؟؟
اب جرح و تعدیل اور انقطاع و شذوذ کی بحثیں بھی ہونی چاہییں
کہ صرف کسی شخصیت کا عالم معلوم میں آجانا ہی تو اس کی آرا سے استناد کے لیے کافی نہیں
بل کہ اس کا عادل ہونا بھی تو ضروری ہے
اور کسی کے پاس علم ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ وہ عدالت سے بھی متصف ہے ممکن ہے وہ فاسق اور کاذب ہو ؛اب باقاعدہ اس پر بھی گفت گو ہونی چاہیے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا؟
اور اس کا جھوٹ کس درجے کا ہے ؟

پھر اگر جرح وتعدیل میں اختلاف ہو جائے تو
یہ فیصلہ بھی ہونا چاہیے کہ جرح مفسر ہے یا مبہم؟ ؛ وہلم جرا
اراکین فورم سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے جملہ کوائف اور مقامی ثقہ عالم کا تزکیہ فراہم کریں بہ صورت دیگر محض نقل و اقتباس تک محدود رہیں اوراپنی کوئی دینی راے یا فتویٰ بہ طور تبلیغ بھی پیش نہ کریں!!
میرا کسی خاص شخصیت پر طنز کا ارادہ نہیں ؛اگر ایسا محسوس ہو تو اسے شوخی ِ تحریر تک محدود سمجھنا چاہیے۔عفواً ،وجزاکم اللہ خیرا
 
Top