• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شمائل النبویہ محمد بن جمیل زینو مدرس فی دار الحدیث الخیریہ مکہ مکرمہ مترجم:حکیم محمدجمیل شیدا رحمانی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نبی ﷺ کا روزہ
1۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کا تقاضا سمجھ کر اور اجر و ثواب کی خاطر رکھا اس کے تمام پہلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)۔
2۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے تو اس کے پورے زمانے (پورے سال) کے روزے شمار ہوں گے‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
3۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان کے روزے اگلے رمضان کے درمیانی عرصے کے لئے یہ پورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔ یومِ عرفہ کا روزہ (عرفات میں وقوف کے دوران آدمی روزہ نہیں رکھ سکتا۔ غیر حاجی) اگر عرفہ کا روزہ رکھ لے، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس عرفہ کے دن سے پہلے گذرے ہوئے سال اور اس عرفہ کے بعد آنے والے سال کی خطائیں مٹا دے۔ اور محرم کے دسویں دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے پہلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
5۔ رسول اللہ ﷺ سے سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان دو دنوں میں رب العالمین پر (بندوں کے) اعما پیش کئے جاتے ہیں۔ سو میں پسند کرتا ہوں کہ روزے کی حالت میں میرا عمل پیش کیا جائے‘‘۔ (رواہ النسائی۔ اسے منذری نے حسن کہا ہے)۔
6۔ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر اور عید قربانی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)۔
7۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے علاوہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ (متفق علیہ)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کا قیام
1۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{یٰآ اَیُّھَا الْمُزَمِّلُ قُمِ الْلَیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً} (سورۃ المزمل آیات 2-1)
اے محمد (ﷺ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو۔ رات کو قیام کرو مگر تھوڑی رات
2۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں (قیام اللیل یعنی تراویح) گیارہ رکعات سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق کچھ نہ پوچھیئے۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھیئے۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کیا : کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا‘‘۔ (متفق علیہ)۔ دل غافل ہو جائے تو وضو کا قائم رہنا محال ہے۔ نیند کی مذکورہ بالا کیفیت نبی ﷺ کا خاصہ تھا۔ (مترجم)۔
3۔ سیدنا اسود بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ رات کے پہلے حصے میں سوتے تھے، پھر قیام کرتے تھے۔ جب سحر قریب ہوتی تو وتر پڑھتے تھے۔ پھر اپنے بستر پر آتے تھے۔ آپ ﷺ کو حاجت ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس آتے۔ جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے۔ جنبی ہوتے تو اپنے اوپر پانی بہاتے ورنہ وضو کر کے نماز کے لئے چلے جاتے تھے۔ (متفق علیہ)۔
4۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اتنا طویل قیام کرتے تھے کہ آپ کے قدم سوج جاتے تھے۔ آپ سے عرض کیا جاتا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں حالانکہ آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی گئی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ فرماتے تھے ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ (متفق علیہ)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دنیا کے متاع سے مجھے دو چیزیں محبوب ہیں۔ عورتیں اور خوشبو اور نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘۔ (صحیح رواہ احمد)۔
دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے نبی پر جنسی خواہشات غالب تھیں۔ حالانکہ مذکورہ دونوں چیزیں بشریت کا تقاضا ہیں اور کوئی صحتمند انسان ان سے بے نیازی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔فرق یہ ہے کہ اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کو ایک قانونی دائرے میں محدود کر دیا جس سے مسلم معاشرہ خاندانی بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہیں ترکِ دنیا اور نفسانی خواہشات سے بے نیازی کا دعویٰ ہے ان کے معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک عارضی کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جسے بچہ جس وقت چاہے توڑ کر پھینک دے۔ ان کے عبادت خانوں میں پاکیزگی حاصل کرنے کے جو کنواری لڑکیاں رکھی جاتی ہیں، ان کی عصمت انہی تارک الدنیا راہبوں، پادریوں اور درویشوں کے ہاتھوں ایسی تارتار ہوتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتی ہیں۔ ایسے بے شمار حادثات سے اہلِ دانش باخبر ہیں۔ ان معترضین کی نفسانی خواہشات تو اتنی بے لگام ہیں کہ مردوں سے مردوں کی شادی کا قانون پاس کر چکے ہیں اور یہ ایسا خبیث جرم ہے جس سے حیوانات اور جنگل کے وحشی درندے چرندے اور پرندے بھی پاک ہیں۔ ان میںجو لوگ انسانی عقل و شعور کے مالک ہیں وہ اپنے معاشرے کی بربادی پر بے حد فکر مند ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں اسلام کے دامنِ عفت و رحمت میں پناہ لے رہی ہیں۔ (مترجم)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کے کلام کی صفت
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَ مَا غَوٰی۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی} (النجم:4-1)
’’ستارے کی قسم جب وہ گرتا ہے۔ تمہارا ساتھی (نبی) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ وہ (دینِ حق کے بارے میں) اپنے خواہش سے کچھ نہیں بولتا۔ (وہ جو کچھ بھی کلام کرتا ہے) یقینا وہ وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ سے فرمایا: ’’لکھ لے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میرے منہ سے جو کچھ بھی نکلتا ہے وہ حق (سچا، صحیح) ہوتا ہے‘‘۔(حسن رواہ احمد)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :’’ مجھے جامع کلمات کے ساتھ بھیجا گیا ہے ۔ (یعنی میرے تھوڑے کلام میں معانی زیادہ ہوتے ہیں) میری رعب و دبدبہ کے ساتھ مدد کی گئی ہے نیند کے دوران میں نے دیکھا کہ روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں رکھ دی گئی ہیں‘‘۔(رواہ البخاری )(عہد نبی ﷺ میں روم و ایران دو بہت بڑی حکومتیں تھیں(Super Powers ) پوری دنیا پر ان کی حکمرانی تھی ۔ خلفآئے راشدین کے عہد میں ان کے خزانوں کے مجاہد مسلمان مالک ہوگئے تھے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا خواب سو فیصد سچا ثابت ہوگیا تھا (مترجم) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے اور اب تم ان خزانوں کو منتقل کررہے ہو۔
4۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح تیزی سے بات نہیں کرتے تھے ۔(جس کی سامع کو سمجھ نہ آئے بلکہ آپ ﷺ جدا جدا کلمات کے ساتھ واضح بات کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھنے والے کو وہ بات اسی وقت یاد ہوجاتی تھی۔ (رواہ مسلم) ‘‘۔
5۔ آپ ﷺ اس طرح بات کرتے تھے اگر کوئی گننے والا چاہتا تو اس کے کلمات شمار کر سکتا تھا ۔(متفق علیہ)
6۔ رسول اللہ ﷺ خاموشی اختیار کرتے تھے (بلا ضرورت باتیں نہیں کرتے تھے)
7۔ رسول اللہ ﷺ لفظ کو تین مرتبہ دہراتے تھے تاکہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ (رواہ البخاری) جو کلمہ مشکل ہوتا اسے دہرا دیتے تھے یا اس سے آسان لفظ بول دیتے تھے)
8۔ نبی ﷺ جامع دعاؤ ں کو پسند فرماتے تھے اور تھوڑے معانی والی دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے۔
9۔ رسول اللہ ﷺ جب خطاب کرتے تھے تو آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں آپ ﷺ کی آواز بلند ہوتی اور سخت غصے کی حالت میں ہوتے تھے جیسے وہ کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں یا کسی لشکر کے حملے سے خبردار کر رہے ہوں کہ وہ تم پر صبح یا شام کو حملہ کرنے والا ہے (رواہ مسلم )(افادہ ۔موجودہ دور میں اکثر خطیب سریں لگ اکر آیات پڑھتے ہیں اور ان کا ترجمہ بھی لوچدار سروں سے کرتے ہیں اپنی خوش الحانی پر داد وصول کرتے ہیں ۔لطائف بیان کرکے سامعین کو ہنساتے ہیں انہیں سروں کی بین بجا کر مست کرتے ہیں بھلاکوئی کمانڈر اپنی فوج کو(Alert) چوکس کرنے کے لئے وارننگ دیتے ہوئے سریں لگاتا ہے ؟مذکورہ بالاطرزِ خطاب سراسر سنت نبوی کے خلاف ہے ……مترجم)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کے حوض کا بیان
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے حوض کی مسافت ( اس کے گرد چکرکاٹنے ہیں ایک مینہ صرف ہوتا ہے۔اس کا پانی دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے ، اس کے آبخورے (پینے کے جام) آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں جو شخص بھی اس سے پی لے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا‘‘۔ (رواہ البخاری )
رسول اللہ ﷺ کی مال و دنیا سے بے نیازی
1۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
’’ولا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ أزواجا منہم زھرۃ الحیاۃ الدنیا لنفتنہم فیہ و رزق ربک خیر و ابقی‘‘(سورۃ طٰہٰ آیۃ:131)
’’ہم نے کفار کو جو مال و متاع دنیامیں دے رکھا ہے آپ ﷺ اس کی طرف نگاہ نہ کریں وہ دنیا کی ظاہری زینت ہے۔(یہ مال ہم نے انہیں اس لئے دیا ہے) کہ اس میں ہم انہیں آزمائیں (بطور سدر حق بقدر کفاف) تیرے رب کا جو رزق ہے وہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے‘‘۔
2۔ سیدنا عمر بن الخطاب رسول اللہ ﷺ کے إیلآء کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ آنے کی قسم اٹھائی اور ایک بالاخانے میں ان سے الگ ہوگئے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس بالا خانے میں آپ ﷺ کے پاس آئے تو دیکھا اس میں قرض درخت کے پتوں کی ایک ڈھیری چمڑے کا مشکیزہ اور جوکی ایک ڈھیری تھی آپ ﷺ ننگی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے چٹائی کی رسیوں نے آپ ﷺ کے پہلو پر نشان ڈال دیئے تھے یہ دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھے کیا ہوا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :’ ’ اے اللہ کے رسول ﷺ !آپ ﷺ اللہ کی مخلوق سے منتخب (چنے ہوئے )ہیں ۔ اور کسریٰ و قیصر کیسی عیش و تجمل اور نعمتوں سے لطف اندوز ہیں! یہ سن کر آپ ﷺ بیٹھ گئے ۔آپ ﷺ کا چہرہ سرخ تھا ۔ فرمانے لگے :’’ کیا تو کسی شک میں ہے؟ ان لوگوں کی پسندیدہ اور عمدہ چیزیں جلدی دنیوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں ‘‘۔(متفق علیہ )
مسلم کی ایک روایت میں ہے :’’ کیاتو پسند نہیں کرتا کہ وہ نعمتیں ان کے لئے دنیا ہی میں ہوں اور ہمارے لئے آخرت میں ہوں ‘‘۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ (میں اسے پسند کرتا ہوں ) آپ ﷺ نے فرمایا :’’پھر اللہ تعالی کی تعریف کر‘‘۔
3۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پر لیٹے تو چٹائی نے آپ ﷺ کی جلد پر نشان ڈال دیئے میں نے ان نشانات کو پونچھتے ہوئے عرض کیا : آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں کیا آپ ﷺ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم آپ ﷺ کے سونے کے لئے ایسی چیز بچھائیں جو ان نشانات سے آپ ﷺ کو بچائے…؟آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھی دنیا کے عیش و راحت سے کیا سروکار ؟دنیا کے ساتھ میرا معاملہ اس سوار کی طرح ہے جو کسی درخت کے سائے تلے کچھ دیر ٹھہرے پھر اسے چھوڑ کر چلتا بنے۔‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح کہاہے)
4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہی بات اچھی لگے گی کہ تین راتیں گذارنے تک میرے پاس اس میں سے کچھ باقی نہ ہو البتہ قرض اتارنے کے لئے میں کچھ سونا بچالوں گا‘‘۔(رواہ البخاری )
5۔ سیدنا عمر و ابن الحارث رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے وقت دینار درہم غلام لونڈی اور کوئی چیز نہیں چھوڑی البتہ ایک سفید خچر چھوڑی تھی جس پر سوار ہوتے تھے اپنے ہتھیار چھوڑے تھے اور کچھ زمین تھی جسے آپ ﷺ نے مسافروں کے لئے بطور صدقہ وقف کر دیا تھا ‘‘۔(رواہ البخاری )(آج مسلمان ہتھیاروں پر خرچ کرنے اور انہیںتیار رکھنے کو رجعت پسندی اورعیب سمجھتے ہیں جس کا واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے)
و اعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اﷲ و عدوکم
’’دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنی قوت اور گھوڑے (جنگی سازو سامان )تیار رکھو اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کروگے‘‘۔
نام نہاد مسلمان دشمن کے آرڈر پر جنگی تیاری کو دہشت پسند قرار دیتے ہیں اور سارا زور اقتصادی ترقی حاصل کرنے پر صرف کررہے ہیں حالانکہ تاریخ اسلامی اس امر پر شاہد ہے جہاد اور سامان جنگ کے ذریعے جزیرۃ العرب میں ما ل و زر کی ایسی فراوانی ہوئی تھی کہ کوئی زکاۃ لینے والا نہیں ملتا تھا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:’’ میرا رزق میرے نیزے کے سائے میں رکھاگیا ہے‘‘اسرائیل کی وزیرئہ عظمیٰ گواڈا میئر نے ایک دفعہ اپنے وزراء اور مشیروں سے کہا :ٹیکس (جنگی )میں اضافہ کرکے سامان جنگ پر خرچ کرو۔انہوں نے کہا جنگی ٹیکسوں سے رعایا کی معیشت تنگ ہوجائے گی وہ بھوکے مریں گے گولڈا میئر نے کہا : مجھے علم ہے کہ جب محمد ﷺ فوت ہوئے تو ان کے گھر میں تھوڑے جو تھے اور نو تلواریں زریں وغیرہ لٹک رہی تھیں انہی کے ذریعے انہیں ایسی معاشی ترقی حاصل ہوئی تھی کہ ان میں زکاۃ لینے والا کوئی نہیں ۔ حالانکہ جزیرۃ العرب میں نہ زراعت تھی نہ فیکٹریاں تھیں افسوس کہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اکثریت اپنے نبی ﷺ کے بارے میں گولڈا میئے جتنا بھی علم نہیں رکھتی (مترجم) نبی ﷺ کے گھر میں دو دو مہینوں تک چولہا نہیں جلتا تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صحابہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کی بھوک اور فاقہ کشی کا بیان
ایک رات رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھروں کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
الرسول : اس وقت تمہیں کس چیز نے تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ : بھوک نے اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ۔
الرسول : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی بھوک ہی نے نکالا ہے ۔
اللہ کے رسول اللہ ﷺ انہیںحکم دیتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوں پھر وہ ابو الحیشم مالک بن نبھان ایک انصاری آدمی کے گھر کی طرف گئے مگر اسے گھر میں نہ پایا۔
ابو الہیشم کی بیوی: رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے دونوں ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے مرحباً و اھلاً(خوش آمدید) کہتی ہے ۔
الرسول :فلاں یعنی ابو الہیشم کہاں ہے؟
عرت: وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے گئیں اسی دوران ابو الہیشم آکر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی طرف دیکھتا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے چمٹ کر کہتا ہے میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ۔
ابو الہیشم : اللہ کا شکر ہے کہ آج مجھ سے زیادہ محترم مہمانوں والا کوئی نہیں ہے ۔ابو الہیشم چلا جاتا ہے اور گرد خشک اور تازہ کھجوروں سے بھری ہوئی ایک ٹہنی لے آتا ہے ۔
ابو الہیشم :کھائیے جناب اس سے! پھر ابو الہیشم چھری لے کر ایک بکری ذبح کرنے کے لئے جاتا ہے ۔
الرسول : دودھ دینے والی بکری ذبح نہ کرنا۔رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی کھجوریں اور گوشت کھاتے ہیں میٹھا پانی پیتے ہیں اچھی طرح سیر ہوجاتے ہیں ۔
الرسول : ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی بھوک نے تمہیں گھروں سے نکالا اور واپس ہونے سے پہلے تم نے یہ نعمتیں حاصل کر لیں۔(اس حدیث کو مسلم، مالک اور ترمذی نے روایت کیاہے)
اس حدیث سے یہ فائدہ اور نتیجہ نکلتا حاصل ہوتا ہے ۔
1۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سخت بھوک لاحق ہوتی تھی اور اسباب کو اختیار کرتے ہوئے گھروں سے نکلتے تھے کہ شاید وہ کچھ کھانا پالیں۔
2۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے کسی ساتھی کے گھر کھانے کے لئے چلا جائے جب وہ جانتا ہو کہ اس کے دوست کے اس سے خوشی ہوگی۔
3۔ جب آدمی اکیلا نہ ہوتو پردے کی اوٹ میں عورت سے کچھ پوچھنا جائز ہے۔
4۔ نعمت کی فراوانی اس کے خالق کے شکر اور نعمتوں میںمصروف مست ہو کر نعمتیں عطا کرنے والے سے غافل ہوجانے پر تنبیہ کرنا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
لئن شکرتم لأزیدنکم ۔(سورۃ ابراہیم آیۃ:7)
اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تمہیں مزید نعمتیں عطا کروں گا‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کی زندگی
1۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: {وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی} (سورئہ الضحیٰ آیت:8) ’’اور تجھے تنگدست پایا تو تجھے غنی کر دیا‘‘۔ یعنی تو محتاج عیال دار تھا تو تجھے اپنے علاوہ ہر غیر سے بے نیاز کر دیا۔ (تفسیر ابن کثیر)۔
2۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم آپ محمد (ﷺ) پرایک پورا مہینہ گذر جاتا تھا۔ (کھانا پکانے کے لئے) ہم آگ نہیں جلاتے تھے۔ ہماری خوراک صرف دو سیاہ چیزیں کھجوریں اور پانی۔ البتہ ہمارے ارد گرد کچھ انصاریوں کے گھر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے اونٹینیوں اور بکریوں کا دودھ بھیجتے تھے تو آپ ﷺ پیتے تھے اور کچھ دودھ ہمیں بھی پلا دیتے تھے۔
3۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی باریک چپاتی دیکھی ہو یہاں تک کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔ نہ آپ نے کبھی بُھنی ہوئی ثالم بکری دیکھی تھی‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
4۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا بھوک سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ پیٹ بھرنے کے لئے آپ ﷺ ردی کھجور بھی نہیں پاتے تھے۔
5۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی بودار چربی لے کر گئے تاکہ اس کو سالن بنا کر جو کی روٹی اس کے ساتھ کھائیں۔ آپ ﷺ نے ایک یہودی کے ہاں اپنی زرہ گروی رکھ کر اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ جو حاصل کئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کسی شام کو آل محمد ﷺ کے پاس ایک صاع (تقریباً پونے تین سیر) جو اور نہ ایک صاع گندم موجود رہی ہے‘‘۔
6۔ آپ ﷺ کئی متواتر راتیں بھوکے گذارتے تھے اور آپ ﷺ کے اہل و عیال بھی رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ زیادہ تر ان کی روٹی جو کی ہوتی تھی۔ (روہ احمد)۔
7۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںجب سے آپ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے ہیں آل محمد ﷺ نے تین دن تک متواتر کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ وفات پا گئے۔ (متفق علیہ)۔
8۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: ’’اے اللہ! آل محمد ﷺ کے لئے اتنا رزق مقرر فرما جو بھوک کا ازالہ کر سکے‘‘۔ (بیسار خوری کی ضرورت نہیں)۔ (متفق علیہ)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کے آنسو
پہلی حدیث: (رسول اللہ ﷺ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کیساتھ بیٹھے ہوئے ہیں)
الرسول: ’’مجھے قرآن پڑھ کر سنا‘‘۔
ابن مسعود: ’’کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ قرآن تو نازل ہی آپ پر ہوا ہے‘‘۔
الرسول: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ میں کسی دوسرے سے قرآن سنوں‘‘۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ النسآء کی تلاوت کرتے ہیں، جب وہ اس آیت پر پہنچے: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا} (سورۃ النسآء:41) ’’کس طرح حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ ﷺ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے‘‘۔
الرسول: ’’اب بس کیجئے، اتنا ہی کافی ہے‘‘۔
ابن مسعود: رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں (متفق علیہ)۔
اس حدیث یہ فائدہ اور نتیجہ حاصل ہوتا ہے:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا قارئ قرآن سے کہنا (حسبک الآن) ’’اب کافی ہے‘‘ اور آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا: ’’صدق اللہ العظیم‘‘ (اللہ عظمت والے نے سچ فرمایا ہے‘‘
2۔ رسول اللہ ﷺ دوسرے سے قرآن سننا پسند کرتے تھے۔
3۔ قرآن سننے کے وقت خشوع رونے سے ہوتا ہے نہ کہ چیخنے چلانے سے۔
دوسری حدیث: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے بیٹے ابراہم رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ ﷺ اس کی دایہ کے پاس تھے۔ آپ ﷺ ابراہیم رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر اس کو بوسہ دے رہے تھے اور اسے سونگھ رہے تھے۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پھر آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو موت و حیات کی کشمکش میں پایا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔
عبدالرحمن بن عوف : اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ بھی رو رہے ہیں؟
الرسول: ’’بیشک یہ رحمت ہے۔ آنکھ روتی ہے اور دل غمزدہ ہے۔ ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے رب کو راضی کرے۔ ہم یقینا تیری جدائی سے اے ابراہیم غمزدہ ہیں‘‘۔
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے:
1۔ میت پر بغیر چیخ و پکار اور نوحہ کئے رونا جائز ہے۔
2۔ میت پر غم کھانے کا جواز بشرطیکہ ایسے کلام سے بچا جائے جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہو
3۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونا اور اس پر سرِ تسلم خم کر دینا۔
4۔ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھنا
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے دیکھ لیا اس لئے کہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس نے مجھے (خواب میں)دیکھ لیا اس نے بالکل صحیح طور پر مجھے دیکھ لیا۔ اس لئے کہ شیطان میرا لباس نہیں پہن سکتا(متفق علیہ)۔
3۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھ لیا وہ جلد مجھے بیداری میں بھی دیکھ لے گا اور شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا‘‘۔ (متفق علیہ)
ان احادیث کے نتائج
1۔ بیشک رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھنا، اسی صورت پر دیکھنا ممکن ہے جو آپ کی سیرت میں ذکر کی گئی ہے۔ یعنی جو لمبائی، رنگ، کیفیت اور داڑھی وغیرہ کا آپ کی طبیعت اور خلقت میں ذکر کیا گیا ہے۔
2۔ الماوی رحمہ اللہ نے ان احادیث کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ کا صحیح دیدار یہ ہے کہ آدمی آپ ﷺ کو اسی صورت میں دیکھے جو صحیح احادیث میں ثابت ہے۔ اگر اس کیفیت کے علاوہ کسی اور شکل میں دیکھے جیسے زیادہ لمے یا زیادہ چھوٹے قد یا تیز گندمی زرد رنگ میں دیکھے تو اس نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا۔
3۔ الماوی نے ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد کا ’’وہ مجھے بیدار میں بھی جلد دیکھے گا‘‘ یہ مطلب ہے کہ وہ مجھے قیامت کے دن شفاعت کے وقت ضرور دیکھ لے گا
4۔ بعض صوفی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کو بیداری کی حالت میں دیکھتے ہیں، اس بارے میں وہ تیسری حدیث کا سہارا لیتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا رد کیا ہے کہ یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے (جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ بیداری میں بھی مجھے دیکھ لے گا) اور ان میں سے جو مجھے دنیا میں نہ دیکھ سکے وہ قیامت کے دن ضرور دیکھ لیں گے۔ اور یہ بات کہ ہم آپ ﷺ کو وفات کے بعد بھی دنیا میں دیکھتے ہیں، کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔
5۔ مؤلف کہتا ہے کہ میں نے ایک صوفی کی کتاب میں پڑھا ہے:
’’ابو المواھب الشاذی نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخر تک اس نے جھوٹی حدیث بیان کی‘‘۔ میں نے اس کتاب کے مؤلف سے پوچھا کیا یہ حدیث بیان کرنے والا صحابی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس کے راوی اور ابو الحسن شاذی کے درمیان پانچ مشائخ ہیں۔ اور شاذی نے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس سے کہا: صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو آپ ﷺ کو وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بیداری کی حالت میں نہیں دیکھا۔ وہ میری بات سے مطمئن نہ ہوا۔ میں نے اپنے جی میں کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جھوٹ بولا گیا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد کے ذریے ڈرایا ہے: ’’جس نے میرے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘ (متفق علیہ)۔
6۔ شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اللہ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کو کچھ حکم دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا: اس کی بات سے نفرت کی جائے یا حرام سمجھا جائے۔ علماء نے صراحت کی ہے کہ خواب سے احکام اخذ نہ کئے جائیں۔
7۔ ابن عربی کی طرح بعض صوفیاء نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست احکام حاصل کرتے ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے خلاف ہے:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} (سورۃ المآئدہ:30) ’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور دین کے طور پر اسلام کو تمہارے لئے پسند کر لیا‘‘۔
8۔ رسول اللہ ﷺ کی موت کے بعد دنیا میں بیداری کی حالت میں جو شخص آپ کی زیارت کا دعویٰ کرتا ہے اس کے خلاف بہت بڑا رد اور جواب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
ـ{وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْن} (المؤمنون:100) ’’اور ان کے پیچھے اس دن تک پردہ ہے جب لوگ اٹھائے جائیں گے‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رسول اللہ ﷺ کی وفات
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ} (الانبیاء:34)۔ ’’اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی۔ کیا بھلا اگر آپ ﷺ فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘؟
2۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جب کسی امت پر رحمت کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے۔ پھر اسے اس امت کے لئے آگے جا کر باعث اجر و پش رو سامان کرنے والا بنا دیتا ہے اور جب وہ کسی امت کی بربادی چاہتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب دیتا ہے۔ اسے برباد کر دیتا ہے اور اس کا نبی اسے دیکھتا ہے۔ اس کی ہلاکت سے اپنی آنکھ ٹھنڈی کرتا ہے۔ جبکہ انہوں نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی ہوتی ہے۔ (رواہ مسلم)۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو (مراد ان کی اپنی ذات تھی) دنیا کی زندگی، اس کے ساز و سامان اور اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں ان دونوں چیزوں میں اختیار دیا ہے (کہ ان میں سے جو بھی تو پسند کرے وہ عطا کر دیا جائے گا) اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے پاس والی نعمتوں کو پسند کیا ہے۔ (یہ سن کر) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ (اس رمز سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ اب آپ ﷺ رحلت فرمانے والے ہیں۔ وہ مزاج شناسِ رسول ﷺ تھے)۔ (رواہ البخاری)۔
4۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آخری دفعہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا۔ آپ ﷺ نے سوموار کے دن اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا۔ وہ ایسا تھا گویا کہ کتاب کا سفید چمکدار ورق تھا۔ لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے تھے۔ لوگ تڑپ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ ثابت قدم رہو۔ صبر کرو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے پردہ منہ پر ڈال لیا۔ اور اسی دن کے آخر میں رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے۔ (متفق علیہ)۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
5۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی روح کی اس وقت آپ ﷺ کا سر مبارک میری گردن اور سینے کے درمیان تھا (یعنی آپ ﷺ میری گود میں تھے) (رواہ البخاری)۔
6۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ موت کو تکلیف پہنچی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے مصیبت تکلیف! نبی ﷺ نے فرمایا: ’’آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ تیرے باپ کے پاس وہ ذات (فرشتہ) حاضر ہوا ہے جو (وقتِ اجل پر) کسی کو نہیں چھوڑتا۔ اب قیامت کے دن ہی ملاقات ہو گی۔ (رواہ البخاری)۔
7۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی رہی۔ اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔ جب فوت ہوئے تو آپ ﷺ کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی۔ (رواہ البخاری)۔
8۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے (اس وقت) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینے کی بالائی آبادی میں تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا۔ آپ ﷺ کو بوسہ دیا اور کہا: آپ ﷺ پر میرا باپ قربان! آپ ﷺ کی زندگی اور موت خوشگوار رہی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو دو دفعہ کبھی موت نہیں چکھائے گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور فرمایا: اے قسم اٹھانے والے یعنی اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ٹھہر جلدی نہ کر! جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) محمد ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ مرے گا نہیں۔ اور فرمایا: {اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ} (سورۃ الزمر آیۃ:30) ’’بیشک آپ ﷺ مرنے والے ہیں اور وہ سب بھی مرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی اَعْقَابِہٖ فَلَنْ یَضُّرُ اﷲَ شَیْئًا وَ سَیْجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِیْن} (آل عمران:144) ’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں۔ کیا بھلا اگر آپ ﷺ فوت ہو گئے یا شہید کر دیئے گئے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ جو شخص اپنی ایڑیوں پر پھر جائے گا (دینِ حق کو چھوڑ دے گا) تو وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو جلد جزا دے گا‘‘۔ (جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور آیات پڑھیں) تو لوگ زور سے رونے لگے۔ (رواہ البخاری)۔
9۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ حالت ِ صحت میں فرماتے تھے: ’’ہر نبی اپنی موت سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے دنیا اور آخر کے بارے میں اختیار دیا جاتا ہے (کہ آپ دنیا میں دائمی زندگی کو پسند کرتے ہیں یا آخرت کی زندگی)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب آپ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ ﷺ کا سر میری ران پر تھا تو آپ ﷺ پر غشی طاری ہو گئی۔ افاقہ ہوا تو اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی پھر کہا: ’’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ اللاعلیٰ‘‘ ’’میں رفیق اعلی اللہ تعالیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اب آپ ﷺ ہم میں رہنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ وہ کہتی ہیں: میں نے سمجھ لیا کہ صحتمندی کی حالت میں جو حدیث بیان کرتے تھے، یہ حالت اس کی تعبیر ہے۔ (متفق علیہ)۔
10۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے دین کی تکمیل کی اور آپ ﷺ نے پیغامِ رسالت پہنچا دیا تو آپ ﷺ نے 11ھ؁ میں سوموار کے دن وفات پائی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نبی ﷺ کے اخلاقِ عالیہ
بنیتَ لہم مِن الأخلاق رکناً
فخانوا الرکن فانہدم اضطِراباً
آپ ﷺ نے اپنے امتیوں کے لئے اخلاق عالیہ سے ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا تھا۔ مگر انہوں نے اپنی بد اعمالی سے اسے نقصان پہنچایا۔ خیانت کی تو وہ لرزتا ہوا دھڑام سے گر گیا۔
وکان جنأبہم فیھا مھیباً
ولَلأخلاق أجدَرُ أن تُہاباً
دشمن قلعے کی مضبوطی سے خوفزدہ تھے۔ حالانکہ اخلاقی قوت ہی سے خوفزدہ ہونا زیادہ مناسب ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ}(آل عمران:159)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ آپ ان کے لئے نرم ہو گئے ہیں اور اگر آپ ﷺ اکھڑ مزاج، سخت دل ہوتے تو تیرے پاس سے لوگ بھاگ جاتے لہٰذا انہیں معاف کر اور ان کے لئے بخشش مانگ۔ معاملات میں ان سے مشورہ کر۔ پھر جب آپ ﷺ (کسی امر کا) پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر توکل کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم} (سورۃ القلم آیۃ:4) ’’یقینا آپ بڑے اخلاق کے مالک ہیں‘‘۔
3۔ (کانہ خلقہ القرآن) ’’رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن کریم ہی ہے‘‘ (رواہ مسلم)
4۔ آپ ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت عادت جھوٹ ہے۔(رواہ البیہقی۔ صحیح)
5۔ رسول اللہ : فطری طور پر بدزبان تھے نہ تکلف سے بدزبانی کرتے تھے اور نہ لعنت کرنے والے تھے اور فرماتے تھے ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اخلاق میں تم سب سے بہتر ہو‘‘۔
6۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بدزبان تھے نہ لعنت کرنے والے تھے نہ گالی گلوچ کرنے والے تھے۔ کسی سے ناراضگی کے وقت فرماتے تھے: ’’اسے کیا ہوا اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘۔ یہ کلمہ تعجب کے وقت کہا جاتا ہے۔ (رواہ البخاری)۔
7۔ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
8۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: آپ مشرکین کے خلاف دعا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)۔
9۔ آپ ﷺ نیک فال لیتے تھے، بدفالی نہیں لیتے تھے۔ آپ ﷺ کو اچھا نام پسند آتا تھا۔ (رواہ احمد)۔ (نیک فال لینے کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی مریض سے کہے: سالم۔ تو اسے لفظ سے یہ خیال کرے کہ ان شاء اللہ اور صحت ہو گی۔ کوئی تکلیف نہیں یہ تو خطاؤں سے پاک کرنے کا باعث ہے۔ اس سے بیماری کو اپنے لئے بہتر خیال کرنا۔ بدشگونی یہ ہے کہ کسی ناگوار چیز کو دیکھ کر یہ خیال کرنا کہ یہ میری بدبختی کی علامت ہے۔ (مترجم)۔
10۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بات کرتے وقت میری طرف رخ کرتے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ میں لوگوں سے بہتر ہوں۔
عمرو ابن العاص: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں بہتر ہوں یا ابو بکر رضی اللہ عنہ؟
الرسول: ابوبکر رضی اللہ عنہ بہتر ہیں۔
عمرو ابن العاص: اے اللہ کے رسول ﷺ میں بہتر ہوں یا عمر رضی اللہ عنہ؟
الرسول: عمر رضی اللہ عنہ بہتر ہیں۔
عمرو ابن العاص: میں نے جب بھی رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے سچا جواب ہی دیا۔ تب میں نے خواہش کی کاش میں آپ ﷺ سے سوال نہ کرتا۔
(رواہ الترمذی۔ حسن)۔
11۔ عطاء ابن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو ابن العاص سے مل کر کہا: مجھے توراۃ میں مذکور رسول اللہ ﷺ کی صفت مجھے بتائیے تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں: توراۃ میں آپ ﷺ کی بعض وہ صفات ذکر کی گئی ہیں جو قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: {یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِیْرًا} ’’اے نبی ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ حدیث شریف میں صفت ہے: ’’ان پڑھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کا آپ ﷺ کو ذریعہ بنایا ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے۔ نہ وہ اکھڑ اور نہ سخت مزاج ہے۔ نہ بازاروں میں شور مچانے والا ہے۔ نہ برائی کا جواب برائی سے دیتا ہے بلکہ معاف کرتا اور درگزر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار نہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے جب تک اندھی آنکھوں کو کھول نہ دے، بہرے کانوں کو اور بند دلوں کو جب تک کھول نہ دے (اسے فوت نہیں کرے گا)‘‘ (رواہ البخاری)۔ (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا آیات کریمہ اور حدیث کے الفاظ بیان کر کے واضح کیا کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ رسول اللہ ﷺ کی یہ صفات توراۃ میں بھی مذکور ہیں)۔
12۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو معاملات کے درمیان ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے ان میں سے آسان امر ہی کو اختیار کیا۔ جب تک اس میں گناہ کی بات نہ ہو۔ اگر اس آسان کام میں گناہ ہوتا تو تمام لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی معاملے میں اپنا ذاتی انتقام نہیں لیا۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حرمت کو توڑا جاتا تو اللہ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے۔ (متفق علیہ)۔
13۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ نہ کسی بیوی کو نہ کسی خادم کو۔ البتہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے کسی کو مارتے تھے۔ کسی نے اگر آپ ﷺ کو برا بھلا کہا ہو تو اس کہنے والے سے انتقام نہیں لیتے تھے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو توڑا جاتا تو اللہ کی خاطر اس سے انتقام لیتے تھے۔ (رواہ مسلم)۔
14۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی سائل آتا تھا یا کوئی ضرورت مند آتا تھا (اگر آپ ﷺ کے پاس کچھ ہوتا تھا تو خود عطا کر دیتے تھے ورنہ صحابہ فرماتے تھے: (اس حاجتمند کے لئے) سفارش کرو، تمہیں اجر ملے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کی زبان (فرمان) پر جو چاہتا فیصلہ کر دیتا تھا۔ (اللہ کی مشیت میں جو ہوتا تھا اس کے مطابق سائل کی ضرورت پوری کر دیتا تھا)۔
15۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوش خلق تھے۔ ایک دن مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا۔ میرے جی میں یہ آیا کہ میں نبی ﷺ کے حکم پر عمل کروں۔ میں نکلا۔ کچھ بچوں کے پاس میرا گذر ہوا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے۔ (میں کچھ دیر وہاں ٹھہر گیا)۔ پھر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ میرے پیچھے بالکل قریب تھے۔ میری گدی کے پیچھے کھڑے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ ہنس رہے تھے۔ (آپ ﷺ کے چہرے پر غصے کے کچھ آثار نہ تھے)۔
الرسول: ’’اے پیارے انس! کیا تو وہاں گیا تھا جہاں جانے کا میں نے حکم دیا تھا؟
انس: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں ابھی جاتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم میں نے نو سال تک آپ ﷺ کی خدمت کی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے میرے کسی کام پر کبھی یہ کہا ہو: تو نے اس طرح کیوں کیا ہے؟ نہ آپ ﷺ نے میرے کسی کام کا کبھی عیب نکالا ہے۔ اللہ کی قسم آپ ﷺ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ (رواہ مسلم)۔
16۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک سردار کو قید کیا جس نے نام ’’ثمامۃ‘‘ تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا: اے ثمامۃ! تیرے دل میں کیا خیال ہے؟ ثمامۃ نے کہا: اے محمد (ﷺ)! میرے دل میں بھلائی ہے۔ میرا حال اچھا ہے۔ اگر آپ قتل کریں گے تو ایک قاتل کو قتل کریں گے۔ اور اگر آپ ﷺ (مجھے چھوڑ کر) احسان کریں گے تو ایک شکر گذار پر احسان کریں گے۔ (یعنی میں آپ ﷺ کا شکر گذار ہوں گا)۔ اگر آپ ﷺ مال چاہتے ہیں تو مانگئے آپ ﷺ کی چاہت کے مطابق آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ثمامۃ کو رہا کر دو‘‘۔ (رہا ہو کر) ثمامہ چلا گیا۔ پھر غسل کر کے مسجد میں داخل ہوا اور عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے محمد (ﷺ)! اللہ کی قسم روئے زمین پر میرے نزدیک آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ قابل نفرت کوئی چہرہ نہیں تھا۔ اب آپ ﷺ کا چہرہ میرے نزدیک تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ اور کوئی دین میرے نزدیک آپ ﷺ کے دین سے زیادہ قابل نفرت نہیں تھا مگر اب آپ ﷺ کا دین تمام دینوں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ قابل نفرت میرے نزدیک کوئی شہر نہیں تھا مگر اب میرے نزدیک آپ ﷺ کا شہر تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے۔ جب مسلمان ہو کر ثمامہ مکے میں آیا تو ایک آدمی نے اس سے کہا: کیا تو بے دین ہو گیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نہیں بلکہ میں نے اسلام قبول کیا ہے۔ (متفق علیہ الفاظ اختصار کے ساتھ مسلم کے ہیں)۔
 
Top