سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
منکرین ذات وصفات کے باطل اصطلاحات کا عقیدہ
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط چہارم》
مودودی کا عقیدہ ذات باری تعالی کے بارے میں:
=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
= اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔

جی ہاں مودودی نے اپنے سارے ان فاسد فلسفیانہ جاہلانہ عقائد کو تفہیم القرآن کے اندر درج ذیل عبارت میں جمع کردیا ہے:
((مگر یہ بات بہرحال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آیت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہو گا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے۔))
تفہیم القرآن 6/ 75
✔=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
مودودی کا یہ عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف یونانی برہمنی مجوسی عقیدہ ہے۔۔ ورنہ قرآن وحدیث میں سینکڑوں جگہ اس عقیدے کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے۔۔ صرف قرآن میں سات مرتبہ اس کا ذکر آیا ہے۔۔۔ ایک جاہل فلسفی نے جب امام مالک سے پوچھا کہ کس طرح مستوی ہے تو فرمایا: کیفیت ہم نہیں جانتے البتہ اسے مانتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور یہی کہیں گے کہ جیسا اس کے شایان شان ہوگا اسی طرح مستوی ہوگا۔۔ اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔۔
اس پر مزید تفصیل اس پوسٹ میں دیکھیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2037225386390738&id=100003098884948

=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
✔تبصرہ: قرآن وحدیث اور اسلامی عقیدے سے کوسوں دور یونانی منطق وفلسفہ کا دلدادہ شخص ہی ایسی بھونڈی بات کہہ سکتا ہے۔۔ !! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی دوسرا مطلب سمجھا ؟! کیا صحابہ کرام میں سے کسی نے اسے ناقابل تصور سمجھ کر اس کا مطلب پوچھا؟! جیسا کہ اکثر صحابہ کرام دین عقیدہ کے بارے میں سوال کرتے رہتے تھے۔۔ اس تعلق سے بطور خاص سورہ بقرہ سورہ انفال اور سورہ توبہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔۔
یقینا عقل پرستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔۔ البتہ جو اللہ اور اسکے رسول پر کامل یقین رکھتے ہیں وہ اس کا صرف تصور ہی نہیں بلکہ فورا اسے مان لیتے ہیں۔۔ اللہ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہیں ۔۔ اس کا ذکر قرآن اور حدیث دونوں میں آیا ہے اور ان فرشتوں کی صفات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔۔ اسکا انکار کرنے والا قرآن وحدیث کا منکر ہوگا۔۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ۔ سورہ حاقہ 17
ترجمہ: اس کے یعنی آسمان کے کناروں پر فرشتے ہوں گے، اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ [فرشتے] اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ مؤمن /7
ترجمہ: عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے [فرشتے] اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔
اس تعلق سے کئی ایک احادیث بھی مروی ہیں۔۔ جن میں ایک یہ بھی ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ وصححه الألباني في "صحيح أبي داود".
