lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ ایک بھائی نے لکھی ہے - سوچا کہ یہاں شئیر کر دوں تا کہ اس پر سب بھائی اپنی راۓ دے سکیں
.
شعبان کی رات
شعبان کی رات کی آمد آمد ہے ، جو ایک بہت ہی اہم راتوں کی طرح سمجھی جاتی ہے – اس کا احترم بالکل لیلة القدر کے طور پر کچھ لوگ کرتے ہیں ۔ وہ رات کو نماز اور کچھ رات کے بعد دن میں روزے رکھتے ہیں ۔ اس رات كے وقت كے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ نصف شعبان کی رات ہے – جبکہ اسلامی مہینے ضروری نہیں کہ ٣٠ دن کے ہوں وہ ٢٩ دنوں کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق اس کی حرمت کا سبب روایات ہیں۔.
شعبان کی رات
ترمذی روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم ) کو ایک رات کے دوران نہ پایا – اور ان کو البقیع میں پایا (یعنی عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا ، نبی صلی الله علیہ وسلّم کو تلاش کرتے ہوے مدینه سے باہر قبرستان پہنچ گئیں ) ۔ (نبی صلی الله علیہ وسلم ) انہوں نے کہا کہ: آپ ڈر رہی تھیں کہ اﷲ اور اس کے رسول آپ کے ساتھ نا انصافی کریں گے میں (عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا ) نے کہا: اللہ کے رسول، میں نے سوچا کہ آپ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس چلے گیئے ۔(رسول) نے کہا: بیشک اﷲ، بزرگی و عظمت والا ، شعبان کی درمیانی رات میں دنیا کے آسمان سے نیچے آتا ہے اور (بنو)کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گناہ معاف فرما دیتا ہے
عام طور پر مقرّرین نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے اپنی تقریروں میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں لیکن امام ترمذی کے تبصرے کو حذف کر جاتے ہیں جسس میں وہ کہتے ہیں کہ
عائشہ بنت ابی بکر کی روایت (کے بارے میں ) ابو عیسیٰ (امام ترمذی ) نے کہا کہ، ہم اس کو اس واسطه سے ہی جانتے ہیں حجاج کی سند سے – اور میں نے امام محمد یعنی امام بخاری سے سنا کے یہ حدیث کمزور ہے – یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے اور حجاج بن ارطاہ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا
حجاج بن ار طا ة بصره میں قاضی تھا اور اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا قاضی ہے جس نے رشوت لی – یہ عباسی خلیفہ المہدی کا منظور نظر تھا -المھدی کے دور میں بر امکه خاندان بہت اثر رکھتا تھا اور چراغاں کرنے کا ان کو بہت شوق تھا – اس خاندان نے بنوامیہ کا تختہ الٹنے میں بنو عباس کی مدد کی تھی اور اس کا تعلق پارس سے تھا جو آتش پرستوں کا مسکن رہا ہے
اسی طرح کی دیگر روایات مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں بھی بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق نصف شعبان کی رات الله تعالیٰ انسانوں کو معاف کرتا ہے سواے مشرک کے اور وہ جن کے درمیان کشیدگی ہو
مسند احمد کی عبدللہ بن عمر و والی روایت میں عبدللہ ابن لہیہ ہے جو انتہائی ضعیف راوی ہے
عبدللہ ابن لہیہ عباسی خلفاء کے منظور نظر رہے ہیں اور پہلے عباسی خلیفہ السفاح کی مدح سرائی میں روایت بھی گھڑی کہ نبی صلّی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کے میری امت میں ایک خلیفہ ہو گا جو مال بھر بھر کر دے گا اور اس کا نام السفاح ہو گا – عباسی خلیفہ بنو امیہ کے سخت مخالف تھے اور وہ راتیں جن میں ان کے مخالفین کی اموات ہوئیں تھیں ان کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ یہ بہت با برکت راتیں ہیں مثلا ٢٧ رجب امیر معاویہ کی وفات کی رات ہے
صحیح ابن حبان کی روایت ہے کہ معاذ بن جبل روایت کرتے ہیں کہ الله کے نبی نے فرمایا کہ الله اپنی مخلوق میں سے آگاہ ہوتا ہے شعبان کے وسط کی رات میں تاکہ وہ اپنی مخلوقات کو بخش دے علاوہ تمام مشرک اور ایک ( دوسرے مسلمان کی طرف) کینہ رکھنے والے کے
صحیح ابن حبان کی اس روایت کا امام دار قطنی نے اپنی کتاب علل میں تعقب کیا ہے یعنی روایات میں عیوب سے متعلق تحققیق کے بعد فیصلہ دیا ہے کہ اس روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے – ابن حبان علم حدیث میں فراخ دل سمجھے جاتے ہیں لہذا وہ بسا اوقات مجھول راویوں کو بھی ثقہ قرار دے دیتے ہیں – ان کی جرح مانی جاتی ہے لیکن ان کی تصحیح پر اختلاف رہا ہے – امام دار قطنی جو لگ بھگ ابن حبان کے قریب دور کے ہیں وہ اس روایت کو مضطرب قرار دیتے ہیں
یہ تو صرف چند روایات ہیں – ضعیف روایات کا اک انبار ہے پندرہ شعبان کی رات کے حوالے سے جن پر دفتر کے دفتر بھرے جا سکتے ہیں – سوال یہ ہے کہ آخر اک اتنی اہم رات امام بخاری اور امام مسلم سے کیسے پوشیدہ رہ گئی کہ صحیحہیں میں اس رات کا عندیہ تک نہیں ملتا – بقیہ کتب اربعہ یعنی سنن ابی داود ، سنن نسائی ، جا مع الترمذ ی، سنن ابن ماجہ میں ہی کیوں یہ روایات جگہ پا سکیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صحیح کے معیار کی روایات صرف امام بخاری اور امام مسلم نے ہی لکھیں ہیں بقیه نے سب طرح کی روایات جمع کیں – امداد زمنہ کے ساتھ لوگوں نے صحاح ستہ کی اصطلاح ایجاد کر لی اور یہ تصور کر لیا کہ بقیہ چار کتب میں بھی صحیح روایات ہیں
امام بخاری تو روایت کرتے ہیں کہ الله تبارک و تعالیٰ تو ہر رات کو آسمان دنیا پر آتا اور پکارتا ہے کہ کون ہے جو توبہ کا طلب گار ہے لہذا اب پندرہ شعبان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟ ذرا سوچیے