• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شريعت كا كمال اور بدعت كے خطرات

شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
خلاصہ یہ کہ :
کسی بھی عبادت کے قابل قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر دو شرطیں پائی جائیں :
اول : اخلاص ، یعنی پختہ نیت یہ ہو کے عبادت صرف اللہ ہی کےلیے ہے ۔
دوم : اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یعنی عبادت سنت رسول کے مطابق ہو ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہےجب اس کے اندر مذکورہ چھے اوصاف موجود ہوں ۔
میں ان سب لوگوں سے گزارش کرتا ہوں جو بدعات میں مبتلا ہیں ( ممکن ہے ان کی نیت درست ہو اور وہ اپنے تیئں نیکی کررہے ہوں ) اگر آپ نیکی کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ۔
میرے بھائیو !
سنت رسول پر سختی سے کاربند ہوکر سلف صالحین کے طریقہ پر چلو ۔ پھر دیکھنا کہ اس چیز کا تمہیں کوئی نقصان ہوا ہے ؟
میں ایک بات کہناچاہتا ہوں ۔ اور اللہ کی پناہ مانگتاہوں ایسی بات کہنے سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ کہ ان بدعات کو دین کے نام پر رواج دینے والے بہت سارے لوگ شرعی اور سنت سے ثابت شدہ کاموں میں سستی و کاہلی کا شکار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ عموما بدعات میں لگے رہتے ہیں اور سنتوں پر عمل کرنے کی انہیں صحیح طرح سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بدعات دل پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ بدعتیں جس طرح دین کے لیے بہت خطرنا ک ہیں اسی طرح قلوب واذہان پر بھی بہت برے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
بعض سلف صالحین اور اہل علم سے مذکور ہے کہ جب بھی کوئی قوم دین کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس طرح کی یا اسے بھی بڑی کوئی سنت ان سے ضائع ہوجاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان یہ بات ذہن نشین کر لیتا ہے کہ اس کی ذمہ داری شریعت کی پیروی ہے نہ کہ خود شریعت سازی تو اس وقت وہ صحیح طریقہ سے شریعت پر عمل پیرا اور اللہ رب العالمین کی کما حقہ عبادت و فرمانبرداری اور امام المتقین ، سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی مکمل اتباع میں آتا ہے ۔
میں اپنے ان تمام مسلمان بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں جنہوں نے مختلف قسم کی بدعات کو نیکی سمجھ لیا ہے چاہے ان کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی ذات سے ہی ہے ، کہ اللہ سے ڈر تے ہوئے ان سے باز آجائیں اور ان معاملات کو بدعت کی بجائے سنت ، شرک کی بجائے للہیت ، شیطان کی خوشنودی کی بجائے اللہ کی خوشنودی کی بنیاد پر سر انجام دیں ۔ اور پھر دیکھیں کہ ان کے قلوب و اذہان کس طرح زندہ و منور ہوتے ہیں ،سلامتی ، اطمینان اور راحت محسوس کرتے ہیں ۔

میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں ہدایت یافتہ اور نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا بنادے ۔ اور ہمارے دلوں کو علم و ایمان سے روشن فرمادے اور علم کو ہمارے لیے وبال نہ بنائے ۔ اور ہمیں اپنے مومن بندوں کے رستے پر چلائے اور کامیاب و پرہیز گار اولیاء کے گروہ میں شامل فرمائے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ و أجمعین ۔
ان کا جواب بھی عنائیت فرمائیں ،،،شکریہ،،،،،،،
 

