عطاء اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2016
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 20
سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں
”اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خداکی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں و طریقوں پر عمل کرنے کا انکار ہے (اس لئے کہ تمام شریعتیں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں سموگئی ہیں) اور صرف اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا اقرار ہے۔قصراسلام میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی سو وہ آپ کے ذریعے اللہ نے پرُکردی۔ آپ کی رسالت نسل انسانی پر اللہ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع کردیاگیا۔ سلسلہٴ نبوت و رسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ اب آپ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ انسانیت ہیں۔
ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں
ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلَیْمًا“ نہیں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیاگیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہوجانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بناکر بھیجا جائے گا۔
اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کا رد بھی ہے جو اپنی جاہلانہ رسم و رواج کی بناء پر لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے اور بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے تھے چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دیدی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا تو اس نکا پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے آپ نے نکاح کرلیا اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زید بن حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں وہ تو حارثہ کے بیٹے ہیں مزید تاکید کے طور پر یہ بھی بتادیاگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی جسمانی باپ نہیں ہیں البتہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے سب کے روحانی باپ ضرور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بیٹے قاسم، طیب، طاہر حضرت خدیجہ سے اور ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ سے تھے لیکن ان میں سے کوئی رجال کی حد تک نہیں پہنچاتھا اوراس آیت کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ حقیقی باپ ہوتو اس پر نکاح کے حلال وحرام کے احکام عائد ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن حارثہ تو لے پالک بیٹے تھے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اُمت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔
یہاں لفظ خاتم پر ایسی روشنی ڈالی جارہی ہے جس سے عقیدہٴ ختم نبوت کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ لفظ خاتم دوقرأتوں سے بھی ثابت ہے۔ امام حسن اور عاصم کی قرأت سے خاتم بفتح التاء ہے اور دوسرے ائمہ قرأت سے خاتم بکسر التاء ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور دونوں کے معنی آخر اور مہرکے ہیں۔ اور مہر کے معنی میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مہر کے یہ معنی ہوئے کہ اب دستاویز مکمل ہوگئی۔ اس میں اب کسی قسم کی گنجائش اضافہ کی ہے نہ کمی کی ہے۔ امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایاہے: وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّہُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ الَّتِی تَمَّمَہَا بِمَجِیْئِہ “ یعنی آپ کو خاتم النبوت“ اس لئے کہاگیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل فرمادیا۔
خاتم القوم سے مراد آخر ہم قبیلے کا آخری آدمی(۴) ”خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبِعَ عَلَیْہَا فَلاَ تُفْتَحُ لِاَحَدٍ بَعْدَہُ اِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ“ آپ نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اب قیامت تک یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ تفسیر ابن جریر،ص: ۱۲، ج:۲۲
امام غزالی لکھتے ہیں: ”اِنَّ الْاُمَّةَ فَہِمَتْ بِالْاِجْمَاعِ مِنْ ہٰذَا اللَّفْظِ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہِ اَنَّہُ فَہِمَ عَدْمَ نَبِیِّ بَعْدَہُ اَبَدًا وَاَنَّہُ لَیْسَ فِیْہِ تَاوِیْلٌ وَلاَ تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لاَ یَکُوْنُ الاَّ اِنْکَارَ الْاِجْمَاعِ“ بیشک امت نے اس لفظ خاتم النّبیین سے اور اسکے قرائن احوال سے بالاجماع یہی سمجھا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول اور نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ تخصیص اور اس کا منکر یقینا اجماع کا منکر ہے
ارشاداتِ ربانی فرموداتِ نبوی کی روشنی میں علمائے اُمت وصلحائے ملت نے اجماعی طور پر صدیوں سے اس آیت کا یہی مطلب یعنی ختم نبوت سمجھا اور سمجھایا ہے۔
ختم نبوت احادیث وروایات کی روشنی میں
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد دشمنانِ اسلام نئے نئے فتنے اٹھائیں گے دین میں طرح طرح کے رخنے ڈالیں گے اور خصوصاً ختم نبوت کے تعلق سے شبہات پیدا کرکے اُمت مسلمہ کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کریں گے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیش بندی اُمت کو ان آئندہ خطرات سے آگاہ فرمادیا اور اُمت کو پوری طرح چوکنا کردیا کہ جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے اسے وقت کا دجال باطل پرست اور فتنہ پرور سمجھا جائے اور اسے دین سے خارج کردیا جائے چنانچہ عقیدئہ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات شاہد ہیں۔ چند مندرجہ ذیل پیش کئے جارہے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کے قتل کیلئے روانہ فرمایا۔ صحابی رسول نے جاکر اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا۔ حضرت عروة بن الزبیر کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے ایک دن پہلے اسود عنسی کے مارے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔ فتح الباری،ص: ۸۹، ج:۸۔
حضرت ابوبکر صدیق کے د ور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے“۔ شفا- قاضی عیاض
امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“غرض یہ کہ شروع سے اب تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اسے ماننے والے کافر مرتد اور واجب القتل ہیں۔
اب آئیے ذرا احادیث کی روشنی میں ختم نبوت پر روشنی ڈالی جائے ”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَةَ النُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُوْلَ بَعْدِی وَلاَنَبِیَّ“ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ ترمذی، کتاب الروٴیا۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلاَّ مَوضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّٓسُ یَطُوْفُوْنَ بِہ یَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہٰذِہ اللَّبِنَةُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ“۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اظہارِ حیرت کرتے اور کہتے تھے کہ اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھی گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں یعنی میرے آنے کے بعد اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَنَبِیَ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدِیْ“ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی امت نہیں۔ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔
”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ“ پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔ مشکوٰة،ص: ۵۱۲۔
”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِی الْکُفْرُ وَاَنَا الْحَاشِرُ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقْبِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے یعنی میرے بعداب بس قیامت ہی آنی ہے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔مسلم کتاب فضائل الصحابہ۔
”اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبَیاءِ بِسِتٍ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ“ آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، (۲) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی، (۳) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے،(۴) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے،(۵) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے،(۶) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔“ مسلم کتاب فضائل الصحابہ
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِی نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعداگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی گئی ہے اب کسی کو کسی طرح کی بھی نبوت نہیں مل سکتی۔ مسند احمد۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہُ لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیسے ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ مسلم، بیان عیسیٰ
”قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسَعَہُ اِلاَّ اِتِّبَاعِیْ“ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے میری پیروی کے علاوہ چارہ کار نہ تھا۔ بخاری، کتاب المناقب عن بنی اسرائیل۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کے تعلق سے یہ وضاحت فرمادی کہ اگر موسیٰ بھی دوبارہ اس دنیامیں آتے تو انھیں میری شریعت پر ایک امتی کی حیثیت سے عمل پیرا ہونا پڑتا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں بتادیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمانسے نزول فرمائیں گے تو ان کی بھی حیثیت امتی کی ہوگی۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابوہریرہ سے روایت ہے: ”قَالَ النَّبِیُّ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ“رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا قائد تمہیں میں سے ہوگا۔ النور:۵۵۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ”کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ وَاِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت پایا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔ تفسیر طبری، جزء:۲۲،ص: ۱۲۔
حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انبیاء آتے رہے اوراسلام کی تعلیمات کو پیش کرتے رہے۔ اس طرح اسلام بتدریج تکمیل کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ عمارت کا آخری پتھر سلسلہ انبیاء کے آخری نبی، رسولوں کی فہرست کے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگیا نبوت کے سلسلہ کو بند کرناتھا تو نبی کے خلفاء کی طرف اشارہ کیاگیا اور خلافت رسول کا وعدہ کیاگیا۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ وعدہ کرلیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ان کو خلافت ارضی عطا کرے گا۔ شرح الطحاویہ،ص: ۱۵
ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اکابرِ اُمت کی تحقیقات کی روشنی میں
علامہ ابن جریر اپنی مشہور تفسیر میں سورة احزاب کی آیت کی تشریح میں ختم نبوت کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی اور اس پر مہرلگادی اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کیلئے نہیں کھلے گا۔ الاقتصاد فی الاعتقاد،ص: ۱۱۴۔
امام طحاوی اپنی کتاب (العقیدة السلفیہ) میں ختم نبوت کے بارے میں ائمہ سلف خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد کے اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اوراس کے محبوب اورآخری نبی ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ سیدالانبیاء وسیدالمرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے محبوب ہیں۔ الکشاف، ج:۲،ص: ۲۱۵۔
علامہ امام غزالی فرماتے ہیں اس امر (ختم نبوت) پر اُمت مسلمہ کا کامل اجماع ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور پوری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”لا نَبِیَّ بَعْدِیْ“ سے مراد یہی ہے کہ ان کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ رسول ہوگا جو شخص بھی اس حدیث کا کوئی اور مطلب بیان کرے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے اس کی تشریح باطل اور اس کی تحریر کفر ہے۔علاوہ ازیں امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کے سوا اس کی کوئی تشریح نہیں جو اس کا انکار کرے وہ اجماعِ امت کا منکر ہے۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۳،ص:۴۹۳-۴۹۴
علامہ زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں: اگر آپ یہ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہوکہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوسکتے ہیں میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میںآ خری ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء کرام میں سے ہیں جنھیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انھیں کے قبلہ الکعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔ روح المعانی، ج:۳۲، جزء:۲۲۔
علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں ”یہ آیت (یعنی سورہ احزاب والی) اس امر میں نص ہے کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کیونکہ مقامِ رسالت مقامِ نبوت سے اخص ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجو شخص بھی اس منصب کادعویٰ کرتا ہے وہ کذاب دجال مفتر اور کافر ہے خواہ وہ کسی قسم کے غیرمعمولی کرشمے اور جادوگری کے طلاسم دکھاتا پھرے اوراسی طرح قیامت تک جو شخص بھی اس منصب کا مدعی ہو وہ کذاب ہے-جلالین،ص: ۷۶۸۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے سے خاتم المرسلین ہونا لازمی ہے کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی انسان یا جن کو یہ منصب نصیب نہیں ہوگا۔
انوار التنزیل، ج:۴،ص:۱۶۴۔
علامہ جلال الدین سیوطی اس آیت ”وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اورجانتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔تاج العروس، ج:۴، ص:۱۸۶، بحوالہ: قادیانیوں کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ،ص:۲۰، محمد بشیریم۔اے
علامہ بیضاوی یوں رقمطراز ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام کی آخری کڑی ہیں جنھوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کردیا ہے اور سلسلہٴ نبوت پر مہر لگادی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعث ثانیہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جب آئیں گے تو انہی کے شریعت کے پیروکار ہوں گے۔
تاج العروس میں اس طرح ہے: ”وَمِنْ اَسْمَائِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَہُو الَّذِیْ فَقَدَ النُّبُوَّةَ بِمَجِیْئِہ “ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے خاتِم اور خاتَم بھی ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ان کی آمد پر نبوت ختم ہوگی۔