• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
FB_IMG_1550582468924.jpg

سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
تحریر اجمل منظور مدنی
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط اول》
#دفاع_سلفیت

☀چاہے دور نبوت ہو یا دور صحابہ اس وقت مسلمان بڑی سادگی اور ایمان ویقین سے کے ساتھ غیبیات، عقیدے اور اللہ کی ذات وصفات کو بالکل اسی طرح مان لیتے تھے اور یقین کے ساتھ ان پر ایمان لاتے تھے جس طرح کتاب وسنت میں اللہ اور رسول نے مراد لیا ہے۔۔ لیکن بعد کے دور میں مسلم حکمرانوں نے اجنبی قوموں سے دوسری بہت ساری چیزوں کے ساتھ منطق وفلسفہ کو بھی رواج دیا جس کی زد میں علم کلام اور الہیات کے نام سے اللہ کی ذات اور اسلامی عقیدہ بھی آیا۔۔

☀اور عالم اسلام میں ایسے ایسے بقراطی اور عقل پرست پیدا ہوئے جنہوں نے غیبیات، عقیدے اور ذات الہیہ کو مشکوک بناکر رکھ دیا ۔۔ اور اسی بنیاد پر بہت سارے گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔۔ خصوصا اسماء وصفات کے باب میں بہت سے گمراہ فرقے وجود میں آئے اور انہوں نے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر یا تو اسماء وصفات کا انکار کردیا جیسے جہمیہ اور معطلہ وغیرہ، یا ان میں تاویل کرکے انکے معنی کا انکار کردیا۔۔ جن میں مشہور معتزلہ، ماتریدیہ اور اشعریہ ہیں۔۔ اور کچھ نے صفات ذاتیہ کو تو مانا لیکن صفات فعلیہ کا انکار کر دیا۔۔

☀لیکن اس وقت مسلمانوں نے عقیدے کی حفاظت میں ایسے گمراہ لوگوں کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔۔ چنانچہ امام شافعی نے ایسے شخص کو کوڑا مارنے اور گدھے پر بٹھاکر گھمانے کا فتوی دیا ہے جو علم کلام اور فلسفہ پڑھکر لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے۔۔

☀ایک مرتبہ سید التابعین حسن بصری سے واصل بن عطا نے اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑا کر کہا کہ میں مرتکب کبیرہ کو نہ تو کافر کہتا نہ ہی مومن بلکہ وہ دونوں کے بیچ میں رہے گا۔۔ تو آپ نے اسے مجلس چھوڑ دینے کیلئے کہہ دیا۔

☀اسی طرح امام مالک سے جب ایک عقل پرست نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے آیت الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه:5] کے بارے میں پوچھ بیٹھا کہ کیف استوی؟ اللہ کیسے مستوی ہے؟
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں پہلی بار اس طرح جب سوال کرتے ہوئے امام مالک نے سنا تو آپ چکرا گئے اور پسینے سے شرابور ہوگئے ۔ مجلس میں سکوت طاری ہوگیا۔۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس عقلانی کو جواب دیتے ہوئے اسماء وصفات کے بارے میں اپنا تاریخی جملہ کہا جو سارے اہل سنت مسلمانوں کیلئے اسماء وصفات کے بارے میں اصول بن گیا۔۔ آپ نے فرمایا: الاستواء ثابت والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.
یعنی ضروری ہے کہ استواء رب پر ایمان لایا جائے، بالکل اسی طرح جو اللہ جل جلالہ کی شان کے لائق ہے اور جس معنی میں قرآن کے اندر وارد ہوا ہے اور صحابہ کرام نے جیسا سمجھا ہے۔ البتہ کیفیت مجہول ہے ہم اسے انسانوں پر قیاس نہیں کریں گے، اس کے بارے میں اس قسم کا سوال کرنا بدعت ہے۔
پھر امام مالک نے کہا: مجھے اس آدمی کے گمراہ ہونے کا شبہ ہے۔ اس لئے ااے مجلس سے باہر کردیا جائے۔
اس طرح اس عقلانیت پرست کو بھی حلقہ درس سے باہر کردیا گیا۔۔

☀اسی طرح ایک واقعہ بصرہ کے گورنر خالد بن عبد اللہ القسری کے بارے میں آتا ہے کہ جب ایک عقل پرست جعد بن درہم نے موسی علیہ السلام سے اللہ کے کلام کرنے کا انکار کیا یعنی صفت کلام کا انکار کیا تو گورنر نے اسے قتل کردیا ۔۔ واللہ اعلم بالصواب

آپ دیکھیں گے سید مودودی ان سب کا معجون مرکب ہیں۔۔ کیونکہ سید مودودی کا بھی پرابلم یہی تھا کہ خود انہیں کے بیان کے مطابق دینی تعلیم اساتذہ کی رہنمائی میں ٹھیک سے حاصل نہیں کرسکے ۔۔ اسی لئے ذاتی مطالعہ سے منطق وفلسفہ اور علم کلام پڑھ کر تفسیر لکھنے بیٹھ گئے۔ چنانچہ ان سارے فاسد عقیدوں کو انہوں نے اپنی کتابوں کے اندر بھی انڈیل دیا اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بن گئے۔۔ خصوصا اللہ کی ذات وصفات سے متعلق۔۔ جنہیں ہم تین قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
پہلی قسم: صفات ذاتیہ خبریہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا اپنے لئے ہاتھ، آنکھ، پنڈلی، پیر اور چہرے وغیرہ کا ثابت کرنا۔۔
دوسری قسم: صفات ذاتیہ معنویہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا سننا ، دیکھنا، ہنسنا، بات کرنا، ارادہ کرنا وغیرہ۔
تیسری قسم: صفات فعلیہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان سے نزول کرنا، فرشتوں کے ساتھ آنا، وغیرہ۔۔

☀ذیل میں ہم موصوف کے مشہور زمانہ عقلی تفسیر کی کتاب تفہیم القرآن سے کچھ مثال دیکر ثابت کر رہے ہیں کہ جناب کا عقیدہ خود کیسے تھا اور ساتھ ہی ایک بڑی جماعت کو بھی اس میں مبتلا کرنے کا سبب بنے:

✔اول: سورہ یونس آیت نمبر 3 میں (ثم استوى على العرش) کا سادہ ترجمہ یہی ہے کہ پھر وہ عرش پر جا ٹھہرا۔۔ لیکن مودودی نے اس کا ترجمہ کیسے کیا ملاحظہ کریں: (پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہوا)۔ تفہیم القرآن 2/ 262

تبصرہ: استوی علی العرش کا سیدھا مطلب ہے: عرش پر مستوی ہوا یعنی اس پر ٹھہرا اور قرار پایا۔۔ جیسا اس کی جاہ و جلال کے لائق ہے۔۔ استواء معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے۔۔ ہمیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔۔ اسی طرح عرش معلوم ہے ساتوں آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن وحدیث میں سینکڑوں دفعہ عرش کا ذکر آیا ہے۔۔ اور سب نے اس کا مطلب عرش الہی ہی سمجھا ہے۔۔ قیامت کے دن سایہ صرف عرش الہی ہی کا ہوگا۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے بغل میں بیٹھ کر بات کر رہی تھی جسے میں نہیں سن ہارہی تھی لیکن ساتوں آسمان کے اوپر عرش پر بیٹھے ہمارے رب نے اسے سن لیا اور فورا جبریل کو بھیج دیا۔۔ ( سورہ مجادلہ کے شروع میں پوری تفصیل دیکھیں)

لیکن دیکھیں مودودی نے اللہ کے عرش عظیم کو ماننے سے کیسے انکار کردیا۔۔ اور اس کا معنی بدل کر کیسے تخت حکومت کردیا ۔۔ کیا ایسا ترجمہ انہیں کرنے پر حکومت وسیادت کی بھوک نے کیا ہے؟! یا واقعی عرش کے منکر ہیں ؟ آخر عرش کا ترجمہ انہوں تفہیم القرآن میں عرش سے کیوں نہیں کیا؟!

✔دوم: دوسری جگہ سورہ اعراف آیت نمبر 54 کے تحت حاشیہ نمبر 41 میں عرش الہی کے بارے میں عقلی گھوڑا دوڑاتے ہوئے بلا کسی دیل وثبوت کے اپنی طرف سے دو مفہوم بتا رہے ہیں۔۔:
((خد ا کے استواء علی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہونے سے مرادیہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ہو۔))

تبصرہ: یعنی ایک طرف عرش پر اللہ کی ذات کے مستوی ہونے کا انکار کر رہے ہیں تو دوسری طرف کلام پاک میں جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکا دو مطلب بھی اپنی طرف سے گڑھ کر بیان کر رہے ہیں۔۔

✔سوم: تیسری جگہ سورہ ہود آیت نمبر 7 میں (وكان عرشه على الماء) کا ترجمہ صاف صاف یہی ہے کہ ( اور اسکا عرش پانی پر تھا) لیکن مودودی بقراطی کرتے ہوئے اور اپنی عقل کا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اور اس متعلق گمراہی کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں: ( رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔۔ تفہیم القرآن 2/ 325

تبصرہ: دیکھیں یہاں اپنی سمجھ خود بتا رہے ہیں کہ عرش سے مطلب سلطنت ہے۔ جناب کس جگہ قرآن یا حدیث میں عرش کا مطلب سلطنت بتایا گیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر عرش سے مراد سلطنت لے لی جائے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ اب اس کی سلطنت پانی پر نہیں ہے بلکہ اب اسکی سلطنت عرش پر ہے۔ اور کیا اس کی سلطنت صرف عرش پر ہے ۔ پوری کائنات میں نہیں ہے؟
ایک چیز کے انکار سے کتنا فساد لازم آتا ہے۔۔
سیدھا مطلب ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے اور وہیں سے پوری کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔ کوئی چیز اسکی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ پتہ پتہ ذرہ ذرہ سے وہ واقف ہے۔۔
سلف سے کہیں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ اللہ کی سلطنت پہلے پانی پر تھی ۔۔ یہ مودودی کی اپنی رائے اور فکر ہے۔۔ اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی سے کرنے کی ممانعت ہے۔۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (إياكم وأصحاب الرأي؛ فإنهم أعداء السنن. أعيتهم الأحاديث أن يحفظوها، فقالوا برأيهم، فضلّوا وأضلوا) ترجمہ: عقل پرستوں سے دور رہو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں، یہ حدیثوں کے یاد کرنے سے عاجز ہیں اس لئے اپنی عقلوں کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
المدخل إلى السنن الكبرى، 191
سچ ہے جو بھٹک جاتا ہے اسے سیدھی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر ثنائی وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582913202.jpg

FB_IMG_1550582930732.jpg
 

اٹیچمنٹس

Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
صفات ذاتیہ کے منکر سید مودودی!!!
✔《قسط دوم》

پہلی قسط میں عرش الہی کے تعلق سے مودودی کے فاسد عقیدے کا ذکر تھا۔ اس دوسری قسط میں اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ خبریہ کے تعلق سے مودودی کا عقیدہ واضح کیا گیا ہے کہ کیسے مودودی نے اللہ تعالی کے ذاتی صفات کا گمراہ فرقے معطلہ کی طرح صاف صاف انکار کر دیا ہے۔۔
جبکہ اہل سنت مسلمانوں کا یک اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے لئے جن ذاتی صفات کو ثابت کیا ہے اور ان کا ذکر قرآن وحدیث میں جہاں کہین بھی آیا ہے ان پر ایمان اسی طرح ایمان فرض ہے۔ انہیں ثابت مانا جائے بغیر کسی تشبیہ کے۔
کیونکہ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے (لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر) یعنی اسکی طرح کوئی نہیں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔
یہ آیت اہل سنت کیلئے قاعدہ اور اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔۔ کہ اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے اس کے پاس کان ہے آنکھ ہے ہاتھ ہے پیر ہے اور وہ سارے اعضاء جن کا ذکر صراحت سے قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ لیکن ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے کیسے ہیں اور نہ ہی انہیں ہم انسانی اعضاء سے تشبیہ دیتے ہیں۔۔ وہ سب اسی طرح ہوں گے جیسا اللہ جل جلالہ کی شان کمالی کیلئے مناسب اور لائق ہے۔۔
گمرای فرقوں کئ طرح نہ ہم انکا انکار کرتے ہیں اور ہم نہ ہی ان کی تاویل کر کے اپنی طرف سے انکا دوسرا کوئی معنی مراد لیتے ہیں کیونکہ یہ بجی انکار ہے۔ تمام اہل سنت علما نے عقیدے کی کتابوں میں تفصیل سے اسے بیان کیا ہے چاہے وہ عقیدہ طحاویہ ہو یا عقیدہ واسطیہ یا کوئی اور کتاب۔

☀اور صفات کے انکار سے ذات کا انکار لازم آتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم تمام اعضاء کا انکار کردیں تو ذات کو کیسے ثابت کریں گے۔ کیونکہ ذات اانہیں اعضاء کے ترکیب کلی کا نام ہے۔ ایک مرتبہ علامہ ابن قیم نے ایک منکر صفات سے مناظرہ کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ذات الہی ہی کے منکر ہو؟ اس نے کہا : وہ کیسے؟ فرمایا: اگر تم زید کے تمام اعضاء کا انکار کردو تو زید کسے کہیں گے؟
اسی طرح جب تم اللہ کے تمام ذاتی صفات کا انکار کرتے ہو تو پھر اللہ کو کیسے مانتے ہو؟ تم اللہ کو مانتے ہو لیکن اس کے ہاتھ کو نہیں ۔ اللہ کو مانتے ہو لیکن اسکے چہرے کو نہیں ۔ اللہ کو مانتے ہو لیکن اسکے پیر کو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اللہ کو کیسے مانتے ہو؟ یہ سن کر وہ کافی پریشان ہوا۔

ارشاد باری تعالی ہے: يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ [القلم:42]
محمد جوناگڑھی اور حفیظ جالندھری کا ترجمہ:
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو [سجده] نہ کر سکیں گے۔

علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے سورہ قلم کی مذکورہ آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

اس آیت کی تفسیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کردی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: " يكشف ربنا عن ساقه ، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة ، ويبقى من كان يسجد في الدنيا رياء وسمعة ، فيذهب ليسجد فيعود ظهره طبقا واحدا " . متفق عليه
ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومنہ عورت سجدے میں گرجائیں گے۔ لیکن جو دنیا میں ریا ونمود کیلئے دجدے کیا کرتا تھا وہ بھی سجدہ کرنا چاہے گا لیکن اسکی پیٹھ سخت ہوجائے گی اور وہ سجدہ نہ کرسکے گا۔
(مجلة الدعوة)، العدد: 1718، وتاريخ 10/8/1420هـ. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 24/ 317)

آئیے دیکھتے ہیں کہ سید مودودی نے ان صفات ذاتیہ کا انکار کیسے کیا ہے:
مودودی نے صاف صاف جہمیہ اور معطلہ جیسے گمراہ فرقوں کی طرح اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ کا انکار کیا ہے۔۔ اور انہیں دوسرے معنوں پر اپنی طرف سے محمول کیا ہے۔ جسے تحریف کہتے ہیں۔۔

✔اللہ تعالی کیلئے پنڈلی کا بھی ثبوت ہے۔ سورہ قلم آیتر نمبر 42 میں ارشاد ہے: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ۔
ترجمہ جوناگڑھی: جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو [سجده] نہ کر سکیں گے۔
لیکن مودودی اس آیت کے پہلے جملے کا ترجمہ کرتے ہیں: جس روز سخت وقت آ پڑے گا۔ ۔۔
یہاں بھی تاویل کرکے صفت کا انکار کر دیا ۔

✔اللہ کے دو ہاتھ ہے چنانچہ تفہیم القرآن کے اندر سورہ ملک کی پہلی آیت میں کہتے ہیں:
((اور اس کےہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تواسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے۔۔
تفہیم القرآن 6/ 41

سورہ ص آیت نمبر 75 کے تحت لکھتے ہیں:
((’’ دونوں ہاتھوں ‘‘ کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا۔

سورہ ذاریات آیت 47 میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔
ترجمہ جوناگڑھی:
آسمان کو ہم نے [اپنے] ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔
لیکن مودودی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔:
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنا یا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

تبصرہ: مودودی نے صراحت کے ساتھ ذاتی صفات کا انکار کرکے اسے اپنی طرف سے دوسرے معنوں پر محمول کیا ہے۔۔

✔ الشيخ ابن عثيمين رحمه الله سے آنکھ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے لکھا: " مذهب أهل السنة والجماعة : أن لله عينين اثنتين ، ينظر بهما حقيقة على الوجه اللائق به ، وهما من الصفات الذاتية " انتهى من "مجموع فتاوى ابن عثيمين" (4/58) .
ترجمہ: اھل السنہ والجماعہ کا مذہب یہی ہے کہ اللہ کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ حقیقی طور پر دیکھتا ہے اسی طریقے سے جو اسکی ذات کمال کیلئے زیب ہے۔ اور یہ اسکی ذاتی صفات ہیں۔
پھر آپ نے قرآن سے دلیل دی:
1. قال تعالى : (وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا) هود : 37 .
ثبت عن ابن عباس رضي الله عنهما في قول الله تعالى : (واصْنَعِ الفُلْكَ بِأَعْيُنِنا) ، قال : بعين الله تبارك وتعالى ، رواه عنه البيهقي في "الأسماء والصفات" (2/116) .
قال ابن جرير الطبري رحمه الله : " وقوله : (بأعيننا) ، أي : بعين الله ووحيه كما يأمرك " انتهى .
2. قال تعالى : (وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي) طه : 39
3. قال تعالى : (وَاصْبِرْ لِحُكمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا) الطور : 48
4: (تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا) القمر/14

مفہوم: نوح علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنی آنکھوں کے سامنے کشتی بنانے کیلئے کہا۔ اور موسی علیہ السلام سے کہا تم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ اس سے اللہ کیلئے آنکھ کا ہونا اور دیکھنا ثابت ہوتا ہے جسے اہل سنت والجماعہ مانتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔۔ اور اس پر سلف سے دلیل بھی دی۔۔