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے“۔
امام ابو داود نے اس حدیث کو کتاب السنہ باب فی الجھمیہ کے تحت لاکر گمراہ فرقے جہمیہ پر رد کئا ہے جو مودودی کی طرح یہ تصور بھی نہیں لرتے ہیں کہ عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔۔
ایک دوسری روایت کچھ اس طرح ہے:
عن ابن عباس .. وفيه: فإنها لا يرمى بها لموت احد، ولا لحياته، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ: الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ الحديث، رواه مسلم
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لیے نہیں ٹوٹتا لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے، وہ بیان کرتے ہیں۔“

=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
✔تبصرہ: شیخ عثمان خمیس نے اسے اچھی طرح واضح کیا ہے۔۔ کہ اللہ کا جسم ہے یا نہیں؟ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کا لفظ قرآن وحدیث میں وارد نہیں ہے نا ہی اثبات میں اور نہ ہی نفی میں۔۔ اس لئے اس سے بچنا چاہئیے کیونکہ صحابہ وتابعین نے بھی اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔۔ لیکن اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو اس میں حق وباطل دونوں کا احتمال ہو سکتا ہے۔۔ لہذا اگر کوئی کہتا ہے کہ اللہ جسم ہے لیکن دوسری جسموں کی طرح نہیں۔۔ تو ہم کہیں گے کہ اس لفظ کا ثبوت نہیں ہے۔۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ جسم ہے جسموں کی طرح تو یہ کفر ہو جائے گا کیونکہ اللہ کی طرح کوئی نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو مجسمہ کہتے ہیں۔۔
لیکن اگر کوئی مودودی کی طرح جسم کا انکار کرے اور مقصد اس کے صفات ذاتیہ کا انکار ہو تو یہ بھی گمراہ عقیدہ ہے اور یہ معطلہ کا عقیدہ ہے۔۔ اور عام طور سے وہی لوگ جسم کا انکار کرتے ہیں جو صفات ذاتیہ کے منکر ہیں۔۔
علامہ سفارینی نے کہا : "قال الإمام أحمد رضي الله عنه : لا يوصف الله تعالى إلا بما وصف به نفسه ، ووصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والحديث . وقال شيخ الإسلام ابن تيمية: مذهب السلف أنهم يصفون الله تعالى بما وصف به نفسه ، وبما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم من غير تحريف ولا تعطيل ، ومن غير تكييف ولا تمثيل ، فالمعطّل يعبد عدما ، والممثل يعبد صنما ، والمسلم يعبد إله الأرض والسماء" انتهى من "لوامع الأنوار البهية" (1/24) .
ترجمہ: امام احمد نے کہا: اللہ کے بارے میں پم وہی کہیں گے جیسا اللہ نے اپنے بارے میں اور اسکے رسول نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔ قرآن وحدیث سے پم تجاوز نہیں کریں گے۔۔ یہی بات ابن تیمیہ نے بھی کہی ہے مزید یہ کہ اللہ کی ذات وصفات میں کسی بھی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل سے بچیں گے۔۔ چنانچہ معطل ایسی چیز کی عبادت کرتا ہے جو عدم یعنی کچھ نہیں ہوتا اور ممثل بت کی پوجا کرتا ہے۔۔

=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح اللہ جل جلالہ کیلئے لفظ مقام یا مکان بھی کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔۔ بلکہ یہ اصطلاح بھی جسم کی طرح بدعت اور فلاسفہ کا ایجاد کردہ ہے۔
چنانچہ معطلہ مکان کی نفی کرکے اللہ کے صفت علو اور استواء علی العرش کا انکار کرتے ہیں۔۔ اور یہی مقصد سید مودودی کا بھی ہے۔۔ کہ مکان کہہ کر اس سے مخلوق کی طرح سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ اس سے لازم آئیگا کہ وہ کسی چیز کا محتاج ہے اور مخلوق اسے گھیرے ہوئے ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں ایسا سوچنا باطل ہے۔۔ ان ساری تشبیہات اور مفروضات سے اللہ پاک ہے۔۔
لیکن اگر عدم مکان سے مراد یہ لیا جائے کہ اللہ تمام مخلوقات سے فوق تر اور جدا ہے۔۔ کسی مخلوق سے ملا نہیں ہے۔۔ اور اس سے اللہ کی صفت علو اور فوقیت کو ثابت کرنا مقصد ہو تو ایسی صورت میں درست ہے۔۔
اسی کو ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے جس کے سمجھنے سے عقل پرست قاصر رہے:
((فاذا لوا: إن الله فوق سماواته على عرشه بائن من خلقه، امتنع أن يكون محصوراً أو محاطاً بشيء موجود غيره، سواء سُمَّي مكاناً أو جهة أو حيزاً أو غير ذلك... فإن البائن عن المخلوقات ، العالي عليها : يمتنع أن يكون في جوف شيء منها.....
وإن أراد بمسمى الجهة والحيز والمكان : أمراً معدوماً، فالمعدوم ليس شيئاً، فإذا سَمَّى المُسَمِّي ما فوق المخلوقات كلها حيزاً وجهة ومكاناً، كان المعنى: أن الله وحده هناك، ليس هناك غيره من الموجودات: لا جهة ولا حيز ولا مكان، بل هو فوق كل موجود من الأحياز والجهات والأمكنة وغيرها، سبحانه وتعالى")) "درء تعارض العقل والنقل" (7/ 15-17).
اور مجموع فتاوی میں کہا:
((" السلف والأئمة وسائر علماء السنة إذا قالوا " إنه فوق العرش ، وإنه في السماء فوق كل شيء " لا يقولون إن هناك شيئا يحويه ، أو يحصره ، أو يكون محلا له ، أو ظرفا ووعاء ، سبحانه وتعالى عن ذلك ، بل هو فوق كل شيء ، وهو مستغن عن كل شيء ، وكل شيء مفتقر إليه ، وهو عالٍ على كل شيء ، وهو الحامل للعرش ولحملة العرش بقوته وقدرته ، وكل مخلوق مفتقر إليه، وهو غني عن العرش وعن كل مخلوق "))
"مجموع الفتاوى " (16/100-101) .
امام اہل السنہ امام شافعی نے کہا:
((" القول في السنة التي أنا عليها ، ورأيت عليها الذين رأيتهم ، مثل سفيان ومالك وغيرهما : الإقرار بشهادة أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، وأن الله على عرشه في سمائه ، يقرب من خلقه كيف شاء ، وينزل إلى السماء الدنيا كيف شاء ، وذكر سائر الاعتقاد")) .
✔الحافظ عبد الغني المقدسي نے کتاب العقیدہ (27) ، میں اور ابن قدامة نے إثبات صفة العلو (124-125) میں ، اور ابن تيمية نے " الفتاوى " (5/53-54، 139) میں ، اور ابن القيم نے " الجيوش "(59) میں اس مسئلے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مزید تسلی کیلئے علامہ ذہبی کی "مختصر العلو" بتحقيق الألباني (ص176)، اور انہیں کی کتاب العرش، ابن قیم کی اجتماع الجيوش الإسلامية اور ابن تیمیہ کی الفتاوی الحمویہ دیکھیں۔۔

=اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح لفظ حد اور جہت بھی ایجاد کردہ ہے۔۔ امام دارمی نے کہا:
((" والله تعالى له حد لا يعلمه أحد غيره ، ولا يجوز لأحد أن يتوهم لحده غاية في نفسه ، ولكن يؤمن بالحد ، ويَكِل علم ذلك إلى الله . ولمكانه أيضا حد ، وهو على عرشه فوق سماواته۔ فهذان حدان اثنان ")) "نقض الدارمي على بشر المريسي" (223-224) .
علامہ ابن ابی العز الحنفی نے عقیدہ طحاویہ کی شرح میں یہی لکھا ہے۔۔ دیکھیں: "شرح العقيدة الطحاوية" (1/263-264) .
اور شیخ ابن عثیمین نے جہت کے بارے میں کہا:
(("جاء في بعض كتب أهل الكلام يقولون: لا يجوز أن يوصف الله بأنه في جهة مطلقا، وينكرون العلو ظنا منهم أن إثبات الجهة يستلزم الحصر. وليس كذلك، لأننا نعلم أن ما فوق العرش عدم لا مخلوقات فيه، ما ثم إلا الله، ولا يحيط به شيء من مخلوقاته أبدا۔ فالجهة إثباتها لله فيه تفصيل، أما إطلاق لفظها نفيا وإثباتا فلا نقول به؛ لأنه لم يرد أن الله في جهة، ولا أنه ليس في جهة، ولكن نفصل، فنقول: إن الله في جهة العلو؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم قال للجارية: (أين الله؟) وأين يستفهم بها عن المكان؛ فقالت: في السماء. فأثبتت ذلك، فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: (أعتقها، فإنها مؤمنة) .
فالجهة لله ليست جهة سفل، وذلك لوجوب العلو له فطرة وعقلا وسمعا، وليست جهة علو تحيط به؛ لأنه تعالى وسع كرسيه السماوات والأرض، وهو موضع قدميه؛ فكيف يحيط به تعالى شيء من مخلوقاته؟! .
فهو في جهة علو لا تحيط به، ولا يمكن أن يقال: إن شيئا يحيط به، لأننا نقول: إن ما فوق العرش عدم ليس ثم إلا الله - سبحانه -" .
دیکھیں: "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (10/ 1131) .
مفہوم: یعنی جہت کے انکار سے اگر اللہ تعالی کی صفت علو، فوقیت اور استواء علی العرش کا انکار مقصود ہو تو یہ باطل ہے۔ لیکن اگر اس سے کسی چیز میں محصور ہونے اور حلول ہونے کا انکار مقصود ہو تو صحیح ہے۔۔ البتہ مطلق طور پر بلا تشبیہ اور بلا حصر کے اسے ماننا بھی صحیح ہے کیونکہ لونڈی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا: اللہ کہاں ہے؟ تو لونڈی نے جہت فوق یعنی آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صحیح قرار دیا تھا۔۔
اور شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اسے اس ثابت کیا ہے :
(("يُقَالُ لِمَنْ نَفَى الْجِهَةَ: أَتُرِيدُ بِالْجِهَةِ أَنَّهَا شَيْءٌ مَوْجُودٌ مَخْلُوقٌ؟ فَاَللَّهُ لَيْسَ دَاخِلًا فِي الْمَخْلُوقَاتِ . أَمْ تُرِيدُ بِالْجِهَةِ مَا وَرَاءَ الْعَالَمِ؟ فَلَا رَيْبَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ مُبَايِنٌ لِلْمَخْلُوقَاتِ . وَكَذَلِكَ يُقَالُ لِمَنْ قَالَ : اللَّهُ فِي جِهَةٍ: أَتُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ؟ أَوْ تُرِيدُ بِهِ أَنَّ اللَّهَ دَاخِلٌ فِي شَيْءٍ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ؟ فَإِنْ أَرَدْت الْأَوَّلَ فَهُوَ حَقٌّ ، وَإِنْ أَرَدْت الثَّانِيَ فَهُوَ بَاطِلٌ ")) .
"مجموع الفتاوى" (3/ 42) .
اسی لئے امام طحاوی نے کہا:
(("لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات")). یعنی اللہ تعالی کو مبتدعہ کے چھ جہتوں میں سے کسی نے بھی احاطہ نہیں کر رکھا ہے۔۔
علامہ ابن باز نے اس تعلیق لگاتے ہوئے کہا:
" مراده الجهات الست المخلوقة، وليس مراده نفي علو الله واستوائه على عرشه، لأن ذلك ليس داخلاً في الجهات الست، بل هو فوق العالم ومحيط به، وقد فطر الله عباده على الإيمان بعلوه سبحانه، وأنه في جهة العلو " .
ترجمہ: چھ جہات سے مراد آپ نے چھ مخلوق جہات کو لیا ہے ۔ اور یہاں اللہ تعالی کے علو وفوقیت اور استواء علی العرش کا انکار نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں مذکورہ مفروضہ چھ جہات میں سامل نہیں ہیں۔۔ بلکہ اللہ تعالی تمام عالم سے فوق تر اور اسے اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے۔۔
دیکھیں: "التعليقات الأثرية على العقيدة الطحاوية" (ص 16) بترقيم الشاملة .
✔خلاصہ کلام یہی ہے کہ یہ سارے اصطلاحات بعد کے فلاسفہ ومناطقہ کے ایجاد کردہ ہیں۔۔ جن کا مقصد ذات وصفات میں شکوک و شبہات ڈال کر انہیں یا تو کلی طور پر انکار کرنا یا انکی باطل تاویل کرکے مسلمانوں کا عقیدہ بگاڑنا ہے۔۔
چنانچہ جو سلف صالحین کی کتابیں نہ پڑھ کر یونانی فلسفہ علم کلام الہیات اور منطق کو پڑھنے پر اکتفا کیا وہ گمراہ ہوگئے۔۔
نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