ہمارے نزدیک نبیﷺ کا فرمان بھی اللہ کا فرمان ہے،
فرمانِ باری:
مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّـهَ ۖ وَمَن تَوَلّىٰ فَما أَرسَلنـٰكَ عَلَيهِم حَفيظًا ٨٠ ۔۔۔ النساء
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (
80)
وَالنَّجمِ إِذا هَوىٰ ١ ما ضَلَّ صاحِبُكُم وَما غَوىٰ ٢ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤ ۔۔۔ النجم
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے (
1) کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے (
2) اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (
3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (
4)
فرمانِ نبویﷺ:
ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، لا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ۔۔۔ صحيح أبي داؤد
یاد رکھو کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ اسی کی مثل بھی دی گئی ہے۔ یاد رکھو (قرب قیامت) ایک پیٹ بھرا شخاص اپنے تخت پر (اکڑ کر) بیٹھے ہوئے کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو ۔۔۔
صحابہ کرام بھی نبی کریمﷺ کے فرمان کو کتاب اللہ ہی سمجھتے تھے:
عن عبدِ اللهِ : ( لعن اللهُ الواشماتِ والْمُستوشماتِ، والْمُتنمِّصاتِ، والْمُتفلجاتِ للحسنِ، المغيراتِ خلقَ اللهِ تعالى ) . ما لي لا ألعنُ منْ لعنَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، وهو في كتابِ اللهِ : { وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ... } . إلى : { فانتهوا } ۔۔۔ صحیح البخاري ومسلم
میں نے یہ حدیث مبارکہ مختصرا بیان کی ہے کہ سیدنا ابن مسعود نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے تو ایک عورت کہنے لگی کہ اے عبد اللہ! مجھے تو قرآن میں یہ حکم نہیں ملا تو سیدنا ابن مسعود نے ناراضگی سے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جو چیز بھی تمہیں رسول دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔
میرے بھائی! آپ کو در اصل بھول جاتا ہے کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے؟
پہلے آپ کو اختلاف تھا کہ
لفظ کل والے عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی جب میں نے قرآن کریم سے دلائل دئیے کہ کل کی تخصیص بھی ہوسکتی ہے تو درج بالا اقتباس میں آپ کو تسلیم کرنا پڑا واقعی ہی ان آیات میں کل کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور یہی آپ کا سب سے بڑا اعتراض تھا جو ختم ہوگیا۔ اب آپ کو حق کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور اپنی غلطی مان لینی چاہئے تھی۔
لیکن افسوس کہ جب آپ سے کوئی بات نہیں بنی تو کھل کر بالکل منکرین حدیث والا نیا اعتراض جڑ دیا کہ ان آیات میں تو تخصیص اللہ نے کی ہے لہٰذا تسلیم ہے لیکن رجم والی تخصیص نبی کریمﷺ نے کی ہے لہٰذا وہ قرآن کی مخالفت ہونے کی بناء پر تسلیم نہیں؟؟؟ (والعیاذ باللہ! کیا رسول کی تخصیص اللہ کی تخصیص نہیں؟)
سوال یہ ہے کہ کیا تخصیص مخالفت ہے؟؟؟
اگر یہ مخالفت ہے تو درج بالا اقتباس میں نے آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود تخصیص کی ہے تو کیا آپ کے نزدیک قرآن کریم میں اختلاف ہے؟؟؟ حالانکہ فرمانِ باری کے مطابق وحی میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
﴿ أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّـهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرًا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ النساء
اور اگر تخصیص مخالفت نہیں تو پھر جب نبی کریمﷺ نے زنا سے متعلق آیات کی تخصیص اللہ کے حکم سے کردی (کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا) تو وہ بھی قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کی ہی وضاحت ہے اور یہی نبی کریمﷺ کا فریضہ تھا، فرمانِ باری:
وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ٤٤ ۔۔۔ النحل
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں! میں تو قرآن کی زبانی یہی کہوں گا:
قَد جاءَكُم بَصائِرُ مِن رَبِّكُم ۖ فَمَن أَبصَرَ فَلِنَفسِهِ ۖ وَمَن عَمِىَ فَعَلَيها ۚ وَما أَنا۠ عَلَيكُم بِحَفيظٍ ١٠٤ ۔۔۔ الأنعام
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وه اپنا فائده کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وه اپنا نقصان کرے گا، اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (
104)