• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاہ کار عورت اور اس کی سزا

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
احادیث مبارکہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی، قرآن اور حدیث میں تضاد ہو ہی نہیں سکتا، ظاہری الفاظ میں اگر تضاد نظر آ رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقی تضاد ہے، بلکہ ہمارے سمجھنے میں کوئی مسئلہ ہے، اسی لیے چاہیے کہ حدیث کا انکار کرنے کی بجائے کسی عالم دین کے قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی لی جائے، دراصل آپ الیاس صاحب کی تقلید کا شکار ہیں، آپ نے ذہن میں یہ بات رکھ لی ہو گی کہ میرا استاد زیادہ قرآن فہمی جانتا ہے اور وہ غلط بات کر نہیں سکتا، اسی لیے جب وہ کسی حدیث کو نہ سمجھنے کی بنا پر انکار کرتا ہے تو آپ بھی اس کے پیچھے چل کر حدیث کا انکار کر دیتے ہیں ، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ شخصیت پرستی ہرگز نہیں ہونی چاہیے اور ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبت کرنی چاہیے۔
ارسلان بھائی میں تقلید اور اتباع دونوں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتا ہو اپنے استاد محترم جناب الیاس ستار صا حکب ے نھیں ہر گز نھیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی میں تقلید اور اتباع دونوں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتا ہو اپنے استاد محترم جناب الیاس ستار صا حکب ے نھیں ہر گز نھیں
تقلید کتاب و سنت کے خلاف کسی کی بات ماننے کو کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اللہ کی وحی کے شریعت کا کوئی حکم نہیں بتاتے تھے، لہذا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کے بارے میں میں نے کہیں نہیں پڑھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اطاعت اور اتباع کے بارے میں پڑھا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾
ترجمہ(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ آل عمران،آیت 31)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَوَلَّوْا۟ عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿20﴾
ترجمہ: اے ایمان والو الله اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن کر اس سے مت پھرو(سورۃ الانفال،آیت20)
قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا۟ ۚ وَمَا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ﴿56﴾
ترجمہ: کہہ دو الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو پھر اگر منہ پھیرو گے تو پیغمبر تو وہی ہے جس کا وہ ذمہ دار ہے اورتم پر وہ ہے جو تمہارے ذمہ لازم کیا گیا ہے اور اگر اس کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمہ صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے (سورۃ النور،آیت 56)
مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًۭا ﴿80﴾
ترجمہ: جو شخص رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بےشک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی کرے گا تو اے پیغمبر تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (سورۃ النساء،آیت 80)
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُوا۟ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُوا۟ ٱللَّهَ تَوَّابًۭا رَّحِيمًۭا﴿64﴾
ترجمہ: اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول (اللہ) بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو اللہ کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے (سورۃ النساء،آیت 64)
وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿132﴾
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (سورۃ آل عمران،آیت 132)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍۢ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌۭ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴿59﴾
ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور با اعتبار انجام کے بہت اچھا ہے (سورۃ النساء،آیت 59)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَٰلَكُمْ ﴿33﴾
اے ایمان والو الله کا حکم مانو اوراس کے رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو (سورۃ محمد،آیت 33)
وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّۦنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَٱلصَّٰلِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُو۟لَٰٓئِكَ رَفِيقًۭا ﴿69﴾
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے (سورۃ النساء،آیت 69)
قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ﴿14﴾
ترجمہ: بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم الله اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا بے شک الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (سورۃ الحجرات،آیت 14)
وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَخْشَ ٱللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَآئِزُونَ﴿52﴾
ترجمہ: اور جو شخص الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور الله سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے بس وہی کامیاب ہونے والے ہیں (سورۃ النور،آیت 52)
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿71﴾
ترجمہ: تاکہ وہ تمہارے اعمال کو درست کرے اور تمہارے گناہ معاف کر دے اور جس نے الله اور اس کے رسول کا کہنا مانا سو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی (سورۃ الاحزاب،آیت 71)
تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿13﴾
ترجمہ: (یہ تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ بڑی کامیابی ہے (سورۃ النساء،آیت 13)
قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿32﴾
ترجمہ: کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا (سورۃ آل عمران،آیت 32)
اب آتے ہیں آپ کی بات کی طرف تو آپ نے کہا کہ آپ اپنے استاد کی تقلید نہیں کرتے تو پھر آپ احادیث کا انکار کیوں کرتے ہیں جو آپ کی سمجھ میں نہ آئیں بجائے اس کے کہ کسی عالم دین سے کتاب و سنت کے رہنمائی لیں؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
تقلید کتاب و سنت کے خلاف کسی کی بات ماننے کو کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اللہ کی وحی کے شریعت کا کوئی حکم نہیں بتاتے تھے، لہذا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کے بارے میں میں نے کہیں نہیں پڑھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اطاعت اور اتباع کے بارے میں پڑھا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾


يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَوَلَّوْا۟ عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿20﴾


قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا۟ ۚ وَمَا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ﴿56﴾


مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًۭا ﴿80﴾


وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُوا۟ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُوا۟ ٱللَّهَ تَوَّابًۭا رَّحِيمًۭا﴿64﴾


وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿132﴾


يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍۢ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌۭ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴿59﴾


يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَٰلَكُمْ ﴿33﴾


وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّۦنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَٱلصَّٰلِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُو۟لَٰٓئِكَ رَفِيقًۭا ﴿69﴾


قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ﴿14﴾


وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَخْشَ ٱللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَآئِزُونَ﴿52﴾


يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿71﴾


تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿13﴾


قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿32﴾


اب آتے ہیں آپ کی بات کی طرف تو آپ نے کہا کہ آپ اپنے استاد کی تقلید نہیں کرتے تو پھر آپ احادیث کا انکار کیوں کرتے ہیں جو آپ کی سمجھ میں نہ آئیں بجائے اس کے کہ کسی عالم دین سے کتاب و سنت کے رہنمائی لیں؟

جناب ارسلان بھائی! آپ کے حضور عرض ہیں کہ میرے استاد محترم منکر حدیث ہرگز نھیں آپ کو غلط فہمی ہوگیی ہیں استاد محترم کے صحیفہ اہل حدیث میں مضامین چھپتے رہتے ہیں چند ایسی احادیث بھی ہے جن کو لوگ نھیں مانتے اور ان کوغلط کہتے ہیں استاد محترم نے ان احادیث کو صحیح ثابت کیاہیں قرآن مجید سے ہاں یہ بات ضرور ہیں کہ استاد محترم کسی اور کے فرمان کو رسول اللہ کے طرف منسوب نہیں کرتے ان کو حدیث بناکر آگے نہیں بڑہاتے استاد محترم نے انسان کو اشرف الخلوقات نہ ہونے پر چوبیس سال پہلے ایک مضمون لکہاتھا کہ انسان اشرف المخلوقات نھیں ہے لوگ ان کو نھیئں مانتے تھے لیکن اب الحمد للہ بے شمارے لوگوں نے اور علماء اھل حدیث نے بھی اس نکتے کوصحیح تسلیم کیا - اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ صحیفہ اہل حدیث نے ایک مھینہ پھلی تقریبا اب درس قرآن میں اس پواینٹ کو خود شایع کیا[MENTION][/MENTION]
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
الیاسی صاحب! اگر تم دین میں نبی کریم کی حیثیت اور آپ کی حدیث مبارکہ کو شامل نہیں کرتے تو نہ کرو، لیکن مسلمانوں پر اپنی رائے نہ ٹھونسو کہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے بار بار طوطے کی طرح ایک رٹا رٹایا جملہ بولتے جاتے ہو کہ رجم کا حکم قرآن میں کہاں ہے؟ رجم قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟

نا جانے کتنی مرتبہ آپ کو اس بات کا جواب دیا گیا کہ ہمارے (تمام مسلمانوں) کے نزدیک قرآن وسنت دونوں مصادرِ شریعت ہیں لیکن آپ کو ہماری بات سمجھ آتی ہی نہیں۔

شادی شدہ زانی کیلئے رجم کی سزا سنت سے ثابت ہے، اور سنت کو ماننا قرآن کا حکم ہے: ﴿ وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ۔۔۔ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر

ابھی تک آپ کے استدلال کی ایک بنیاد ہی سامنے آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں زانی کی سزا 100 کوڑے بتائی ہے اور یہ سزا ہر زانی کیلئے عام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں کل کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اس کا جواب آپ کو کئی مرتبہ دیا گیا کہ عام کی تخصیص دیگر دلائل سے ہوجاتی ہے، اسی طرح اس عام کی تخصیص بھی صحیح احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب چوری کا حکم بیان فرمایا ہے، تو وہاں بھی عموم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے، جس کی تخصیص بھی احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، چوری کے متعلق الیاسی صاحب ہمارے ساتھ متفق ہیں، کہ ان میں قرآنی عموم کی تخصیص احادیث سے ہو جاتی ہے، لیکن زنا کے متعلق انہوں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ سورہ نور کی آیت میں چونکہ کل کا لفظ موجود ہے اور کل کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔

ہمارے نزدیک یہ الیاسی صاحب کی ہٹ دھرمی اور لا علمی ہے۔ اگر عموم کل کے ساتھ بھی ہو، اس کی بھی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔

قومِ عاد پر اللہ تعالیٰ نے بطور عذاب جو ہوا بھیجی تھی اس کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ تدمر كل شيء بأمر ربها فأصبحوا لا يرى إلا مساكنهم ﴾ ۔۔۔ سورة الأحقاف کہ اس ہوا نے اللہ کے حکم سے ہر شے کو تباہ کر دیا تو وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

اس آیت کریمہ کے شروع حصے میں عموم ’کل‘ کے ساتھ موجود ہے کہ (اس ہوا نے ہر شے کو تباہ کردیا)
اور اگلے ہی جملے سے اس کی تخصیص بھی ہو رہی ہے کہ سوائے ان کے گھروں کے، اس عذاب کے بعد ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

كل كے عموم کی تخصیص کی ایک اور مثال یہ آیت کریمہ بھی ہے: ﴿ كل شيء هالك إلا وجهه ﴾ ۔۔۔ سورة القصص کہ اللہ کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے۔

یہاں بھی کل کے عموم کی تخصیص (استثناء) اسی جملے میں ہی ہوگئی ہے، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ ہر شے بشمول اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ) ہلاک ہوجائے گی۔

یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آیت نور میں اگرچہ کل کا لفظ موجود ہے اور زنا کا عمومی حکم بیان ہورہا ہے، لیکن صحیح احادیث مبارکہ سے اس عموم کی تخصیص ہو رہی ہے۔ لیکن اسے وہی تسلیم کر سکتا ہے جو قرآن پاک کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی سنت کو بھی وحی اور مصدرِ شریعت سمجھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت کا سوال ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ ہم سب احادیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ بعض یا اکثر احادیث کو مانتے ہیں، بس تھوڑی سی احادیث (جو ہمارے مزاجِ نازک کے خلاف ہوں) کا ردّ کرتے ہیں۔

میرے محترم! ایک صحیح نص کا انکار پوری شریعت کا انکار ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک نبی کا انکار تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا انکار ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ كذبت قوم نوح المرسلين﴾ ... سورة الشعراء کہ قومِ نوح نے رسولوں کو جھٹلایا، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی طرف ایک ہی رسول سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے، تو صرف سیدنا نوح علیہ السلام کا انکار تمام رسولوں کا انکار تھا۔

اسی طرح ایک فرشتے کا انکار سب فرشتوں، رسولوں بلکہ اللہ کے ساتھ کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب یہودیوں نے سیدنا جبریل علیہ السلام کے ساتھ بغض کا اظہار کرتے ہوئے ان کا انکار کیا (اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا محبوب فرشتہ قرار دیا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ درحقیقت صرف جبریل کے دشمن نہیں، بلکہ یہ اللہ، سب فرشتوں بشمول میکائیل اور سب رسولوں کے بھی دشمن ہیں۔

اسی طرح ایک صحیح ثابت شدہ حدیث کا ردّ در حقیقت سب حدیثوں کا ردّ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155

