• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شمائل النبویہ محمد بن جمیل زینو مدرس فی دار الحدیث الخیریہ مکہ مکرمہ مترجم:حکیم محمدجمیل شیدا رحمانی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جب کوئی قوم اپنے عظیم ماضی اور اسلاف کو چھوڑ کر غیروں کے نقش قدم پر چلتی ہے تو وہ اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہے۔ اس کی انسانی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت باقی نہیں رہتی اور وہ بہت جلد فنا ہو جاتی ہے۔ جس طرح چکی کے مرکزی ایکسل کے ساتھ جما رہنے والا دانہ پسنے سے بچ جاتا ہے اور جو دانے مرکز سے ہٹ کر ادھر ادھر منتشر ہو جاتے ہیں وہ پس جاتا ہیں، مسلمان قوم کیلئے مرکز قرآنِ کریم اور رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہے۔ جو لوگ اس مرکز سے وابستہ رہے وہ غالب اور سرفراز رہے۔ اور جس دن سے انہوں نے اس مرکز سے روگردانی کی ہے اسی دن سے ذلت و ادبار ان کا مقدر ہے۔ یہ رسول اکرم ﷺ کی اس حدیث کو سنتے ہیں ’’من تشبہ بقوم فھو منہم‘‘ ’’جو شخص کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہو گا‘‘ مگر اس کے باوجود اس ملت نے قرآن و سنت کے نور کی بجائے یورپ کی ظلمت کو اختیار کر رکھا ہے۔ ظاہری شکل و صورت، تہذیب و تمدن اور عقائد و اعمال کی رو سے مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ میں صرف نام کا فرق باقی رہ گیا ہے۔ ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلم ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اس پستی کا بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور عادات و شمائل کو اختیار کرنے کی بجائے یہود و نصاریٰ کی عادات اور تہذیب و تمدن کو اپنا رکھا ہے۔ جب تک مسلمان اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ کی سیرت کے سانچے میں نہ ڈھالیں گے اس وقت تک ذلت و رسوائی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ رسول اکرم ﷺ کے اسوئہ حسنہ کو عملاً اپنانے ہی سے دین و دنیا میں سرفرازی اور عزت و شرف حاصل ہو گا۔ ؎
ہے تیرے پاس نسخہئِ تسخیر کائنات
پر شرط ہے اطاعتِ خیر البشر کریں
(شیدا رحمانی)
اس مختصر سی کتاب میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور عادات و خصائل کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔ اس کا شرحِ صدر سے مطالعہ کریں۔ اور اپنی پستی کو رفعت میں تبدیل کرنے کا اہتمام کریں۔ ورنہ عمل سے خالی حبِّ رسول ﷺ کے دعوے کسی کام نہ آئیں گے۔ ؎
لو کان حبک صادقاً لأطعتہ إن المحب لمن یحب مطیع
اگر تیری محبت سچی ہوتی تو اپنے محبوب کی تو ضرور پیروی کرتا۔ اس لئے کہ آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کی پیروی بھی کرتا ہے۔ (مترجم محمد شیداؔ رحمانی)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس وقت دنیا میں جس ذلت و نکبت کا مسلمان شکار ہیں وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ان کی مساجد، گھر بار اور کاروباری مراکز جائے جا رہے ہیں۔ ان کی بہو بیٹیوں کی عصمت سرِبازار تارتار کی جا رہی ہے۔ خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین سرورِ کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی عزت و حرمت پر رکیک حملے کئے جا رہے ہیں۔ فحش و بے حیائی کے پتلے، شیطان کے ایجنٹ زندیق و ملحد نبوت کے دعوے کر رہے ہیں مگر مسلمانوں کے دعوائے حبّ نبی ﷺپر خاموشی طاری ہے۔ ان کے بحرِ محبت کی موجوں میں طوفان و تلاطم پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صورتِ حال بلادِ کفار ہی میں نہیں بلکہ خو انہی کے بے شمار علاقوں میں موجود ہے جن پر ان کی اپنی حکمرانی ہے۔ کبھی وہ وقت تھا کہ ایک مجاہد جرنیل (خالد بن ولید رضی اللہ عنہ) جنگ کی شدت کے وقت دشمن کی تلوار کی زد میں ہونے کے باوجود گھوڑے سے اترتا ہے اور اپنی ٹوپیکو زمین سے اٹھاتا ہے۔ مقد مقابل اس کی اپنی جان سے بے نیازی پر تعجب سے کہتا ہے: میں تو تیری بہادری اور جنگی حکمت عملی سے خائف تھا مگر میری تلوار کی زد میں ہوتے ہوئے تیرا گھوڑے سے اتر کر سر جھکا دینا اس پر مجھے زبردست حیرت ہے۔ میں اس کا سبب جاننا چاہتا ہوں۔ وہ مرد مجاہد جواب دیتا ہے: مجھے معلوم تھا کہ تو اس حالت میں میری گردن اڑا سکتا ہے مگر میری ٹوپی میں میرے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کا ایک بال تھا۔ اس کی حرمت و حفاظت مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسول! مجھے اپنی جان کے بعد پوری دنیا سے آپ ﷺ کی جان زیادہ عزیز ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ابھی نہیں (ابھی ایمان کامل نہیں ہے) اللہ کی قسم تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کیلئے اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں‘‘۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا ’’اب‘‘ (ایمان کامل ہوا ہے)۔ اسلافِ امت کا ہر فرد بشر اپنی زبانِ حال ع عمل سے یہ کہتا تھا: ؎
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہء یثرت کی حرمت پر
اللہ شاہد ہے کام میرا ایماں ہو نہیں سکتا
مگر صد حیف اس امت کی پستی پر کہ گستاخانِ رسول کو نہ صرف یہ کہ کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جاتا بلکہ ہادئ اکرم ﷺ کے ازلی دشمن یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کے لئے انہیں مال و دولت سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اس تباہ کن صورتِ حال اور اس گھمبیر جان لیوا بیماری کے اسباب پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں اس کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان ملت کی عظیم اکثریت اپنی دینی اور دنیوی فلاح و اصلاح کیلئے رسول اکرم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اسلام اور ہادئ اسلام کے ازلی دشمنوں (یہود و نصاریٰ) سے اپنی پستی اور دکھوں کا مداوا تلاش کرتے ہیں حالانکہ اپنی انہی کی اندھی تقلید سے ان پر ذلت و مسکنت مسلط ہوئی ہے۔ ؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں؟
ذلیل و خوار ہے دنیا میں کیوں امت محمد ﷺ کی
حقیقت ہے کہ اس نے چھوڑ دی اطاعت محمد ﷺ کی
(شیدا رحمانی)
اگر آپ گذشتہ رفعت و سرفرازی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہادئ اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کر کے اس کے ذریعے اپنی پستی کا ازالہ کیجئے کہ اس میں آپ کی دین و دنیا میں فلاح و کامرانی کا پورا سامان ہے۔ ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگئ داماں بھی ہے
رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تمام پہلوؤں کا اس مختصر سی کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ناشر عزیز اور ساجد محمود کو جزائے خیر سے نوازے آمین۔ و صلی اللہ علی النبی محمد
مترجم حکیم محمد جمیل شیدا رحمانی عفا اللہ عنہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ان الحمد ﷲ نحمد و نستعینہ و نعوذ باﷲ من شرور انفسنا و سیاٰت اعمالنا من یھدہ اﷲ فلا مضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
میں اپنے معزز مسلمان قارئین کرام کے لئے اخلاق محمد، فضائل محمدی اور آدابِ اسلامی میں سے ایک انتخاب (گلدستہ) پیش کر رہا ہوں۔ تاکہ مسلمان قارئین اس سے باخبر ہو کر نبی ﷺ کے اخلا، آداب، تواضع، بردباری، بہادری، سخاوت اور توحیدِ ربانی میں پیروی کریں۔ بلاشبہ اس دور میں ہم توحیدِ الٰہی اور اخلاقِ کریمہ کی نشر و اشاعت کے بہت محتاج ہیں۔ جن کے ذریعے ماضی میں مسلمانوں نے عزت اور غلبہ حاصل کیا تھا اور اسلام چار دانگِ عالم میں پھیلا تھا۔ ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
انما الامم الاخلاق ما بقیت
فان ھم ذھب اخلافھم ذھبوا
’’جب تک اخلاقِ عالیہ باقی رہتے ہیں امتیں باقی رہتی ہیں۔ یعنی باعزت زندگی بسر کرتی ہیں اور جب اخلاقی حالت پست ہو جاتی ہے تو امتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ یعنی باعزت مقام سے محروم ہو جاتی ہیں۔ (محمد بن جمیل زینو)۔
إنْ فاتکم أن تروئہ بالعیون فما
یفوتُکم و صفہ ھذی شمائلہ
’’اگر آپ رسول اللہ ﷺ کو اب اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تو آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اور عاداتِ مبارکہ موجود ہیں ان کا مشاہدہ کر سکتے ہو‘‘
(آپ کی سیرت اور اخلاقِ کریمہ کے توسط سے آپ ﷺ کو دیکھ سکتے ہیں)۔
مکمل الذاتِ فی خَلْق و فی خُلقٍ
و فی صفاتٍ فلا تُحصی فضائلُہ
’’آپ ﷺ کی پیدائش (جسمانیت) اخلاق و صفات میں کامل تھے۔ آپ ﷺ کے فضائل و محاسن کا شمار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کی پیدائش
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعْثَ فِیْھِمْ رَسُولاً مِنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ و یُزَکِّیْھِمْ، وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْن} (آل عمران:164)
بیشک اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں پر احسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یقینا اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
(حکمت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ انہیں طب اور سائنس کی تعلیم دیتے تھے بلکہ حکمت سے مراد آپ ﷺ کی سنت ہے۔ جس کے ذریعے آپ ﷺ نے زندگی کے ہر پہلو میں امت کی رہنمائی اور تربیت کی ہے۔ اس سے حدیث و سنت صحیحہ کی پیروی قرآن کریم کی پیروی کی طرح لازم ہے۔ اگر حدیثِ رسول ﷺ کا انکار کر دیا جائے تو قرآنِ کریم کا انکار بھی لازم ہوتا ہے۔ جو لوگ حدیثِ رسول ﷺ کے مقابلہ میں دوسرے اقوال و آراء کو ترجیح دیتے ہیں، احادیثِ رسول ﷺ کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے بدانجام سے ڈر جائیں۔ مترجم)
{قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰ
ــہٌ وَّاحِد} (الکھف: 110)۔
’’(اے نبی) کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح انسان ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ بلا شبہ تمہارا معبود ایک ہی ہے‘‘۔
نبی ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا، اسی دن مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (رواہ مسلم)۔
نبی ﷺ مکہ میں ربیع الاول کے مہینے 571ء عام الفیل میں سوموار کے دن پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والدین حسبِ و نسب کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ آپ ﷺ کے والد عبداللہ بن عبدالملب اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بنت وھب تھیں۔ آپ ﷺ کے دادا نے آپ ﷺ کا نام ’’محمد‘‘ رکھا۔ آپ ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ رسول اقدس ﷺ کی قدر کو پہچانیں اور قرآن و سنت کے ساتھ اپنے معاملات کا فیصلہ کریں۔ قرآن و سنت کے ساتھ اپنے معاملات کا فیصلہ کریں۔ قرآن کے ساتھ سنت کی بھی آپ ﷺ پر وحی کی گئی تھی:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا یُوْحٰی} (النجم:4-3)
’’دین کے معاملہ میں آپ ﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے تھے۔ یقینا (جو کچھ بھی آپ ﷺ کہتے تھے) اس کی اللہ کی طرف سے وحی کی جاتی تھی‘‘
مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنے آپ کو اخلاقِ رسول ﷺ کے ساتھ آراستہ کریں، توحید کی دعوت کا اہتمام کریں، جس کے ساتھ آپ ﷺ نے اپنی رسالت کا آغاز کیا تھا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ملتی ہے:
{قُلْ اِنَّمَا اُدْعُوْ رَبِّیْ وَلَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا} (الجن:20)
’’(اے نبی ﷺ) کہہ دیجئے بلا شبہ میں اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کا نام اور نسب
1۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ} (سورۃ الفتح آیت29) ’’محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں (یعنی کفر و شرک کو مٹانے والا)، میں حاشر ہوں (لوگ میرے قدموں میں جمع کئے جائیں گے) اور میں عاقب ہوں (آخر میں آنے والا)۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’رؤف‘‘ اور ’’رحیم‘‘ بھی رکھا ہے۔ (متفق علیہ)۔
2۔ رسول اللہ ﷺ اپنے مزید نام بتاتے ہوئے فرمایا: ’’میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں مقفی (آخری نبی) ہوں، میں حاشر ہوں، نبیئِ توبہ ہوں اور نبیئِ رحمت ہوں‘‘(رواہ مسلم)۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مزید نام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں میں مقضّی (آخری نبی )ہوں میں حاشر ہوں ، نبی توبہ ہوں ، اورنبی رحمت ہوں ۔(رواہ مسلم )
4۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :’’کیا تم حیران نہیں ہوتے کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے برابھلا کہنے اور لعنت کو پھیر دیا؟وہ قابل مذمت آدمی کو برا بھلا کہتے اور لعنت کہتے تھے اور میں محمد( قابل تعریف) ہوں ۔(یعنی میرا نام تو محمد ہے) اور وہ مذمم پر سب وشتم کرتے ہیں۔(رواہ بخاری)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے قبیلہ کنانہ کو منتخب کیا ۔کنانہ سے قریش کو ، قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے اللہ نے مجھے منتخب کیا ہے۔
6۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’میرے نام پر نام رکھو ۔اور میری کنیت (ابو القاسم) پر کنیت نہ رکھو۔اس لئے کہ میں ہی قاسم ہوں اور تمہارے درمیان (اللہ کی نعمتیں تقسیم کرتا ہوں)‘‘
ـ(رواہ مسلم )
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کا منظر)
1۔ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت چہرے والی ، سب سے زیادہ خوبصورت خلقت (جسمانیت) والے تھے، نہ زیادہ لمبے اور نہ زیادہ چھوٹے قد کے تھے۔(متفق علیہ )
2۔ رسول اللہ ﷺ سفید خوبصورت چہرے والے تھے۔(رواہ مسلم )
3۔ رسول اللہ ﷺ درمیانے قد والے تھے۔ دونوں کندھوں کا درمیانی حصہ کشادہ تھا گھنی داڑھی تھی آپکی رنگت پر سرخی غالب تھی ۔آپ ﷺ کے بال کانوں کی لوؤں تک تھے۔میں نے آپکو ایک سرخ جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا۔(رواہ البخاری)
4۔ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک ، ہاتھ ، اور پاؤں بڑے تھے خوبصورت چہرے والے تھے میں نے آپ ﷺ سے پہلے اور آپ ﷺ کے بعد آپکی طرح کا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا۔(رواہ البخاری)
5۔ آپ ﷺ کا چہرہ شمس و قمر جیسا اور گول تھا۔(رواہ مسلم )
6۔ جب رسول اللہ ﷺ خوش ہوتے تھے تو آپ ﷺ کا چہرہ چمک اٹھتا تھا ۔آپ ﷺ کا چہرہ (اس وقت) چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا اور ہم اس کیفیت سے آپکی خوشی معلوم کر لیتے تھے۔
7۔ رسول اللہ ﷺ کھلکھلا کر ہنسنے کی بجائے مسکراتے تھے جب تو آپ ﷺ کی طرف دیکھتا تو کہتا کہ آپکی آنکھیں سرمگیں ہیں ۔حالانکہ آپ ﷺ نے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا ۔
8۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی کھلکھلاکر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ میں آپ ﷺ کے لھوات (حلق کا پچھلا آخری حصہ دیکھ لیتی)آ پ ﷺ کا ہنسنا مسکرانا ہی ہوتا تھا۔
9۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک چاندنی رات میں دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اور چاند کی طرف دیکھنے لگا آپ ﷺ ایک سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے آپ ﷺ اس وقت میری نظر میں چاند سے بھی زیادہ خوبصورت تھے۔(اس حدیث کو امام ترمذی نے ذکر کرکے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور اسے امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہاہے)۔
10۔ کسی شاعر نے رسول اللہ ﷺ کی صفت میں کیا ہی خوب کہا ہے:
وأبیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل
وہ ایسا سفید رو ہے کہ بادل اس کے چہرے سے پانی حاصل کرتا ہے (یعنی جب وہ اپنے سفید چہرے کو اٹھا کر بارش کی دعا کرتا ہے تو بادل پانی سے بھر پور ہوکر برستے ہیں۔وہ یتیموں کا فریاد رس اور بیوگان کا محافظ ہے۔(انہیں ظلم سے بچاتا ہے)یہ شعر ابو طالب کے کلام میں سے ہے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس وقت پڑھا تھا جب لوگ قحط سالی کا شکار ہوئے اور آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’ اے میرے اللہ !تو ہمیں سیراب کر‘‘۔پھر بارش نازل ہوئی تھی ۔(رواہ بخاری )اس کا مفہوم و معنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن کی سفیدی کے ذکر سے تعریف کی گئی ہے لوگ آپ ﷺ سے سوال کرتے تھے کہ آپ ﷺ اپنے مبارک روشن چہرے اور دعا سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ ان پربارش نازل کرے اور یہ حال آپکی زندگی میں ہوتا تھا ۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ اختیار کیا تھا کہ وہ ان کیلئے بارش نازل ہونے کی دعا کریں سیدنا عمر رضی اللہ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کو دعا کا وسیلہ نہیں بنایا آپ ﷺ کی دعائے استسقاء کے وقت قبیلئہ کنانہ کے ایک آدمی نے درج ذیل اشعار پڑھے تھے :
لک الحمد والحمد ممن شکر
سقینا بوجہ النبی المطر
(اے اللہ )سب تعریف تیرے ہی لئے ہے اور ہر شکر گزار کی طرف سے تعریف تیرے ہی لئے ہے کہ نبی ﷺ کے چہرے کی برکت سے ہم بارش سے سیراب کئے گئے ہیں۔
دعا اللّٰہ خالقہ دعوۃ
إلیہ وأشخص منہ البصر
آپ ﷺ نے اللہ اور اپنے خالق سے دعا کی اور اسکی طرف اپنی نظر اٹھائی ۔
فلم یک إلا کإلقاء الرداء
وأسرع حتی رأینا الدرر
کچھ دیر نہ ہوئی کہ بادل چادر کی طرح فضا پر چھا گیا اور ہم نے بارش کے قطرے موتیوں کی طرح گرتے ہوئے دیکھے۔
و کان کما قال لہ عمہ
أبو طالب أبیض ذو غرر
اسی طرح ہوا جس طرح آپ ﷺ کے چچا ابو طالب نے کہا تھا ۔کہ وہ (نبی ﷺ) سفید چہرے والے ہیں ۔
بہ اللّٰہ یسقی صوب الغمام
و ھذا لعیان لذالک الخبر
اسکی برکت سے اللہ تعالیٰ بادل کے پہلو کو سیرا ب کرتا ہے اور بارش کی خوش کن خبر سے اس شخص (قائل ) کو بھی سیراب کرتا ہے۔
فمن یشکر اللّٰہ یلق المزید
ومن یکفر اللّٰہ یلق الغیر
جو شخص اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ مزید نعمتیں پائیگا اور جو ناشکری کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی پائیگا۔
ھذا رسول اللّٰہ یبدو فی الدنا
شمسا تضئی لسائر الأکوان
یہ اللہ کے رسول ﷺ دنیا میں ایسے سورج کی طرح ظاہر ہوئے ہیں جو پوری کائنات کو روشن کر رہا ہے۔
فھو الذی کان الختام لرسلنا
کختام مسک فاح فی البلدان
وہ رسولوں کے سلسلے کی مہر ہیں (یعنی سلسلہ نبوت ختم کرنے والے ہیں )وہ کستوری کی مہر کی مانند ہیں جوپوری دنیا میں مہک رہی ہے۔
ذو الصورۃ البیضاء والوجہ الذی
أضحی لنا قمراً بکل مکان
وہ ایسی سفید صورت اور چمکدار چہرے والے ہیں جو چاند کی طرح ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔
وإذا لمست الکف قلت: حریرۃ
من لینہ کالزبد فی فنجان
جب تو آپ ﷺ کی ہتھیلی کو چھوئے گا تو کہے گا کہ یہ نرمی میں ریشم کی طرح ہے جس طرح پیالی میں مکھن رکھا ہوا ہو۔
وإذا سمعت کلامہ مترسلا
یصل القلوب یھز کل جنان
جب تو آپ کے کلام کو سنے جو الگ الگ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے وہ دلوں تک پہنچ جاتا ہے اور ہر دل کو متحرک کر دیتا ہے۔
و جوامع الکلم البلیغ أحاطھا
إذا أنہا فاقت لکل بیان
آپ ﷺ نے ددلوں تک پہنچنے والے جامع الفاظ کا احاطہ کر رکھا ہے یعنی آپ کی زبان مبارک سے ایسے جامع کلمات صادر ہوتے ہیں جو ہر فصیح و بلیغ بیان پر فوقیت رکھتے ہیں۔
ابو معبد اور رسول اللہ ﷺ
قریر کے مقام پر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کے نزول کی ایک خبر سیرت کی کتابوں اور حدیث میں بہت مشہور ہے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین ام معبد کے خیمے کے پاس اترے (ٹھہرے) تو آپ ﷺ نے ام معبد سے ضیافت طلب کی تو ام معبد نے اپنے پاس کھانا نہ ہونے کا عذر پیش کیا اور کہا کہ ہمارے پاس ایک کمزور سی بکری ہے جو دودھ نہیں دیتی آپ ﷺ نے اس بکری کو پکڑا اور اس کے تھنوں کو اپنے ہاتھ سے پونچھا اور اللہ سے دعا کی ایک برتن میں اسے دوھا تو جھاگ ابھر آیا (برتن بھر گیا لبریز ہوگیا) سب اصحاب نے دودھ پیا اس روایت سے زیادہ صحیح ایک روایت سیدنا قیس بن نعمان سکونی نے اس طرح بیان کی ہے۔
’’ جب رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چھپتے ہوئے کہیں جارہے تھے تو ابی معبد کے خیمے کے پاس اتر کر آپ ﷺ نے (مہمانی طلب کی) تو اس نے عرض کیا اللہ کی قسم ہمارے پاس دودھ والی کوئی بکری نہیں ہے اور ہماری بکریاں سب حاملہ ہیں کوئی دودھ ہمارے پاس نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ :وہ کمزور بکری کہاں ہے؟
ابو معبد:اس بکری کو لے آیا۔
رسول اللہ ﷺ: نے اس پر برکت کی دعا کی اور پھر ایک بہت بڑے پیالے میں دودھ دوہا تو اسے سب اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (جی بھر کر )پیا۔
ابو معبد:آپ ﷺ ہی وہ شخص ہیں جسے قریش صابی (بے دین) کہتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ: بیشک وہ ایسا ہی کہتے ہیں ۔
ابو معبد:میں آپکی پیروی کرتا ہوں ۔
رسول اللہ ﷺ: نہیں (ابھی نہیں )یہاں تک کہ تو سن لے کہ ہم غالب آگئے ہیں
ابو معبد نے بعد میں آپ ﷺ کی اتباع کرلی (یعنی مدینے میں آپ ﷺ کے غالب آنے کے بعد وہ آپ ﷺ سے مل گیا (اور ایمان لے آیا)۔
اسے بزاز نے حسن سند کیساتھ روایت کیا ہے)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کی فضیلتوں کا بیان
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔{یأیھا النبی إنا ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا و دایا الی اﷲ باذنہ و سراجا منیرا و بشر المؤمنین بأن لہم من اﷲ فضلا کبیرا۔(سورۃ الاحزاب)
اے نبی ﷺ! بیشک ہم نے تجھے گواہ ، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے ایمانداروں کو خوشخبری دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل (عطا کیاگیا ہے)۔
2۔ ما کان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النبین و کان اﷲ بکل شئی علیما۔
محمد ﷺ تم میں سے کسی آدمی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کی مہر (ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ‘‘۔(اگرچہ اللہ نے آپ ﷺ کو نرینہ اولاد دی تھی۔مگر وہ بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔)
3۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ۔
’’اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
4۔ و انا اکثر الانبیاء تبعا یوم القیامۃ۔وانا اول من یقرع باب الجنۃ۔ (رواہ مسلم )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:قیامت کے دن سب نبیوں سے زیادہ میرے پیروکار ہونگے اور میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤنگا۔
5۔ انا اول شفیع فی الجنۃ لم یصدق نبی من الانبیاء ما صدقت و ان نبیا من الانبیاء ما صدقہ من امتہ الا رجل واحد ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت کے بارے میں میری سب سے پہلے سفارش قبول کی جائیگی ۔جتنی میری تصدیق کی گئی ہے اتنی تصدیق اور کسی نبی کی نہیں کی گئی اور کوئی بھی ایسا نبی نہیں ہوگا جس کی امت(قوم) میں سے فقط ایک آدمی نے ہی اس کی تصدیق کی ہوگی۔
6۔ و قال ﷺ سالت ربی ثلاثا ، فأعطانی ظنتین ، و منعنی واحدۃ سالت ربی ان لا یہلک امتی بالسنۃ فاعطانیہا واسالتہ ان لا یہلک امتی بالغرق فاعطانیہا وسالتہ ان لا یجعل باسہم بینہم فمنعنیہا۔
نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے رب سے تین سوال کئے تو دو چیزیں مجھے عطا کر دی گئیں اور ایک چیز مجھ سے روک لی گئی۔ میں نے سوال کیا اے میرے رب میری امت قحط سالی سے ہلاک نہ ہو تو اللہ نے اسے قبول کر لیا میں نے دوسرا سوال کیا کہ میری امت غرق ہوکر برباد نہ ہو یہ سوال بھی قبول کر لیاگیامیں نے تیسرا سوال کیا کہ ان کی آپس میں لڑائی نہ ہو تو تیسرا سوال قبول نہیں کیاگیا۔(رواہ مسلم ) ایک روایت میں ہے میں نے اللہ سے سوال کیا کہ کسی غیر مسلم دشمن کو ان پر مسلط نہ کیا جائے تو یہ سوال بھی قبول کر لیا گیا (رواہ الترمذی والنسائی ) اور البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہاہے)
مذکورہ حدیث پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ 1929ء میں خلافتِ عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد سے لے کر اب تک امت مسلمہ پر من حیث المموع غیر مسلم کفار و نصاریٰ اور ملحدیث کا تسلط چلا آ رہا ہے۔ اور صورتِ حال یہ ہیکہ چند علاقوں کے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر یہود و ہنود کا ظالمانہ تسلط قائم ہے۔ تقریباً پچاس ملک ایسے ہیں جن کے حکمران اگرچہ نام کے مسلمان ہیں مگر عملی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے وہ اتنے ہی دشمن ہیں جتنے غیر مسلم حکمران دشمن ہیں۔
یہ اعتراض بہت برمحل اور اس کا جواب بھی بہت تکلیف دہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ایک حصہ ہے کہ تم دولتِ دنیا کے لالچ میں جب جہاد کو ترک کر دو گے تو تم پر ذلت مسلط ہو جائیگی۔ لہٰذا موجودہ ذلت و محکومی اسی پیشینگوئی کے مطابق ہے۔ ملت ِ مسلمہ نے اجتماعی طور پر جہاد کو ترک کیا تو اس کی سزا میں کافر قومیں انہیں برباد کر رہی ہیں۔ رہا آپ ﷺ کی دعا میں یہ ذکر کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اس سوال کو قبول کر لیا کہ مسلمانوںپر کفار کو مسلط نہیں کروں گا تو یہ بھی سو فیصد درست ہے۔ اس طرح کہ مجاہد مومنین نے روز اول سے آج تک کفار کا تسلط قبول کیا ہے اور نہ قیامت تک کفار کا تسلط قبول کریں گے۔ ان کا کفار کے خلاف جہاد جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ 1989ء سے جہاد میں جو شدت پیدا ہوئی ہے، اس سے یہود و ہنود اور ملحدیث و نصاریٰ کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ عیش و تجمل کے رسیا اور سیم و زر کے پجاری مسلمان جو جہاد سے خائف ہیں وہی کفار کی قوت سے لرزاں ہیں مگر سچا مسلمان مجاہد ان کے جنگی ساز و سامان، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو مجھر کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا۔ کفار کی محکومی اور تسلط ان نام نہاد مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزا ہے جو جہاد سے گریزاں ہیں۔ اور ان کی یہ ذلت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک یہ جہاد کو اختیار نہیں کریں گے۔ ہزاروں مسجدیں مسمار ہو رہی ہیں۔ لاکھوں عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ لاکھوں گھر اور فیکٹریاں جلائی جا رہی ہیں مگر بے حس مسلمان اور حکمران انہی کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا در چھوڑ کر انہی ظالموں سے اپنی مشکلات کا حل تلاش کر ہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کرے۔ آمین۔ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
7۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ معراج کی حدیث میں بیان کرتے ہیں:’’اور نبی ﷺ کی آنکھیں سوتی ہیں اور آپ ﷺ کا دل نہیں سوتا‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
8۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردر ہوں گا۔ سب سے پہلے میری قبر کی زمین پھٹے گی۔ میں سفارش کروں گا تو میری سفارش قبول کی جائے گی‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
9۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’چھ امور میں مجھے تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔ 1۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں (تھوڑے الفاظ میں زیادہ مفہوم و مطالب) 2۔ میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے (پہلی امتیں اپنا مالِ غنیمت ایک جگہ جمع کرتی تھیں۔ آسمان سے آگ آ کر اسے کھا جاتی تھی (جلا دیتی تھی) ان کے لئے مالِ غنیمت سے فائدہ اٹھانا حرام تھا۔ مترجم)
3۔ پوری زمین میرے لئے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے۔
4۔ میں پوری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
5۔ میرے ذریعے آئندہ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ (رواہ مسلم)۔
10۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’مجھے اولادِ آدم کے بہتر زمانوں میں ایک ایک قرن کے بعد بھیجا گیا ہے۔ اب میں آخری بہترین قرن (زمانے) میں بھیجا گیا ہوں‘‘۔ (اسے امام بخاری نے ذکر کیا ہے)۔
11۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے ایک عمارت تعمیر کی ہو اسے بہت خوبصورت بنایا اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی۔ لوگ اس کے گرد گھوم کر خوش ہونے لگے اور کہنے لگے اس خالی جگہ میں اینٹ کیوں نہ رکھ دی گئی؟ (اگر اس خالی جگہ پر بھی اینٹ رکھ دی جاتی تو کیا ہی اچھا تھا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں وہ اینٹ ہوں (میرے ذریعے قصرِ نبوت کی وہ خالی جگہ پر کر دی گئی ہے) اور میں نبیوں کی مہر (سلسلہء نبوت ختم کرنے والا) ہوں۔ (رواہ البخاری)۔
12۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجھے خاتم النبیین لکھ دیا گیا تھا حالانکہ آدم علیہ السلام ابھی اپنے مٹی کے ڈھانچے کے ساتھ زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ میں تمہیں اپنی پیدائش سے پہلے کے چند امور کی خبر دیتا ہوں۔ میرے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بعثت کی دعا کی تھی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے میری بعثت کی خوشخبری دی تھی۔ میری پیدائش کے وقت میری والدہ کا خواب دیکھنا۔ اس کے لئے ایک نور نے نکل کر اس کے سامنے شام کے محلات روشن کر دیئے تھے۔ (اس روایت کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہا ہے۔ البانی نے اسے مشکوٰۃ میں صحیح کہا ہے)۔
13۔ غارِ حرا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرئیل امین آیا تو اس نے کہا: {اِقْرَأ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق} ’’اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا کیا‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ گھر کی طرف لوٹے۔ آپ ﷺ کا دل کان رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی اہلیہ اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد کے پاس آگر انہیں واقعے کی خبر دی کہ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ہرگز نہیں! اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ یتیم کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ نادار کو عطا کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ راہِ حق کے مصائب پر مدد کرتے ہیں۔ پھر اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ سے اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنئیے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے جو کچھ دیکھا تھا اس کی خبر دی۔ ورقہ نے آپ ﷺ سے کہا: یہ وہی رازدان فرشتہ جبریل علیہ السلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر ناز ل کیا تھا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ ﷺ کو آپ کی قوم (مکہ سے) مکہ سے نکالے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا بھلا وہ مجھے نکالنے والے ہیں؟ ورقہ نے کہا: جی ہاں۔ جب بھی کوئی آدمی آپ کی طرح کا پیغام اور دعوت لے کر آیا ہے، اس سے دشمنی کی گئی ہے۔ اگر آپ ﷺ کی بعثت کا زمانہ مجھے پا لے (یعنی میں اس وقت زندہ ہوں) تو میں آپ ﷺ کی زبردست مدد کرونگا۔ (رواہ البخاری)
14۔ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت:
1۔ سیدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی ہے۔ وہ کبوتری کے انڈے کے برابر سرخ گلٹی تھی۔ (رواہ مسلم)۔
2۔ سیدنا عبداللہ بن سرجس بیان کرتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ کا کھانا کھایا، پانی پیا اور آپ ﷺ کے بائیں کندھے کی جڑھ میں مہرِ نبوت کو دیکھا جیسے بند مٹھی ہوتی ہے۔ اس پر پستان کی بھٹنی (Nipples) کی طرح تل تھے۔
3۔ جعد بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میری خالہ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جا کر عرض کیا: میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر میرے لئے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کیا تو میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پیا۔ پھر میں آپ ﷺ کی پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہو۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت چکور کے انڈھے کی طرح تھی۔ (متفق علیہ)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نبی ﷺ کے پسینے کی خوشبو
1۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چمکدار رنگ والے تھے۔ آپ ﷺ کا پسینہ موتیوں کی طرح تھا۔ جب آپ ﷺ چلتے تھے تو آپ ﷺ کا جھکاؤ آگے کی طرف ہوتا تاکہ زمین سے پورا قدم اٹھ جائے (یعنی سست پھسڈی آدمی کی طرح پاؤں گھسیٹ ک نہیں چلتے تھے)۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم دیباج اور ریشم کو نہیں چھوا۔ اور نہ میں نے نبی ﷺ کی بو سے زیادہ خوشبودار کستوری اور عنبر کو سونگھا ہے۔ (متفق علیہ)۔
2۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہمارے پاس قیلولہ (دوپہر کا آرام) کیا۔ آپ ﷺ کو پسینہ آیا۔ میری والدہ ایک شیشی لائی اور اس میں آپ ﷺ کا پسینہ بھرنے لگی۔ نبی ﷺ نے بیدا ہو کر فرمایا: ’’اے اُم سُلَیم! تو یہ کیا کرتی ہے؟ والدہ نے کہا یہ آپ کا پسینہ ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں ملائیں گے اور وہ (آپ کا پسینہ) بہترین خوشبو ہے۔ (رواہ مسلم)۔
3۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لاتے تھے تو خوشبو کی وجہ سے پہچان لئے جاتے تھے (اس روایت کو البانی نے الجامع میں صحیح کہا ہے)۔
4۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ خوشبو (کا ہدیہ) واپس نہیں کرتے تھے۔ (رواہ البخاری)۔
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’بہترین خوشبو کستوری ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کے سونے کا بیان
1۔ آپ ﷺ رات کے شروع میں سوتے تھے اور آخری حصے میں قیام کرتے تھے (متفق علیہ)۔
2۔ جب نبی ﷺ اپنے بستر پر ٹھکانہ پکڑتے تو کہتے تھے: ’’اے میرے اللہ! میں تیرے نام سے مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں‘‘۔ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے: ’’سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں موت کے بعد زندہ کیا اور اس کی طرف اٹھ کر جانا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
3۔ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تھے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے تھے اور دعا کرتے تھے ’’اے میرے رب! تو مجھے اپنے عذاب سے بچا جس تو اپنے بندو کو (قبروں سے) اٹھائے گا۔ رواہ الترمذی اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے)۔
4۔ ہر رات میں جب رسول اللہ ﷺ اپنے بستر پر آتے تو اپنی ہتھیلیوں کو جوڑتے پھر ان میں پھونک مارتے اور ان میں {قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَد} {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِ الْفَلَق} اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِ النَّاسِ} (پوری پوری) سورتیں پڑھتے۔ پھر جہاں تک ممکن ہوتا دونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ ہاتھ پھیرنے میں اپنے سر سے اور اپنے چہرے سے ابتداء کرتے تھے۔ اور اپنے سامنے کے جسم پر بھی ہاتھ پھیرتے تھے۔ یہ عمل تین دفعہ کرتے تھے‘‘۔ (متفق علیہ)۔
5۔ آپ ﷺ کا گدیلہ جس پر آپ ﷺ رات کو سوتے تھے، چمڑے کا تھا جس کی بھرتی کھجور کی چھال تھی۔ (رواہ احمد)۔
6۔ رسول اللہ ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس کی بھرتی کھجور کی چھال تھی۔
7۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا‘‘۔ (متفق علیہ)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کی قرأت اور آپ ﷺ کی نماز
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
1۔ {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً} (سورۃ المزمل آیت:4)
’’اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے‘‘۔
2۔ آپ ﷺ تین دن سے کم وقت میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔
3۔ آپ ﷺ قرآن کریم کی ایک ایک آیت الگ الگ پڑھتے تھے۔ (قرآۃ میں زیادہ آیات کو ملاتے نہیں تھے)۔ {اَلحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْن} پڑھ کر وقف کرتے تھے (ٹھہر جاتے تھے) پھر {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھ کر وقف کرتے تھے۔ (صحیح رواہ الترمذی)۔
4۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: ’’اپنی اچھی آوازوں کے ساتھ قرآن کو مزین کرو۔ اس لئے کہ اچھی آواز قرآن کی حسن و خوبی میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ (صحیح ابوداؤد)۔
5۔ آپ ﷺ قرآن پڑھنے میں اپنی آواز کو خوب لمبا کرتے تھے۔ (صحیح رواہ احمد)۔
6۔ جب مرغ بانگ دیتا تھا تو آپ ﷺ سن کر رات کا قیام کرتے تھے۔ (عموماً نصف رات کے بعد مرغ بانگ دیتا ہے)۔ (متفق علیہ)۔
7۔ جب کسی جگہ پر کوئی فرش چٹائی وغیرہ نہ ہوتی تو آپ ﷺ اپنے جوتوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ (متفق علیہ)۔
8۔ جب آپ ﷺ کو کوئی تکلیف دہ امر پیش آتا تو آپ ﷺ (نفلی) نماز پڑھتے تھے۔ (حسن رواہ احمد و ابوداؤد)۔
9۔ جب آپ ﷺ نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے تھے۔ اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اٹھا کر اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔ (اسے نماز میں بیٹھنے کے بیان میں امام مسلم نے ذکر کیا ہے)۔
10۔ آپ ﷺ دعا کرتے وقت اپنی دائیں انگلی (سبابہ) کو حرکت دیتے تھے۔ (رواہ النسائی)۔ فرماتے تھے کہ ’’سبابہ شیطان پر لوہے کے ہتھیار سے بھی زیادہ سخت ہے‘‘ (حسن رواہ احمد)۔
11۔ آپ ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھتے تھے۔ (امام نووی نے شرح مسلم میں ذکر کیا ہے کہ ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنے کی حدیث تمام محدثین کے نزدیک ضعیف ہے)۔
12۔ چاروں اماموں کا اس بات پر اتفاق ہے ’’جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے‘‘۔ اس لحاظ سے (انگلی کو حرکت دینا) نماز میں سینے پر دونوں ہاتھوں کا رکھنا چاروں اماموں کا مذہب ہے۔ اور یہی نماز کی سنت ہے۔
13۔ سبابہ کو حرکت دینے کو (نماز میں) امام مالک اور بعض شوافع رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ محقق جامع الاصول نے امام نووی کی شرح المھذب جلد 3صفحہ 454پر ذکر کیا ہے۔
14۔ مذکورہ الصدر حدیث میں انگلی کو حرکت دینے کی حکمت رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمائی ہے کہ انگلی کو اوپر اٹھا کر حرکت دینا اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور یہ توحید کی طرف اشارے کی تحریک شیطان پر لوہے کی مار سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس لئے کہ وہ توحید کو بہت ناپسند کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرے۔ اور اس کی سنت کا انکار نہ کرے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
15۔ رسول اللہ ﷺ تسبیحات ’’اپنے دائیں سے گنا کرتے تھے‘‘ (رواہ الترمذی و ابوداؤد)
 
Top