اٹیچمنٹس

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
سو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے ( اور بدعت و رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، ان کا اجرو ثواب عطا کردیا اور ان میں سے اکثر لوگ ( جو اس کے تارک ہو گئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔ سورۃ الحدید 57 پارہ 27
اس آیہ کریم میں قرآن وسنت کے کسی حکم کے بغیر از خود کسی بدعت کو ایجاد کرنا، اس پر عمل پیرا ہونا اورپھر عند اللہ اس کے مقبول ہو جانے کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں
آیت کے الفاظ ابتد عو ھا بدعت سے مشتق ہیں ۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ دین عیسوی میں اصلا رہبانیت فرض نہ تھی ۔ اس کا تعلیمات مسیح میں سرے س کوئی زکر ہی نہ تھا ۔ بعد کے لوگوں نے از خود وصول الی اللہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہو ئے بدعت کے طور پر ایجاد کر لیا تھا۔ رہبانیت بھی اللہ کا حکم نہ ہونے کے باوجود دین عیسوی میں بدعت حسنہ ہونے کی وجہ سے شریعیت میں داخل ہو گئی لہذا اس پر اجرو ثواب متحقق ہو گیا۔
پس ثابت ہو ا کہ اگر کوئی عمل فی نفسہ بدعت ہی ہو وہ پھر بھی رضائے الہی کے حصول کا باعث بن سکتا ہے اور نیک نیتی کی وجہ سے عمل مقبول ہو سکتا ہے یہہی سے بدعت حسنہ کا تصور ابھرتا ہے

جن لوگوں نے اس آیت کے مطابق فاتینا الذین امنو منھم اجرھم بد عت حسنہ ( رہبانییت ) کے تقاضوں کو پورا کیا اللہ تعالٰی نے ان کی محنت قبول کی اور انہیں اجر و ثواب سے نوازا۔ اگر دین عیسوی میں رہبانیت کی بدعت فی نفسہ ناجائز ہوتی تو کبھی بھی اللہ کی طرف سے اس پر اجرو ثواب عطا نہ کیا جاتا۔
اگر رضائے الٰہی کے خاطر کوئٰی نیاکام جسے عرف عام میں بدعت کہتے ہیں کیا جائے جو جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہے ۔ امر متحسن کے طور پر اس کام پر اجرو ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں ۔ ایسے امور شریعت میں مشروع حیثیت رکھتےہیں ان کو مطلقا ناجائز سمجھنا زیادتی ہے۔ ۔
فرمانِ باری:
فَـٔاتَينَا الَّذينَ ءامَنوا مِنهُم أَجرَهُم ۖ وَكَثيرٌ مِنهُم فـٰسِقونَ
کا معنیٰ یہ ہے کہ ہم نے ان میں سے ایمان والوں کو ان کا اجر دیا اور ان میں اکثر فاسق تھے۔

گویا درج بالا آیت کریمہ کے مطابق اللہ رب العٰلمین نے ایمان والوں کو اُن کا اجر دیا، نہ کہ اصحابِ بدعت (فاسق وفاجر لوگوں) کو۔

اب اس کا معنیٰ یہ کرنا کہ ’’ہم نے بدعت حسنہ کرنے والوں کو ان کا اجر دیا‘‘ سراسر تحریف کلامِ الٰہی ہے۔

’ایمان‘ کا معنیٰ ’بدعت حسنہ کے تقاضوں کو پورا کرنا‘ کہاں سے ہوگیا؟؟؟

گویا آپ کے نزدیک رہبانیت ایک مستحسن امر ہے جس پر اجر ملتا ہے؟؟؟ یا للعجب! نبی کریمﷺ تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیش گوئی فرما چکے ہیں کہ امتِ محمدیہ پچھلی امتوں (یہود ونصاریٰ) کی ہوبہو پیروی کرے گی۔ لو اس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ عیسائیوں کی رہبانیت انہوں نے اختیار کر لی۔ عیسائیوں کی کرسمس کی طرح عید میلاد النبی ایجاد کر ڈالی۔ والعیاذ باللہ!

اگر رضائے الٰہی کے خاطر کوئٰی نیاکام جسے عرف عام میں بدعت کہتے ہیں کیا جائے جو جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہے ۔ امر متحسن کے طور پر اس کام پر اجرو ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں ۔ ایسے امور شریعت میں مشروع حیثیت رکھتےہیں ان کو مطلقا ناجائز سمجھنا زیادتی ہے۔ ۔
آپ کے اس خود ساختہ اصول کے مطابق اگر ایک شخص فجر کی دو فرض رکعات کے بعد ’رضائے الٰہی کیلئے‘ مزید دو رکعات فرض (کل چار رکعات فرض) اَدا کرے تو اسلام اسے بھی قبول کرے گا اور وہ ایک مستحسن امر ہوگا جس پر اجر وثواب کے ساتھ ساتھ مزید فوائد وبرکات بھی متحقق ہوں گے!!
کیونکہ اللہ کیلئے دو رکعت پڑھنا فی نفسہٖ بہت بہترین عمل ہے۔
کیا آپ کے نزدیک ایسے ہی ہے؟؟؟
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
فرمانِ باری:
فَـٔاتَينَا الَّذينَ ءامَنوا مِنهُم أَجرَهُم ۖ وَكَثيرٌ مِنهُم فـٰسِقونَ
کا معنیٰ یہ ہے کہ ہم نے ان میں سے ایمان والوں کو ان کا اجر دیا اور ان میں اکثر فاسق تھے۔

گویا درج بالا آیت کریمہ کے مطابق اللہ رب العٰلمین نے ایمان والوں کو اُن کا اجر دیا، نہ کہ اصحابِ بدعت (فاسق وفاجر لوگوں) کو۔

اب اس کا معنیٰ یہ کرنا کہ ’’ہم نے بدعت حسنہ کرنے والوں کو ان کا اجر دیا‘‘ سراسر تحریف کلامِ الٰہی ہے۔

’ایمان‘ کا معنیٰ ’بدعت حسنہ کے تقاضوں کو پورا کرنا‘ کہاں سے ہوگیا؟؟؟

گویا آپ کے نزدیک رہبانیت ایک مستحسن امر ہے جس پر اجر ملتا ہے؟؟؟ یا للعجب! نبی کریمﷺ تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیش گوئی فرما چکے ہیں کہ امتِ محمدیہ پچھلی امتوں (یہود ونصاریٰ) کی ہوبہو پیروی کرے گی۔ لو اس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ عیسائیوں کی رہبانیت انہوں نے اختیار کر لی۔ عیسائیوں کی کرسمس کی طرح عید میلاد النبی ایجاد کر ڈالی۔ والعیاذ باللہ!


آپ کے اس خود ساختہ اصول کے مطابق اگر ایک شخص فجر کی دو فرض رکعات کے بعد ’رضائے الٰہی کیلئے‘ مزید دو رکعات فرض (کل چار رکعات فرض) اَدا کرے تو اسلام اسے بھی قبول کرے گا اور وہ ایک مستحسن امر ہوگا جس پر اجر وثواب کے ساتھ ساتھ مزید فوائد وبرکات بھی متحقق ہوں گے!!
کیونکہ اللہ کیلئے دو رکعت پڑھنا فی نفسہٖ بہت بہترین عمل ہے۔
کیا آپ کے نزدیک ایسے ہی ہے؟؟؟
شاید آپ نے مجھے بدعتی سمجھا ہے،،،میں الحمد اللہ مواحد ہوں،،،،،
لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ١٢٩؀ۧ
میرا عقیدہ یہ ہے،،،،میں کچھ قبوری حضرات سے بات کر رہا تھا تو انہوں نے یہ دلائل دئیے،جس پر میں آپ سے رابطہ کیا،،،،،
کسی کو پرکھنے میں اتنا جلد بازی اچھی بات نہیں
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
اور جو کل محدثہ کا مفہوم جو میں نے امیج لگایا ہے اسکی بھی وضاحت درکار ہے تاکہ میں دوسرے بھائی کی بہتر رہنمائی کر سکوں،،،جزاک اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
آپ شکریہ کے مستحق ہیں اتنا قیمتی مضمون لکھنے اور شائع کرنے پر،، جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدارین
آپ نے لکھا ہے(مثلا مدارس کا قیام کتابیں تصنیف کرنا ،اب یہ بھی بدعت ( نئی چیز ) ہیں لیکن ان کو سب ہی اچھا سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں )
تو عرض ہے کہ ،،بدعت دین میں کمی ،بیشی، کو کہا جاتا ہے ،نہ کہ مطلوبہ مادی وعملی اسباب کو،،دوسری بات یہ کہ مدارس و کتب دینیہ کا وجود تو دور رسالت سے ہے ،کتب دینیہ کے ثبوت کے لئے اصول حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب کاـکتابت حدیث ـوالا باب پڑھ لیں،کئی نصوص مل جائیں گی،اور رہی مدرسہ کی بات تو مسجد نبوی میں مدرسہ نبوت علی صاحبھا الصلاۃ والسلام ،اور کئی دوسرے علاقوں میں بطور معلم جانے والے صحابہ کرام اس کا ثبوت ہیں ،
