• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شمائل ترمذی - حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری کا ذکر
  1. عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے ہنڈیا کا جوش ہوتا ۔
  2. عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ قرآن شریف سناؤ ( شاید حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے ارشاد فرمایا ہو کہ بہت سی وجوہ اس کی ہو سکتی ہیں مثلاً یہی کہ قرآن شریف سننے کی سنت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہو جائے) میں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی پر تو نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں ۔ (شاید ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ سنان تبلیغ اور یاد کرانے کے واسطے ہوتا ہے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں ۔ میں نے امتثال حکم میں سنانا شروع کیا اور سورہ نساء (جو چوتھے پارہ کے پونے سے شروع ہوتی ہے) پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا فکیف اذاجئنا من کل امة بشہید وجئنا بک علی ھٰؤلآء شہیدا۔ تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا کہ دونوں آنکھیں گریہ کی وجہ سے بہہ رہی تھیں۔
  3. "عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا۔ (یہ قصہ جمہور کے نزدیک ا ہجری کا ہے) حضور اقدس صلی اللہ مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز شروع فرما کر اتنی دیر تک کھڑے رہے۔ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے ( دوسری روایت میں ہے کہ سورہ بقرہ پڑھی تھی) اور پھر رکوع اتنا طویل کیا کہ گویا رکوع سے اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں پھر ایسے ہی رکوع کے بعد سر اٹھا کر قومہ میں بھی اتنی دیر تک کھڑے رہے گویا سجدہ کرنا ہی نہیں ہے پھر سجدہ کیا اور اس میں بھی سر مبارک زمین پر اتنی دیر تک رکھے رہے گویا سر مبارک اٹھانا ہی نہیں اسی طرح سجدہ سے اٹھ کر جلسہ اور پھر جلسہ کے بعد دوسرے سجدہ میں غرض ہر ہر رکن اس قدر طویل ہوتا تھا کہ گویا یہی رکن اخیر تک کیا جائے گا۔ دوسرا کوئی رکن نہیں ہے۔ (اسی طرح دوسری رکعت پڑھی اور اخیر سجدہ میں) شدت غم اور جوش سے سانس لیتے تھے اور روتے تھے اور حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ عالی میں یہ عرض کرتے تھے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میری موجودگی تک امت کو عذاب نہ ہو گا اے اللہ تو نے ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے عذاب نہیں ہو گا، اب ہم سب کے سب استغفار کرتے ہیں (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جو کلام اللہ شریف میں نویں پارہ کے اخیر میں ہے (وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) 8۔ الانفال:33) اس آیت شریفہ کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ایسا نہ کریں گے کہ ان لوگوں میں آپ کے موجود ہوتے ہوئے ان کو عذاب دیں اور اس حالت میں بھی ان کو عذاب نہ دیں گے کہ وہ استعغفار کرتے رہتے ہوں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب نکل چکا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد وعظ فرمایا جس میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد یہ مضمون فرمایا کہ شمس و قمر کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گہن نہیں ہوتے، بلکہ یہ حق تعالیٰ جل شانہ کی دو نشانیاں ہیں ( جن سے حق سبحانہ اپنے بندوں کو عبرت دلاتے ہیں اور ڈراتے ہیں) جب یہ گہن ہو جایا کریں تو اللہ جل جلالہ کی طرف فورا متوجہ ہو جایا کرو۔ اور استغفار و نماز شروع کر دیا کرو۔"
  4. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لڑکی قریب الوفات تھیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گود میں اٹھایا اور اپنے سامنے رکھ لیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی رکھے رکھے ان کی وفات ہو گئی ام ایمن (جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک باندی تھیں) چلا کر رونے لگیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ کے نبی کے سامنے ہی چلا کر رونا شروع کر دیا۔ (چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے اس لئے انہوں نے عرض کیا کہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) آپ بھی تو رو رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں یہ اللہ کی رحمت ہے (کہ بندوں کے قلوب کو نرم فرمائیں اور ان میں شفقت و رحمت کا مادہ عطا فرمائیں) پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے حتی کہ خود اس کا نفس نکالا جاتا ہے اور وہ حق تعالیٰ شانہ کی حمد کرتا ہے۔
  5. "حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کی قبر پر تشریف فرما تھے اور آپ کے آنسو جاری تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ قبر میں وہ شخص اترے جس نے آج رات مجامعت نہ کی ہو۔"
  6. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی پیشانی کو ان کی وفات کے بعد بوسہ دیا۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو ٹپک رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گزارہ کے بیان میں
  1. "ابن سیرین کہتے ہیں ، کہ ہم ایک مرتبہ ابوہریرہ کے پاس تھے ۔ ان پر ایک لُنگی اور ایک چادر تھی وہ دونوں کتان کی تھیں اور گیروی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے ناک صاف کیا پھر تعجب سے کہنے لگے کہ اللہ اللہ! آج ابوہریرہ کتان کے کپڑے سے ناک صاف کرتا ہے اور ایک وہ زمانہ تھا کہ جب میں منبر نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت عائشہ کے حجرہ کے درمیان شدت بھوک کی وجہ سے بے ہوش پڑا ہوا ہوتا تھا۔ اور لوگ مجھے مجنوں سمجھ کر میری گردن کو پاؤں سے دباتے تھے اور حقیقتا مجھے جنون وغیرہ کچھ نہیں تھا بلکہ شدت بھوک کی وجہ سے یہ حالت ہو جاتی تھی۔"
  2. "مالک بن دینار فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی روٹی سے اور گوشت سے شکم سیری نہیں فرمائی مگر حالت ضفف۔ مالک بن دینار کہتے ہیں ، کہ میں نے ایک بدوی سے ضفف کے معنی پوچھے تو اس نے لوگوں کے ساتھ کھانے کے معنی بتائے۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر اوقات کا ذکر
  1. حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صبح کے کھانے میں یا شام کے کھانے میں روٹی اور گوشت دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتی تھیں مگر حالت ضعف میں ۔
  2. نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا تم لوگ کھانے پینے میں اپنی مرضی کے موافق منہمک نہیں ہو (اور جتنا دل چاہے تم لوگ نہیں کھاتے ہو) حالانکہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ردی کھجوریں پیٹ بھر نہیں تھیں ۔
  3. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال وہ ہیں کہ ایک ایک ماہ تک ہمارے یہاں آگ نہیں جلتی تھی صرف کھجور اور پانی پر گزارا تھا۔
  4. حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے شدت بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے پتھر دکھلائے کہ ہر شخص کے پیٹ پر بھوک کی شدت کی وجہ سے ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے دکھلائے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت بھوک ہم سے زیادہ تھی اور ہم سے زیادہ وقت بدوں کھائے گزر چکا تھا۔
  5. "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دولت خانہ سے باہر تشریف لائے کہ اس وقت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ باہر تشریف لانے کی تھی نہ کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت دولت خانہ پر حاضر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باہر تشریف آوری پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے خلاف معمول بے وقت آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ جمال جہاں آرا کی زیارت اور سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کمال تناسب کی وجہ سے تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر خلاف عادت باہر تشریف آوری کی نوبت آئی تو اس یک جان دو قالب پر بھی اس کا اثر ہوا) بندہ کے نزدیک یہی وجہ اولیٰ ہے اور یہی کمال تناسب بڑی وجہ ہے نبوی دور کے ساتھ خلافت صدیقیہ کے اتصال کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اگر مناسب تامہ نہ ہونے کی وجہ وقتی احکام میں کچھ تغیر ضرور ہوتا اور صحابہ کرام کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے ساتھ یہ دوسرا مرحلہ مل کر رنج و ملال کو ناقابل برداشت بنانے والا ہوتا بخلاف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس درجہ اتصال اور قلبی یک جہتی تھی کہ جن مواقع پر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل تھا وہی اکثر حضرت ابوبکر صدیق کا بھی تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا قصہ مشہور ہے جس کا ذکر حکایات صحابہ میں گزر چکا ہے مسلمانوں نے نہایت دب کر ایسی شرائط پر کفار سے صلح کی تھی کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اس کا تحمل بھی نہ کرسکے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہایت جوش میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ۔ حضرت عمر نے کہا پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا وہی مددگار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہا بے شک لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال مکہ میں جائیں گے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں یہ تو نہیں کہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی جوش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ابوبکر! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر! کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! بے شک ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ! پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! اے آدمی! یہ بلا تردد سچے رسول ہیں اور اللہ کی ذرا نافرمانی کرنے والے نہیں ہیں وہی ان کا مددگار ہے تو ان کی رکاب کو مضبوط پکڑے رہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! کیا تجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اسی سال مکہ جائیں گے حضرت عمر رضی اللہ عنہ! نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ بخاری شریف میں یہ قصہ مفصل مذکورہ ہے اور بھی اس قسم کے متعدد واقعات حیرت انگیز ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہادی خطا ہوئی تو اس میں حضرت ابوبکر شریک ہیں جیساکہ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں جس کا قصہ سورہ انفال کے اخیر میں ہے۔ اس صورت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس وقت خلاف معمول باہر آنا دل را بدل رہ یست، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کا اثر تھا گو بھوک بھی لگی ہوئی ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنا بھی بھوک کے تقاضے کی وجہ سے تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھ کر اس کا خیال بھی جاتا رہا اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس کا ذکر نہیں کیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری بھوک ہی کی وجہ سے تھی مگر اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرانی نہ ہو کہ دوست کی تکلیف اپنی تکلیف پر غالب ہو جایا کرتی ہے) تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بے وقت حاضری کا سبب پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بھوک تو کچھ میں بھی محسوس کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد تینوں حضرات ابو آلہیثم انصاری کے مکان پر تشریف لے گئے وہ اہل ثروت لوگوں میں سے تھے کھجوروں کا بڑا باغ تھا۔ بکریاں بھی بہت سی تھی۔ البتہ خادم ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس لئے گھر کا کام سب خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ یہ حضرات جب ان کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر والوں کے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں جو خادم نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی لانا پڑتا تھا۔ لیکن ان حضرات کے پہنچنے پر تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ بھی مشکیزہ کو جو مشکل سے اٹھتا تھا۔ بدقت اٹھاتے ہوئے واپس آ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو کر (اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے اور زبان حال ہم نشین جب میرے ایام بھلے آئیں گے بن بلائے میرے گھر آپ چلے آئیں گے پڑھتے ہوئے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لپٹ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنے ماں باپ کو نثار کرنے لگے۔ یعنی عرض کرتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔ اس کے بعد باغ میں چلنے کی درخواست کی وہاں پہنچ کر فرش بچھایا اور دین و دنیا کے سردار مایہ فخر مہمان کو بٹھا کر ایک خوشہ (جس میں طرح طرح کی کچی پکی آدھ کچری کھجوریں تھیں) سامنے حاضر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سارا خوشہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں ابھی کچھ کچی بھی ہیں جو ضائع ہوں گی۔ پکی پکی چھانٹ کر کیوں نہ توڑیں؟ میزبان نے عرض کیا تاکہ اپنی پسند سے پکی اور گری ہر نوع کی حسب رغبت نوش فرمائیں ۔ تینوں حضرات نے کھجوریں تناول فرمائیں اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (جن کا ہر ہر لحظہ تعلیم امت تھا) ارشاد فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ بھی اس نعیم میں شامل ہے جس کا سوال قیامت میں ہو گا اور سورہ الہٰکم التکاثر کے ختم پر حق تعالیٰ شانہ نے اس کا ذکر فرمایا ان کے شکر کے متعلق سوال ہو گا کہ ہماری نعمتوں کا کس درجہ شکر ادا کیا اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک پھر اس وقت کی نعمتوں کا اظہار کے طور پر فرمایا کہ) ٹھنڈا سایہ، ٹھنڈا پانی اور ترو تازہ کھجوریں ۔ اس کے بعد میزبان کھانے کی تیاری کے لئے جانے لگے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرط محبت میں کیفما اتفق مت ذبح کر دینا۔ بلکہ ایسا جانور ذبح کرنا جو دودھ کا نہ ہو میزبان نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور بعجلت تمام کھانا تیار کر کے حاضر خدمت کیا اور مہمانوں نے تناول فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت یہ ملاحظہ فرما کر کہ مشتاق میزبان سب کام خود ہی کر رہا ہے اور شروع میں میٹھا پانی بھی خود ہی لاتے دیکھا تھا) دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم نہیں ۔ نفی میں جواب ملنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کہیں سے غلام آ جائیں تو تم یاد دلانا اس وقت تمہاری ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلام آئے تو ابو آلہیثم نے حاضر ہو کر وعدہ عالی جاہ کی یاد دہانی کرائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں غلاموں میں سے جو دل چاہے پسند کر لو۔ جو تمہاری ضرورت کے مناسب ہو (یہ جان نثار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی کیا رائے رکھتے اس لئے) درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی میرے لئے پسند فرمائیں (وہاں بجز دینداری کے اور کوئی وجہ ترجیح اور پسندیدگی کی ہو ہی نہیں سکتی تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے اس لئے میں امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے لیکن میری ایک وصیت اس کے بارے میں یاد رکھیو کہ اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیجیو (اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے ضابطہ کو ذکر فرما کر گویا اس پر تنبیہ فرمائی کہ میری جو پسندیدگی ہے وہ ذمہ دارانہ اور امانتداری کی ہے پھر ایک کو پسند فرما کر وجہ ترجیح بھی ظاہر فرمائی کہ وہ نمازی ہے۔ یہ وجہ ہے اس کو راجح قرار دینے کی۔ ہمارے زمانہ میں ملازم کا نمازی ہونا گویا عیب ہے کہ آقا کے کام کا حرج ہوتا ہے) ابو آلہیثم خوش خوش اپنی ضرورتوں کے لئے ایک مددگار ساتھ لے کر گھر گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان بھی بیوی کو سنادیا۔ بیوی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ کے ارشاد کی کماحقہ تعمیل نہ ہوسکے گی اور اس درجہ بھلائی کا معاملہ کہ ارشاد عالی جاہ کا امتثال ہو جائے ہم سے نہ ہوسکے گا اس لئے اس کو آزاد ہی کر دو کہ اسی سے امتثال ارشاد ممکن ہے سراپا شجاع اور مجسم اخلاص خاوند نے فوراً آزاد کر دیا اور اپنی دقتوں اور تکالیف کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب واقعہ اور جانثار صحابی کے ایثار کا حال معلوم ہوا تو اظہار مسرت اور بیوی کی مدح کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ہر نبی اور اس کے جانشینوں کے لئے حق تعالیٰ شانہ دو باطنی مشیر اور اصلاح کار پیدا فرماتے ہیں جن میں سے ایک مشیر تو بھلائی کی ترغیب دیتا اور برائی سے روکتا ہے دوسرا مشیر تباہ و برباد کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔ جو شخص اس کی برائی سے بچا دیا جائے وہ ہر قسم کی برائی سے روک دیا گیا۔"
  6. سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں سب سے پہلا شخص جس نے کافر کا خون بہایا ہو میں ہی ہوں اور ایسے ہی پہلا وہ شخص جس نے جہاد میں تیر پھینکا ہو میں ہوں ہم لوگ (یعنی صحابہ کی جماعت ابتداء اسلام میں) ایسی حالت میں جہاد کیا کرتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ درختوں کے پتے اور کیکر کی پھلیاں ہم لوگ کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے زخمی ہو گئے تھے اور پتے کھانے کی وجہ سے پاخانہ میں بھی اونٹ اور بکری کی طرح مینگنیاں نکلا کرتی تھیں اس کے بعد بھی قبیلہ بنو اسد کے لوگ اسلام کے بارے میں مجھ کو دھمکاتے ہیں اگر میرے دین سے ناواقفیت کا یہی حال ہے جیسا یہ لوگ بتاتے ہیں تو خسر الدنیا والآخرة دنیا اس تنگی وعسرت میں گئی اور دین کی یہ حالت کہ نماز سے بھی زیادہ واقفیت نہ ہوئی ۔
