- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
قرآن مجید کی ترتیب نزول
مقام نزول کے لحاظ سے قرآن مجید کے 2 حصّے ہیں ، مکی اور مدنی یعنی ایک قرآن کا وہ حصّہ جو مکہ میں نازل ہوا اور دوسرا جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوا یہ دونوں ٹکڑے معنوی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں گو عام لوگوں کو اس کا مطلق احساس نہیں ہوتا لیکن جو لوگ عربی زبان پر عبور کامل رکھتے ہیں اور اس کے رموز سے واقف ہیں ، وہ صرف سورہ کے الفاظ کو سن کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مکی سورہ ہے یا مدنی۔
ان دونوں میں جلی امتیازات حسب ذیل ہیں :
مکی سورتیں
زیادہ تر پر جوش اور جذبات سے بھری ہوئی ہیں ،
الفاظ پر عظمت اور شاندار ہوتے ہیں ۔
زیادہ تر نصائح ، مواعظ، توحید ،ذکر ، قیامت اور آیات حشر و نشر پر مشتمل ہیں ۔
ان میں اکثر قافیوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور عموماً قافیے بھی چھوٹے ہیں ان میں یہود و نصاری سے مناظرہ نہیں سیدھی باتیں ہیں ۔ان میں اعمال و عبادات کا مطالبہ کمتر ہے زیادہ تر عقائد کی بحث ہے ۔جہاد کا ذکر نہیں ، بلکہ صرف دعوت و تبلیغ اور نرمی کلام کا ہے۔
مدنی صورتیں
مدنی صورتیں ۔ٹھوس اور عمیق ہیں ۔ قانونی الفاظ ہوتے ہیں ۔احکام اور قوانین پر مشتمل ہیں ۔قافیوں کا لحاظ کم ہے اور اگر کہیں ہے تو بڑے بڑے قافیے۔یہود و نصاریٰ سے بکثرت مناظرے ہیں ۔ان میں اعمال و عبادات کا مطالعہ ہے۔ دعوت و تبلیغ کے ساتھ جہاد کا حکم ہوتا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے ، مکی اور مدنی سورتوں میں جو لطیف فرق ہیں انکو اس طرح واضح کیا ہے :
مقصود یہ ہے کہ اسلام نے اپنا اصول یہ رکھا ہے کہ آہستہ اور رفتہ رفتہ وہ اپنی تعلیم کا دائرہ وسیع کرتا رہا، اسلام جاہل قوم میں آیا ، پہلے خطیبانہ اور موثر طریقۂ ادا سے ان کو جنت اور دوزخ کا ذکر سنایا گیا، جب لوگ اس سے متاثر ہوئے تو اسلام کے احکام و قوانین اور اوامر و نواہی نازل ہوئے، زنا اور شراب خواری وغیرہ عاداتِ بد کے ترک کا اگر پہلے ہی دن مطالبہ کیا جاتا تو اس آواز کو کون سنتا ہے کہ ایک موعظت و نصیحت کی کتاب کی اور قانون تعزیرات کی زبان ایک ہو سکتی ہے، سورۂ بقرہ اور نساء جن کی نسبت حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہ مدینہ میں نازل ہوئیں ، چونکہ مدینہ میں یہود و نصاریٰ تھے ، اس لئے ان میں ان سے مناظرات ہیں اور چونکہ اسلام کی دعوت یہاں کا م کر چکی تھی، اس لئے ان میں احکام نازل ہوئے اور احکام و قانون کی زبان کی بناء پر ان میں قافیے کم ہیں اور سورۂ قمر کے نزول کو مکہ میں بتاتی ہیں ، اس میں قیامت کا ذکر ہے کہ آغازِ اسلام تھا، مشرکین کی تردید ہے کہ وہاں انہی سے سابقہ تھا، چھوٹے چھوٹے قافیے ہیں کہ ان سے عبارت میں رقت اور تاثیر پیدا کرنا مقصود تھا، الغرض مکی اور مدنی سورتوں میں فرق حالات کے اختلاف کی بناء پر ہے اور حالات کے اختلاف سے زبان تعبیر اور طرز ادا میں فرق ہے۔’’قرآن کی سب سے پہلے جو سورہ نازل ہوئی وہ مفصل کی سورہ ہے، جس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو پھر حلال و حرام اترا، اگر پہلے ہی یہ اترتا کہ شراب مت پیو، لوگ کہتے ہم ہر گز شراب نہیں چھوڑیں گے اور اگر یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے ہم ہر گز زنا نہ چھوڑیں گے ، مکہ میں جب میں کھیلتی تھی تو یہ اترا، ان کے وعدہ کا وقت قیامت ہے اور قیامت نہایت سخت اور نہایت تلخ چیز ہے، سورہ بقرہ اور سورہ نساء جب اتری تو میں آپؐ کی خدمت میں تھی۔‘‘