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
آپ شکریہ کے مستحق ہیں اتنا قیمتی مضمون لکھنے اور شائع کرنے پر،، جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدارین
آپ نے لکھا ہے(مثلا مدارس کا قیام کتابیں تصنیف کرنا ،اب یہ بھی بدعت ( نئی چیز ) ہیں لیکن ان کو سب ہی اچھا سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں )
تو عرض ہے کہ ،،بدعت دین میں کمی ،بیشی، کو کہا جاتا ہے ،نہ کہ مطلوبہ مادی وعملی اسباب کو،،دوسری بات یہ کہ مدارس و کتب دینیہ کا وجود تو دور رسالت سے ہے ،کتب دینیہ کے ثبوت کے لئے اصول حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب کاـکتابت حدیث ـوالا باب پڑھ لیں،کئی نصوص مل جائیں گی،اور رہی مدرسہ کی بات تو مسجد نبوی میں مدرسہ نبوت علی صاحبھا الصلاۃ والسلام ،اور کئی دوسرے علاقوں میں بطور معلم جانے والے صحابہ کرام اس کا ثبوت ہیں ،
جزاک اللہ سلفی بھائی مگر اب تک میرے شائع کیے گئے (((کل محدثہ کا مطلب واضع نہیں ہوا
براہ کرم اس مطلوبہ حدیث کا مکمل مفہوم بیان کیا جائے ،،،،جزاک اللہ
کیونکہ بدعتی حضرات نے کل محدثہ کا معنی ہی تبدیل کردیا ہے،،،،،،،جس سے وہ باقاعدہ بدعت ثابت کرنا چاہتے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جزاک اللہ سلفی بھائی مگر اب تک میرے شائع کیے گئے (((کل محدثہ کا مطلب واضع نہیں ہوا
براہ کرم اس مطلوبہ حدیث کا مکمل مفہوم بیان کیا جائے ،،،،جزاک اللہ
کیونکہ بدعتی حضرات نے کل محدثہ کا معنی ہی تبدیل کردیا ہے،،،،،،،جس سے وہ باقاعدہ بدعت ثابت کرنا چاہتے ہیں
برادر مکرم !بعداز سلام مسنون ، عرض ہے،کہ اگر آپ سکین والے امیج کی بات کر رہے ہیں ،تو اس میں عجیب تلبیس سے کام لیا گیا ہے ،اولاًتو اس میں محوری الفاظ ،، احداث ،،اور ،،بدعۃ ،، کا اردو ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ،وجہ لاعلمی ہے یا دانستہ ایسا کیا گیا ،اللہ اعلم،،تو غور سے سنیں ،عربی کے لفظ ،،الاحداث ،، (حدث )سے مزید فیہ ہے اور -حدث -کامعنی ائمہ لغت کے ہاں (
حدث حدوثا وحداثة: نقيض قدم، وتضم داله إذا ذكر مع قدم.​
وحدثان الأمر، بالكسر: أوله وابتداؤه، كحداثته،
وـ من الدهر: نوبه، كحوادثه وأحداثه.
والأحداث: أمطار أول السنة.
ورجل حدث السن وحديثها، بين الحداثة والحدوثة: فتي.
والحديث: الجديد، والخبر، كالحديثى، ج: أحاديث، شاذ، وحدثان، ويضم،) القاموس المحيط
یعنی یہ لفظ ، قدیم کی ضد،اور جدید-نیا-ہونے، کسی چیز یا کام کے پہلی بار ،یا ابتدائی ہونے،اور شاذ ہونے کے معنی میں مستعمل ہے،
-----------------
