• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث ھلب الطائی کی مفصل تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
پانچواں قرینہ:(زیادتی والے الفاظ کا تکرار)

اگرراوی نے جن الفاظ کا اضافہ کیا ہے اسے تکرار کے ساتھ بیان کرے تو یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں پرزیادتی محفوظ ومقبول ہے ۔اسی قرینہ سے زیادتی ثقہ کی مقبولیت پر استدلال کرتے ہوئے :

امام ابن بطال رحمہ اللہ (المتوفى449)نے کہا:
والزيادة من سفيان مقبولة؛ لأنه أثبتهم وقوى ثبوت الاستخراج فى حديثه لتكرره فيه مرتين فبعد من الوهم
اورسفیان کی زیادتی مقبول ہے کیونکہ یہ دیگر لوگوں سے اثبت ہیں ، اوران کی حدیث میں استخراج والی بات کا ثبوت اس لے بھی قوی ہوجاتا ہے کہ حدیث میں اس کا دوبار ذکر ہے لہٰذا اس میں وہم کی گنجائش بعید ہے۔[شرح صحيح البخارى لابن بطال 9/ 444 ]۔

عرض ہے کہ زیربحدث حدیث میں امام یحیی بن سعید نے قولا سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کرکے اسے فعلا بھی بیان کیا اور باقاعدہ اسے عملی شکل میں کرکے بھی بتلایا ۔ یعنی دوبار تکرار کے ساتھ اسے بیان کیا ہے ایک بار قولا اور ایک بار فعلا ۔ اور یہ تکرار بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس بات کے بیان میں ان سے وہم نہیں ہوا ورنہ وہ اتنے اہتمام کے ساتھ اسے مکرر بیان نہ کرتے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
چھٹا قرینہ :(سیاق یا متن کے دیگر الفاظ کی دلات)

اگر متن میں زیادتی والے الفاظ کے علاوہ ایسی بات ہو جو زیادتی والے الفاظ کی صحت کی طرف اشارہ کرے مثلا متن میں کوئی ایسی بات ہو جس کی مزید تشریح یا تفصیل زیادتی والے الفاظ سے ہوتی ہو یا زیاتی والے الفاظ سے اس کا کوئی تعلق ہو تو یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ زیادتی والے الفاظ محفوظ مقبول ہیں چنانچہ:
زہری کی ایک روایت میں غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے لوگوں میں کعب کے ساتھ ان کے جن دو ساتھیوں کا ذکر ہے ان کے بارے امام زہری نے کعب کی زبانی یہ نقل کیا یہ دونوں بدر میں شرکت کرچکے ہیں ۔دیکھئے صحیح بخاری رقم 4418۔
بعض اہل علم نے ان دونوں صحابہ کے بدر میں شرکت والی بات پر اشکال محسوس کیا اوراسے غیر محفوظ سمجھا ۔ لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کی تردید کی اور اس زیادتی کو مقبولیت پر حدیث کے سیاق اوراس کے دیگر الفاظ سے دلیل پکڑتے ہوئے کہا:
ويؤيد كون وصفهما بذلك من كلام كعب أن كعبا ساقه في مقام التأسي بهما فوصفهما بالصلاح وبشهود بدر التي هي أعظم المشاهد فلما وقع لهما نظير ما وقع له من القعود عن غزوة تبوك ومن الأمر بهجرهما كما وقع له تأسى بهما
ان دونوں صحابہ کے بدری ہونے کی بات کعب رضی اللہ عنہ ہی نے کہی ہے اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ کعب رضی اللہ عنہ نے یہ بات ان دونوں کے ذکر سے تسلی حاصل کرنے کے لئے کہی تھی اوران دنوں کی بزرگی بیان کی اور غزوہ بدر میں ان کی شرکت کا ذکر کیا جو کہ سب سے عظیم غزوہ تھا۔ تو جب ان عظیم ہستیوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا جو ان کے ساتھ ہوا یعنی یہ بھی غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے اور ان کے بھی بائیکاٹ کا حکم ہوا تو کعب رضی اللہ عنہ نے اپنی تسلی کی خاطر ان دونوں کا ذکر کیا[فتح الباري لابن حجر 7/ 311]

غور فرمائیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث کے اندر موجود دیگر الفاظ اوراس کے سیاق سے زیادتی ثقہ کی قبولت پر استدلال کیا ۔
ٹھیک اسی طرح زیربحث حدیث میں بھی دیگر الفاظ اس زیادتی کی صحت ومقبولیت پر دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اسی حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ، دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر بھی رکھنے کی صراحت ہے جس پرکسی کو کلام نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ جب نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں گے تو وہ ہاتھ جسم کی کسی نہ کسی حصہ پر تو لازما آئے گا۔ ایسی صورت میں اگر کسی روایت میں یہ ذکر ہوگیا کہ یہ دونوں ہاتھ سینے پر رکھے گئے تو اس میں ہاتھ باندھنے ہی کی تفصیل ہے۔ یہ کوئی ایسی علیحدہ چیز نہیں ہے جس کا حدیث کے دیگر الفاظ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔لہٰذا یہ زیادتی حدیث کے دیگر الفاظ کے ساتھ مرتبط ہے ۔ لہٰذا اس سے مرتبط و ہم آہنگ حدیث کے دیگر الفاظ بھی اس کی مقبولیت پردلیل ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ساتواں قرینہ : (شواہد)
اگرکسی حدیث میں زیادتی کے شواہد بھی موجود ہوں تو اس قرینہ سے بھی زیادتی کی قبولیت پر استدلال کیا جاتا ہے چنانچہ :

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
ظهر لي أن البخاري قويت عنده رواية محمود بالشواهد
میرے لئے ظاہر ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک محمود کی روایت شواہد کی وجہ سے قوی ہے[فتح الباري لابن حجر 12/ 131]

اورزیربحث حدیث کے متعدد شواہد ہیں جیساکہ اس کتاب میں انہیں بیان کیا گیا ہے۔


ان قرائن کے برخلاف مخالفین اس حدیث میں زیادتی قبول نہ کرنے کے لئے صرف ایک قرینہ پیش کرتے ہیں کہ زیادتی نہ بیان کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔
عرض ہے کہ درج ذیل وجوہات کی بناپر اس ایک قرینہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اولا:
کثرت تعداد صرف ایک قرینہ ہے اور اس کے برخلاف سات قرائن اس زیادتی کی قبولیت کے حق میں ہیں اس لئے سات قرائن کے مقابلہ میں ایک قرینہ کا کوئی اعتبار نہیں ۔
ثانیا:
کثرت تعداد میں سے کئی روایات ثابت ہی نہیں ہے جیساکہ قبولیت کا پہلا قرینہ پیش کرتے وقت ہر روایت کی پوزیش واضح کردی گئی ہے۔
ثالثا:
کثرت تعداد والی روایت جو روایات ثابت ہیں ان میں بھی کوئی روایت امام یحیی بن سعید اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے ہم پلہ نہیں ہے بلکہ کم درجہ والی ہے جیساکہ پہلے قرینہ کے تحت ہرروایت کے ساتھ وضاحت کردی گئی ہے۔
رابعا:
کثرت تعداد والی روایات میں صرف عدم ذکر ہے کوئی حقیقی مخالفت کی بات یا متضاد بات نہیں ہے ۔
خامسا:
سب سے اہم بات یہ کہ کثرت تعداد والی ہرروایت کے راوی نے اختصار سے کام لیا ہے اوران میں سے کسی نے بھی اس بات کا التزام کیا ہی نہیں ہے کہ وہ روایت کے تمام حصہ کو بیان کرے گا۔ جیساکہ پہلے قرینہ کے تحت وضاحت کی جاچکی ہے۔لہٰذا جب ان حضرات میں سے کسی نے بھی پوری روایت بیان ہی نہیں کی ہے بلکہ ہر ایک نے روایت کے کئی حصوں کو چھوڑ دیاتو ایسی صورت میں امام یحیی بن سعید اورامام ثوری رحمہا اللہ کی ذکرکردہ کسی بات کے خلاف ان میں سے کسی کی بھی روایت ہرگز نہیں پیش کی جاسکتی ۔

