• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سو قتل کرنے کے باوجود معافی اللہ اکبر کبیرہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سو قتل کرنے کے باوجود معافی اللہ اکبر کبیرہ


اے میرے بھائیو اور بہنو ذرا غور تو کرو میرا رب کتنا غفور الرحیم ہے :

کبھی آؤ تو صحیح سچے دل سے توبہ کے لئے ، دیکھنا کہیں دیر نہ هو جائے ابھی وقت ہے اور اگلے سانس میں شاید وقت نہ ملے

حضرت ابو سعید سعد بن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے قتل کیے تھے، پس اس نے زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک راہب (پادری) کے بارے میں بتایا گیا، پس وہ اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس (میں ) نے ننانوے آدمی قتل کیے ہیں ،

کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟

اس (راہب) نے کہا: "نہیں "، پس اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس طرح اس نے سو آدمیوں کے قتل کی تعداد کو مکمل کیا۔ اس نے پھر کسی بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس نے سو آدمی قتل کیے ہیں ، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟

اس (عالم) نے کہا: ہاں ! اور کون ہے جو اس کے اور اس کی توبہ کے درمیان حائل ہو؟ ایسے کرو تم فلاں جگہ چلے جاؤ کیونکہ وہاں کے لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ،

پس تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور سنو اپنی زمین کی طرف واپس نہ آنا، کیو نکہ وہ برائی کی زمین ہے۔ پس وہ اس (بستی) کی طرف روانہ ہو گیا، ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ اسے موت آگئی (اب اس کی روح قبض کرنے کیلئے) رحمت اور عذاب کے فرشتے آگئے اور دونوں کے درمیا ن جھگڑا شروع ہو گیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: "وہ تائب ہو کر آیا تھا اور اللہ کی طرف دل کی توجہ سے آیا تھا" (ہم اس کی روح قبض کریں گے) عذاب کے فرشتوں نے کہا: "اس نے کبھی نیکی وبھلائی کا کام کیا ہی نہیں (لہٰذا یہ جہنمی ہے)۔ پس ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اپنے درمیان حکم (فیصلہ کنندہ) بنالیا۔ اس نے کہا: "دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کی پیمائش کرو، وہ ان دونوں میں سے جس کے قریب ہو گا وہی اس کا حکم ہو گا۔ پس انھوں نے اسے ناپا تو اس کو اس زمین کے زیادہ قریب پایا جس طرف جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ لہٰذا رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح کو قبض کرلیا۔''

(متفق علیہ)
نیز صحیح ہی کی ایک روایت ہے۔ ''وہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب تھا۔ لہٰذا اسے اس بستی کے نیک لوگوں میں سے کردیا گیا۔''

صحیح ہی کی ایک روایت میں سے ہے :''اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آرہا تھا) کہا کہ دور ہوجا اور اس زمین کو (جس طرف جارہا تھا) کہا کہ قریب ہوجا اور پھر فرمایا کہ ان دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کو ناپو، (جب انھوں نے ناپا) تو انھوں نے اسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب پایا تو اسے بخش دیا گیا'' اور ایک روایت میں ہے: ''وہ اپنے سینے کے سہارے سَرک کردوسری طرف ہوگیا۔''

توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''یقیناً اللہ عزوجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرما لیتا ہے جب تک وہ حالت نزع کو نہ پہنچ جائے''۔

(ترمذی، حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: صحیح بشواھدہ۔ا خرجہ الترمذی (3537)، وابن ماجہ (4252)، واحمد (6160 و6408)، والبغوی فی (شرح السنہ) (1306)، وابن حبان (2449)، والحاکم (2574)۔

عبد الرحمن بن ثابت کے علاوہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور وہ صدوق ہے اور کبھی غلطی کرتا ہے اور اس کی حدیث احسن درجے کی ہے۔ حضرت ابوذر اور بشیر بن کعب کی حدیث اس کے شواہد میں سے ہے، گویا امام نووی نے اسی لیے شرح مسلم (2517) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

''اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور تو بہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی تو بہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے۔'' (سورۃ النساء:17)

پس جس نے موت سے پہلے توبہ کرلی تو گویا اس نے جلد توبہ کرلی۔


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

''انکی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اور ان کی بھی توبہ قبول نہیں جو کفر ہی پر مرجائیں ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔'' (سورۃ النساء:18)

ترجمہ :''اور ہم نے نبی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ارادے سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ (جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے؟ پہلے سرکشی کرتا اور مفسدوں میں داخل رہا؟ سو آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔'' (سورۃ یونس: 90۔92)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
موت اور قیامت سے پہلے توبہ کر لو

حضرت ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے اور وہ دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے (یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) حتٰی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث: اخرجہ مسلم (2759)



اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اے مومنو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ''

اور فرمایا:

''اور یہ کہ تم اپنے رب کی طرف استغفار کرو، پھر اسکی طرف رجوع کرو''
(سورۃ النور :31)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

''اے مومنو! اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرو۔''

(سورۃ التحریم :8)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لو !!!


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث اخرجہ مسلم (2703)۔

''جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔''

(سورۃ الانعام:158)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے !!!


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل میں اپنا اونٹ گم کردیا ہواور پھر اس نے اسے پالیا ہو۔''

(متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہو تا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر سوار ہو کہ اچانک وہ سواری اس سے چھوٹ جائے اور اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو، وہ اس سے مایوس ہو کر کسی درخت کے سائے تلے آکرلیٹ جائے جبکہ وہ اپنی سواری سے (مکمل طور پر) مایوس ہوچکا ہو کہ اتنے میں اچانک سواری اس کے سامنے آکھڑی ہواور وہ اس کی مہار تھام کر خوشی کی شدت میں کہہ دے: "اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں "۔ شدتِ فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (10211۔فتح) ،و مسلم (2747) (8)۔ والروایہ الثانیہ عند مسلم (2747) (7)۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10426254_727710167264276_6209456240276428612_n.jpg



اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے !!!


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل میں اپنا اونٹ گم کردیا ہواور پھر اس نے اسے پالیا ہو۔''​

(متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہو تا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر سوار ہو کہ اچانک وہ سواری اس سے چھوٹ جائے اور اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو، وہ اس سے مایوس ہو کر کسی درخت کے سائے تلے آکرلیٹ جائے جبکہ وہ اپنی سواری سے (مکمل طور پر) مایوس ہوچکا ہو کہ اتنے میں اچانک سواری اس کے سامنے آکھڑی ہواور وہ اس کی مہار تھام کر خوشی کی شدت میں کہہ دے: "اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں "۔ شدتِ فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے۔''​

(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (10211۔فتح) ،و مسلم (2747) (8)۔ والروایہ الثانیہ عند مسلم (2747) (7)۔
 
شمولیت
اکتوبر 06، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
سو قتل کرنے کے باوجود معافی اللہ اکبر کبیرہ


اے میرے بھائیو اور بہنو ذرا غور تو کرو میرا رب کتنا غفور الرحیم ہے :

کبھی آؤ تو صحیح سچے دل سے توبہ کے لئے ، دیکھنا کہیں دیر نہ هو جائے ابھی وقت ہے اور اگلے سانس میں شاید وقت نہ ملے

حضرت ابو سعید سعد بن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے قتل کیے تھے، پس اس نے زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک راہب (پادری) کے بارے میں بتایا گیا، پس وہ اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس (میں ) نے ننانوے آدمی قتل کیے ہیں ،

کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟

اس (راہب) نے کہا: "نہیں "، پس اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس طرح اس نے سو آدمیوں کے قتل کی تعداد کو مکمل کیا۔ اس نے پھر کسی بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس نے سو آدمی قتل کیے ہیں ، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟

اس (عالم) نے کہا: ہاں ! اور کون ہے جو اس کے اور اس کی توبہ کے درمیان حائل ہو؟ ایسے کرو تم فلاں جگہ چلے جاؤ کیونکہ وہاں کے لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ،

پس تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور سنو اپنی زمین کی طرف واپس نہ آنا، کیو نکہ وہ برائی کی زمین ہے۔ پس وہ اس (بستی) کی طرف روانہ ہو گیا، ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ اسے موت آگئی (اب اس کی روح قبض کرنے کیلئے) رحمت اور عذاب کے فرشتے آگئے اور دونوں کے درمیا ن جھگڑا شروع ہو گیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: "وہ تائب ہو کر آیا تھا اور اللہ کی طرف دل کی توجہ سے آیا تھا" (ہم اس کی روح قبض کریں گے) عذاب کے فرشتوں نے کہا: "اس نے کبھی نیکی وبھلائی کا کام کیا ہی نہیں (لہٰذا یہ جہنمی ہے)۔ پس ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اپنے درمیان حکم (فیصلہ کنندہ) بنالیا۔ اس نے کہا: "دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کی پیمائش کرو، وہ ان دونوں میں سے جس کے قریب ہو گا وہی اس کا حکم ہو گا۔ پس انھوں نے اسے ناپا تو اس کو اس زمین کے زیادہ قریب پایا جس طرف جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ لہٰذا رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح کو قبض کرلیا۔''

(متفق علیہ)
نیز صحیح ہی کی ایک روایت ہے۔ ''وہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب تھا۔ لہٰذا اسے اس بستی کے نیک لوگوں میں سے کردیا گیا۔''

