محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
" آسمان تو سارا غار میں اتر آیا "
ابوبکر قدوسی
اک قطرہ ، بہت قیمتی قطرہ کہ آنسو نہیں جوہر ، لعل ، یاقوت ، مرجان ..جی جو چاہے کہیے لیکن کہاں کہا جائے ، کیسے کہا جائے کہ حق ادا ہو جائے -
ہزار بار کا سنا قصہ ، کس نے نہ سنا ہو گا ، لیکن کبھی یوں سوچا کہ اس رات کا بہا یہ آنسو ..... ہزار سمندروں سے بڑھ کر تھا ، اور اس رات آسمان کا آسمان زمین پر اتر آیا تھا -
دو مسافر اکیلے ، تنہا ، اپنی بستی کو چھوڑ کے نکلے - بستی کہ بستے بستے بستی ہے - ہاں بستی کوئی مٹی ، زمین ، پہاڑ اور پانی کے چشموں اور جھرنوں کا نام تو نہیں ہوتا - بستی تو انسان بساتے ہیں - اور انسان بستی سے جو رخصت ہو تو اجڑ جائے بھلے سب سامان زیست ادھر ہی موجود رہ جائے -
شِکر دوپہر دا بلدا سورج
دھپ دا بھانبڑ تھاں تھاں مچے
واء دا پتہ اک نہ ہلے
جی تاریخ میں لکھا ہے کہ رات نہیں ، ایسی ہی ایک تپتی دھوپ میں مسافر رخصت ہوے(مشہور روایت رات کو نکلنے کی بھی ہے ) - ایک محب ، ایک محبوب ، ایک طلب گار دوسرا مطلوب - دشمن کا خوف کہ بستی سے نکل کے ایک غار میں جا رکے - ساتھی نے اپنے صاحب کے واسطے زمین کو بستر کیا - کچھ ہاتھ سے کچھ پیار سے زمین صاف کر کے کہا کہ :
"آرام کیجئے "-
"ہاں ہاں ، ابھی ٹہریے کہ ہر طرف سوراخ سے ہیں ، کوئی موذی نہ آجائے "
کمال ہے نہ کہ تاریخ ہمیشہ ایک سی رہتی ہے کہ سوراخ باقی رہ جائیں تو کوئی نہ کوئی موذی آن ٹپکتا ہے ..سو سب سوراخ بند کیے ، زانو وا کیا اور عرض کیا کہ :
دل کہندا دلبر نوں ملیۓ کی سوغات لے جائیے
تَن دا ماس نیناں دیاں سیخاں بُھن کباب بنائیے
ابوبکر کے حضور اب ان کے زانو پر سر رکھے آرام کر رہے تھے کہ نگاہ اک سوراخ پر پڑی تو خیال آیا کہ کوئی موذی ادھر سے ہی نہ آ نکلے ..ہائے ابوبکر کو مگر کیا خبر کہ کوئی ایک موذی ہو تو فکر کیجئے ...موذی ہیں آج تک نکل رہے ہیں ، کون کون سا سوراخ بند کیجئے -
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
اب کوئی سامان رفو پاس نہ تھا کہ ابوبکر رفو گری کرتے - سو ایڑھی وہاں ٹکا دی - اور موذی ادھر ہی تھا ..جانے کالا بچھو یا سیاہ سنپولیا .. فطرت ای کہ ڈستے ہیں سو ڈس لیا - ہزار برداشت کیا کہ جسم کانپ کانپ نہ اٹھے اور "یار " کی آنکھ نہ کھل جائے ..لیکن کب تلک .... ابوبکر کی ٹانگ نہ ہلی لیکن درد نے رگوں کا لہو نچوڑ کے آنکھوں کے راستے بہا دیا اور ایک موتی محبوب کے رخسار پر آن گرا -
ہائے کیسا حسین لمحہ ہو گا کہ جب ابوبکر کی محبت نے آنسو بن کے دنیا کے سب سے حسین چہرے کو مس کیا ہو گا -
آنسو نے نیند کو رخصت دی اور کائنات کے تاج دار اٹھ گئے - کچھ حیرت سے سوال پوچھا تو ماجرا سن کے محبت سے اپنا لعاب دوست کی ایڑھی پر لگا دیا -
دن گذر گئے غار کے مسافر اب مدینے کے تاج دار تھے - غریب الوطنی کے تمام ہوے اور اللہ کی نعمتیں گھٹا بن کے امڈ امڈ آئیں -
پھر ایک تاروں بھری رات یہ رات پھر یاد آئی -
آج مگر ساتھی کوئی اور تھا - ہاں اپنی محبوب بیوی کے ساتھ بیٹھے تھے کہ یہی رات یاد آئی - سیدہ عائشہ کے جی جانے کیا خیال آیا کہ آسمان پر روشن ستارے دیکھ کے پوچھ بیٹھیں کہ کسی کی نیکیاں ان تاروں سی بھی ہوں گی - آسمان کہ کہکشاؤں سے بھرا ، تارے کہ جیسے آج زمین پر اترا ہی چاہتے ہوں .....:
" ہاں ! عمر کی نیکیاں ان تاروں کی طرح ہیں "
مرضی کا جواب نہ ملے تو دل بجھ سا جاتا ہے ، سیدہ کو امید تھی کہ ان کے بابا کا نام آئے گا .... پھر سے ایک موہوم امید کا دیا ٹمٹمایا :
امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
"کوئی اس بھی بڑھ کے ، کسی کی اس سے بھی زیادہ ؟؟؟"...
سوچ مگر سوچ ہی رہ گئی ، بس یہی پوچھ پائیں کہ:
" میرے والد پھر کہاں ہیں کہ آسمان تو عمر ہو گئے "
"عائشہ ، ابوبکر کی تو ایک رات کی نیکیاں عمر کی عمر بھر کی نیکیوں سے بڑھ کے ہیں " -
ایک دم جیسے آسمان روشن ہو گیا ، اور سارا کا سارا غار میں اتر آیا ...
صلی اللہ علیہ وسلم ....