عمران اسلم;71547]عاصم کمال صاحب آپ کس دین اور کس شریعت کی بات کر رہے ہیں؟؟
صاحبانِ شریعت تو ہمیشہ اس وجہ سے اہل طریقت کے زیرِ عتاب رہے ہیں کہ وہ ظاہری شریعت پر کاربند ہوتے ہیں
تو پھر فی الدین اور للدین جیسی اصطلاحات کے ذریعے تصوف کو نئے مفاہیم عطا کرنا کارِ عبث ہی تو ہے۔
محترم عمران اسلم صاحب میری عاصم کمال والی آڈی میں مسلئہ آ رہا تھا انتظامیہ کی توجہ سے بھی حل نہ ہوا۔مجبوراً نئی آئی ڈی بنانی پڑی،اور اب الحمدللہ تمام آپشن اوپن ہوگئے ہیں۔اور میں انتظامیہ سے گزارش کروں گا کہ اگر ممکن ہوتو میرے تمام مراسلے اسی نام پر منتقل کر دئے جائے۔
محترم یہ زیر عتاب والی بات میں نہیں سمجھ سکا کوئی کسی کے زیر عتاب نہیں رہا یہ ظاہر و باطن اصطلاحات ہیں اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کی کتاب کے شروع میں اس موضوع پر بات کی گئی ہے وہاں سےا ٓپ دیکھ سکتے ہیں۔مزید اس پر بات پہلے سے شروع کئے گئےمباحثہ ( اشغال)کہ اختتام پر ہو گئی
جیسا کہ عابدالرحمٰن صاحب نے ایک جگہ لکھا:
مجھے بتائیے اس بات کا کیا مطلب ہے۔ میں تو اس عبارت سے یہی سمجھ پایا ہوں کہ صاحبِ شریعت کا جہاں ہے اور صاحبِ طریقت کا اور۔
اس مضمون کے آخر میں آپ کا تبصرہ بھی ان الفاظ میں موجود ہے:
تو جب صاحب شریعت ہونے کی وجہ سے ایک نبی کی ’صاحب طریقت‘ کے ساتھ نہیں ’بن‘ سکی توپھر آپ صاحبان طریقت کے مخصوص افعال و اذکار کو ’للدین‘ قرار دینے کے لیے اتنے جتن کیوں کر رہے ہیں؟
محترم بات جتن کی نہیں بات سمجھنے کی ضرورت ہے ،میرے خیال نئی بحث چھڑنے کے بجائے جو ہو رہی ہے، بات صوفیا کے اشغال و اذکار پراسکا کوئی فیصلہ ہو جائے تو پھر اس پر بھی بات کر لیں گے۔
صحابہ کرام نے درجہ احسان حاصل کرنے کےلیے کون سے ذرائع اختیار کیے براہِ کرم ان کی طرف اشارہ کر دیجئے۔
آپ شاید میری بات سمجھ نہیں سکے ہیں۔
محترم !صحابہ کو اشغال کی ضرورت نہ تھی۔
کیوں نہ تھی؟ یہ ضرورت کیوں پیش آئی؟
آئیے اس سوال کا جواب علما اہلحدیث سے ہی پوچھتے ہیں ۔
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ان (یعنی اپنے والد محترم حضرت سید داؤ غزنوی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے لطائف کی مشق ہے،نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے ،یا حبس دم کا شغل ہے،کیا یہ بدعات ہیں ،تو حضرت نے فرمایا:۔
’’یہ بزرگان کرام کا اجتہاد ہے‘‘
میں نے عرض کیا: اس اجتہاد کی علت کیا ہے؟
فرمانے لگے:۔
’’ نزولِ انوار دفع وسواس ہوتا ہے،پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوار رسالت محمدّیہ بدرجہ اتّم دافع وسواس تھے۔جب انواررسالت منقطع ہوگئے،تو وسواس ابھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔قران کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ واسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، انواراتِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوام ذکر ممکن العمل نہ رہا۔پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لئے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ اکرام نے اجتہاد کیا۔‘‘
فریایا
’’ اگر معاملات میں اجتہاد ہو سکتا ہے،تو عبادت میں میں جمعیت خاطر پیدا کرنے کے لئے اجتہاد کیوں نہیں ہو سکتا‘‘۔
پھر ایک اور شام بندہ عاجزان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتا یا کہ بعض علماء سے اشغال صوفیہ پر مجھے گفتگو کا اتفاق ہوا ہے،اور وہ انہیں بدعات اور محدثات قرار دیتے ہیں۔
حضرت والد علیہ الرحمہ کی پیشانی پر شکن پڑ گئی اور فرمانے لگے:۔
’’ ان علماء کا ذہین صاف ہونا چاہئے۔جب وہ ان اشگال کو بدعات قرار دیتے ہیں ،تو دوسرے لفظوں میں وہ معاذاللہ۔۔۔۔۔
خاکم بدہن یہ کہتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ بدعتی تھے ،حضرت مجدّد الف ثانی ؒ بدعتی تھے۔حضرت شاہ عبد العزیزؒ بدعتی تھے ،حضرت
مرزا جان جاناں ؒ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ بدعتی سب تھے۔ایک طرف تو یہی علماۂندوستان میں اپنی تاریخ کا آغازان ہی بزرگوں سے کرتے ہیں ،اور انکے ساتھ نسبت ملاتے ہیں۔دوسری طرف ن بزرگوں کے اجتہاد ات کو بدعت قرار دیتے ہیں۔اس منطقی تضاد سے انہیں نجات پانی چاہئے۔
معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔
صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاء و
المرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسنوجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء(ص۱۸،۱۹)
محترم ! الطاف المعارف کا مکمل مطالعہ فرما لیں اور پھر پرانی بات کہوں گا کہ شاید مباحثہ سے یہ بات سمجھ نہ آ سکے ،اگر ہوسکے تو آپ صوفیا اہل حدیث سے رابطہ فرمائیں، آپ عملی طور پر تھوڑا سا حصہ لیں۔ہم نے ایک جہاں کو تصوف کا منکر اور پھر ان کو ہی داعی تصوف و احسان دیکھا۔مگر یہ سارے تبدیلی اہل للہ کی صحبت سے آئی ہے۔