اور بدعت--لغت میں بقول امام شاطبی (وأصل مادة بدع للاختراع على غير مثال سابق، ومنه قول الله تعالى: {بديع السماوات والأرض} (3)، أي مخترعهما من غير مثال سابق (4) متقدم، وقوله تعالى: {قل ما كنت بدعا من الرسل} (5)، أي ما كنت أول (6) من جاء بالرسالة من الله إلى العباد، بل تقدمني كثير من الرسل. ويقال: ابتدع فلان (بدعة يعني ابتدأ) (7) طريقة لم يسبقه إليها سابق. وهذا أمر بديع، يقال في الشيء المستحسن (الذي لا مثال له في الحسن) (8)، فكأنه لم يتقدمه ما هو مثله ولا ما يشبهه.
ومن هذا المعنى سميت البدعة بدعة، فاستخراجها للسلوك عليها هو الابتداع، وهيئتها هي البدعة، وقد يسمى العمل المعمول على ذلك الوجه بدعة.
یعنی عربی کا-مادہ -بدع -بغیر مثال سابق کے کسی چیز کے اختراع-ایجاد ،تخلیق (CREATE )کو کہتے ہیں ، مذکورہ دونوں آیتیں اس معنی پر شاہد ہیں،اور -بدع - ابتداء کے معنی بھی استعمال ہوتا ہے،اور جب کہا جائے (فلاں نے بدعت کی )تو مطلب ہوگا ،اس نے ایسا طریقہ یا کام جو اس سے پہلے نہیں کیا گیا،،اور اسی لئے ،،بدعت ، کو بدعت کہتے ہیں ،کہ وہ عمل پہلے نہیں کیا گیا اب شروع کردیا گیا یا پہلے سے موجود تو تھا لیکن اس ھیئت و کیفیت سے نہیں جیسا اب سامنے آیا ھے (دیکھئے ،الاعتصام جلد اول )
یہ تو تھا اس کا لغوی معنی ومفہوم ،اب اگلی تحریر میں اس کا شرعی مفہوم پیش کیا جائے گا
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
برادر مکرم !بعداز سلام مسنون ، عرض ہے،کہ اگر آپ سکین والے امیج کی بات کر رہے ہیں ،تو اس میں عجیب تلبیس سے کام لیا گیا ہے ،اولاًتو اس میں محوری الفاظ ،، احداث ،،اور ،،بدعۃ ،، کا اردو ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ،وجہ لاعلمی ہے یا دانستہ ایسا کیا گیا ،اللہ اعلم،،تو غور سے سنیں ،عربی کے لفظ ،،الاحداث ،، (حدث )سے مزید فیہ ہے اور -حدث -کامعنی ائمہ لغت کے ہاں (
حدث حدوثا وحداثة: نقيض قدم، وتضم داله إذا ذكر مع قدم.​
وحدثان الأمر، بالكسر: أوله وابتداؤه، كحداثته،
وـ من الدهر: نوبه، كحوادثه وأحداثه.
والأحداث: أمطار أول السنة.
ورجل حدث السن وحديثها، بين الحداثة والحدوثة: فتي.
والحديث: الجديد، والخبر، كالحديثى، ج: أحاديث، شاذ، وحدثان، ويضم،) القاموس المحيط
یعنی یہ لفظ ، قدیم کی ضد،اور جدید-نیا-ہونے، کسی چیز یا کام کے پہلی بار ،یا ابتدائی ہونے،اور شاذ ہونے کے معنی میں مستعمل ہے،
-----------------
اور بدعت--لغت میں بقول امام شاطبی (وأصل مادة بدع للاختراع على غير مثال سابق، ومنه قول الله تعالى: {بديع السماوات والأرض} (3)، أي مخترعهما من غير مثال سابق (4) متقدم، وقوله تعالى: {قل ما كنت بدعا من الرسل} (5)، أي ما كنت أول (6) من جاء بالرسالة من الله إلى العباد، بل تقدمني كثير من الرسل. ويقال: ابتدع فلان (بدعة يعني ابتدأ) (7) طريقة لم يسبقه إليها سابق. وهذا أمر بديع، يقال في الشيء المستحسن (الذي لا مثال له في الحسن) (8)، فكأنه لم يتقدمه ما هو مثله ولا ما يشبهه.

ومن هذا المعنى سميت البدعة بدعة، فاستخراجها للسلوك عليها هو الابتداع، وهيئتها هي البدعة، وقد يسمى العمل المعمول على ذلك الوجه بدعة.
یعنی عربی کا-مادہ -بدع -بغیر مثال سابق کے کسی چیز کے اختراع-ایجاد ،تخلیق (CREATE )کو کہتے ہیں ، مذکورہ دونوں آیتیں اس معنی پر شاہد ہیں،اور -بدع - ابتداء کے معنی بھی استعمال ہوتا ہے،اور جب کہا جائے (فلاں نے بدعت کی )تو مطلب ہوگا ،اس نے ایسا طریقہ یا کام جو اس سے پہلے نہیں کیا گیا،،اور اسی لئے ،،بدعت ، کو بدعت کہتے ہیں ،کہ وہ عمل پہلے نہیں کیا گیا اب شروع کردیا گیا یا پہلے سے موجود تو تھا لیکن اس ھیئت و کیفیت سے نہیں جیسا اب سامنے آیا ھے (دیکھئے ،الاعتصام جلد اول )

یہ تو تھا اس کا لغوی معنی ومفہوم ،اب اگلی تحریر میں اس کا شرعی مفہوم پیش کیا جائے گا
محترم اسحاق سلفی صاحب مجھ تک جیسے پوسٹ پہنچی بہتر رہنمائی کے لئے اس فارم پر میں نے رابطہ کیا،،
آئے دن بدعتی حضرات کی جانب سے عامی کو گمراہ کرنے کے لئے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں،اب اگر فرض کریں میں بھی اس بدعت والی پوسٹ کا یقین کر لیتا تو میرا بھی حال ان جیسا ہی ہونا تھا،،،،،لیکن میرے اللہ کی شان ہے شرک و بدعت اور توحید ایک جگہ اکٹھی نہیں وہ سکتی ،،،میں الحمد اللہ کوئی بھی ایسی بات ہو تو آپ جیسے بھائیوں سے رہنمائی حاصل کرکے ان کو آگے تک پہنچا دیتا ہوں،،،،آپ کے تعاون کا شکریہ،،،،،اللہ تعالی آپ کے علم ،صحت اور عزت میں اضافہ فرمائے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
گزشتہ سے منسلک:
الإحداث والإبتداع کا شرعي معني مفہوم
سابقہ لغوي تحقيق سے يہ بات عياں ہے ،(
الإبتداع والإحداث فى اللغة بمعنى واحد إذ معناهما :الاتيان
بالشيئ المخترع بعد أن لم يكن

) کہ عربي لغت ميں ،الإحداث والإبتداع کا اصل ميں ايک ہي معني ہے
امام شاطبي رحمہ اللہ فرماتے ہيں "
فالبدعة إذن عبارة عن: "طريقة في الدين مخترعة، تضاهي
الشرعية، يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه

"يعني بدعت دين ميں خود ساختہ طريقہ
اور عمل کو کہا جاتا ہے ،ايسا عمل اور طريقہ جو شرعي کاموں کے مشابہ ہوتا ہے ،اور اس
خودساختہ طريقہ وعمل سے مقصود اللہ کي عبادت ميں مبالغہ ہوتا ہے،
اور بدعت کي اس تعريف کي وضاحت خود انھوں نے اس طرح کي ہے (
فالطريقة والطريق والسبيل
والسنن هي بمعنى واحد، وهو ما رسم للسلوك عليه.
وإنما قيدت بالدين، لأنها فيه تخترع، وإليه يضيفها صاحبها، وأيضا; فلو كانت طريقة مخترعة في الدنيا
على الخصوص، لم تسم بدعة; كإحداث الصنائع والبلدان التي لا عهد بها فيما تقدم.
ولما كانت الطرائق في الدين تنقسم، فمنها ما له أصل في الشريعة ومنها ما ليس له أصل فيها، خص
منها ما هو المقصود بالحد، وهو القسم المخترع، أي: طريقة ابتدعت على غير مثال تقدمها من الشارع،
إذ البدعة إنما خاصتها أنها خارجة عما رسمه الشارع.
وقوله في الحد: " تضاهي الشرعية " ; يعني أنها تشابه الطريقة الشرعية من غير أن تكون في الحقيقة
كذلك، بل هي مضادة لها من أوجه متعددة:
منها: وضع الحدود; كالناذر للصيام قائما لا يقعد، ضاحيا لا يستظل، والاختصاص في الانقطاع للعبادة،
والاقتصار من المأكل والملبس على صنف دون صنف من غير علة.
ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي
صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك.
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم
النصف من شعبان وقيام ليلته.