لیکن مذکورہ تینوں آیتوں کے ترجمہ میں سید مودودی نے ایک جگہ بھی آنکھ سے ترجمہ نہین کیا ہے۔۔
حدیث کے اندر آتا ہے بخاری (6858) کی روایت ہے:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن الله لا يخفى عليكم ، إن الله ليس بأعور - وأشار بيده إلى عينه - وإن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافية ) .
مفہوم: اللہ کانا نہیں ہے دجال کانا ہے۔
یہاں بھی اللہ کیلئے آنکھ کا ثبوت ہے۔
ابن خزیمہ نے بہت ساری دلیلوں کو ذکر کرکے کتاب التوحید میں لکھا ہے: " فواجب على كل مؤمن أن يثبت لخالقه وبارئه ما ثبَّت الخالق البارئ لنفسه من العين ، وغير مؤمن من ينفي عن الله تبارك وتعالى ما قد ثبَّته الله في محكم تَنْزيله ببيان النبي صلى الله عليه الذي جعله الله مبيِّناً عنه عَزَّ وجلَّ في قوله : ( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ) ، فبين النبي صلى الله عليه وسلم أن لله عينين ، فكان بيانه موافقاً لبيان محكم التَنْزيل ، الذي هو مسطور بين الدفتين ، مقروء في المحاريب والكتاتيب " انتهى .
"كتاب التوحيد" (1/64) .
مفہوم: اللہ اور اسکے رسول نے اللہ کیلئے جن ذاتی صفات کو ثابت کیا ہے انکو ماننے والے مومن ہیں انہیں چاہئیے کہ منکرین صفات کی بات نہ مانیں۔

خلاصہ: مودودی نے روافض، جہمیہ اور معطلہ جیسے گمراہ فرقوں کی طرح اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ کا انکار کیا ہے۔۔ اس لئے یہ فاسد عقیدے کے حامل تھے۔۔ انکی کتابوں کا مطالعہ تنقیدی اعتبار سے کیا جاسکتا ہے نا کہ سیکھنے کیلئے ورنہ آدمی گمراہ ہو سکتا ہے کیونکہ مومن کے نزدیک اصل عقیدہ ہے پھر اسی بنیاد پر اللہ تعالی بندے کے عمل کو قبول فرمائے گا۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، تفسیر جزائری اور احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550583084849.jpg

FB_IMG_1550583087301.jpg
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
وحدت الوجود کا فاسد اور باطل عقیدہ اور مودودی
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط سوم》

[[پہلی قسط میں عرش الہی کے تعلق سے مودودی کے فاسد عقیدے کا ذکر تھا۔ دوسری قسط میں اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ خبریہ کے تعلق سے مودودی کا عقیدہ واضح کیا گیا تھا جب کہ اس تیسری قسط میں وحدت الوجود جیسے مشرکانہ باطل اور فاسد عقیدے کا انکشاف ہے جس میں مودودی پورے طور سے ملوث تھے۔۔]]

☀گمراہ فرقوں کے باطل عقائد میں سے ایک نظریہ "وحدت الوجود" بھی ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو "اتحادیہ" بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
ان لوگوں کے ہاں اس عقیدے کا حامل ہی موحد ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے لوگ توحید سے کوسوں دور ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں سید مودودی بھی کیسے اس باطل اور فاسد عقیدے کے حامل تھے۔۔ چنانچہ تفہیم القرآن کے اندر کہتے ہیں:
((یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہےجہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔))
تفہیم القرآن 2/ 590

✔دیکھیں مودودی معطلہ جیسے گمراہ فرقے کا رویہ اپنا کر کیسے عقل کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ کہ اللہ کسی مقام پر متمکن نہیں ہے۔۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر نہیں ہے تو کہاں ہے؟ پھر اللہ کی ذات کہاں ہے؟ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں کہاں گئے تھے کس کے پاس گئے تھے کس جگہ گئے تھے کس سے ملاقات ہوئئ تھی ؟ موسی علیہ السلام سے ملنے کے بعد واپس نماز کو کم کرانے بار بار کس کے پاس آئے گئے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے ایسا کیوں سوال کیا تھا کہ این اللہ ؟ یعنی اللہ کہاں ہے؟ پھر اس لونڈی نے جواب دیا : آسمان میں ہے۔ کیا اس سے مقام ثابت نہیں ہو رہا ہے۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب صحیح مانا اور اسے بطور انعام کے آزاد کر دیا ۔۔
کیا مودودی اور انکے حواری ان سوالوں کے جوابات دے سکتے ہیں؟!

✔کیا مودودی مقام کی تعیین نہ کرکے وحدو الوجود کا فاسد عقیدہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کہیں ایک جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ ہے۔۔ ؟! کیونکہ اسی تفہیم القرآن کے اندر ایک دوسری جگہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
((اور اللہ تعالی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے، کیونکہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے۔ ))
تفہیم القرآن 6/ 86

✔اگر ابھی بھی یقین نہ آئے تو تیسری دلیل دیکھ لیں کہ کس طرح یہ بندہ فاسد اور گمراہ کن وحدة الوجود کا عقیدہ رکھتا ہے۔۔ :
((اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کے لباد خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔))
تفہیم القرآن 2/ 505

یعنی انسان صفات الہی کا عکس اور پرتو ہے پھر اس کے خدا ہونے میں کیا شک ہے ۔۔ یہی تو وحدة الوجود کا عقیدہ رکھنے والے غلیظ اور باطنی صوفی کہتے آئے ہیں۔۔ کہ جو انسان ہے وہی خدا ہے اور جو خدا ہے وہی انسان ہے۔۔
ان باطنی غلیظ صوفیوں اور ہندوؤں کے اس عقیدے میں کیا فرق ہے کہ ہر کنکر شنکر ہے۔۔

اسی کو رشید گنگوہی نے اس طرح بیان کیا ہے: میں کچھ نہیں ہوں تیرا ہی ظل ہے تیرا ہی وجود ہے۔۔

یہ گمراہ عقیدہ ہر اس فرقے میں پایا جاتا ہے جو اللہ جل جلالہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اسے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔۔۔