صحیح ہی کی ایک روایت میں سے ہے :''اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آرہا تھا) کہا کہ دور ہوجا اور اس زمین کو (جس طرف جارہا تھا) کہا کہ قریب ہوجا اور پھر فرمایا کہ ان دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کو ناپو، (جب انھوں نے ناپا) تو انھوں نے اسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب پایا تو اسے بخش دیا گیا'' اور ایک روایت میں ہے: ''وہ اپنے سینے کے سہارے سَرک کردوسری طرف ہوگیا۔''

توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)
یہاں ایک سوال میرے ذہن میں آیا اور مجھے تنگ کر رہا ہے، قران وحدیث کی خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی بھی آیت اور حدیث ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہو سکتی۔ اب دیکھیں اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اس قتل سے ایک خاندان متاثر ہوا، ہو سکتا ہے کہ اس قتل کیے جانے والے کے بچے ہوں وہ بھی متاثر ہوئے اور نجانے کتنے ہی لوگ متاثر ہوئے، ان کے حقوق صلب ہوئے اور اگر 100 قتل ہوئے تو 100 خا ندانوں کے حقوق صلب ہوئے جو کہ حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ اللہ کا کہنا یہ ہے کے حقوق اللہ میں سے میں جب جسےجتنا چاہوں معاف فرما دوں پر حقوق العباد میں معاف نہیں کروں گا جبتک متعلقہ شخص معاف نہ کرے، پھر 100 بندوں کا قاتل کیسے جنت میں گیا۔ یہ واقعہ ہمارے ہاں ایک قل کے ختم کے موقع پر سنایا گیا جو کہ آج کی تاریخ میں ہی ہوا ۔جب میں نے کسی درس سے آئے مولوی صاحب جنہوں نے یہ واقعہ سنایا ان کے سامنے یہ سوال رکھا تو ان کا جواب یہ تھا کہ دیکھیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہوتا یہ صرف عوام کو اللہ کی رحمت کی طرف ابھارنے کیلئے سنائے جاتے ہیں۔ برائے کرم مہربانی فرما کر اس پر روشنی ڈالیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
متفق علیہ حدیث پر اس طرح کہنا کہ ایسا کوئی واقعہ وقوع پذیر هوا ہی نہیں ، کسی صاحب کی لا علمی هو تو اللہ معاف فرمائے وہ غفور الرحیم هے ۔ اگر کوئی یہ حدیث پڑهے یا سنے کہ جو متفق علیہ هے تو اس کیا گفتگو کی جا سکتی هے ۔

اللہ جسے چاہی بخش دے ، ناچیز اگر یہ کہے کہ بخشنے کی صورت میں مقتولین کے جملہ وارثین کو اپنی جانب سے بهرپائی کردے اور مزید بهی انعام و اکرام سے نواز دے تو کیا اللہ اس امر پر قادر نہیں هے ؟
معامل اگر اٹهے گا تو یوم الحساب ہی اٹهے گا اس میں تو اختلاف هو ہی نہیں سکتا ، تو میرا سوال هے کہ اللہ کی عطاء اور بخشش ، اس کے انعامات اور اکرامات پر اعتراض اس دنیا میں کرنیوالے کی حیثیت کیا؟

اور کیا روز حساب کسی بندہ کی تاب هوگی چوں و چرا کرنیکی؟
 
شمولیت
اکتوبر 06، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
متفق علیہ حدیث پر اس طرح کہنا کہ ایسا کوئی واقعہ وقوع پذیر هوا ہی نہیں ، کسی صاحب کی لا علمی هو تو اللہ معاف فرمائے وہ غفور الرحیم هے ۔ اگر کوئی یہ حدیث پڑهے یا سنے کہ جو متفق علیہ هے تو اس کیا گفتگو کی جا سکتی هے ۔

اللہ جسے چاہی بخش دے ، ناچیز اگر یہ کہے کہ بخشنے کی صورت میں مقتولین کے جملہ وارثین کو اپنی جانب سے بهرپائی کردے اور مزید بهی انعام و اکرام سے نواز دے تو کیا اللہ اس امر پر قادر نہیں هے ؟
معامل اگر اٹهے گا تو یوم الحساب ہی اٹهے گا اس میں تو اختلاف هو ہی نہیں سکتا ، تو میرا سوال هے کہ اللہ کی عطاء اور بخشش ، اس کے انعامات اور اکرامات پر اعتراض اس دنیا میں کرنیوالے کی حیثیت کیا؟

اور کیا روز حساب کسی بندہ کی تاب هوگی چوں و چرا کرنیکی؟
ماشاءاللہ۔ بھائی جان اللہ آپ کو جزاخیر دے۔ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے اور آپکو مزید آسانیاں دے تاکہ آپ دوسرے لوگوں کی رہنمائی کر سکیں۔ اللہ ہم سب لوگوں کے علم اور عمل میں اضافہ فرمائے اور ہمیں اس دنیا میں بھی ایمان پر ز نگدہ رکھے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پرکرے۔آمین ثمآمیں۔ جزاک اللہ خیر-
 
Top