حلقہ ذکر کی ذرا تعریف کر دیجئے؟؟؟۔۔۔ اور
گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر دلیل پیش کیجئے!
السلام علیکم
حرب بن شداد بھائی
مزاج گرامی!
تھوڑا ادھر نظر کرم فرمائیں
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے مجلس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سو مرتبہ
”رب اغفرلی، وتب علی، انک انت التواب الرحیم“
( اے الله! مجھے معاف کر دے او رمیری توبہ قبول فرمالے، بلاشبہ تو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے) پڑھتے ہوئے شمار کیا ۔ (ابوداؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ذکر الٰہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قیل یا رسول اللہ وما ریاض الجنۃ قال حلق الذکر (ترمذی)
” جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے باغات سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر الٰہی کے حلقے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۴۵ۚ [٨:٤٥]
مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو
ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے :
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا۳۴ۧ [٣٣:٣٤]
اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا ( الاحزاب )
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔) “
امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مرفوعا حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : ہر شئے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچانے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا خواہ تلاور مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم ؒ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردونواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟ ( مسند امام احمدؒ )
ذکر الٰہی سے اللہ جل شانہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے اے محمد میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے اور بے نمکین ہے ۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان اور اس کے پودے ہیں ۔
سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر ( ترمذیؒ )
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