☀یہی عقیدہ دیوبندیوں کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (متوفی 1317ھ) بھی رکھتے تھے جن کا کہنا ہے کہ : "وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے" انتہی ۔ شیخ امداد اللہ کی تصنیف "شمائم امدادیہ "(ص/32)
بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:
"عابد اور معبود کے درمیان فرق کرنا ہی صریح شرک ہے " صفحہ: (37)
اور تلبیس ابلیس کے زیر اثر ان غلط نظریات کیلئے بے مہار وسعت سے کام لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس خطرناک بات کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا :
"بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اور رب ہی ظاہر میں بندہ ہے"[العیاذباللہ]
دیکھیں: "شمائم امدادیۃ "صفحہ: (38)
صوفی اقبال محمد زکریا کاندہلوی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اس نے ہمیں وحدت الوجود کا راز معلوم کروایا، وہ ایسے کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ عشق، معشوق اور عاشق سب ایک ہی ہیں "انتہی
ماخوذ از کتاب: "محبت" صفحہ: (70)

تفصیلی معلومات کے لئے دیکھیں:
سید طالب الرحمن (مدیر: المعھد العالی راولپنڈی، پاکستان)کی کتاب "الدیوبندیہ"(ص/29-42) مطبوعہ دار صمیعی (1998ء)۔

✔چونکہ عقیدہ اور مسلک کے اعتبار سے سید مودودی بھی صوفی حنفی تھے اور سلسلہ چشتیہ سے وابستہ تھے اس لئے وہ سارے فاسد اور باطل عقیدے ان کے اندر بھی موجود تھے۔۔

☀مودودی کے پیروکاروں کا بھی یہی عقیدہ ہے چنانچہ یہ اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ: " اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ "
حوالہ : بنیادی دینی معلومات ص 16
شائع کردہ چنار پبلیکیشنز 2012 ء
ترتیب کا سہرا : محمد عبد اللہ وانی چیرمین فلاح عام ٹرسٹ۔ جموں کشمیر۔
مواد کی تیاری : غازی معین الاسلام ندوی
پروف ریڈنگ : شیخ غلام حسن
عرض ناشر : غلام قادر لون

☀عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔

✔نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550583822325.jpg

FB_IMG_1550583825143.jpg

FB_IMG_1550583828194.jpg
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
منکرین ذات وصفات کے باطل اصطلاحات کا عقیدہ
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط چہارم》

مودودی کا عقیدہ ذات باری تعالی کے بارے میں:
=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
= اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔

☀جی ہاں مودودی نے اپنے سارے ان فاسد فلسفیانہ جاہلانہ عقائد کو تفہیم القرآن کے اندر درج ذیل عبارت میں جمع کردیا ہے:
((مگر یہ بات بہرحال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آیت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہو گا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے۔))
تفہیم القرآن 6/ 75

✔=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
مودودی کا یہ عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف یونانی برہمنی مجوسی عقیدہ ہے۔۔ ورنہ قرآن وحدیث میں سینکڑوں جگہ اس عقیدے کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے۔۔ صرف قرآن میں سات مرتبہ اس کا ذکر آیا ہے۔۔۔ ایک جاہل فلسفی نے جب امام مالک سے پوچھا کہ کس طرح مستوی ہے تو فرمایا: کیفیت ہم نہیں جانتے البتہ اسے مانتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور یہی کہیں گے کہ جیسا اس کے شایان شان ہوگا اسی طرح مستوی ہوگا۔۔ اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔۔
اس پر مزید تفصیل اس پوسٹ میں دیکھیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2037225386390738&id=100003098884948

☀=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
✔تبصرہ: قرآن وحدیث اور اسلامی عقیدے سے کوسوں دور یونانی منطق وفلسفہ کا دلدادہ شخص ہی ایسی بھونڈی بات کہہ سکتا ہے۔۔ !! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی دوسرا مطلب سمجھا ؟! کیا صحابہ کرام میں سے کسی نے اسے ناقابل تصور سمجھ کر اس کا مطلب پوچھا؟! جیسا کہ اکثر صحابہ کرام دین عقیدہ کے بارے میں سوال کرتے رہتے تھے۔۔ اس تعلق سے بطور خاص سورہ بقرہ سورہ انفال اور سورہ توبہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔۔

یقینا عقل پرستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔۔ البتہ جو اللہ اور اسکے رسول پر کامل یقین رکھتے ہیں وہ اس کا صرف تصور ہی نہیں بلکہ فورا اسے مان لیتے ہیں۔۔ اللہ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہیں ۔۔ اس کا ذکر قرآن اور حدیث دونوں میں آیا ہے اور ان فرشتوں کی صفات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔۔ اسکا انکار کرنے والا قرآن وحدیث کا منکر ہوگا۔۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ۔ سورہ حاقہ 17
ترجمہ: اس کے یعنی آسمان کے کناروں پر فرشتے ہوں گے، اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ [فرشتے] اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ مؤمن /7
ترجمہ: عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے [فرشتے] اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔

اس تعلق سے کئی ایک احادیث بھی مروی ہیں۔۔ جن میں ایک یہ بھی ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ وصححه الألباني في "صحيح أبي داود".
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے“۔

امام ابو داود نے اس حدیث کو کتاب السنہ باب فی الجھمیہ کے تحت لاکر گمراہ فرقے جہمیہ پر رد کئا ہے جو مودودی کی طرح یہ تصور بھی نہیں لرتے ہیں کہ عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔۔

ایک دوسری روایت کچھ اس طرح ہے:
عن ابن عباس .. وفيه: فإنها لا يرمى بها لموت احد، ‏‏‏‏‏‏ولا لحياته، ‏‏‏‏‏وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ: الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ الحديث، رواه مسلم
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لیے نہیں ٹوٹتا لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے، وہ بیان کرتے ہیں۔“

☀=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
✔تبصرہ: شیخ عثمان خمیس نے اسے اچھی طرح واضح کیا ہے۔۔ کہ اللہ کا جسم ہے یا نہیں؟ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کا لفظ قرآن وحدیث میں وارد نہیں ہے نا ہی اثبات میں اور نہ ہی نفی میں۔۔ اس لئے اس سے بچنا چاہئیے کیونکہ صحابہ وتابعین نے بھی اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔۔ لیکن اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو اس میں حق وباطل دونوں کا احتمال ہو سکتا ہے۔۔ لہذا اگر کوئی کہتا ہے کہ اللہ جسم ہے لیکن دوسری جسموں کی طرح نہیں۔۔ تو ہم کہیں گے کہ اس لفظ کا ثبوت نہیں ہے۔۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ جسم ہے جسموں کی طرح تو یہ کفر ہو جائے گا کیونکہ اللہ کی طرح کوئی نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو مجسمہ کہتے ہیں۔۔