جناب ارسلان بھائی مجھے لگتا ہے انتطامیہ نے میری جوابی پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا لیکن کوئی بات نھیں آپ کے حضور عرض ہیں کہ میرے استاد محترم منکر حدیث ہرگز نھیں آپ کو غلط فہمی ہوگیی ہیں استاد محترم کے صحیفہ اہل حدیث میں مضامین چھپتے رہتے ہیں چند ایسی احادیث بھی ہے جن کو لوگ نھیں مانتے اور ان کوغلط کہتے ہیں استاد محترم نے ان احادیث کو صحیح ثابت کیاہیں قرآن مجید سے ہاں یہ بات ضرور ہیں کہ استاد محترم کسی اور کے فرمان کو رسول اللہ کے طرف منسوب نہیں کرتے ان کو حدیث بناکر آگے نہیں بڑہاتے استاد محترم نے انسان کو اشرف الخلوقات نہ ہونے پر چوبیس سال پہلے ایک مضمون لکہاتھا کہ انسان اشرف المخلوقات نھیں ہے لوگ ان کو نھیئں مانتے تھے لیکن اب الحمد للہ بے شمارے لوگوں نے اور علماء اھل حدیث نے بھی اس نکتے کوصحیح تسلیم کیا - اور آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ صحیفہ اہل حدیث نے ایک مھینہ پھلی تقریبا اب درس قرآن میں اس پواینٹ کو خود شایع کیا
آپ کی حالت زار ان باتوں سے مختلف نظر آتی ہے، محدثین نے اللہ کے فضل سے اپنی ساری زندگیاں دین اسلام کی خدمت میں گزار دیں اور ضعیف و موضوع روایات کو صحیح احادیث سے الگ کر دیا، صحیح بخاری و صحیح مسلم دو ایسی کتابیں ہیں جن کی صحت پر اجماع ہے جبکہ آپ کے استاد کے شاگرد حضرات بشمول آپ کے صحیح بخاری پر اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں، کبھی عجوہ کجھور والی احادیث کا مذاق اڑاتے ہیں تو کبھی کس حدیث مبارکہ کا تو کبھی کس حدیث مبارکہ کا، آپ کی ان حالت زار پر انس بھائی کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ ہم سب احادیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ بعض یا اکثر احادیث کو مانتے ہیں، بس تھوڑی سی احادیث (جو ہمارے مزاجِ نازک کے خلاف ہوں) کا ردّ کرتے ہیں۔

میرے محترم! ایک صحیح نص کا انکار پوری شریعت کا انکار ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک نبی کا انکار تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا انکار ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ كذبت قوم نوح المرسلين﴾ ... سورة الشعراء کہ قومِ نوح نے رسولوں کو جھٹلایا، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی طرف ایک ہی رسول سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے، تو صرف سیدنا نوح علیہ السلام کا انکار تمام رسولوں کا انکار تھا۔

اسی طرح ایک فرشتے کا انکار سب فرشتوں، رسولوں بلکہ اللہ کے ساتھ کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب یہودیوں نے سیدنا جبریل علیہ السلام کے ساتھ بغض کا اظہار کرتے ہوئے ان کا انکار کیا (اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا محبوب فرشتہ قرار دیا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ درحقیقت صرف جبریل کے دشمن نہیں، بلکہ یہ اللہ، سب فرشتوں بشمول میکائیل اور سب رسولوں کے بھی دشمن ہیں۔

اسی طرح ایک صحیح ثابت شدہ حدیث کا ردّ در حقیقت سب حدیثوں کا ردّ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
الیاسی صاحب! اگر تم دین میں نبی کریم کی حیثیت اور آپ کی حدیث مبارکہ کو شامل نہیں کرتے تو نہ کرو، لیکن مسلمانوں پر اپنی رائے نہ ٹھونسو کہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے بار بار طوطے کی طرح ایک رٹا رٹایا جملہ بولتے جاتے ہو کہ رجم کا حکم قرآن میں کہاں ہے؟ رجم قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟

نا جانے کتنی مرتبہ آپ کو اس بات کا جواب دیا گیا کہ ہمارے (تمام مسلمانوں) کے نزدیک قرآن وسنت دونوں مصادرِ شریعت ہیں لیکن آپ کو ہماری بات سمجھ آتی ہی نہیں۔

شادی شدہ زانی کیلئے رجم کی سزا سنت سے ثابت ہے، اور سنت کو ماننا قرآن کا حکم ہے: ﴿ وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ۔۔۔ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر

ابھی تک آپ کے استدلال کی ایک بنیاد ہی سامنے آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں زانی کی سزا 100 کوڑے بتائی ہے اور یہ سزا ہر زانی کیلئے عام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں کل کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اس کا جواب آپ کو کئی مرتبہ دیا گیا کہ عام کی تخصیص دیگر دلائل سے ہوجاتی ہے، اسی طرح اس عام کی تخصیص بھی صحیح احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب چوری کا حکم بیان فرمایا ہے، تو وہاں بھی عموم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے، جس کی تخصیص بھی احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، چوری کے متعلق الیاسی صاحب ہمارے ساتھ متفق ہیں، کہ ان میں قرآنی عموم کی تخصیص احادیث سے ہو جاتی ہے، لیکن زنا کے متعلق انہوں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ سورہ نور کی آیت میں چونکہ کل کا لفظ موجود ہے اور کل کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔

ہمارے نزدیک یہ الیاسی صاحب کی ہٹ دھرمی اور لا علمی ہے۔ اگر عموم کل کے ساتھ بھی ہو، اس کی بھی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔

قومِ عاد پر اللہ تعالیٰ نے بطور عذاب جو ہوا بھیجی تھی اس کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ تدمر كل شيء بأمر ربها فأصبحوا لا يرى إلا مساكنهم ﴾ ۔۔۔ سورة الأحقاف کہ اس ہوا نے اللہ کے حکم سے ہر شے کو تباہ کر دیا تو وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

اس آیت کریمہ کے شروع حصے میں عموم ’کل‘ کے ساتھ موجود ہے کہ (اس ہوا نے ہر شے کو تباہ کردیا)
اور اگلے ہی جملے سے اس کی تخصیص بھی ہو رہی ہے کہ سوائے ان کے گھروں کے، اس عذاب کے بعد ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

كل كے عموم کی تخصیص کی ایک اور مثال یہ آیت کریمہ بھی ہے: ﴿ كل شيء هالك إلا وجهه ﴾ ۔۔۔ سورة القصص کہ اللہ کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے۔

یہاں بھی کل کے عموم کی تخصیص (استثناء) اسی جملے میں ہی ہوگئی ہے، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ ہر شے بشمول اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ) ہلاک ہوجائے گی۔

یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آیت نور میں اگرچہ کل کا لفظ موجود ہے اور زنا کا عمومی حکم بیان ہورہا ہے، لیکن صحیح احادیث مبارکہ سے اس عموم کی تخصیص ہو رہی ہے۔ لیکن اسے وہی تسلیم کر سکتا ہے جو قرآن پاک کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی سنت کو بھی وحی اور مصدرِ شریعت سمجھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت کا سوال ہے۔
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ ہم سب احادیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ بعض یا اکثر احادیث کو مانتے ہیں، بس تھوڑی سی احادیث (جو ہمارے مزاجِ نازک کے خلاف ہوں) کا ردّ کرتے ہیں۔

میرے محترم! ایک صحیح نص کا انکار پوری شریعت کا انکار ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک نبی کا انکار تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا انکار ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ كذبت قوم نوح المرسلين﴾ ... سورة الشعراء کہ قومِ نوح نے رسولوں کو جھٹلایا، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی طرف ایک ہی رسول سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے، تو صرف سیدنا نوح علیہ السلام کا انکار تمام رسولوں کا انکار تھا۔

اسی طرح ایک فرشتے کا انکار سب فرشتوں، رسولوں بلکہ اللہ کے ساتھ کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب یہودیوں نے سیدنا جبریل علیہ السلام کے ساتھ بغض کا اظہار کرتے ہوئے ان کا انکار کیا (اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا محبوب فرشتہ قرار دیا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ درحقیقت صرف جبریل کے دشمن نہیں، بلکہ یہ اللہ، سب فرشتوں بشمول میکائیل اور سب رسولوں کے بھی دشمن ہیں۔

اسی طرح ایک صحیح ثابت شدہ حدیث کا ردّ در حقیقت سب حدیثوں کا ردّ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
جزاک اللہ خیرا
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب! اگر تم دین میں نبی کریم کی حیثیت اور آپ کی حدیث مبارکہ کو شامل نہیں کرتے تو نہ کرو، لیکن مسلمانوں پر اپنی رائے نہ ٹھونسو کہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے بار بار طوطے کی طرح ایک رٹا رٹایا جملہ بولتے جاتے ہو کہ رجم کا حکم قرآن میں کہاں ہے؟ رجم قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟

نا جانے کتنی مرتبہ آپ کو اس بات کا جواب دیا گیا کہ ہمارے (تمام مسلمانوں) کے نزدیک قرآن وسنت دونوں مصادرِ شریعت ہیں لیکن آپ کو ہماری بات سمجھ آتی ہی نہیں۔

شادی شدہ زانی کیلئے رجم کی سزا سنت سے ثابت ہے، اور سنت کو ماننا قرآن کا حکم ہے: ﴿ وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ۔۔۔ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر

ابھی تک آپ کے استدلال کی ایک بنیاد ہی سامنے آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں زانی کی سزا 100 کوڑے بتائی ہے اور یہ سزا ہر زانی کیلئے عام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں کل کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اس کا جواب آپ کو کئی مرتبہ دیا گیا کہ عام کی تخصیص دیگر دلائل سے ہوجاتی ہے، اسی طرح اس عام کی تخصیص بھی صحیح احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب چوری کا حکم بیان فرمایا ہے، تو وہاں بھی عموم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے، جس کی تخصیص بھی احادیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے، چوری کے متعلق الیاسی صاحب ہمارے ساتھ متفق ہیں، کہ ان میں قرآنی عموم کی تخصیص احادیث سے ہو جاتی ہے، لیکن زنا کے متعلق انہوں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ سورہ نور کی آیت میں چونکہ کل کا لفظ موجود ہے اور کل کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔

ہمارے نزدیک یہ الیاسی صاحب کی ہٹ دھرمی اور لا علمی ہے۔ اگر عموم کل کے ساتھ بھی ہو، اس کی بھی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔

قومِ عاد پر اللہ تعالیٰ نے بطور عذاب جو ہوا بھیجی تھی اس کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ تدمر كل شيء بأمر ربها فأصبحوا لا يرى إلا مساكنهم ﴾ ۔۔۔ سورة الأحقاف کہ اس ہوا نے اللہ کے حکم سے ہر شے کو تباہ کر دیا تو وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

اس آیت کریمہ کے شروع حصے میں عموم ’کل‘ کے ساتھ موجود ہے کہ (اس ہوا نے ہر شے کو تباہ کردیا)
اور اگلے ہی جملے سے اس کی تخصیص بھی ہو رہی ہے کہ سوائے ان کے گھروں کے، اس عذاب کے بعد ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

كل كے عموم کی تخصیص کی ایک اور مثال یہ آیت کریمہ بھی ہے: ﴿ كل شيء هالك إلا وجهه ﴾ ۔۔۔ سورة القصص کہ اللہ کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے۔

یہاں بھی کل کے عموم کی تخصیص (استثناء) اسی جملے میں ہی ہوگئی ہے، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ ہر شے بشمول اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ) ہلاک ہوجائے گی۔

یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آیت نور میں اگرچہ کل کا لفظ موجود ہے اور زنا کا عمومی حکم بیان ہورہا ہے، لیکن صحیح احادیث مبارکہ سے اس عموم کی تخصیص ہو رہی ہے۔ لیکن اسے وہی تسلیم کر سکتا ہے جو قرآن پاک کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی سنت کو بھی وحی اور مصدرِ شریعت سمجھتا ہے
ماشاء اللہ انس بھائی زندہ باد

بس آپ سے یھی کھلوانا تھا کہ رجم قرآن سے ثابت نھیں اور آپ بول پڑھے

اب بحث اس پر ھوگی کہ یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے یا نھیں؟؟
آپ نے جو آیات پیش کی ہے وہاں استثناء اور تخصیص اللہ تعالی نے خود کی ہے لیکن یھاں اللہ تعالی نے استثناء نھیں کیا اگر ہوتا تو اللہ تعالی یہاں بھی استثناء کرتا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ماشاء اللہ انس بھائی زندہ باد
بس آپ سے یھی کھلوانا تھا کہ رجم قرآن سے ثابت نھیں اور آپ بول پڑھے
ہمارے نزدیک نبیﷺ کا فرمان بھی اللہ کا فرمان ہے،
فرمانِ باری:
مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّـهَ ۖ وَمَن تَوَلّىٰ فَما أَر‌سَلنـٰكَ عَلَيهِم حَفيظًا ٨٠ ۔۔۔ النساء
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (80)
وَالنَّجمِ إِذا هَوىٰ ١ ما ضَلَّ صاحِبُكُم وَما غَوىٰ ٢ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤ ۔۔۔ النجم
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے (1) کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے (2) اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (4)

فرمانِ نبویﷺ:
ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، لا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ۔۔۔ صحيح أبي داؤد
یاد رکھو کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ اسی کی مثل بھی دی گئی ہے۔ یاد رکھو (قرب قیامت) ایک پیٹ بھرا شخاص اپنے تخت پر (اکڑ کر) بیٹھے ہوئے کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو ۔۔۔

صحابہ کرام﷢ بھی نبی کریمﷺ کے فرمان کو کتاب اللہ ہی سمجھتے تھے:
عن عبدِ اللهِ : ( لعن اللهُ الواشماتِ والْمُستوشماتِ، والْمُتنمِّصاتِ، والْمُتفلجاتِ للحسنِ، المغيراتِ خلقَ اللهِ تعالى ) . ما لي لا ألعنُ منْ لعنَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، وهو في كتابِ اللهِ : { وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ... } . إلى : { فانتهوا } ۔۔۔ صحیح البخاري ومسلم
میں نے یہ حدیث مبارکہ مختصرا بیان کی ہے کہ سیدنا ابن مسعود﷜ نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے تو ایک عورت کہنے لگی کہ اے عبد اللہ! مجھے تو قرآن میں یہ حکم نہیں ملا تو سیدنا ابن مسعود﷜ نے ناراضگی سے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جو چیز بھی تمہیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔

اب بحث اس پر ھوگی کہ یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے یا نھیں؟؟
آپ نے جو آیات پیش کی ہے وہاں استثناء اور تخصیص اللہ تعالی نے خود کی ہے لیکن یھاں اللہ تعالی نے استثناء نھیں کیا اگر ہوتا تو اللہ تعالی یہاں بھی استثناء کرتا
میرے بھائی! آپ کو در اصل بھول جاتا ہے کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے؟
پہلے آپ کو اختلاف تھا کہ لفظ کل والے عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی جب میں نے قرآن کریم سے دلائل دئیے کہ کل کی تخصیص بھی ہوسکتی ہے تو درج بالا اقتباس میں آپ کو تسلیم کرنا پڑا واقعی ہی ان آیات میں کل کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور یہی آپ کا سب سے بڑا اعتراض تھا جو ختم ہوگیا۔ اب آپ کو حق کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور اپنی غلطی مان لینی چاہئے تھی۔

لیکن افسوس کہ جب آپ سے کوئی بات نہیں بنی تو کھل کر بالکل منکرین حدیث والا نیا اعتراض جڑ دیا کہ ان آیات میں تو تخصیص اللہ نے کی ہے لہٰذا تسلیم ہے لیکن رجم والی تخصیص نبی کریمﷺ نے کی ہے لہٰذا وہ قرآن کی مخالفت ہونے کی بناء پر تسلیم نہیں؟؟؟ (والعیاذ باللہ! کیا رسول کی تخصیص اللہ کی تخصیص نہیں؟)

سوال یہ ہے کہ کیا تخصیص مخالفت ہے؟؟؟

اگر یہ مخالفت ہے تو درج بالا اقتباس میں نے آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود تخصیص کی ہے تو کیا آپ کے نزدیک قرآن کریم میں اختلاف ہے؟؟؟ حالانکہ فرمانِ باری کے مطابق وحی میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ﴿ أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ النساء

اور اگر تخصیص مخالفت نہیں تو پھر جب نبی کریمﷺ نے زنا سے متعلق آیات کی تخصیص اللہ کے حکم سے کردی (کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا) تو وہ بھی قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کی ہی وضاحت ہے اور یہی نبی کریمﷺ کا فریضہ تھا، فرمانِ باری:
وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ٤٤ ۔۔۔ النحل

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں! میں تو قرآن کی زبانی یہی کہوں گا:
قَد جاءَكُم بَصائِرُ‌ مِن رَ‌بِّكُم ۖ فَمَن أَبصَرَ‌ فَلِنَفسِهِ ۖ وَمَن عَمِىَ فَعَلَيها ۚ وَما أَنا۠ عَلَيكُم بِحَفيظٍ ١٠٤ ۔۔۔ الأنعام
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وه اپنا فائده کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وه اپنا نقصان کرے گا، اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (104)
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ہمارے نزدیک نبیﷺ کا فرمان بھی اللہ کا فرمان ہے،
فرمانِ باری:
مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّـهَ ۖ وَمَن تَوَلّىٰ فَما أَر‌سَلنـٰكَ عَلَيهِم حَفيظًا ٨٠ ۔۔۔ النساء
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (80)
وَالنَّجمِ إِذا هَوىٰ ١ ما ضَلَّ صاحِبُكُم وَما غَوىٰ ٢ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤ ۔۔۔ النجم
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے (1) کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے (2) اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (4)

فرمانِ نبویﷺ:
ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، لا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ۔۔۔ صحيح أبي داؤد
یاد رکھو کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ اسی کی مثل بھی دی گئی ہے۔ یاد رکھو (قرب قیامت) ایک پیٹ بھرا شخاص اپنے تخت پر (اکڑ کر) بیٹھے ہوئے کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو ۔۔۔

صحابہ کرام﷢ بھی نبی کریمﷺ کے فرمان کو کتاب اللہ ہی سمجھتے تھے:
عن عبدِ اللهِ : ( لعن اللهُ الواشماتِ والْمُستوشماتِ، والْمُتنمِّصاتِ، والْمُتفلجاتِ للحسنِ، المغيراتِ خلقَ اللهِ تعالى ) . ما لي لا ألعنُ منْ لعنَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، وهو في كتابِ اللهِ : { وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ... } . إلى : { فانتهوا } ۔۔۔ صحیح البخاري ومسلم
میں نے یہ حدیث مبارکہ مختصرا بیان کی ہے کہ سیدنا ابن مسعود﷜ نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے تو ایک عورت کہنے لگی کہ اے عبد اللہ! مجھے تو قرآن میں یہ حکم نہیں ملا تو سیدنا ابن مسعود﷜ نے ناراضگی سے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جو چیز بھی تمہیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔


میرے بھائی! آپ کو در اصل بھول جاتا ہے کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے؟
پہلے آپ کو اختلاف تھا کہ لفظ کل والے عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی جب میں نے قرآن کریم سے دلائل دئیے کہ کل کی تخصیص بھی ہوسکتی ہے تو درج بالا اقتباس میں آپ کو تسلیم کرنا پڑا واقعی ہی ان آیات میں کل کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور یہی آپ کا سب سے بڑا اعتراض تھا جو ختم ہوگیا۔ اب آپ کو حق کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور اپنی غلطی مان لینی چاہئے تھی۔

لیکن افسوس کہ جب آپ سے کوئی بات نہیں بنی تو کھل کر بالکل منکرین حدیث والا نیا اعتراض جڑ دیا کہ ان آیات میں تو تخصیص اللہ نے کی ہے لہٰذا تسلیم ہے لیکن رجم والی تخصیص نبی کریمﷺ نے کی ہے لہٰذا وہ قرآن کی مخالفت ہونے کی بناء پر تسلیم نہیں؟؟؟ (والعیاذ باللہ! کیا رسول کی تخصیص اللہ کی تخصیص نہیں؟)

سوال یہ ہے کہ کیا تخصیص مخالفت ہے؟؟؟

اگر یہ مخالفت ہے تو درج بالا اقتباس میں نے آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود تخصیص کی ہے تو کیا آپ کے نزدیک قرآن کریم میں اختلاف ہے؟؟؟ حالانکہ فرمانِ باری کے مطابق وحی میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ﴿ أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ النساء

اور اگر تخصیص مخالفت نہیں تو پھر جب نبی کریمﷺ نے زنا سے متعلق آیات کی تخصیص اللہ کے حکم سے کردی (کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا) تو وہ بھی قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کی ہی وضاحت ہے اور یہی نبی کریمﷺ کا فریضہ تھا، فرمانِ باری:
وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ٤٤ ۔۔۔ النحل

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں! میں تو قرآن کی زبانی یہی کہوں گا:
قَد جاءَكُم بَصائِرُ‌ مِن رَ‌بِّكُم ۖ فَمَن أَبصَرَ‌ فَلِنَفسِهِ ۖ وَمَن عَمِىَ فَعَلَيها ۚ وَما أَنا۠ عَلَيكُم بِحَفيظٍ ١٠٤ ۔۔۔ الأنعام
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وه اپنا فائده کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وه اپنا نقصان کرے گا، اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (104)
جناب انس نظر صاحب میں یہ کھ رہا ہوں کہ کل عام ہے اس کی تخصیص نھیں ہوسکتا کسی کے قول سے اگر اللہ رب العالمین تخصیص کریں تو کرسکتاہے اور یہاں اللہ تعالی نے نھیں کی
آپ نے جن دو آیات کا تذکرہ کیا تھا اس میں تخصیص اللہ تعالی نے کی تو آپ کا قیاس اس آیت مبارکہ کا ان دوآیات پر قیاس مع الفارق ہے جوکہ اہل علم کے نزدیک باطل ہے

اگر آپ کھ رہے ہو کہ یہ رجم رسول اللہ کافرمان ہے تو پھر کوئی ایسا صحیح حدیث لادو جن میں لکھا ہواھوں کہ الزانیۃ والزانی والی آیت سے غیر شادی شدہ زانی مرادہے [/COLOR
] یہ بھی دکھادو کہ حدیث میں ایسے الفاظ ہو کہ شادی شدہ زانی کا سزا اس آیت میں نھیں ہے
اور آپ کو ایک حیران کن بات بتادو ں کہ تفسیر ابن کثیر میں صفحہ نمبر ٣٣ جلدنبرتین طبع نورمحمدکراچی میں حضرت علی کا قول لکھا ہے کہ جب ان کی پاس ایک زانیہ خاتون سراجہ کو لایا
گیا تو انھوں نے جمعرات کو ان کو کوڑے لگواے اور جمعے کو سنگسار کرایا کوڑے کتاب اللہ پر عمل کی وجہ سے اور سنگسار سنت پر عمل کیوجہ سے
اب بتادو یہ کیا تھا ؟؟؟؟؟؟ پھرانھوں نے اماموں کی اختلافات بھی ذکر کی ہے دیکھ لو ذرا
 
Top