• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
مفتی عابدالرحمٰن صاحب شریعت و طریقت سےمتعلق آپ کی معروضات پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ نے مضمون کے شروع میں لکھا کہ میرا یہ مضمون ذرا ہٹ کر ہے۔ مجھے آپ کی جو باتیں کچھ زیادہ ہی ’ہٹ کر‘ لگیں ان کے حوالے سے خامہ فرسائی کر رہا ہوں۔
آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں حضرت آدمؑ کے شجر ممنوعہ چکھ لینے کے بعد ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میںلے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
آپ کے خیال میں حضرت آدمؑ کی بھول کی وجہ سے انسان کو جنت زمین میں لے آیا گیا اور انھی کی وجہ سے انسان کو دنیا کی صورت میں امتحان گاہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان بہشت میں مزے لوٹ رہا ہوتا۔
اس حوالے سے عرض ہے کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جو جنت سے اترنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کسی گناہ کی سزا کے طور پر نہ تھا بلکہ اس حکم الٰہی سے اس اعلیٰ مقصد کی تکمیل تھی جس کے لیے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ رَ‌بُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْ‌ضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔
یہ تھا حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کا منشا و مقصد۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ عالم ارضی حضرت آدمؑ کے لیے دار العذاب تھا نیز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح بھی کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کر کے ان کی لغزش کو معاف فرما دیا تھا اور انھیں دوبارہ اپنی رحمت و توجہ و تقرب کا مستحق بنا کر نبوت و رسالت کا مقام بلند عطا فرمایا تھا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَ‌بُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔
مولانا مودودیؒ آیت ’قلنا اهبطوا منها جميعا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمؑ نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدمؑ اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا نہ ان کی نسل کے دامن پر..... اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضیٰ نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کےطور نہیں اتارے گئے بلکہ انھیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصل جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی، البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن: ج1 ص 68، 69]
اسی طرح سورۃ اعراف کی آیت ’قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو‘ کی شرح میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:
یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انھیں معاف کر دیا لہٰذا اس حکم میں سزا کا پہلو نہیں ہے بلکہ اس منشا کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان ک پیدا کیا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن : ج2 ص 18]
اسی طرح مفتی محمد شفیع صاحب نے ’معارف القرآن‘ میں سورۃ بقرۃ کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:
آدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لیےتھا۔ [معارف القرآن : ج1 ص 142]
فلہٰذا حضرت آدمؑ کی خطا کی وجہ سے انسان کا دنیا میں آنا قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ زمین میں انسانوں کی تخلیق کا اعلان کر چکے تھے۔ اور اگر انسان کو بطور سزا ہی زمین پر بھیجا گیا ہے تو پھر حضرت آدم کی توبہ قبول ہونے کا کیا معنی ہے؟ یہ سزا تو تب دی جائے جب اللہ تعالیٰ نےتوبہ قبول نہ کی ہو۔ ایسے میں
’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘
جیسے جملے بولنا اور اس کا انطباق حضرت آدمؑ جیسی بزرگ ہستی پر کرنا سراسر ظلم ہے۔ اس ضمن میں قرآن نے تو ہمیں یہ اصول دیا ہے:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ
ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
مزید آپ نے اسی پوسٹ میں لکھا:
’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘
یہ تسلیم کہ بڑوں کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن بڑوں کی باتوں میں عقل کو دخل ہی نہ دیا جائے یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔ پھر اس کے متصل بعد ہی آپ نے لکھ مارا :
یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے۔
جب بڑوں کی باتوں پر عقل کا استعمال ہی نہیں کرنا تو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ خیر کی بات ہے یہ شر کی؟؟
ویسے ہمارے صاحبانِ طریقت آپ کے پہلے جملے پر بخوبی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خوددکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
اپنی دوسری پوسٹ میں آپ نےحضرت خضرؑ کے صاحب طریقت ہونے پر جو نگارشات اور ’بیچارے‘ حضرت موسیؑ کے ’صاحب شریعت ‘ہونے سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا جائزہ میں اگلی پوسٹ میں لوں گا۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جزاک اللہ خیراً
بس جتنی خبر لے ہی اتنی ہی ٹھیک ہے بھائی آگے زیادہ مناسب نہ ہوگا
آگے سوچ سمجھ کر لکھوں گا
مفتی صاحب میں نے یہ باتیں کسی کی دل آزاری کے لیے قطعاً نہیں لکھیں۔ اور نہ ہی کسی کی ہار یا جیت مقصود ہے۔ آپ ماشاء اللہ مفتی ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ آپ کی عمر ہے۔ آپ سے لوگ فتوی طلب کرتے ہوں گے اور آپ یقیناً لوگوں دینی رہنمائی بھی کر رہے ہوں گے۔ تو پھر ایسے شخص سےان باتوں کا صدور معنی خیز ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کے خلاف بات اس کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے میں بہترین شخص وہی ہے جو تحمل کے ساتھ سب آرا کو سنے اور اپنی خامی کی اصلاح کی کوشش کرے۔
آپ نے جو باتیں کی ہیں ان کا تعلق عقائد کے ساتھ ہے اور ایک مسلمان کا عقیدہ بہت واضح اور نکھرا ہوا ہونا چاہیے بصورت دیگر انجام بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کے مقابلے میں ایک پورا دین طریقت وجود میں آ چکا ہے۔ اب یا آپ دین طریقت کو دین اسلام سے متصادم قرار دیجئے یا پھر ہمارے اعتراضات کا جواب دے کہ ہمارے ذہن واضح کر دیجئے۔
مجھے آپ کے مضمون میں جو خلاف شرع باتیں نظر آئی ہیں ان کی وضاحت تو مجھے کرنا ہوگی۔ ایسی باتوں کو بلا تبصرہ چھوڑکر ہم ان کو سند جواز نہیں دے سکتے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
جھے آپ کے مضمون میں جو خلاف شرع باتیں نظر آئی ہیں ان کی وضاحت تو مجھے کرنا ہوگی۔ ایسی باتوں کو بلا تبصرہ چھوڑکر ہم ان کو سند جواز نہیں دے سکتے۔
بھائی جان جب ہمارے باتیں خلاف شرع ہیں تو میں پوسٹ ڈلیٹ کردیتا ہوں اور موا قف شرع آپ بیان کردیں نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ پوسٹ تیار کرنے میں محنت کروں اور پھر ان کے جواب دینے میں وقت صرف کروں ۔ ویسے بھی میری عمر سٹھیانے والی ہوگئی ہے اس لیے میرے دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔آئندہ خیال رکھوں گا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھائی جان جب ہمارے باتیں خلاف شرع ہیں تو میں پوسٹ ڈلیٹ کردیتا ہوں اور موا قف شرع آپ بیان کردیں نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ پوسٹ تیار کرنے میں محنت کروں اور پھر ان کے جواب دینے میں وقت صرف کروں ۔ ویسے بھی میری عمر سٹھیانے والی ہوگئی ہے اس لیے میرے دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔آئندہ خیال رکھوں گا
مفتی صاحب! آپ جو بھی پوسٹ کریں، اس کا دفاع آپ کا ہی فرض بنتا ہے۔ اگر آپ اپنی پوسٹ کا دفاع نہیں کر سکتے تو پھر لکھنے کی محنت بھی وقت کا ضیاع ہی ہوگی۔

یا پھر ایسا دفاع کی ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دیں (ابتسامہ!)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
جو صاحب بھی بحث مباحثہ کے متمنی ہیں میں تیار ہوں لیکن صرف ایک صاحب آئیں اور کوئی بھی ہوں لیکن میری ایک بات پر عمل کرنا ہوگا کسی بھی عالم کا سہارا نہیں لینا کون کیا کہہ رہا ہے میں کسی کو تسلیم نہیں کروں گا ایک ایک سوال لیتے رہیں اور بحث کرتے بحث صرف سرف قرآن و حدیث سے ہوگی کسی کتاب کا کوئی حوالہ مجھے قبول نہیں ہوگا
چلیے بسم اللہ کیجئے۔ اوپر کی دونوں آیتوں کا ترجمہ پیش کردیجئے ان کا کیا ترجمہ ہے اور ’’اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا ‘‘ سے کون مراد ہیں۔یہ پہلی بحث ہوگی اور صرف اسی پر کلام ہوگا۔پہل ’’عمران اسلم صاحب ‘‘نے کی ہے۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جو صاحب بھی بحث مباحثہ کے متمنی ہیں میں تیار ہوں لیکن صرف ایک صاحب آئیں اور کوئی بھی ہوں لیکن میری ایک بات پر عمل کرنا ہوگا کسی بھی عالم کا سہارا نہیں لینا کون کیا کہہ رہا ہے میں کسی کو تسلیم نہیں کروں گا ایک ایک سوال لیتے رہیں اور بحث کرتے بحث صرف سرف قرآن و حدیث سے ہوگی کسی کتاب کا کوئی حوالہ مجھے قبول نہیں ہوگا
مفتی صاحب آپ کے منہ سے قرآن و حدیث کا لفظ سن کے اچھا لگا۔ لیکن آپ اپنا یہ مضمون لکھنے سے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے تو شاید آپ یہ زحمت ہی گوارا نہ کرتے۔ آپ کا جو استدلال اور بنیادی مباحث ہیں (ضمنی مباحث میں آپ نے جو رنگ بکھیرے ہیں ان کے کو تو کیا ہی کہنے)میں اس میں سے آپ ہی کے رقم کیے ہوئے کچھ جملے گوش گزار رہا ہوں آپ مجھے بتا دیجئے کہ یہ کس حدیث یا کس قرآنی آیت کا ترجمہ ہیں۔
مثلاً یہ جملہ:
بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
یہ جملہ کس آیت کا ترجمہ ہے:
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی۔
یہ کس حدیث کی عبارت ہے:
جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی ،اور اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
پھر آپ نے لکھا:
محبت میں انسان عقل کے تابع نہ ہوکر دل کے تابع ہو جاتا ہے۔
اس جملے کی وضاحت میں آپ نے حضرت ابراہیمؑ کی مثال دی ہے۔ پھر لکھا ہے:
جس انسان کاقلب محبت کے تابع ہوتا ہے ،اس کو خلیل کہا جاتا ہے،اور جو محبت انسان کے دل و دماغ کے تابع ہوتی ہے اس کو’’ حبیب‘‘ کہا جاتا ہے
اس پر ابراہیمؑ سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟؟
مفتی صاحب یہ جملے میں نے آپ کی دوسری پوسٹ سے اخذ کیے ہیں۔ آپ ان کے قرآن و حدیث سے حوالے دے دیجئے۔ پھر آگے چلتے ہیں۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
محترم میں نے عرض کیا تھا کہ پہلے
وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
جو صاحب بھی بحث مباحثہ کے متمنی ہیں میں تیار ہوں لیکن صرف ایک صاحب آئیں اور کوئی بھی ہوں لیکن میری ایک بات پر عمل کرنا ہوگا کسی بھی عالم کا سہارا نہیں لینا کون کیا کہہ رہا ہے میں کسی کو تسلیم نہیں کروں گا ایک ایک سوال لیتے رہیں اور بحث کرتے بحث صرف سرف قرآن و حدیث سے ہوگی کسی کتاب کا کوئی حوالہ مجھے قبول نہیں ہوگا
چلیے بسم اللہ کیجئے۔ اوپر کی دونوں آیتوں کا ترجمہ پیش کردیجئے ان کا کیا ترجمہ ہے اور ’’اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًا ‘‘ سے کون مراد ہیں۔یہ پہلی بحث ہوگی اور صرف اسی پر کلام ہوگا۔پہل ’’عمران اسلم صاحب ‘‘نے کی ہے۔
اس کا جواب دیتے پھر ایک ایک سوال کا جواب ہوتا لیکن آپ اعتراض پر اعتراض کرتے جارہیں
اور مجھے بچہ سمجھ کر نصیحتیں فرمارہے ہیں
مفتی صاحب میں نے یہ باتیں کسی کی دل آزاری کے لیے قطعاً نہیں لکھیں۔ اور نہ ہی کسی کی ہار یا جیت مقصود ہے۔ آپ ماشاء اللہ مفتی ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ آپ کی عمر ہے۔ آپ سے لوگ فتوی طلب کرتے ہوں گے اور آپ یقیناً لوگوں دینی رہنمائی بھی کر رہے ہوں گے۔ تو پھر ایسے شخص سےان باتوں کا صدور معنی خیز ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کے خلاف بات اس کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے میں بہترین شخص وہی ہے جو تحمل کے ساتھ سب آرا کو سنے اور اپنی خامی کی اصلاح کی کوشش کرے۔
آپ نے جو باتیں کی ہیں ان کا تعلق عقائد کے ساتھ ہے اور ایک مسلمان کا عقیدہ بہت واضح اور نکھرا ہوا ہونا چاہیے بصورت دیگر انجام بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کے مقابلے میں ایک پورا دین طریقت وجود میں آ چکا ہے۔ اب یا آپ دین طریقت کو دین اسلام سے متصادم قرار دیجئے یا پھر ہمارے اعتراضات کا جواب دے کہ ہمارے ذہن واضح کر دیجئے۔
مجھے آپ کے مضمون میں جو خلاف شرع باتیں نظر آئی ہیں ان کی وضاحت تو مجھے کرنا ہوگی۔ ایسی باتوں کو بلا تبصرہ چھوڑکر ہم ان کو سند جواز نہیں دے سکتے۔
مجھے آپ سے سند جواز نہیں لینی الحمد للہ میرے پاس سند ہے
میری عادت ہے کہ میں کسی کا سہارا لیکر نہیں لکھتا
یہی مودودی ہیں اور مفتی شفیع صاحب جن کا ذکر بھی آپ حضرات کے یہاں ممنوع ہے اور انہی کا سہارا لے رہے ہیں مین نے جواب دنیے کا سلسلہ قائم کی تھا کہ اس معیار کے مطابق بات کروں گا ۔موصوف نے مجھ سے متعلق جتنی بھی پوسٹ ہوچکی ہیں میرے اندازے کے مطابق ان سب کو مشکوک اور مردود ٹھہرانے ٹھان لی ہے ۔اس لیے میری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی پینل بنائیں کہ جس میں تمام موضوعات کو چیک کرنے کے بعد اس کو پبلش کیا جائے ۔پبلش ہونے کے بعد اس سے چھیڑ چھاڑ کرنا مناسب نہیں ہے موصوف کبھی مرحوم مغفور اعتراض کر رہے ہیں کبھی کچھ کبھی کچھ حالانکہ کہ سب کا جواب ہے مگر میں کسی کی انگلیوں پر ناچنے والا نہیں ہوں ۔میں کسی کو بھی کسی طرح کا جواب نہین دوں گا انتظامیہ میری تمام پوسٹ کو ڈلیٹ کردے مجھے نہ دکھ ہوگا اور نہ ہی کوئی اعتراض ۔ جو بھی آتا ہے نصیحت کرنا شروع کردیتا ہے کوئی کسی رنگ میں بات کرتا ہے کوئی کسی انداز میں ۔ اس لیے بھائی لوگو اللہ حافظ السلام علیکم
جس کسی کو مجھ سے تکلیف پہنچی ہو معاف کرنا
 
Top