• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
مولانا! عر ض کر دوں بحث برائے بحث میرا مقصد نہین ،اگر اعتراضات پر اعتراضات ہیں تو آکر انکا جواب کہیں دیا تو گیا ہو گا ،صرف یک طرفہ ٹریفک سے یہ بات سمج نہیں آئے گی آپ جواب بھی ان اعتراضات کے تلاش کرتے یا کسی صوفی کی صحبت میں بیٹھتے تو شاید آپ کے اعتراجات کا ازالہ ہو جاتا ، میرا مقصد یہ ہے کہ آپ یک طرفہ رائے جو لے رہئے اسکو چھوڑ دے۔اس وقت حضرات اہلحدیث میں میں ذاتی طور ایسے حباب کو جانتا ہوں جو طریقہ پاس انفاس سے ذکر کرتے ہیں اگر آپ سنجیدہ ہوئے تو بتانا بھائی فون نمبر انکے بھیج دوں گا،علماء مین سے ہیں اور آپ کو مجھ سے بہتر سمجھا سکے گے۔
تو عاصم صاحب آپ پھر بحث مباحثہ میں شریک ہونے کی زحمت ہی نہ کرتے۔ صرف اتنا لکھ دیتے کہ
میں صوفیا کی صحبت میں رہا ہوں اس لیے ان ہی کی رائے کو حتمی سمجھتا ہوں۔ صوفیا کے تمام عقائد و اعمال درست ہیں ان پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی جا سکتی۔
جس شخص کو میری اس رائے سے اختلاف ہےوہ صوفیا سے رابطہ کرے وہی اس کا جواب دیں گے مجھے آپ کی رائے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور اب میں آپ کی کسی بات کا جواب نہیں دوں گا۔
لیکن اب شاید ’میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘ والا معاملہ ہو گیا ہے۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
=
عمران اسلم;70494]تو عاصم صاحب آپ پھر بحث مباحثہ میں شریک ہونے کی زحمت ہی نہ کرتے۔ صرف اتنا لکھ دیتے کہ
مولانا عمران اسلم صاحب آپ نے جہاں عمر لگا کر بیس پچیس برس میں دیگر علوم سیکھے ہیں کاش آپ میں طلبِ صادق ہو تو صرف بیس پچیس ماہ راہ سلوک میں بھی لگا لیتے تو ساری ھقیقت ہی آپ پر عیاں ہو جاتی
لیکن اب شاید ’میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘ والا معاملہ ہو گیا ہے۔[/QUOTE]
حضرت سراجا منیرا کتاب فورم پر موجود ہے آپ اسکے مطالعہ تو فرما لیں یا فقط تنقید ہی کرنی ہے۔رہا معاملہ کہ آپ کے سوالوں کے جواب !
تو اسکے پہلا جواب یہ ہے کہ اس میں عملی طور پر داخل ہوں
رہا کہ اس پر قران و سنت سے دلائل تو آپ کے سوال نئے نہیں ہیں ان کے جوابات ہمارے صوفیاء اہلحدیث دے چکے ہیں،۔لیکن یہاں پر پھر بھی میں کچھ بنیادی معروضات پیش کر دوں گا ۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
رہا کہ اس پر قران و سنت سے دلائل تو آپ کے سوال نئے نہیں ہیں ان کے جوابات ہمارے صوفیاء اہلحدیث دے چکے ہیں۔
جو باتیں عابد الرحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں کی ہیں کیا اہل حدیث علما ان تمام باتوں کے قائل و فاعل تھے؟
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
جو باتیں عابد الرحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں کی ہیں کیا اہل حدیث علما ان تمام باتوں کے قائل و فاعل تھے؟[/QUOTE
آُپ کون سے مضامین کی بات کر رئے ہیں آپ لنک اور#نمبر بتا دے میں اچھی طرح اسکا جائزہ لیں کر پھر بات کروں گا ویسے میری سمجھ اور تحقیق کے مطابق صوفیاء اہلخدیث کا طریق نقشبندیہ تھا۔الحمد اللہ ۔ اور تصوف کے مسلئہ میں صوفیاء اہلحدیث اور احناف کا کوئی خاص اختلاف نہیں۔اور آج بھی نقشبدیہ سلسلے سے اہلحدیث احباب تعلق رکھتے ہیں ، بعض احباب سے میرے ذاتی روابط بھی ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کے تمام اختلافات میں ذاتی رائے دینے کےبجائے اپنے مقدم علماء کو سامنے رکھنا چاہئے۔اور پھر تصوف کا مسلئہ ہو تو مفسرین و محدثین صوفیاء کی رائے بھی دیکھنی چایئے ،اور اکثریت کی رائیے دیکھنے چاہئے ۔اور تواتر و توارث کو بھی دیکھنا چاہئے ۔میرے باقص علم کے مطا بق متقدمین کو ئی ایسا عالم دین نہیں جس نے تصوف کی مطلق مخالفت کی ہو ۔
آپ عالم دین ہیں اور میرے لئےقابل احترام ہیں کبھی آپ عملی طو ر پر اس میدان میں قدم رکھے یہ طریقہ ذکر اور بیعت و غیرہ فرض نہیں آپ بغیربیعت ہوئے ،اور یہ طریق اختیار کیے بغیر بھی کچھ نہ کچھ اسکو جان سکتے ہیں لیکن ذکر کی وہ کفیت مطلوب ہے جس کو قران کہتا ہے کھڑے بیھٹے لیٹے ہر حال میں یعنی دائمی کفیت ہو اگر کفیت دائمی حاصل ہو تو پھر مطالعہ سے بھی بات پلہ پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
عاصم کمال صاحب میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں اور اب دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ ہمارے لیے اصل معیار کتاب و سنت ہے۔ دین نبی کریمﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اب اس میں کسی کمی یا اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
اسی بنا پر نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدي هدي محمد و شر الأمور محدثاتها و كل محدثة بدعة ضلالة
’’بے شک! بہترین کلام یہ اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمدﷺ کی ہدایت ہے اور سب سے بری باتیں وہ ہیں جو اس دین میں نئی پیدا کی جائیں اور اس طرح کی ہر نئی بات گمراہی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جس کی تائید آپ بھی کریں گے کہ تصوف کے تمام تر اشغال کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس اور دل کی صفائی ہے۔ جیسا کہ عابدالرحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت مدنی کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے۔ اور اس پر آپ نے پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ:
دل کی صفائی حاصل کرنے کا نام احسان اور یہی تصوف کا مقصد ہے ،تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے ،حدیث جبرئیل میں جو کچھ ہے وہی سچ ہے ۔ (حضرت مدنیؒ)
اسی طرح عابدالرحمٰن صاحب نے طریقت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
ان میں سے ایک جماعت اولیا ء کرام کی ہے جن کو ہم برصغیر میں صوفیا ء کرام کے نام سے جانتے ہیں اور اس کام کو’’ طریقت‘‘ کہتے ہیں عوام الناس اس کو پیری مریدی سے تعبیر کرتی ہے۔ مقصدان کا بھی شریعت اسلامی کی رہنمائی میں انسان کوشرک سے پاک زندگی گزارنے کی دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ کا معبود حقیقی بنانا ہے
اسی طرح انھوں نے لکھا:
الحاصل شریعت تمام افعال واعمال ظاہری وباطنی کے مجموعہ کا نام ہے۔
ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف شریعت ہی کے تابع ہے شریعت سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
عاصم کمال صاحب آپ ارباب تصوف کے بہت قریب رہے ہیں ۔ ان اقتباسات کے تناظر میں آپ سے میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہاہوں کہ کیا تصوف شریعت ہی کے تابع ہے یا شریعت سے الگ ایک نئی چیز ہے؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ تصوف شریعت کے تابع نہیں ہے اور اصلاح نفس کے لیے بعد میں ایجاد کی گئی تو ہمارے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور میرے خیال سے آپ کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ تصوف شریعت ہی کے تابع ہے تو پھر نبی کریمﷺ نے تزکیہ نفس سے متعلق امت کی ضرور رہنمائی کی ہو گی اور دوسرے احکامات کی طرح اس باب میں بھی کوئی تشنگی باقی نہیں رہی ہوگی۔ اور یقیناً صحابہ کرام نے بھی دل کی صفائی اور تزکیہ نفس کے تمام طریق اختیا رکیے ہوں گے۔
آپ تزکیہ نفس کے ان طریقوں کی طرف اشارہ کر دیجئے جو قرآن کریم، نبی کریمﷺ کی سنت اور صحابہ کے عمل میں موجود رہے ہوں لیکن اہل حدیث حضرات ان کو تسلیم نہ کرتے ہوں جبکہ ارباب تصوف نے ان کو اختیار کیا ہوا ہو۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
عاصم کمال صاحب میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں اور اب دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ ہمارے لیے اصل معیار کتاب و سنت ہے۔ دین نبی کریمﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اب اس میں کسی کمی یا اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

اسی بنا پر نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدي هدي محمد و شر الأمور محدثاتها و كل محدثة بدعة ضلالة

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جس کی تائید آپ بھی کریں گے کہ تصوف کے تمام تر اشغال کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس اور دل کی صفائی ہے۔ جیسا کہ عابدالرحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت مدنی کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے۔ اور اس پر آپ نے پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ:

اسی طرح عابدالرحمٰن صاحب نے طریقت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
اسی طرح انھوں نے لکھا:

ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف شریعت ہی کے تابع ہے شریعت سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
عاصم کمال صاحب آپ ارباب تصوف کے بہت قریب رہے ہیں ۔ ان اقتباسات کے تناظر میں آپ سے میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہاہوں کہ کیا تصوف شریعت ہی کے تابع ہے یا شریعت سے الگ ایک نئی چیز ہے؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ تصوف شریعت کے تابع نہیں ہے اور اصلاح نفس کے لیے بعد میں ایجاد کی گئی تو ہمارے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور میرے خیال سے آپ کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ تصوف شریعت ہی کے تابع ہے تو پھر نبی کریمﷺ نے تزکیہ نفس سے متعلق امت کی ضرور رہنمائی کی ہو گی اور دوسرے احکامات کی طرح اس باب میں بھی کوئی تشنگی باقی نہیں رہی ہوگی۔ اور یقیناً صحابہ کرام نے بھی دل کی صفائی اور تزکیہ نفس کے تمام طریق اختیا رکیے ہوں گے۔
آپ تزکیہ نفس کے ان طریقوں کی طرف اشارہ کر دیجئے جو قرآن کریم، نبی کریمﷺ کی سنت اور صحابہ کے عمل میں موجود رہے ہوں لیکن اہل حدیث حضرات ان کو تسلیم نہ کرتے ہوں جبکہ ارباب تصوف نے ان کو اختیار کیا ہوا ہو۔
محترم جو طریقے صوفیاء نے اختیار کیے ہیں وہ مسنون نہیں یہ طریقے فی الدین نہیں للدین ہیں۔ اور یہ اختیار کرنے کی وجہ ایسے ہی ہے جیسے حفظ کے لئے طلباء کو پڑھانے کا ایک مخصوص طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ،آپ جانتے ہیں پہلے سبق ہو تا ہے پھر سبقی اور منزل۔ دوران کلاس اساتذہ طالب علموں کو کہتے کہ جھوم جھوم کر پڑھو۔ تو کیا یہ سارے ذرائع قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ؟ اصل مقصد تو حفظ کرنا ہے، اور ذریعہ کوئی بھی اختیار کیا جا سکتا ہے،شرط یہ کہ شریعت نے وہ طریقہ منع نہ کیا ہو۔
بالکل اسی طرح یہ پاس انفاس اور دیگر اشغال حثیت رکھتے ہیں ،اور یہ طریقے یکسوئی کے لئے اختیار کیے گئے ہیں ،تا کہ خیالات میں انجماد پیدا ہو،اورتوجہ منتشر نہ ہو۔
دیکھے محترم! حفاظ جسم کو آگے پیچھے دوران حفظ کیوں حرکت دیتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ اس طرح جسم کو حرکت دینے سے یکسوئی پیدا ہوتی ہے ۔اور سبق جلدی یاد ہوتا ہے ،ایسے ہی پاس انفاس فقط یکسوئی کے لئے ہے ،اگر اسکو دین سمجھا جائے تو بدعت ہو گا ۔
تزکیہ نفس صحابہ رضوان اللہ کو صحبت عالی سے نصیب ہو جاتا تھا ،جس طرح آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین کے باقی شعبوں کی تحصیل کے لئے نصاب مقرر ہوئے ،مختلف ذرائع اختیار کیے گئے اسی طرح درجہ احسان کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذرائع اختیار کیے گئے۔
ارواح ثلاثہ سے ایک اقتباس نقل کر دیتا ہوں ۔
"جناب رسولﷺ کی قوت افاضہ نہایت کامل تھی،اس لئے صحابہ رضوان اللہ کی صلاح باطن کے لئے صرف آپکی تعلیمات کافی تھی،اور ان کواشغال متعارفہ بین اصوفیاء کی ضرورت نہ تھی،اور بدون ان اشغال کےاصلاح ہو جاتی تھی
جناب رسولﷺ کے بعد رفتہ رفتہ یہ قوت مضمل ہوتی گئی اور نوبت یہانتک پہنچی کہ صوفیہ کو اصلاح باطن میں اشغال متعارفہ مثل ذکربا لجہر،حبس دم و پاس انفاس کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے اشغال متعارفہ سے کام لیا ،یہ اشغال رسول ﷺ کے زمانہ میں نہ تھے،اس لئے بدعت ہیں مگر بدعت فی الدین نہیں بلکہ بدعت للدین ہیں ۔یعنی ان امور کو دین میں داخلنہیں کیا گیا تھا بلکہ جو امور شرعا مامور بہ تھے ان کو انکی تحصیل کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اسلئے یہ اشغال للدینہیں نہ کہ داخل دین۔
اسکی مثال یوں سمجھو ایک طبیب نے نسخہ میں شربت بنفشہ لکھا مریض کو بنفشہ کی ضرورت ہے مگر بازار میں شرت بنفشہ نہیں ملتا اس لئے وہ لکڑیا لاتا ہے آگ جلاتا ہے،دیگچی لاتا ہے،شکر لاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں شربت بنفشہ بنا کر نسخہ کی تکمیل کرتا ہے تو یہ لکڑیا ں لانا ،آگ جلانا وغیرہ زیادت فی النسخہ نہیں ہیں بلکہ تکمیل النسخہ ہیں ،اسی طرح سمجھو کہ تحصیل مرتبہ احسان اور اصلاح نفس شرعا مومور بہ ہیں اور شریعت نے ان کا کوئی طریق خاص معین نہیں فرمایا۔اسلئے یہ مامور بہ جس طریق مباح سے بھی حاصل ہوں اس طریق کو اختیار کیا جائے گا اور وہ طریق خاص جزو دین نہ ہو گا مگر ذریعہ دین ہو گا"۔
اس طرح کی سوالات اور انکے تفصیلی جواب تصوف کی کتب میں موجود ہیں آپ ان سے استفادہ فرمائیں ۔رہا اہلحدیث کا مسئلہ تو جلد اکابرین اہلحدیث کے طریق سلوک میں وضاحت پیش کر دی جائے گا۔برصغیر میں اکثریت اہلدیث علماء نے ان طریق کی مخالفت نہیں کی بلکہ اختیار کیا۔
امید ہے کہ آپ اس وضاحت سے بات سمجھ چکے ہونگے۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
یہ طریقے یکسوئی کے لئے اختیار کیے گئے ہیں ،تا کہ خیالات میں انجماد پیدا ہو،اورتوجہ منتشر نہ ہو۔
دیکھے محترم! حفاظ جسم کو آگے پیچھے دوران حفظ کیوں حرکت دیتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ اس طرح جسم کو حرکت دینے سے یکسوئی پیدا ہوتی ہے ۔اور سبق جلدی یاد ہوتا ہے ،ایسے ہی پاس انفاس فقط یکسوئی کے لئے ہے ،اگر اسکو دین سمجھا جائے تو بدعت ہو گا ۔
مثلاً
تصوف کی حقیقت !!! | Tune.pk
کیا رات کو جب سب سو رہے ہوں اٹھ کر تہجد پڑھنے سے یکسوئی حاصل نہیں ہوتی؟؟؟

اکیلے میں بھی اللہ کے ذکر سے یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے پھر ان بدعات وخرافات کی ضرورت؟!
تزکیہ نفس صحابہ رضوان اللہ کو صحبت عالی سے نصیب ہو جاتا تھا ،جس طرح آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین کے باقی شعبوں کی تحصیل کے لئے نصاب مقرر ہوئے ،مختلف ذرائع اختیار کیے گئے اسی طرح درجہ احسان کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذرائع اختیار کیے گئے۔
گویا نبی کریمﷺ کے دور میں یہ اشغال نہیں تھے کیونکہ تزکیہ نفس آپﷺ کی صحبت عالی سے ہی نصیب ہوجایا کرتا تھا، لہٰذا یہ بعد کے ادوار کی بدعت ہیں۔

لیکن صوفیوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد بھی انہیں نبی کریمﷺ کی ذات سے علم لدنی اور علم باطن حاصل ہوتا ہے تو پھر انہیں آپ کی وفات کی بعد آپ کی ذات سے تزکیہ کیوں حاصل نہیں ہوتا؟؟؟

اس کیلئے یہ بدعات وخرافات کیوں جاری کی گئیں؟؟؟
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
عاصم کمال صاحب آپ کس دین اور کس شریعت کی بات کر رہے ہیں؟؟
صاحبانِ شریعت تو ہمیشہ اس وجہ سے اہل طریقت کے زیرِ عتاب رہے ہیں کہ وہ ظاہری شریعت پر کاربند ہوتے ہیں
تو پھر فی الدین اور للدین جیسی اصطلاحات کے ذریعے تصوف کو نئے مفاہیم عطا کرنا کارِ عبث ہی تو ہے۔
جیسا کہ عابدالرحمٰن صاحب نے ایک جگہ لکھا:
بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
مجھے بتائیے اس بات کا کیا مطلب ہے۔ میں تو اس عبارت سے یہی سمجھ پایا ہوں کہ صاحبِ شریعت کا جہاں ہے اور صاحبِ طریقت کا اور۔
اس مضمون کے آخر میں آپ کا تبصرہ بھی ان الفاظ میں موجود ہے:
ما شاء اللہ بہت ہی خوبصورت انداز میں آپ نے بہت مشکل مباحث کو آسان لفظوں میں سمجھا دیا ہے ۔ اللہ آپکے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں۔
تو جب صاحب شریعت ہونے کی وجہ سے ایک نبی کی ’صاحب طریقت‘ کے ساتھ نہیں ’بن‘ سکی توپھر آپ صاحبان طریقت کے مخصوص افعال و اذکار کو ’للدین‘ قرار دینے کے لیے اتنے جتن کیوں کر رہے ہیں؟

تزکیہ نفس صحابہ رضوان اللہ کو صحبت عالی سے نصیب ہو جاتا تھا ،جس طرح آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین کے باقی شعبوں کی تحصیل کے لئے نصاب مقرر ہوئے ،مختلف ذرائع اختیار کیے گئے اسی طرح درجہ احسان کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذرائع اختیار کیے گئے۔
صحابہ کرام نے درجہ احسان حاصل کرنے کےلیے کون سے ذرائع اختیار کیے براہِ کرم ان کی طرف اشارہ کر دیجئے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عمران اسلم;71547]عاصم کمال صاحب آپ کس دین اور کس شریعت کی بات کر رہے ہیں؟؟
صاحبانِ شریعت تو ہمیشہ اس وجہ سے اہل طریقت کے زیرِ عتاب رہے ہیں کہ وہ ظاہری شریعت پر کاربند ہوتے ہیں
تو پھر فی الدین اور للدین جیسی اصطلاحات کے ذریعے تصوف کو نئے مفاہیم عطا کرنا کارِ عبث ہی تو ہے۔
محترم عمران اسلم صاحب میری عاصم کمال والی آڈی میں مسلئہ آ رہا تھا انتظامیہ کی توجہ سے بھی حل نہ ہوا۔مجبوراً نئی آئی ڈی بنانی پڑی،اور اب الحمدللہ تمام آپشن اوپن ہوگئے ہیں۔اور میں انتظامیہ سے گزارش کروں گا کہ اگر ممکن ہوتو میرے تمام مراسلے اسی نام پر منتقل کر دئے جائے۔
محترم یہ زیر عتاب والی بات میں نہیں سمجھ سکا کوئی کسی کے زیر عتاب نہیں رہا یہ ظاہر و باطن اصطلاحات ہیں اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کی کتاب کے شروع میں اس موضوع پر بات کی گئی ہے وہاں سےا ٓپ دیکھ سکتے ہیں۔مزید اس پر بات پہلے سے شروع کئے گئےمباحثہ ( اشغال)کہ اختتام پر ہو گئی
جیسا کہ عابدالرحمٰن صاحب نے ایک جگہ لکھا:

مجھے بتائیے اس بات کا کیا مطلب ہے۔ میں تو اس عبارت سے یہی سمجھ پایا ہوں کہ صاحبِ شریعت کا جہاں ہے اور صاحبِ طریقت کا اور۔
اس مضمون کے آخر میں آپ کا تبصرہ بھی ان الفاظ میں موجود ہے:

تو جب صاحب شریعت ہونے کی وجہ سے ایک نبی کی ’صاحب طریقت‘ کے ساتھ نہیں ’بن‘ سکی توپھر آپ صاحبان طریقت کے مخصوص افعال و اذکار کو ’للدین‘ قرار دینے کے لیے اتنے جتن کیوں کر رہے ہیں؟
محترم بات جتن کی نہیں بات سمجھنے کی ضرورت ہے ،میرے خیال نئی بحث چھڑنے کے بجائے جو ہو رہی ہے، بات صوفیا کے اشغال و اذکار پراسکا کوئی فیصلہ ہو جائے تو پھر اس پر بھی بات کر لیں گے۔
صحابہ کرام نے درجہ احسان حاصل کرنے کےلیے کون سے ذرائع اختیار کیے براہِ کرم ان کی طرف اشارہ کر دیجئے۔
آپ شاید میری بات سمجھ نہیں سکے ہیں۔
محترم !صحابہ کو اشغال کی ضرورت نہ تھی۔
کیوں نہ تھی؟ یہ ضرورت کیوں پیش آئی؟
آئیے اس سوال کا جواب علما اہلحدیث سے ہی پوچھتے ہیں ۔
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ان (یعنی اپنے والد محترم حضرت سید داؤ غزنوی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے لطائف کی مشق ہے،نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے ،یا حبس دم کا شغل ہے،کیا یہ بدعات ہیں ،تو حضرت نے فرمایا:۔
’’یہ بزرگان کرام کا اجتہاد ہے‘‘
میں نے عرض کیا: اس اجتہاد کی علت کیا ہے؟
فرمانے لگے:۔
’’ نزولِ انوار دفع وسواس ہوتا ہے،پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوار رسالت محمدّیہ بدرجہ اتّم دافع وسواس تھے۔جب انواررسالت منقطع ہوگئے،تو وسواس ابھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔قران کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ واسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، انواراتِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوام ذکر ممکن العمل نہ رہا۔پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لئے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ اکرام نے اجتہاد کیا۔‘‘
فریایا
’’ اگر معاملات میں اجتہاد ہو سکتا ہے،تو عبادت میں میں جمعیت خاطر پیدا کرنے کے لئے اجتہاد کیوں نہیں ہو سکتا‘‘۔
پھر ایک اور شام بندہ عاجزان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتا یا کہ بعض علماء سے اشغال صوفیہ پر مجھے گفتگو کا اتفاق ہوا ہے،اور وہ انہیں بدعات اور محدثات قرار دیتے ہیں۔
حضرت والد علیہ الرحمہ کی پیشانی پر شکن پڑ گئی اور فرمانے لگے:۔
’’ ان علماء کا ذہین صاف ہونا چاہئے۔جب وہ ان اشگال کو بدعات قرار دیتے ہیں ،تو دوسرے لفظوں میں وہ معاذاللہ۔۔۔۔۔
خاکم بدہن یہ کہتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ بدعتی تھے ،حضرت مجدّد الف ثانی ؒ بدعتی تھے۔حضرت شاہ عبد العزیزؒ بدعتی تھے ،حضرت
مرزا جان جاناں ؒ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ بدعتی سب تھے۔ایک طرف تو یہی علماۂندوستان میں اپنی تاریخ کا آغازان ہی بزرگوں سے کرتے ہیں ،اور انکے ساتھ نسبت ملاتے ہیں۔دوسری طرف ن بزرگوں کے اجتہاد ات کو بدعت قرار دیتے ہیں۔اس منطقی تضاد سے انہیں نجات پانی چاہئے۔
معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔
صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاء و
المرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسنوجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء(ص۱۸،۱۹)
محترم ! الطاف المعارف کا مکمل مطالعہ فرما لیں اور پھر پرانی بات کہوں گا کہ شاید مباحثہ سے یہ بات سمجھ نہ آ سکے ،اگر ہوسکے تو آپ صوفیا اہل حدیث سے رابطہ فرمائیں، آپ عملی طور پر تھوڑا سا حصہ لیں۔ہم نے ایک جہاں کو تصوف کا منکر اور پھر ان کو ہی داعی تصوف و احسان دیکھا۔مگر یہ سارے تبدیلی اہل للہ کی صحبت سے آئی ہے۔
 

مشہودخان

مبتدی
شمولیت
جنوری 12، 2013
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
0
حضرت حمدون قصار رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابوتراب بخشی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید باکمال اور حضرت ابو سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے پیرِ حق پرست تھے، اربابِ ذوق و شوق کے پیشوا تھے، علوم فقہ اور حدیث میں ماہر تھے، صاحب تقویٰ و صاحبِ توکل اور ولئ کامل تھے۔
آپ کے چند اقوال پیش ہیں:
(۱) جس شخص کی خاموشی سے دین کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کا بات کرنا فرض اولین ہے، کیونکہ جب وہ بولے گا تو باطل جاتا رہے گا۔
(۲) جو فقیر اپنے آپ پر تکبر کرے تو اس کا تکبر دولتمندوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
(۳) بہت زیادہ خوراک کھانے سے بہت نقصان ہے اور اس سے دین کو آفت پہنچتی ہے۔
(۴) دینی اور دنیوی امور کا کوئی بھی عمل علیل و مریض آدمی سے سر انجام نہیں ہوسکتے۔
(۵) پہلے بزرگوں کی بات اس لئے زیادہ نافع تھی کہ وہ اسلام کی عزت اپنے نفس کی نجات اور حق کی رضاء کے لئے کلام کرتے تھے، اور ہم نفس کی عزت، دنیا طلب اور خلقت کی قبولیت کے لئے گفتگو کرتے ہیں۔
(۶) میں نیک خوئی کو سخاوت میں دیکھتا ہوں اور بدخوئی کو بخل میں۔
(۷) شیطان تین چیزوں سے خوش ہوتا ہے، ایک یہ کہ کسی ایماندار کو قتل کرے، دوسرے کوئی شخص بحالت کفر مرے، تیسرے یہ کہ تم درویشی سے بھاگو۔
(۸) جواں مردی یہ ہے کہ لباس صوفیہ اتار ڈالو تاکہ خلقت تم پر فریفتہ نہ ہو اور تم یکسوئی سے یادِ الٰہی میں مشغول ہوکر اپنے مراتب کو بلند کرو۔
(۹) کامل مومن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اور اس کی عبادت دوست رکھے۔
(اقوال کا خزانہ)
۱۔جس نے یہ خیال کیا کہ وہ فرعون سے بہتر ہے تو اس نے تکبر کیا۔
۲۔جہاں تک ہوسکے کسی دنیاوی چیز کی خاطر غصہ میں نہ آؤ۔
۳۔جب تم کسی کو شراب کے نشہ میں سر شار دیکھو تو تم بھی بناوٹی طور پر ادھر ادھر جھکنے لگ جاؤ، تاکہ کہیں تم اس پر زیادتی نہ کر بیٹھو اور پھر کہیں تم بھی اس میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔
۴۔اپنی جس قسم کی باتیں تم چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں اس قسم کی لوگوں کی باتیں بھی ظاہر نہ کرو۔
(الرسالۃ القشیر یۃ،ص:۴۳)
۵۔جب شیطان اوراس کی فوج اکھٹی ہوتی ہے تو انہیں کسی بات پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی کہ تین چیزوں پر ہوتی ہے:
(۱)اس مومن پر جو مومن کو قتل کرے۔
(۲)اس شخص پر جو کفر کی حالت میں مرے۔
(۳)اوراس دل پر جسے فقر کا ڈر ہو۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۷۴)
(۱)جو سلف کی سیرت کا مطالعہ کرےگا تو اس کو اپنی تقصیر اور مردانِ راہ کے درجات سے پیچھے رہ جانے کی معرفت نصیب ہوگی ۔
(۲)درویش کا جمال اس کی تواضع میں ہے ،اور جب اس نے تکبر کیا تو اس کا تکبر اغنیاء کے تکبر سے بھی بڑھ گیا۔
پڑھا ہے کہ یہ خود بڑے محدث تھے اور کبار محدثین کے استاذ بھی تھے
 
Top