ان وجوہات کی بناپر کثرت تعداد والے قرینہ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ہے اور اس کے برخلاف قبولیت کے جو سات قرائن پیش کئے گئے ہیں ان کی رو سے امام یحیی بن سعید اور امام ثوری رحمہ اللہ کے روایت بالکل صحیح قرارپاتی ہے ۔ والحمدللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
متن پر دوسرا اعتراض

بعض لوگ ایک پرجہالت اعتراض پیش کرتے ہیں کہ اس حدیث میں نماز کا ذکر نہیں ہے۔
عرض ہے کہ ایک حدیث کے مختلف طرق ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہیں اورمسنداحمد میں سفیان ثوری ہی کے طریق سے یہی حدیث دوسری جگہ ان الفاظ میں موجود ہے:
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن قبيصة بن الهلب ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة ، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله
صحابی رسول ھلب الطائی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح]
اس حدیث میں سفیان ثوری ہی کے طریق سے یہ صراحت آگئی ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھنے کا عمل نماز کے اندرکا ہے ۔اوریہی بات سفیان ثوری کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث میں بھی اور اس میں اس عمل کے ساتھ ہاتھ باندھنے کی جگہ یعنی سینے کا بھی ذکر ہے۔
سنن دارقطنی میں بھی سفیان ہی کے طریق سے یہی حدیث موجود ہے اور اس میں بھی نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے [سنن الدارقطني 2/ 33 رقم 1100 واسنادہ صحیح]
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی سفیان ہی کے طریق سے یہی حدیث موجود ہے اور اس میں بھی نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے[مصنف ابن أبي شيبة: 1/ 390 واسنادہ صحیح]

اورجس طرح قرآن کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیرکرتی ہیں، اسی طرح بعض احادیث بھی دوسری احادیث کی تفسیر کرتی ہیں چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
والحديث يفسر بعضه بعضا
اوربعض حدیث ، بعض دوسری حدیث کی تفسیرکرتی ہے[فتح الباري لابن حجر 2/ 160]

حنفی علماء نے بھی یہی بات کہی ہے چنانچہ:

علامه عينى رحمه الله (المتوفى855):
والْحَدِيث يُفَسر بعضه بَعْضًا
اوربعض حدیث ، بعض دوسری حدیث کی تفسیرکرتی ہے[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 3/ 143]

أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353)نے کہا:
لأن الحديثَ يفسرُ بعضَه بعضاً.
کیونکہ بعض حدیث ، بعض دوسری حدیث کی تفسیرکرتی ہے[فيض البارى للكشميري: 1/ 217]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
متن پر تیسرا اعتراض

بعض حنفی حد درجہ جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اس حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر سلام پھیرنے کے بعد ہوا ہے۔
عرض ہے کہ یہ بہت بڑی جہالت ہے کیونکہ اس حدیث میں مکمل نماز کا طریقہ ذکر نہیں بلکہ نماز کی بعض کیفیات کا ذکر ہے اور ان کیفیات کے ذکر میں ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے ۔
چنانچہ بعض طرق میں نماز سے پھرنے کی کیفیت ذکرکے ہاتھ باندھے کا ذکر ہے اورساتھ ہی اس کا محل سینہ کو بتلایا گیا ہے اور بعض طرق میں پھرنے کی کیفیت سے پہلے ہاتھ باندھنے کاذکر ہے اورنماز کے اندر یہ عمل ہونے کی بھی صراحت ہے چنانچہ:
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن قبيصة بن الهلب ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة ، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله
صحابی رسول ھلب الطائی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح]

یہ حدیث سفیان ثوری ہی کے طریق سے ہیں اور اس میں ہاتھ باندھنے کا ذکر نماز سے پھرنے کی کیفیت سے پہلے ہوا اوراس کی بھی صراحت ہے کہ یہ نماز کے اندر کی کیفیت ہے ۔
سنن دارقطنی میں بھی سفیان ہی کے طریق سے یہی حدیث موجود ہے اور اس میں بھی نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے [سنن الدارقطني 2/ 33 رقم 1100 واسنادہ صحیح]
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی سفیان ہی کے طریق سے یہی حدیث موجود ہے اور اس میں بھی نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے[مصنف ابن أبي شيبة: 1/ 390 واسنادہ صحیح]

معلوم ہوا کہ ہاتھ باندھنے کی کیفیت نماز کے اندر کی ہے اور اسی کیفیت کے ساتھ سینے کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا عمل نماز کے اندرہی کا ہے۔
اورجس روایت میں نماز سے پھرنے کے بعد ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اس میں ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے ۔اوراس طرح کی مثالیں بہت ساری احادیث میں ہیں چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أبو اليمان، قال: أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني أنس بن مالك الأنصاري: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فجحش شقه الأيمن - قال أنس رضي الله عنه - فصلى لنا يومئذ صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، ثم قال لما سلم: " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد "
انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور (گر جانے کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو۔[صحيح البخاري 1/ 147 رقم 732]

اس حدیث میں غور کریں کہ «سمع الله لمن حمده‏» اور«ربنا ولك الحمد» کا ذکر سجدے کے بعد ہے۔
تو کیا یہ کہہ دیا جائے یہ ان دونوں کو سجدے کے بعد پڑھا جائے گا؟
ہرگز نہیں بلکہ یہاں بھی دوسری روایات کے پیش نظر یہی کہا جائے گا کہ ان دونوں چیزوں کا محل رکوع کے بعد ہے چنانچہ بخاری ہی میں نمبر733 کے تحت یہی حدیث دوسرے طریق سے موجود ہے اور اس میں ان دونوں چیزوں کا ذکر رکوع سے اٹھنے کے بعد ہے۔ دیکھئے :[صحيح البخاري 1/ 147 رقم 733]

احادیث میں اس طرح کی مثالیں بہت ہیں ، مزید مثالوں کے لئے دیکھئے: مقالات راشدیہ ج 1 ص 103۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ایک بے بنیاد اعتراض


بعض لوگ کہتے ہیں اس روایت کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور یہ خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے یہ روایت ثابت نہیں ہے کیونکہ اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو سفیان ثوری اسی پر عمل کرتے ۔
عرض ہے کہ سفیان ثوری کا عمل اس روایت کے غیرثابت ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ روایت سفیان ثوری کی طرف منسوب عمل کے غیرثابت ہونے کی دلیل ہے کیونکہ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت بیان کررہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں؟
یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ موطا حدیث نمبر 47 میں نماز میں ہاتھ باندھنے والی جو حدیث ہے ، وہ ثابت نہیں کیونکہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھتے تھے ! بھلا بتلائیے کہ اس طرح کے بے ہودہ اعتراض سے کیا ہم موطا امام مالک کی اس حدیث کو جھٹلا دیں جس میں نماز ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے؟ یاد رہے کہ موطا امام مالک کی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی امام مالک ہی کی سند سے موجودہے۔[بخاری:ـکتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740۔]
دوسری بات یہ کہ کسی بھی کتاب میں سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے جن لوگوں نے بھی یہ بات ذکر کی انہوں نے سفیان ثوری تک اس بات کی صحیح سند پیش نہیں کی ہے لہٰذا یہ بات جھوٹی اورمن گھڑت ہے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ پربہتان ہے۔
یادرہے کہ امام مالک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نماز میں ہاتھ نہ باندھا جائے ۔دیکھئے: هيئة الناسك في أن القبض في الصلاة هو مذهب الإمام مالك۔

اس اعتراض کے جواب میں مزید تفصیل صحیح ابن خزیمہ والی روایت پر بحث کے ضمن میں آرہی ہے دیکھئے: ص۔۔۔

نقد و تبصرے کے لئے درج ذیل دھاگے میں تشریف لائیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top