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ:بدعت دین کی طرف مضاف عمل وعقیدہ کو کہا جاتاہے ، اگر دنیاوی امور میں کوئی چیز اختراع وایجاد کی جائے تو اسے بدعت نہیں کہتے،،اور بدعت خود ساختہ مخترع چیز کو کہا جاتاہے ، کیونکہ شارع سے اس کی مثال موجود نہیں ہوتی ،اور شرع نے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا ہوتا،
اور اھم بات یہ کہ بدعت بظاھر شرعی عمل کے مشابہ ہوتی ہے ،جبکہ حقیقت میں اصل شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی ،بلکہ کئی وجوہ سے اس کے متضاد ہوتی ہے ،
جیسے یہ نذر مان لینا کہ روزے کی حالت میں سارا دن دھوپ میں کھڑا رہوں گا بیٹھوں گا نہیں
یا عبادت کے لئے باقی سب کچھ چھوڑ دینا یعنی ترک دنیا ،
یا کئی حلال کھانے ترک کرکے کچھ مخصوص چیزوں پر اکتفا کرلینا
اور ایسی بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ ثابت شدہ شرعی امور میں خودساختہ تبدیلی کرلی جاتی ہے
اور کچھ خاص کیفیات اور ھیئات کا التزام جیسے اجتماعی صورت میں بیک آواز ذکر الہی ،اور یوم ولادۃ النبی کو عید بنا لینا ،
اور ایسے ہی مخصوص عبادات کے لئے کچھ خاص اوقات مقرر کر لینا ، جن کی تخصیص اوراوقات کا تعین شریعت نے نہیں کیا ،مثلاً نصف شعبان کا روزہ اور نصف شعبان کی رات کی عبادت))
علامہ شاطبی کے اس بیان سے بدعت کی شرعی تعریف کے ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بدعت
اپنی اصل کے لحاظ سے دو قسم کی ہوتی ہے ،
1:بدعت حقیقی 2: بدعت اضافی
بدعت حقیقی سے مراد وہ عمل وعقیدہ ہے ،جو سرے سے گھڑنت ہو ،اس کا وجود وثبوت شریعت
سے بالکل نہ ملے (
هى التي لا يدل عليها دليل شرعي لا من كتاب ولا سنة ولا إجماع، ومن أمثلتها:
تحريم الحلال، وتحليل الحرام،

)
2 بدعت اضافی (
وأما البدعة الإضافية، فلها جانبان:
جانب مشروع: ولكن المبتدع يُدْخِل على هذا الجانب المشروع أمراً من عند نفسه فيخرجها عن أصل
مشروعيتها بعمله هذا، وأكثر البدع المنتشرة عند الناس من هذا النوع.

یعنی کسی شرعی امر میں کسی صورت تبدیلی یا اضافہ کرنا ،
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شاید آپ نے مجھے بدعتی سمجھا ہے،،،میں الحمد اللہ مواحد ہوں،،،،،
لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ١٢٩؀ۧ
میرا عقیدہ یہ ہے،،،،میں کچھ قبوری حضرات سے بات کر رہا تھا تو انہوں نے یہ دلائل دئیے،جس پر میں آپ سے رابطہ کیا،،،،،
کسی کو پرکھنے میں اتنا جلد بازی اچھی بات نہیں
بھائی اللہ تعالی آپ کے جذبہ اصلاح میں مزید برکت دے ، جب اس طرح کا معاملہ ہو تو آپ ساتھ کچھ الفاظ میں وضاحت لکھ دیا کریں کہ یہ کسی کی طرف سے اعتراض ہے وغیرہ ، کیونکہ قارئین کو کیا پتہ کہ آپ جو تحریر لکھ رہے ہیں وہ آپ بذات خود برضا و رغبت لکھ رہے ہیں یا کسی کے اعتراض کو نقل کرکے جواب چاہ رہے ہیں ۔
 
Top