لیکن اگر کوئی مودودی کی طرح جسم کا انکار کرے اور مقصد اس کے صفات ذاتیہ کا انکار ہو تو یہ بھی گمراہ عقیدہ ہے اور یہ معطلہ کا عقیدہ ہے۔۔ اور عام طور سے وہی لوگ جسم کا انکار کرتے ہیں جو صفات ذاتیہ کے منکر ہیں۔۔

علامہ سفارینی نے کہا : "قال الإمام أحمد رضي الله عنه : لا يوصف الله تعالى إلا بما وصف به نفسه ، ووصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والحديث . وقال شيخ الإسلام ابن تيمية: مذهب السلف أنهم يصفون الله تعالى بما وصف به نفسه ، وبما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم من غير تحريف ولا تعطيل ، ومن غير تكييف ولا تمثيل ، فالمعطّل يعبد عدما ، والممثل يعبد صنما ، والمسلم يعبد إله الأرض والسماء" انتهى من "لوامع الأنوار البهية" (1/24) .
ترجمہ: امام احمد نے کہا: اللہ کے بارے میں پم وہی کہیں گے جیسا اللہ نے اپنے بارے میں اور اسکے رسول نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔ قرآن وحدیث سے پم تجاوز نہیں کریں گے۔۔ یہی بات ابن تیمیہ نے بھی کہی ہے مزید یہ کہ اللہ کی ذات وصفات میں کسی بھی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل سے بچیں گے۔۔ چنانچہ معطل ایسی چیز کی عبادت کرتا ہے جو عدم یعنی کچھ نہیں ہوتا اور ممثل بت کی پوجا کرتا ہے۔۔

☀=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح اللہ جل جلالہ کیلئے لفظ مقام یا مکان بھی کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔۔ بلکہ یہ اصطلاح بھی جسم کی طرح بدعت اور فلاسفہ کا ایجاد کردہ ہے۔
چنانچہ معطلہ مکان کی نفی کرکے اللہ کے صفت علو اور استواء علی العرش کا انکار کرتے ہیں۔۔ اور یہی مقصد سید مودودی کا بھی ہے۔۔ کہ مکان کہہ کر اس سے مخلوق کی طرح سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ اس سے لازم آئیگا کہ وہ کسی چیز کا محتاج ہے اور مخلوق اسے گھیرے ہوئے ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں ایسا سوچنا باطل ہے۔۔ ان ساری تشبیہات اور مفروضات سے اللہ پاک ہے۔۔

لیکن اگر عدم مکان سے مراد یہ لیا جائے کہ اللہ تمام مخلوقات سے فوق تر اور جدا ہے۔۔ کسی مخلوق سے ملا نہیں ہے۔۔ اور اس سے اللہ کی صفت علو اور فوقیت کو ثابت کرنا مقصد ہو تو ایسی صورت میں درست ہے۔۔

اسی کو ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے جس کے سمجھنے سے عقل پرست قاصر رہے:
((فاذا لوا: إن الله فوق سماواته على عرشه بائن من خلقه، امتنع أن يكون محصوراً أو محاطاً بشيء موجود غيره، سواء سُمَّي مكاناً أو جهة أو حيزاً أو غير ذلك... فإن البائن عن المخلوقات ، العالي عليها : يمتنع أن يكون في جوف شيء منها.....
وإن أراد بمسمى الجهة والحيز والمكان : أمراً معدوماً، فالمعدوم ليس شيئاً، فإذا سَمَّى المُسَمِّي ما فوق المخلوقات كلها حيزاً وجهة ومكاناً، كان المعنى: أن الله وحده هناك، ليس هناك غيره من الموجودات: لا جهة ولا حيز ولا مكان، بل هو فوق كل موجود من الأحياز والجهات والأمكنة وغيرها، سبحانه وتعالى")) "درء تعارض العقل والنقل" (7/ 15-17).
اور مجموع فتاوی میں کہا:
((" السلف والأئمة وسائر علماء السنة إذا قالوا " إنه فوق العرش ، وإنه في السماء فوق كل شيء " لا يقولون إن هناك شيئا يحويه ، أو يحصره ، أو يكون محلا له ، أو ظرفا ووعاء ، سبحانه وتعالى عن ذلك ، بل هو فوق كل شيء ، وهو مستغن عن كل شيء ، وكل شيء مفتقر إليه ، وهو عالٍ على كل شيء ، وهو الحامل للعرش ولحملة العرش بقوته وقدرته ، وكل مخلوق مفتقر إليه، وهو غني عن العرش وعن كل مخلوق "))
"مجموع الفتاوى " (16/100-101) .

امام اہل السنہ امام شافعی نے کہا:
((" القول في السنة التي أنا عليها ، ورأيت عليها الذين رأيتهم ، مثل سفيان ومالك وغيرهما : الإقرار بشهادة أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، وأن الله على عرشه في سمائه ، يقرب من خلقه كيف شاء ، وينزل إلى السماء الدنيا كيف شاء ، وذكر سائر الاعتقاد")) .

✔الحافظ عبد الغني المقدسي نے کتاب العقیدہ (27) ، میں اور ابن قدامة نے إثبات صفة العلو (124-125) میں ، اور ابن تيمية نے " الفتاوى " (5/53-54، 139) میں ، اور ابن القيم نے " الجيوش "(59) میں اس مسئلے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مزید تسلی کیلئے علامہ ذہبی کی "مختصر العلو" بتحقيق الألباني (ص176)، اور انہیں کی کتاب العرش، ابن قیم کی اجتماع الجيوش الإسلامية اور ابن تیمیہ کی الفتاوی الحمویہ دیکھیں۔۔

☀=اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح لفظ حد اور جہت بھی ایجاد کردہ ہے۔۔ امام دارمی نے کہا:
((" والله تعالى له حد لا يعلمه أحد غيره ، ولا يجوز لأحد أن يتوهم لحده غاية في نفسه ، ولكن يؤمن بالحد ، ويَكِل علم ذلك إلى الله . ولمكانه أيضا حد ، وهو على عرشه فوق سماواته۔ فهذان حدان اثنان ")) "نقض الدارمي على بشر المريسي" (223-224) .

علامہ ابن ابی العز الحنفی نے عقیدہ طحاویہ کی شرح میں یہی لکھا ہے۔۔ دیکھیں: "شرح العقيدة الطحاوية" (1/263-264) .

اور شیخ ابن عثیمین نے جہت کے بارے میں کہا:
(("جاء في بعض كتب أهل الكلام يقولون: لا يجوز أن يوصف الله بأنه في جهة مطلقا، وينكرون العلو ظنا منهم أن إثبات الجهة يستلزم الحصر. وليس كذلك، لأننا نعلم أن ما فوق العرش عدم لا مخلوقات فيه، ما ثم إلا الله، ولا يحيط به شيء من مخلوقاته أبدا۔ فالجهة إثباتها لله فيه تفصيل، أما إطلاق لفظها نفيا وإثباتا فلا نقول به؛ لأنه لم يرد أن الله في جهة، ولا أنه ليس في جهة، ولكن نفصل، فنقول: إن الله في جهة العلو؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم قال للجارية: (أين الله؟) وأين يستفهم بها عن المكان؛ فقالت: في السماء. فأثبتت ذلك، فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: (أعتقها، فإنها مؤمنة) .
فالجهة لله ليست جهة سفل، وذلك لوجوب العلو له فطرة وعقلا وسمعا، وليست جهة علو تحيط به؛ لأنه تعالى وسع كرسيه السماوات والأرض، وهو موضع قدميه؛ فكيف يحيط به تعالى شيء من مخلوقاته؟! .
فهو في جهة علو لا تحيط به، ولا يمكن أن يقال: إن شيئا يحيط به، لأننا نقول: إن ما فوق العرش عدم ليس ثم إلا الله - سبحانه -" .
دیکھیں: "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (10/ 1131) .
مفہوم: یعنی جہت کے انکار سے اگر اللہ تعالی کی صفت علو، فوقیت اور استواء علی العرش کا انکار مقصود ہو تو یہ باطل ہے۔ لیکن اگر اس سے کسی چیز میں محصور ہونے اور حلول ہونے کا انکار مقصود ہو تو صحیح ہے۔۔ البتہ مطلق طور پر بلا تشبیہ اور بلا حصر کے اسے ماننا بھی صحیح ہے کیونکہ لونڈی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا: اللہ کہاں ہے؟ تو لونڈی نے جہت فوق یعنی آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صحیح قرار دیا تھا۔۔

اور شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اسے اس ثابت کیا ہے :
(("يُقَالُ لِمَنْ نَفَى الْجِهَةَ: أَتُرِيدُ بِالْجِهَةِ أَنَّهَا شَيْءٌ مَوْجُودٌ مَخْلُوقٌ؟ فَاَللَّهُ لَيْسَ دَاخِلًا فِي الْمَخْلُوقَاتِ . أَمْ تُرِيدُ بِالْجِهَةِ مَا وَرَاءَ الْعَالَمِ؟ فَلَا رَيْبَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ مُبَايِنٌ لِلْمَخْلُوقَاتِ . وَكَذَلِكَ يُقَالُ لِمَنْ قَالَ : اللَّهُ فِي جِهَةٍ: أَتُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ؟ أَوْ تُرِيدُ بِهِ أَنَّ اللَّهَ دَاخِلٌ فِي شَيْءٍ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ؟ فَإِنْ أَرَدْت الْأَوَّلَ فَهُوَ حَقٌّ ، وَإِنْ أَرَدْت الثَّانِيَ فَهُوَ بَاطِلٌ ")) .
"مجموع الفتاوى" (3/ 42) .

اسی لئے امام طحاوی نے کہا:
(("لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات")). یعنی اللہ تعالی کو مبتدعہ کے چھ جہتوں میں سے کسی نے بھی احاطہ نہیں کر رکھا ہے۔۔
علامہ ابن باز نے اس تعلیق لگاتے ہوئے کہا:
" مراده الجهات الست المخلوقة، وليس مراده نفي علو الله واستوائه على عرشه، لأن ذلك ليس داخلاً في الجهات الست، بل هو فوق العالم ومحيط به، وقد فطر الله عباده على الإيمان بعلوه سبحانه، وأنه في جهة العلو " .
ترجمہ: چھ جہات سے مراد آپ نے چھ مخلوق جہات کو لیا ہے ۔ اور یہاں اللہ تعالی کے علو وفوقیت اور استواء علی العرش کا انکار نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں مذکورہ مفروضہ چھ جہات میں سامل نہیں ہیں۔۔ بلکہ اللہ تعالی تمام عالم سے فوق تر اور اسے اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے۔۔
دیکھیں: "التعليقات الأثرية على العقيدة الطحاوية" (ص 16) بترقيم الشاملة .

✔خلاصہ کلام یہی ہے کہ یہ سارے اصطلاحات بعد کے فلاسفہ ومناطقہ کے ایجاد کردہ ہیں۔۔ جن کا مقصد ذات وصفات میں شکوک و شبہات ڈال کر انہیں یا تو کلی طور پر انکار کرنا یا انکی باطل تاویل کرکے مسلمانوں کا عقیدہ بگاڑنا ہے۔۔
چنانچہ جو سلف صالحین کی کتابیں نہ پڑھ کر یونانی فلسفہ علم کلام الہیات اور منطق کو پڑھنے پر اکتفا کیا وہ گمراہ ہوگئے۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550584003299.jpg
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
صفات فعلیہ کا انکار
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط پنجم》

☀اللہ سبحانہ وتعالی کے جو صفات فعلیہ ہیں جیسے اسکا رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزول فرمانا، فرشتوں کے ساتھ حساب کیلئے آنا، اس کا ہنسنا اور کلام کرنا وغیرہ۔۔ اس طرح کے تمام صفات کے بارے میں بھی اہل سنت مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ انہیں ہم ویسے ہی مانیں گے جیسا اللہ جل شانہ کیلئے لائق اور مناسب ہے۔۔ ان میں ہم کسی طرح کی کوئی تاویل اور تحریف اور تکییف وتمثیل نہیں کریں گے۔۔۔ اس ذات قہار ذوالجلال کیلئے کوئی چیز محال نہیں ہے اور اس کا کوئی بھی فعل مخلوق جیسا نہیں ہے۔۔