  7. خالد بن عمیر اور شویس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو حکم فرمایا کہ تم اپنے رفقاء کے ساتھ (جو تین سو مجاہد تھے) عجم کی طرف چلے جاؤ اور جب منتہائے سرزمین عرب پر پہنچو جہاں کی سرزمین عجم بہت ہی قریب رہ جائے تو وہاں قیام کرنا (مقصد ان کی روانگی کا یہ تھا کہ دربار عمری میں یہ اطلاع پہنچی تھی کہ عجم کا ارادہ عرب پر حملہ کرنے کا ہے اور بہ روایت دیگر یزدجر نے عجم سے امداد منگائی ہے جس کا یہ راستہ تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لشکر کو ناکہ بندی کے لئے ارسال فرمایا تھا) وہ لشکر چلا اور جب مربد بصرہ پر پہنچے وہاں عجیب طرح کے سفید سفید پتھروں پر نظر پڑی لوگوں نے اول تعجب سے ایک دوسرے سے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بصرہ ہیں (بصرہ اصل لغت میں سفید مائل پتھروں کو کہتے ہیں اس کے بعد پھر شہر کا نام پڑ گیا تو گویا انہوں نے جواب دیا کہ یہ بھی ایک قسم کے پتھر ہیں) اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے موافق آگے بڑھے اور جب دجلہ کے چھوٹے پل کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تجویز کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی متعینہ جگہ یہی ہے اس لئے وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ راوی نے اس جگہ تمام قصہ (یعنی خراسان کے لشکر کے آنے کا اور عتبہ کے فتح کرنے کا پورا قصہ) مفصل ذکر کیا (مگر امام ترمذی کا چونکہ اس جگہ ذکر کرنے سے مقصود اس وقت کی تنگ حالی کا بیان کرنا تھا۔ جس کا ذکر اس حدیث کے اخیر میں ہے اس لئے تمام حدیث کو مختصر کر کے اس جملہ کو ذکر کر دیا۔) حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعد ایک خطبہ بھی پڑھا تھا جو عربی حاشیہ میں نقل کیا گیا اس میں دنیا کی بے ثباتی آخرت کا دائمی گھر ہونا وغیرہ امور ارشاد فرمائے تھے۔ چنانچہ حمد و صلوة کے بعد فرماتے ہیں کہ دنیا ختم ہو رہی ہے اور منہ پھیر کر جا رہی ہے دنیا کا حصہ اتنا ہی باقی رہ گیا جیساکہ کسی برتن کا پانی ختم ہو جائے اور اخیر میں ذرا سا قطرہ اس میں رہ جائے تم لوگ اس دنیا سے ایک ایسے عالم کی طرف جا رہے ہو جو ہمیشہ رہنے والا ہے کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہترین ماحضر کے ساتھ اس عالم سے جاؤ اس لئے کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جہنم (جو اللہ کے نافرمانوں کا گھر ہے) اتنی گہری ہے کہ اگر اس کے اوپر کے کنارے سے ایک ڈھیلا پھینکا جائے تو ستر برس تک بھی وہ جہنم کے نیچے کے حصے میں نہیں پہنچتا اور آدمیوں سے اس مکان کو بھرا جائے گا کس قدر عبرت کا مقام ہے نیز ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت (جو اللہ کے فرمانبردار بندوں کا مکان ہے) اس قدر وسیع ہے کہ اس کے دروازہ کی چوڑائی میں ایک جانب سے دوسری جانب تک چالیس برس کی مسافت ہے اور آدمیوں ہی سے وہ بھی پر کی جائے گی۔ (اس لئے ایسے اعمال اختیار کرو جن کی وجہ سے پہلے مکان سے نجات ملے اور اس مکان میں جو اللہ کی رضا کا مکان ہے داخلہ نصیب ہو اس کے بعد اپنا گذشتہ حال بیان کیا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی یہ حالت دیکھی ہے کہ میں ان سات آدمیوں میں سے ہوں جو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ہمارے پاس کھانے کے لئے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا اس کے کھانے سے ہمارے منہ چھل گئے تھے۔ مجھے اتفاقا ایک چادر مل گئی تھی جس کو میں نے اپنے اور سعد رضی اللہ عنہ کے درمیان نصف نصف تقسیم کر لیا (حق تعالیٰ شانہ نے اس تنگ حالی اور تکالیف کا دنیا میں بھی یہ اجر مرحمت فرمایا کہ) ہم سات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کسی جگہ کا امیر نہ ہوا (چونکہ یہ جماعت بڑی تکالیف برداشت کرنے اور مجاہدات کے بعد امیر ہوئی ہے اس لئے اس کا معاملہ اپنی جماعتوں کے ساتھ بہترین معاملہ ہے جو تم کو بعد میں آنے والے امراء کے تجربہ حال سے معلوم ہو گا اس لئے کہ) تم ان امراء کا عنقریب تجربہ کرنے والے ہو جو بعد میں آنے والے ہیں ۔
