محمد ثاقب صدیقی
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2011
- پیغامات
- 182
- ری ایکشن اسکور
- 522
- پوائنٹ
- 90
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ بنا دیا
یہ کس نے کہہ دیا کہ کوئی راضی نہیں۔ شادی کا بنیادی مقصد نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلی شادی کر رہا ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ فلاں لڑکی یا عورت بانجھ ہے تو اسے پہلی شادی اس سے نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ جو لوگ دوسری یا تیسری شادی کر رہے ہیں، وہ بانجھ یا دیگر جسمانی معذور خاتون سے شادی کرسکتے ہیں بلکہ کرنا چاہئے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی ہی سن رسیدہ خاتون سے بھی شادی کی تھی جو ازدواجی تعلقات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے اپنی ’باری‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی تھی۔بے چاری بانجھ عورت یا لڑکی کا کیا قصور کہ اس سے نکاح کرنے کےلیے کوئی راضی نہ ہو ؟
ماشاء اللہ آپ نے بہت عمدہ طریقے سے آج کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی ”ترجمانی“ کی ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ تاکہ کھلے مکالمہ کے ذریعہ اکثر لڑکیوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا تجزیہ کیاجاسکے۔
تو کیا عورت کوزیادہ ’’تعلیم‘‘ حاصل نہیں کرنی چاہیئے۔۔؟ تعلیم انسان میں عقل وشعور پیدا کرتی ہے ،اگر گھمنڈ و غرور پیدا ہو تو وہ تعلیم نہیں کچھ اورہے۔ بہت سی پڑھی لکھی خواتین بھی ایسے معاملات کی حامل ہو تی ہیں اور کچھ ان پڑھ خواتین سے بھی ان معاملات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔۔۔ بات کسی اور طرف نکل جائے گی لیکن عمومی طور پر لڑکیاں چاہتی ہیں کہ لڑکا ہماری نسبت زیادہ پڑھا و تو بھی تعلیم کو قصور وار گردانا جاتا ہے کہ نہ اتنا پڑھتی تو نہ یہ سوچتی ۔مرد کی تعلیم کون دیکھتا ہے ؟؟اسے تو کاروبار ،نوکری سے سروکار ہوتا ہے ۔۔۔ اگر لڑکی پڑھے لکھے نہ تو ان پڑھ گنوار کہہ کر مسترد کر دیا جا تا ہے ۔۔۔۔اس میں قصور تعلیم زیادہ کم ہونے کا نہیں اپنے عقل و فہم اور سب سے بڑھ کر تربیت کا ہے ۔۔ ۔۔
یہ اللہ کی مرضی ہے، کوئی اندھا ہے تو کوئی بہرا ہےاور کوئی بانجھ ہےجس نے دوسری شادی کرنی ہے وہ کر سکتا ہے اور ایسی عورت سے شادی کرنا حرام نہیں ہے، جس کا دل چاہے وہ ایسی عورت سے نکاح کر بھی سکتا ہےح اسی طرح اگر کوئی عورت اپاہج ہو تو قصور اس کا بھی کوئ نہیں ہے یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، اس پر صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہےبے چاری بانجھ عورت یا لڑکی کا کیا قصور کہ اس سے نکاح کرنے کےلیے کوئی راضی نہ ہو ؟
گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔یہ کس نے کہہ دیا کہ کوئی راضی نہیں۔ شادی کا بنیادی مقصد نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلی شادی کر رہا ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ فلاں لڑکی یا عورت بانجھ ہے تو اسے پہلی شادی اس سے نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ جو لوگ دوسری یا تیسری شادی کر رہے ہیں، وہ بانجھ یا دیگر جسمانی معذور خاتون سے شادی کرسکتے ہیں بلکہ کرنا چاہئے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی ہی سن رسیدہ خاتون سے بھی شادی کی تھی جو ازدواجی تعلقات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے اپنی ’باری‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی تھی۔
صرف ایک حدیث سے متعلقہ موضوع پر کوئی ”حتمی رائے“ قائم نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
محترم عبد الله صاحب -انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو پھر اس میں کسی قسم کا شک شبہ کیسا؟ ۔۔ کیا اللہ کے نبی معاذاللہ ہمیں ایسی بات کا حکم دیں گے کہ علم غیب کے بنا جس کو پورا کرنا ممکن نہ ہو ؟ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس مرض کا شکار ہیں جو اکثر کم علم سلفی حضرات کو لاحق ہوجاتا ہے کہ جس بات کو من نہ مانے اس پر شک شروع ہوجاتا ہے ۔ اور سب سے پہلا حکم اس پر ضعیف ہونے کا لگایا جاتا ہے ہے جیسے کہ جناب نے محض اپنے خیال سے حدیث کو ضعیف کہنے کی کوشش کی ۔
عموماََ جب کسی لڑکی سے رشتہ کرنا ہوتا ہے تو اسے خاندان یا جاننے والوں سے اس کے متعلق اور اس کے گھر والوں کے متعلق معلوم کیا جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب سے محبت سے پیش آنے والی ہے تو محبت اس کی صفت ہوگی۔ اور یہی مطلوب ہے۔ جہاں تک بچے جننے کا تعلق ہے تو اس کا پتہ اس کی ماں یا دیگر شادی شدہ بہنوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے ۔ ( دورِ جدید میں سائنس کا ایک شعبہ جنیٹکس ہے جو اسی علم سے متعلق ہے کہ ایک خاندان میں ایک جیسے جینز کس طرح ایک جیسی صفات منتقل کرتے ہیں ) ۔ باقی کس کو کتنی اولاد ملنی ہے یہ تقدیر کی بات ہے۔
آدم علیہ السلام کے بعد دنیا نے یہ پہلی مرتبہ پڑھا ہے جناب کی تحریر میں کہ بغیر ماں کے بھی کوئی پیدا ہوا ہو ۔
ویسے آپ کے لیئے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے لیئے خود ہی فتاوٰی تحریر کر لیا کریں ۔ کیونکہ آپ کو مفتی کی نہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے ۔
جناب عالی!آپ نے بات بالکل اور رخ دے دیا ہے۔کیا آپ کے علم میں نہیں کہ کئی ایسے شادی شدہ افراد موجود ہیں کہ بیوی کے گھر کو دیکھا جائے تو اولاد کی اللہ تعالیٰ نے رونقیں لگائی ہوئی ہیں اور بہنوں میں سے کسی ایک کے گھر اولاد کا نام ونشان دور دور تک نظر نہیں آتا۔اس کو کیا کہیں گے؟گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔
اولاد ہونا یا نا نہ ہونا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن انسان کو ظاہری اسباب اپنے طور پر اختیار کرنے اجازت موجود ہے۔گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔
کیا آپ اس بات کی ضمانت دےسکتے ہیں کہ بانجھ عورت یا لڑکی ہمیشہ بانجھ ہی رہے گی ؟ ویسے ہر کوئی اپنی ہی خوشی کو ترجیح دینا پسند کرتا ہے کسی دوسرے کی خوشی کو ترجیح دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کم از کم وہ لوگ جو بانجھ عورت یا لڑکی کو ” اچھوت “ سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے چاہے وہ دوسرا جنم بھی لیں لیں۔ میں یہاں ” تقدیر“ کی بحث نہیں کر رہا بلکہ لوگوں کی ” ہمت و حوصلے“ کا رونا رو رہا ہوں۔اولاد ہونا یا نا نہ ہونا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن انسان کو ظاہری اسباب اپنے طور پر اختیار کرنے اجازت موجود ہے۔