☀لیکن مودودی نے دیگر صفات کی طرح ان صفات کا بھی انکار کر دیا ہے۔۔ چنانچہ سورہ فجر آیت نمبر 22 میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور تمہارا رب [خود] آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر [آ جائیں گے]۔

☀لیکن مودودی نے صفت مجیء کا انکار کرکے ترجمہ پہلے کچھ یوں کیا: ((اور تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوگا))

☀پھر اس پر حاشیہ لگا کر کچھ یوں گل کھلایا:
((اصل الفاظ ہیں جاء ربک جن کا لفظی ترجمہ ہے ‘‘تیرا رب آئے گا’’۔ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کےایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، اس لیے لا محالہ اس کو ایک تمثیلی انداز بیان ہی سمجھنا ہو گا جس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اس وقت اللہ تعالی کے اقتدار اور اس کی سلطانی و قہاری کے آثار اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے تمام لشکروں اور راعیان سلطنت کی مد سے وہ رعب طاری نہیں ہوتا جو بادشاہ کے بنفس نفیس خود دربار میں آ جانے سے طاری ہو تا ہے۔))
تفہیم القرآن 6/ 333

☀مودودی نے پہلے رب العالمین کے آنے کا انکار کیا پھر ترجمہ غلط کیا اور پھر اپنی منطقی ناقص سوچ پر بھروسہ کرکے ہانکنا شروع کردیا۔۔ اور حدیث کی روشنی میں اس آیت کا وہ پس منظر نہیں بیان کیا اور نہ ہی اسکی طرف اشارہ ہی کیا جو شفاعت کبری کے وقت پیش آئے گا۔۔ کہ جب حساب کتاب لینے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول ہوجائے گی تو اللہ رب العالمین فرشتوں کی صفوں میں بندوں کا حساب لینے تشریف لائے گا۔۔ جیسا کہ بخاری ومسلم میں شفاعت والی لمبی حدیث مروی ہے۔۔

☀تفسیر ابن کثیر میں ہے:
قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ ”بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائے گی اونچی نیچی زمین برابر کر دی جائے گی اور بالکل صاف ہموار ہو جائے گی پہاڑ زمین کے برابر کر دئیے جائیں گے، تمام مخلوق قبر سے نکل آئے گی، خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائے گا “۔

☀یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی اور یہ شفاعت اس وقت ہو گی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر علیہ السلام کے پاس ہو آئے گی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں، پھر سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ ”ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں“۔

☀پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورۃ سبحان میں گزر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائے گا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے، فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائے گی۔

☀مودودی نے کہا: ((اللہ تعالی کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا))
مودودی نے اتنی جسارت سے یہ کہہ کر کیا صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار نہیں کیا جس میں آتا ہے کہ اللہ تعالی ہر رات آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔۔ ؟؟!

☀کیا اگر ایک کم عقل انسان کے دماغ میں جو بات نہ آئے اس کا یہی طریقہ ہے کہ اس کا انکار کردیا جائے؟؟!

☀فتاوی لجنہ دائمہ میں نزول باری تعالی کے تعلق سے پوچھے جانے پر یہ فتوی دیا گیا:
اللہ تعالی نے اپنے لئے بیک وقت دو صفت کا ذکر کیا ہے ایک عرش پر مستوی ہونے کا اور دوسرے آسمان دنیا کی طرف نزول فرمانے کا۔۔ دونوں صفت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔۔ کیونکہ بیک وقت دونوں اللہ کے لئے کچھ بھی محال نہیں ہے۔۔ جبکہ انسان کیلئے یہ محال ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے وقت وہ دونوں جگہ باقی رہے ۔۔ لہذا انسان کی طرح سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ بلکہ اللہ تعالی کیلئے سب کچھ ممکن ہے جیسا کہ اسکی شان ہے۔۔ وہ فعال لما یرید۔۔ علی کل شیء قدیر ہے۔۔ اس نے اپنے بارے میں کہہ دیا: (فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ) ، اس لئے ہم اسی بقول کہیں گے: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)،
دیکھیں: "فتاوى اللجنة الدائمة" (3/ 186) .

☀اور اسی طرح شيخ ابن باز رحمه الله نے بھی کہا:" نزول الرب جل وعلا لا يشابه نزول المخلوقين، بل هو نزول يليق بالله سبحانه وتعالى، لا يعلم كيفيته إلا هو جل وعلا، ولا يلزم منه خلو العرش، هو فوق العرش سبحانه وتعالى، فوق جميع الخلق، وينزل نزولا يليق بجلاله، لا ينافي فوقيته وعلوه سبحانه وتعالى، فهو نزول يليق به جل وعلا، وهو الذي يعلم بكيفيته سبحانه وتعالى، فعلينا أن نؤمن بذلك، ونصدق بذلك، ونقول: لا يعلم كيفية هذا إلا هو سبحانه وتعالى " .
دیکھیں: "فتاوى نور على الدرب" (10/ 131) .

☀نزول الہی پر ایک کتاب (صفة النزول الإلهي ورد الشبهات حولها.) تأليف: عبد القادر بن محمد بن يحي الغامدي . ہے ۔ یہ اپنے باب میں بہت ہی نفیس اور مفید کتاب ہے۔۔ فلاسفہ۔ منکرین صفات اور عقل پرستوں کے تمام شبہات کا جواب بڑی خوش اسلوبی سے دیا ہے۔۔
اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں:
http://www.moswarat.com/books_view_1219.html

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550740736090.jpg

FB_IMG_1550740744672.jpg
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2019
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
36
کیا کچھ خوف خدا بھی ہے کہ نہیں اور کیا یہ احساس بھی ہے کہ نہیں یہ تحریر بھی آپ کے نامہ اعمال کا حصہ ہوگی اور وہاں آپ اس الزام کی تلافی کیسے کریں گے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے تعصب اور شخصیت و مسلک پرستی سے محفوظ رکھے آمین۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
جزاک اللہ عدنان بھائی
باقی جن کے گلے میں تقلید کا پٹہ ہو ان کو کیا سمجھا یا جاسکتا ہے؟
 
Top