عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
تحریر اجمل منظور مدنی
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط اول》
#دفاع_سلفیت
چاہے دور نبوت ہو یا دور صحابہ اس وقت مسلمان بڑی سادگی اور ایمان ویقین سے کے ساتھ غیبیات، عقیدے اور اللہ کی ذات وصفات کو بالکل اسی طرح مان لیتے تھے اور یقین کے ساتھ ان پر ایمان لاتے تھے جس طرح کتاب وسنت میں اللہ اور رسول نے مراد لیا ہے۔۔ لیکن بعد کے دور میں مسلم حکمرانوں نے اجنبی قوموں سے دوسری بہت ساری چیزوں کے ساتھ منطق وفلسفہ کو بھی رواج دیا جس کی زد میں علم کلام اور الہیات کے نام سے اللہ کی ذات اور اسلامی عقیدہ بھی آیا۔۔
اور عالم اسلام میں ایسے ایسے بقراطی اور عقل پرست پیدا ہوئے جنہوں نے غیبیات، عقیدے اور ذات الہیہ کو مشکوک بناکر رکھ دیا ۔۔ اور اسی بنیاد پر بہت سارے گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔۔ خصوصا اسماء وصفات کے باب میں بہت سے گمراہ فرقے وجود میں آئے اور انہوں نے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر یا تو اسماء وصفات کا انکار کردیا جیسے جہمیہ اور معطلہ وغیرہ، یا ان میں تاویل کرکے انکے معنی کا انکار کردیا۔۔ جن میں مشہور معتزلہ، ماتریدیہ اور اشعریہ ہیں۔۔ اور کچھ نے صفات ذاتیہ کو تو مانا لیکن صفات فعلیہ کا انکار کر دیا۔۔
لیکن اس وقت مسلمانوں نے عقیدے کی حفاظت میں ایسے گمراہ لوگوں کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔۔ چنانچہ امام شافعی نے ایسے شخص کو کوڑا مارنے اور گدھے پر بٹھاکر گھمانے کا فتوی دیا ہے جو علم کلام اور فلسفہ پڑھکر لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے۔۔
ایک مرتبہ سید التابعین حسن بصری سے واصل بن عطا نے اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑا کر کہا کہ میں مرتکب کبیرہ کو نہ تو کافر کہتا نہ ہی مومن بلکہ وہ دونوں کے بیچ میں رہے گا۔۔ تو آپ نے اسے مجلس چھوڑ دینے کیلئے کہہ دیا۔
اسی طرح امام مالک سے جب ایک عقل پرست نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے آیت الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه:5] کے بارے میں پوچھ بیٹھا کہ کیف استوی؟ اللہ کیسے مستوی ہے؟
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں پہلی بار اس طرح جب سوال کرتے ہوئے امام مالک نے سنا تو آپ چکرا گئے اور پسینے سے شرابور ہوگئے ۔ مجلس میں سکوت طاری ہوگیا۔۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس عقلانی کو جواب دیتے ہوئے اسماء وصفات کے بارے میں اپنا تاریخی جملہ کہا جو سارے اہل سنت مسلمانوں کیلئے اسماء وصفات کے بارے میں اصول بن گیا۔۔ آپ نے فرمایا: الاستواء ثابت والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.
یعنی ضروری ہے کہ استواء رب پر ایمان لایا جائے، بالکل اسی طرح جو اللہ جل جلالہ کی شان کے لائق ہے اور جس معنی میں قرآن کے اندر وارد ہوا ہے اور صحابہ کرام نے جیسا سمجھا ہے۔ البتہ کیفیت مجہول ہے ہم اسے انسانوں پر قیاس نہیں کریں گے، اس کے بارے میں اس قسم کا سوال کرنا بدعت ہے۔
پھر امام مالک نے کہا: مجھے اس آدمی کے گمراہ ہونے کا شبہ ہے۔ اس لئے ااے مجلس سے باہر کردیا جائے۔
اس طرح اس عقلانیت پرست کو بھی حلقہ درس سے باہر کردیا گیا۔۔
اسی طرح ایک واقعہ بصرہ کے گورنر خالد بن عبد اللہ القسری کے بارے میں آتا ہے کہ جب ایک عقل پرست جعد بن درہم نے موسی علیہ السلام سے اللہ کے کلام کرنے کا انکار کیا یعنی صفت کلام کا انکار کیا تو گورنر نے اسے قتل کردیا ۔۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ دیکھیں گے سید مودودی ان سب کا معجون مرکب ہیں۔۔ کیونکہ سید مودودی کا بھی پرابلم یہی تھا کہ خود انہیں کے بیان کے مطابق دینی تعلیم اساتذہ کی رہنمائی میں ٹھیک سے حاصل نہیں کرسکے ۔۔ اسی لئے ذاتی مطالعہ سے منطق وفلسفہ اور علم کلام پڑھ کر تفسیر لکھنے بیٹھ گئے۔ چنانچہ ان سارے فاسد عقیدوں کو انہوں نے اپنی کتابوں کے اندر بھی انڈیل دیا اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بن گئے۔۔ خصوصا اللہ کی ذات وصفات سے متعلق۔۔ جنہیں ہم تین قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
پہلی قسم: صفات ذاتیہ خبریہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا اپنے لئے ہاتھ، آنکھ، پنڈلی، پیر اور چہرے وغیرہ کا ثابت کرنا۔۔
دوسری قسم: صفات ذاتیہ معنویہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا سننا ، دیکھنا، ہنسنا، بات کرنا، ارادہ کرنا وغیرہ۔
تیسری قسم: صفات فعلیہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان سے نزول کرنا، فرشتوں کے ساتھ آنا، وغیرہ۔۔
ذیل میں ہم موصوف کے مشہور زمانہ عقلی تفسیر کی کتاب تفہیم القرآن سے کچھ مثال دیکر ثابت کر رہے ہیں کہ جناب کا عقیدہ خود کیسے تھا اور ساتھ ہی ایک بڑی جماعت کو بھی اس میں مبتلا کرنے کا سبب بنے:
✔اول: سورہ یونس آیت نمبر 3 میں (ثم استوى على العرش) کا سادہ ترجمہ یہی ہے کہ پھر وہ عرش پر جا ٹھہرا۔۔ لیکن مودودی نے اس کا ترجمہ کیسے کیا ملاحظہ کریں: (پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہوا)۔ تفہیم القرآن 2/ 262
تبصرہ: استوی علی العرش کا سیدھا مطلب ہے: عرش پر مستوی ہوا یعنی اس پر ٹھہرا اور قرار پایا۔۔ جیسا اس کی جاہ و جلال کے لائق ہے۔۔ استواء معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے۔۔ ہمیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔۔ اسی طرح عرش معلوم ہے ساتوں آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن وحدیث میں سینکڑوں دفعہ عرش کا ذکر آیا ہے۔۔ اور سب نے اس کا مطلب عرش الہی ہی سمجھا ہے۔۔ قیامت کے دن سایہ صرف عرش الہی ہی کا ہوگا۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے بغل میں بیٹھ کر بات کر رہی تھی جسے میں نہیں سن ہارہی تھی لیکن ساتوں آسمان کے اوپر عرش پر بیٹھے ہمارے رب نے اسے سن لیا اور فورا جبریل کو بھیج دیا۔۔ ( سورہ مجادلہ کے شروع میں پوری تفصیل دیکھیں)
لیکن دیکھیں مودودی نے اللہ کے عرش عظیم کو ماننے سے کیسے انکار کردیا۔۔ اور اس کا معنی بدل کر کیسے تخت حکومت کردیا ۔۔ کیا ایسا ترجمہ انہیں کرنے پر حکومت وسیادت کی بھوک نے کیا ہے؟! یا واقعی عرش کے منکر ہیں ؟ آخر عرش کا ترجمہ انہوں تفہیم القرآن میں عرش سے کیوں نہیں کیا؟!
✔دوم: دوسری جگہ سورہ اعراف آیت نمبر 54 کے تحت حاشیہ نمبر 41 میں عرش الہی کے بارے میں عقلی گھوڑا دوڑاتے ہوئے بلا کسی دیل وثبوت کے اپنی طرف سے دو مفہوم بتا رہے ہیں۔۔:
((خد ا کے استواء علی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہونے سے مرادیہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ہو۔))
تبصرہ: یعنی ایک طرف عرش پر اللہ کی ذات کے مستوی ہونے کا انکار کر رہے ہیں تو دوسری طرف کلام پاک میں جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکا دو مطلب بھی اپنی طرف سے گڑھ کر بیان کر رہے ہیں۔۔
✔سوم: تیسری جگہ سورہ ہود آیت نمبر 7 میں (وكان عرشه على الماء) کا ترجمہ صاف صاف یہی ہے کہ ( اور اسکا عرش پانی پر تھا) لیکن مودودی بقراطی کرتے ہوئے اور اپنی عقل کا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اور اس متعلق گمراہی کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں: ( رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔۔ تفہیم القرآن 2/ 325
تبصرہ: دیکھیں یہاں اپنی سمجھ خود بتا رہے ہیں کہ عرش سے مطلب سلطنت ہے۔ جناب کس جگہ قرآن یا حدیث میں عرش کا مطلب سلطنت بتایا گیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر عرش سے مراد سلطنت لے لی جائے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ اب اس کی سلطنت پانی پر نہیں ہے بلکہ اب اسکی سلطنت عرش پر ہے۔ اور کیا اس کی سلطنت صرف عرش پر ہے ۔ پوری کائنات میں نہیں ہے؟
ایک چیز کے انکار سے کتنا فساد لازم آتا ہے۔۔
سیدھا مطلب ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے اور وہیں سے پوری کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔ کوئی چیز اسکی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ پتہ پتہ ذرہ ذرہ سے وہ واقف ہے۔۔
سلف سے کہیں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ اللہ کی سلطنت پہلے پانی پر تھی ۔۔ یہ مودودی کی اپنی رائے اور فکر ہے۔۔ اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی سے کرنے کی ممانعت ہے۔۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (إياكم وأصحاب الرأي؛ فإنهم أعداء السنن. أعيتهم الأحاديث أن يحفظوها، فقالوا برأيهم، فضلّوا وأضلوا) ترجمہ: عقل پرستوں سے دور رہو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں، یہ حدیثوں کے یاد کرنے سے عاجز ہیں اس لئے اپنی عقلوں کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
المدخل إلى السنن الكبرى، 191
سچ ہے جو بھٹک جاتا ہے اسے سیدھی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔۔
نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر ثنائی وغیرہ۔۔
اٹیچمنٹس
-
23.4 KB مناظر: 826
Last edited: