عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
جزاک اللہ خیراً
آپ کے خیال میں حضرت آدمؑ کی بھول کی وجہ سے انسان کو جنت زمین میں لے آیا گیا اور انھی کی وجہ سے انسان کو دنیا کی صورت میں امتحان گاہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان بہشت میں مزے لوٹ رہا ہوتا۔اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میںلے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
یہ تھا حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کا منشا و مقصد۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ عالم ارضی حضرت آدمؑ کے لیے دار العذاب تھا نیز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح بھی کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کر کے ان کی لغزش کو معاف فرما دیا تھا اور انھیں دوبارہ اپنی رحمت و توجہ و تقرب کا مستحق بنا کر نبوت و رسالت کا مقام بلند عطا فرمایا تھا۔پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔
مولانا مودودیؒ آیت ’قلنا اهبطوا منها جميعا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔
اسی طرح سورۃ اعراف کی آیت ’قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو‘ کی شرح میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمؑ نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدمؑ اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا نہ ان کی نسل کے دامن پر..... اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضیٰ نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کےطور نہیں اتارے گئے بلکہ انھیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصل جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی، البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن: ج1 ص 68، 69]
اسی طرح مفتی محمد شفیع صاحب نے ’معارف القرآن‘ میں سورۃ بقرۃ کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انھیں معاف کر دیا لہٰذا اس حکم میں سزا کا پہلو نہیں ہے بلکہ اس منشا کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان ک پیدا کیا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن : ج2 ص 18]
فلہٰذا حضرت آدمؑ کی خطا کی وجہ سے انسان کا دنیا میں آنا قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ زمین میں انسانوں کی تخلیق کا اعلان کر چکے تھے۔ اور اگر انسان کو بطور سزا ہی زمین پر بھیجا گیا ہے تو پھر حضرت آدم کی توبہ قبول ہونے کا کیا معنی ہے؟ یہ سزا تو تب دی جائے جب اللہ تعالیٰ نےتوبہ قبول نہ کی ہو۔ ایسے میںآدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لیےتھا۔ [معارف القرآن : ج1 ص 142]
جیسے جملے بولنا اور اس کا انطباق حضرت آدمؑ جیسی بزرگ ہستی پر کرنا سراسر ظلم ہے۔ اس ضمن میں قرآن نے تو ہمیں یہ اصول دیا ہے:’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘
مزید آپ نے اسی پوسٹ میں لکھا:ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
یہ تسلیم کہ بڑوں کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن بڑوں کی باتوں میں عقل کو دخل ہی نہ دیا جائے یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔ پھر اس کے متصل بعد ہی آپ نے لکھ مارا :’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘
جب بڑوں کی باتوں پر عقل کا استعمال ہی نہیں کرنا تو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ خیر کی بات ہے یہ شر کی؟؟یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے۔
مفتی صاحب میں نے یہ باتیں کسی کی دل آزاری کے لیے قطعاً نہیں لکھیں۔ اور نہ ہی کسی کی ہار یا جیت مقصود ہے۔ آپ ماشاء اللہ مفتی ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ آپ کی عمر ہے۔ آپ سے لوگ فتوی طلب کرتے ہوں گے اور آپ یقیناً لوگوں دینی رہنمائی بھی کر رہے ہوں گے۔ تو پھر ایسے شخص سےان باتوں کا صدور معنی خیز ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کے خلاف بات اس کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے میں بہترین شخص وہی ہے جو تحمل کے ساتھ سب آرا کو سنے اور اپنی خامی کی اصلاح کی کوشش کرے۔جزاک اللہ خیراً
بس جتنی خبر لے ہی اتنی ہی ٹھیک ہے بھائی آگے زیادہ مناسب نہ ہوگا
آگے سوچ سمجھ کر لکھوں گا
بھائی جان جب ہمارے باتیں خلاف شرع ہیں تو میں پوسٹ ڈلیٹ کردیتا ہوں اور موا قف شرع آپ بیان کردیں نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ پوسٹ تیار کرنے میں محنت کروں اور پھر ان کے جواب دینے میں وقت صرف کروں ۔ ویسے بھی میری عمر سٹھیانے والی ہوگئی ہے اس لیے میرے دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔آئندہ خیال رکھوں گاجھے آپ کے مضمون میں جو خلاف شرع باتیں نظر آئی ہیں ان کی وضاحت تو مجھے کرنا ہوگی۔ ایسی باتوں کو بلا تبصرہ چھوڑکر ہم ان کو سند جواز نہیں دے سکتے۔
مفتی صاحب! آپ جو بھی پوسٹ کریں، اس کا دفاع آپ کا ہی فرض بنتا ہے۔ اگر آپ اپنی پوسٹ کا دفاع نہیں کر سکتے تو پھر لکھنے کی محنت بھی وقت کا ضیاع ہی ہوگی۔بھائی جان جب ہمارے باتیں خلاف شرع ہیں تو میں پوسٹ ڈلیٹ کردیتا ہوں اور موا قف شرع آپ بیان کردیں نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ پوسٹ تیار کرنے میں محنت کروں اور پھر ان کے جواب دینے میں وقت صرف کروں ۔ ویسے بھی میری عمر سٹھیانے والی ہوگئی ہے اس لیے میرے دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔آئندہ خیال رکھوں گا
مفتی صاحب آپ کے منہ سے قرآن و حدیث کا لفظ سن کے اچھا لگا۔ لیکن آپ اپنا یہ مضمون لکھنے سے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے تو شاید آپ یہ زحمت ہی گوارا نہ کرتے۔ آپ کا جو استدلال اور بنیادی مباحث ہیں (ضمنی مباحث میں آپ نے جو رنگ بکھیرے ہیں ان کے کو تو کیا ہی کہنے)میں اس میں سے آپ ہی کے رقم کیے ہوئے کچھ جملے گوش گزار رہا ہوں آپ مجھے بتا دیجئے کہ یہ کس حدیث یا کس قرآنی آیت کا ترجمہ ہیں۔جو صاحب بھی بحث مباحثہ کے متمنی ہیں میں تیار ہوں لیکن صرف ایک صاحب آئیں اور کوئی بھی ہوں لیکن میری ایک بات پر عمل کرنا ہوگا کسی بھی عالم کا سہارا نہیں لینا کون کیا کہہ رہا ہے میں کسی کو تسلیم نہیں کروں گا ایک ایک سوال لیتے رہیں اور بحث کرتے بحث صرف سرف قرآن و حدیث سے ہوگی کسی کتاب کا کوئی حوالہ مجھے قبول نہیں ہوگا
یہ جملہ کس آیت کا ترجمہ ہے:بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
یہ کس حدیث کی عبارت ہے:اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی۔
پھر آپ نے لکھا:جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی ،اور اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
اس جملے کی وضاحت میں آپ نے حضرت ابراہیمؑ کی مثال دی ہے۔ پھر لکھا ہے:محبت میں انسان عقل کے تابع نہ ہوکر دل کے تابع ہو جاتا ہے۔
اس پر ابراہیمؑ سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟؟جس انسان کاقلب محبت کے تابع ہوتا ہے ،اس کو خلیل کہا جاتا ہے،اور جو محبت انسان کے دل و دماغ کے تابع ہوتی ہے اس کو’’ حبیب‘‘ کہا جاتا ہے
اس کا جواب دیتے پھر ایک ایک سوال کا جواب ہوتا لیکن آپ اعتراض پر اعتراض کرتے جارہیںوَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
جو صاحب بھی بحث مباحثہ کے متمنی ہیں میں تیار ہوں لیکن صرف ایک صاحب آئیں اور کوئی بھی ہوں لیکن میری ایک بات پر عمل کرنا ہوگا کسی بھی عالم کا سہارا نہیں لینا کون کیا کہہ رہا ہے میں کسی کو تسلیم نہیں کروں گا ایک ایک سوال لیتے رہیں اور بحث کرتے بحث صرف سرف قرآن و حدیث سے ہوگی کسی کتاب کا کوئی حوالہ مجھے قبول نہیں ہوگا
چلیے بسم اللہ کیجئے۔ اوپر کی دونوں آیتوں کا ترجمہ پیش کردیجئے ان کا کیا ترجمہ ہے اور ’’اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًا ‘‘ سے کون مراد ہیں۔یہ پہلی بحث ہوگی اور صرف اسی پر کلام ہوگا۔پہل ’’عمران اسلم صاحب ‘‘نے کی ہے۔
مجھے آپ سے سند جواز نہیں لینی الحمد للہ میرے پاس سند ہےمفتی صاحب میں نے یہ باتیں کسی کی دل آزاری کے لیے قطعاً نہیں لکھیں۔ اور نہ ہی کسی کی ہار یا جیت مقصود ہے۔ آپ ماشاء اللہ مفتی ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ آپ کی عمر ہے۔ آپ سے لوگ فتوی طلب کرتے ہوں گے اور آپ یقیناً لوگوں دینی رہنمائی بھی کر رہے ہوں گے۔ تو پھر ایسے شخص سےان باتوں کا صدور معنی خیز ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کے خلاف بات اس کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے میں بہترین شخص وہی ہے جو تحمل کے ساتھ سب آرا کو سنے اور اپنی خامی کی اصلاح کی کوشش کرے۔
آپ نے جو باتیں کی ہیں ان کا تعلق عقائد کے ساتھ ہے اور ایک مسلمان کا عقیدہ بہت واضح اور نکھرا ہوا ہونا چاہیے بصورت دیگر انجام بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کے مقابلے میں ایک پورا دین طریقت وجود میں آ چکا ہے۔ اب یا آپ دین طریقت کو دین اسلام سے متصادم قرار دیجئے یا پھر ہمارے اعتراضات کا جواب دے کہ ہمارے ذہن واضح کر دیجئے۔
مجھے آپ کے مضمون میں جو خلاف شرع باتیں نظر آئی ہیں ان کی وضاحت تو مجھے کرنا ہوگی۔ ایسی باتوں کو بلا تبصرہ چھوڑکر ہم ان کو سند جواز نہیں دے سکتے۔