• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج
اور حقیقت وہی ہے جو علامہ صاحب نے بیان کی ہے۔
چاہے وہ خوارج تھے یا جو بھی تھے میرا سوال وہیں باقی ہے۔ ان کا اجتہاد غلط تھا یا درست؟ اگر غلط تھا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
چاہے وہ خوارج تھے یا جو بھی تھے میرا سوال وہیں باقی ہے۔ ان کا اجتہاد غلط تھا یا درست؟ اگر غلط تھا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
محترم عمران اسلم جو میں نے عرض کیا وہ یہ ہے۔
]پروفیسر سید ابو بکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ان (یعنی اپنے والد محترم حضرت سید داؤ غزنوی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے لطائف کی مشق ہے،نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے ،یا حبس دم کا شغل ہے،کیا یہ بدعات ہیں ،تو حضرت نے فرمایا:۔
’’یہ بزرگان کرام کا اجتہاد ہے‘‘
میں نے عرض کیا: اس اجتہاد کی علت کیا ہے؟
فرمانے لگے:۔
’ نزولِ انوار دفع وسواس ہوتا ہے،پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوار رسالت محمدّیہ بدرجہ اتّم دافع وسواس تھے۔جب انواررسالت منقطع ہوگئے،تو وسواس ابھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔قران کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ واسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، انواراتِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوام ذکر ممکن العمل نہ رہا۔پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لئے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ اکرام نے اجتہاد کیا۔‘‘[/HL]
محترم محض اپنی مرضی سے کوئی رائے قائم کر لینا کہاں کا اجتہاد ہے؟۔
اور یہ ایسے ہی جیسے ضرورت پڑھنے پر قرآن کو لکھ گیا پھر زیر زبر، اور یوں قرآن حفظ کرنے کا طریقہ ،سبق سبقی منزل،اور دیگر دینی علوم حاصل کرنے کے طریقے ،اسی طرح اصطلاحات فقہا ومحدثین وغیرہ وغیرہ ۔پس یہ بھی ضرورت کے تحت ہے۔
اور آپ کا اس حدیث کا طریق ذکر پر انطباق کرنا بے محل ثابت ہو تا ہے۔
دوسری بات جو میں نے عرض کی ہے وہ یہ تھی
علامہ غلام رسول صاحب (کتاب ذکر بالجہر )اس اثر کی سند پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
اس میں ایک راوی ہے عمر بن یحیٰی جس کو حافظ ابو نعیم نے متروک الحدیث لکھا ہے اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ شخص شعبیہ سے مشابہ بالموضوعات احادیث روایت کرتا تھایعنی من گھڑت ، اور دار قطنی نے بھی اسے ضعیف لکھا ہے ۔ لسان المیزان ج 4 ص337
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
حلقہ ذکر کی ذرا تعریف کر دیجئے؟؟؟۔۔۔ اور
گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر دلیل پیش کیجئے!
السلام علیکم
حرب بن شداد بھائی
مزاج گرامی!
تھوڑا ادھر نظر کرم فرمائیں
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے مجلس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سو مرتبہ ”رب اغفرلی، وتب علی، انک انت التواب الرحیم“
( اے الله! مجھے معاف کر دے او رمیری توبہ قبول فرمالے، بلاشبہ تو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے) پڑھتے ہوئے شمار کیا ۔ (ابوداؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ذکر الٰہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قیل یا رسول اللہ وما ریاض الجنۃ قال حلق الذکر (ترمذی)
” جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے باغات سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر الٰہی کے حلقے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۴۵ۚ [٨:٤٥]
مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو
ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے :
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا۝۳۴ۧ [٣٣:٣٤]
اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا ( الاحزاب )
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔) “
امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مرفوعا حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : ہر شئے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچانے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا خواہ تلاور مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم ؒ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردونواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟ ( مسند امام احمدؒ )
ذکر الٰہی سے اللہ جل شانہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے اے محمد میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے اور بے نمکین ہے ۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان اور اس کے پودے ہیں ۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر ( ترمذیؒ )
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص روزانہ سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر “ پڑھےاس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا الا یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔ اور جو شخص دن میں۱۰۰ مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی مثال ہے ۔
ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ، قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ [٥٩:١٩]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے۔ یہ بدکردار لوگ ہیں
اور ذکر سے اعراض کرنے والوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ [٢٠:١٢٤]
اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵ [٢٠:١٢٥]
وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ [٢٠:١٢٦]
خدا فرمائے گا کہ ایسا ہی (چاہیئے تھا) تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تونے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے
وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ۝۰ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي۝۱۲۷ [٢٠:١٢٧]
اور جو شخص حد سے نکل جائے اور اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان نہ لائے ہم اس کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ اور آخرت کا عذاب بہت سخت اور بہت دیر رہنے والا ہے
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )مجھے کوئی ( سہل ) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں‘‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے ‘‘۔ ( ابن ماجہ کتاب الادب :ص277 :مسند احمد ص188 ج4)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔ ( ابن ماجہ : ص 278 ، مستدرک ص 498 ج 1)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر ) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ ( مسلم )
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجلس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔ ( مسند احمد ص :246 ج: 2 )
حافظ ابن القیم ؒ نے ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد اپنی کتاب،’’ ذکر الٰہی‘‘ میں تحریر فرمائے ہیں جن میں سے کچھ یہاں پیش خدمت کرتا ہوں:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:

ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگدور ہوتاہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکرالٰہی راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجالس ہیں ، ذاکرین پر اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی مداومت کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( ابودرداء رضی اللہ عنہ )
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی کی مشقت اور دیگر معمولات کی زیادتی و تکالیف کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےایک خادم کی فرمائش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو خادم دینے کی بجائے رات کو سوتے وقت ۳۳مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ بار الحمد للہ اور ۳۴ بار اللہ اکبرپڑھنے کو فرمایا ۔ اور فرمایا خادم کی بجائے یہ کلمے تمہارے لیےزیادہ بہترہیں ۔
صحیحین کی ایک روایت میں ہے جس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ۔ میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ” جس طرح میل دار چیزوں کو مختلف چیزوں سےچمکایاجاسکتاہےاسی طرح دلوں کو ذکر الٰہی سے ہی چمکایا جا سکتا ہے ۔ “
” مغردون سبقت لے گئے آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول مغردون کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ۔ “ ( صحیح مسلم )
حضرت أغر مزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ میر ے دل میں بھی غفلت کا اثر ہو جاتا ہے، میں دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ ( مسلم)
عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ’’ مَا اجْتَمَعَ قَوْم فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللہِ تَعَالیٰ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہ بَیْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ علیہم السکینۃ و غشیتھم الرحمۃ ،و حفتھم الملائکۃ وذکر ھم اللہ فیمن عندہ ‘‘ (اخرجہ ابو داؤد )
حضرت ابو ہریرہ ؓ ست روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں مجتمع ہوا کوئی مجمع کسی گھر میں اللہ کے گھروں میں سے کہ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوں اور با ہم اس کو پڑھتے ہوں مگر نازل ہوتی ہے ان پر کیفیت تسکین قلب کی اور ڈھانپ لیتی ہے ان کو رحمت اور گھیر لیتے ہیں ان کو ملائکہ اور ذکر فرماتے ہیں ان کا اللہ تعالیٰ (ارواح و ملائکہ ) میں جو کہ اللہ کے پاس ہیں‘‘
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
حضرت آپ بتانا پسند کریں گے اجتہاد ہوتا کیا ہے؟
اور اجتہاد کا دائرہ کار کیا ہے؟
جناب مولانا عمران اسلم صاحب ! دیکھے آپ بجائے ادھر ادھر سوالات کرنے کے سیدھے اور صاف لفظوں میں بتا دے کہ ان وجوہات کی بناء پر صوفیاء کے اجتہاد کو نہیں مانتے۔جو بھی بات کرنی ہے ،کھلے اور صاف لفطوں میں کیجئے۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جناب مولانا عمران اسلم صاحب ! دیکھے آپ بجائے ادھر ادھر سوالات کرنے کے سیدھے اور صاف لفظوں میں بتا دے کہ ان وجوہات کی بناء پر صوفیاء کے اجتہاد کو نہیں مانتے۔جو بھی بات کرنی ہے ،کھلے اور صاف لفطوں میں کیجئے۔
بھائی میرے اجتہاد اس وقت ہوتا ہے جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو یا نص تو موجود ہو لیکن اس کا معنی متعین نہ ہو۔ یعنی ظنی الدلالت نصوص میں ان کا معنی و مفہوم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد ہو سکتا ہے۔
اجتہاد قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے۔
اجتہاد اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے قرآن و سنت میں اضافہ کیا جائے اور نہ ہی اس لیے ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کر دی جائے۔
ہمارے جن بزرگوں نے صوفیا کے لطائف کی مشق، نفی اثبات کے طریقہ یا حبس دم کے شغل کو اجتہاد کا نام دیا ہے اور جن بزرگوں نے اس سلسلے میں بعض جدتیں اور ندرتیں پیش فرمائی ہیں ہمیں پورے احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں معذرت پیش کر دینی چاہیے۔
اب دیکھیے نبی کریمﷺ نے ’لا اله الا الله‘ افضل ذکر سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ اس ذکر کی بہت ساری فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔
لیکن بعض صوفیا کی باتوں سے مترشح ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف ’اللہ اللہ‘ کہنے پر اس لیے اصرار کیا کہ اگر وہ ’لا اله الا الله‘کا ورد کریں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ’لا اله ‘کہتے ہوئے دم نکل جائے اور میں منکر خدا بن جاؤں۔
بات ’لا‘ یا ’لا الہ‘ کی نہیں بلکہ اس تہیا اور ایقان کی ہے جو ایک ذاکر کے ورد کا محرک ہوتا ہے۔ مدارکار ’نیت‘ ہے، الفاظ نہیں ہیں’لا‘ یا ’لا الہ‘ پر بھی جان نکل جائے تو خدا کے ہاں وہی کچھ لکھا جائے گاجو اس کے سامنے تھا، یعنی یہ کہ وہ کیا کہنا چاہتاتھا، اگر وہ کہنے نہیں پایا تھا اور دم نکل گیا ہے تو حق تعالیٰ اس کی نیت کو تو دیکھتا ہے۔
اب آپ صوفیا کے اس اجتہاد پر بھی ایمان لے آئیں اور اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا ہی نہ کریں تو یہ سراسر زیادتی ہے۔
نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ اور مسنون اذکار کو چھوڑ کر خود ساختہ اذکار پر ہی تکیہ کر لینا ہرگز ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
[=عمران اسلم;75461]بھائی میرے اجتہاد اس وقت ہوتا ہے جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو یا نص تو موجود ہو لیکن اس کا معنی متعین نہ ہو۔ یعنی ظنی الدلالت نصوص میں ان کا معنی و مفہوم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد ہو سکتا ہے۔
اجتہاد قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے۔
اجتہاد اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے قرآن و سنت میں اضافہ کیا جائے اور نہ ہی اس لیے ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کر دی جائے۔
ہمارے جن بزرگوں نے صوفیا کے لطائف کی مشق، نفی اثبات کے طریقہ یا حبس دم کے شغل کو اجتہاد کا نام دیا ہے اور جن بزرگوں نے اس سلسلے میں بعض جدتیں اور ندرتیں پیش فرمائی ہیں ہمیں پورے احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں معذرت پیش کر دینی چاہیے
۔میرے بھائی میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صوفیاء کے موقف کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ،یا پھر سمجھنا نہیں چاہتے۔قرآن و سنت میں کثرت ذکر کا جو حکم ہے یہ طریقے اس کفیت کو پانے میں معاون ہیں۔اور کثرت ذکر نص قرآنی سے ثابت ہے ،اب جو زرائع اور وسائل اختیار کیے جائے گے ۔اب ان سے قرآن و حدیث میں کیا تبدیلی آ رہی ہے؟
میرے بھائی کثرت ذکر جسکا مطالبہ قرآن و حدیث میں ہے ،یعنی متو جہ اللہ رہنا ،اس کفیت کو پانے کئلئے محض یہ طریقے ہیں ۔اور تجربہ اس پر شاہد ہے

لیکن بعض صوفیا کی باتوں سے مترشح ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف ’اللہ اللہ‘ کہنے پر اس لیے اصرار کیا کہ اگر وہ ’لا اله الا الله‘کا ورد کریں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ’لا اله ‘کہتے ہوئے دم نکل جائے اور میں منکر خدا بن جاؤ
بات ’لا‘ یا ’لا الہ‘ کی نہیں بلکہ اس تہیا اور ایقان کی ہے جو ایک ذاکر کے ورد کا محرک ہوتا ہے۔ مدارکار ’نیت‘ ہے، الفاظ نہیں ہیں’لا‘ یا ’لا الہ‘ پر بھی جان نکل جائے تو خدا کے ہاں وہی کچھ لکھا جائے گاجو اس کے سامنے تھا، یعنی یہ کہ وہ کیا کہنا چاہتاتھا، اگر وہ کہنے نہیں پایا تھا اور دم نکل گیا ہے تو حق تعالیٰ اس کی نیت کو تو دیکھتا ہے۔
دم نکلنے والی بات سے آپ کی حمایت کرتا ہوں ،لیکن ذکر اسم ذات کو آپ کیا سمجھتے ہیں اس پر آپ کچھ ارشاد فرمائیں
اب آپ صوفیا کے اس اجتہاد پر بھی ایمان لے آئیں اور اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا ہی نہ کریں تو یہ سراسر زیادتی ہے۔
نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں کتنے عرصہ سے آپکا موقف سن رہے ہیں ۔
نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ اور مسنون اذکار کو چھوڑ کر خود ساختہ اذکار پر ہی تکیہ کر لینا ہرگز ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔
میرے بھائی ایسی بات نہیں جیسے آپ سمجھ رہے ہیں یہ ذکر اسم ذات اور طریقہ ذکر وغیرہ کی اصل بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
دیکھے بھائی یہاں پر لوگوں نے صوفیاء کو گالیاں نہیں دی تو فرق نہیں چھوڑا،بھلا یہ اختلاف کرنے کا کون سا طریقہ ہے؟(آپ نے کافی معتدل رویہ اختیار کیا ہے) اور یہ طریقے ویسے ہی نہیں بنے ،ایک ضرورت تھیں ،اس لئے انکو اختیار کیا گیا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عابدالرحمٰن بھائی نے اب تک جو اذکار پیش کئے ہیں۔۔۔
وہ تو احادیث سے ثابت ہیں۔۔۔ تو اُن کو پڑھنے میں برائی یا غلط کیا ہے؟؟؟۔۔۔
 
Top