  8. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ کے راستہ میں اس وقت خوف دلایا گیا ہوں جس وقت کوئی بھی نہیں ڈرایا گیا اور اس قدر ستایا گیا ہوں کہ کوئی شخص بھی نہیں ستایا گیا۔ مجھے تیس شب و روز ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے کھانے کے لئے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے بجز اس تھوڑی سی مقدار کے جو بلال کے بغل میں چھپی ہوئی تھی۔
  9. نوفل بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی ہیں ہمارے ہم نشین تھے اور حقیقت میں بہترین ہم نشین تھے۔ ایک مرتبہ ہم ان کے ساتھ کسی جگہ سے لوٹے واپسی میں ان کے ساتھ ہی ان کے مکان پر چلے گئے ۔ انہوں نے گھر جا کر اول غسل کیا جب وہ غسل سے فارغ ہو چکے تو ایک بڑے برتن میں روٹی اور گوشت لایا گیا۔عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کو دیکھ کر رونے لگے میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی کیوں روتے ہو؟ کہنے لگے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال تک کبھی بھی اس کی نوبت نہیں آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جو کی روٹی ہی سے شکم سیری فرمائی ہو۔ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جہاں تک میرا خیال ہم لوگوں کی یہ ثروت کی حالت کسی بہتری کے لئے نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کیسی ہوتی
  1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے۔
  2. حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں ۔
  3. "حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اکثر بیان فرماتے ہیں عرض کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے ۔ (ذات و صفات باری تعالی یا امت کی بہبود کے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے ان امور کی وجہ سے کسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے فکری اور راحت نہ ہوتی تھی (یا یہ کہ امور دینویہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو راحت نہ ملتی بلکہ دنیوی امور کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو راحت اور چین ملتا تھا چنانچہ حدیث میں ہے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے) اکثر اوقات خاموش رہتے تھے بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ(جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے، چنانچہ ملا علی قاری نے ایسی چالیس احادیث اپنی شرح میں جمع کی ہیں جو نہایت مختصر ہیں عربی حاشیہ پر نقل کر دیں ہیں جو یاد کرنا چاہے اس کو دیکھ کر یاد کر لے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کوتاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت مزاج نہ تھے نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے اسکی مذمت نہ فرماتے تھے البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرماتے تو ظاہر ہے کہ حق تعالی شانہ کی نعمت ہے زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لئے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے البتہ اظہار رغبت یا کسی دلداری کی وجہ سے کبھی کبھی خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمائی ہے ) دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی اس لئے کبھی دنیوی نقصان پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا) البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لے لیں ۔ اپنی ذات کے لئے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے (اس کی وجہ بعض علماء نے یہ بتلائی ہے کہ انگلیوں سے اشارہ تواضع کے خلاف ہے اس لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے اور بعض علماء نے یہ تحریر فرمائی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ انگلی سے توحید کی طرف اشارہ فرمانے کی تھی اس لئے غیراللہ کی طرف انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے) جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو ملا لیتے (کبھی گفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے) اور کھلی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھی کے اندرونی حصہ پر مارتے اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا ذکر
  1. اسماء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتہ کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی۔
  2. "حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسامہ پر سہارا لگائے ہوئے مکان میں تشریف لائے۔ اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یمنی منقش کپڑا تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لپٹے ہوئے تھے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باہر تشریف لا کر صحابہ کو نماز پڑھائی۔"
  3. "ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کپڑا پہنتے تو اظہار مسرت کے طور پر اس کا نام لیتے۔ مثلاً اللہ تعالی نے یہ کرتہ مرحمت فرمایا۔ ایسے ہی عمامہ، چادر وغیرہ۔ پھر یہ دعا پڑھتے۔ اللھم لک الحمد کما کسوتنیہ اسالک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذ بک من شرہ وشر ماصنع لہ (ترجمہ) اے اللہ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں ۔ اور اس کپڑے کے پہننے پر تیرا ہی شکر ہے۔ یا اللہ تجھ ہی سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں (کہ خراب نہ ہو ضائع نہ ہو) اور ان مقاصد کی بھلائی اور خوبی چاہتا ہوں ۔ جن کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اور تجھ ہی سے اس کپڑے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جن کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے۔ کپڑے کی بھلائی برائی تو ظاہر ہے اور جس چیز کے لئے بنایا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گرمی، سردی اور زینت وغیرہ جس غرض کے لئے پہنا گیا اس کی بھلائی یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا میں استعمال ہو عبادت پر معین ہو اور اس کی برائی یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں استعمال ہو، عجب و تکبر وغیرہ پیدا کرے۔"
  4. حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یمنی منقش چادر کپڑوں میں زیادہ پسندیدہ تھی۔
  5. "ابو جحیفہ فرماتے ہیں ، کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں پنڈلیوں کی چمک گویا اب میرے سامنے ہے۔ سفیان جو حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں ، کہ میں جہاں تک سمجھتا ہوں وہ سرخ جوڑا منقش جوڑا تھا۔"
  6. "حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ میں نے کبھی کسی سرخ جوڑے والے کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔ اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک مونڈھوں کے قریب تک تھے۔"
  7. "ابو رمثہ کہتے ہیں ، کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سبز چادریں اوڑھے ہوئے دیکھا۔"
  8. قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس دو پرانی لنگیاں تھیں جو زعفران میں رنگی ہوئیں تھیں ۔ لیکن زعفران کا کوئی اثر ان پر نہیں رہا تھا اور اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے۔
  9. "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ سفید کپڑوں کو اختیار کیا کرو کہ یہ بہترین لباس میں سے ہے ۔ سفید کپڑا ہی زندگی کی حالت میں پہننا چاہیے اور سفید کپڑے میں مردوں کو دفن کرنا چاہیے۔"
  10. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صبح کو مکان سے باہر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔
  11. "قرة بن ایاس فرماتے ہیں، کہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ مزینہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیعت کے لئے حاضر ہوا تھا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتہ کا تکمہ000 کھلا ہوا تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر تبرکاً مہر نبوت کو چھوا۔"
  12. "مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رومی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا۔ جس کی آستینیں تنگ تھیں ۔"
  13. "سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سفید کپڑے پہنا کرو ۔ اس لئے کہ وہ زیادہ پاک وصاف رہتا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو۔"
  14. حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سب کپڑوں میں کرتے کو زیادہ پسند فرماتے تھے۔
  15. ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے بعض لوگوں نے یہ بھی نقل کی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پہننے کے لئے سب کپڑوں میں سے کرتہ پسند تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح اور دل لگی کے بیان میں
  1. "حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ میل جول میں مزاح فرماتے تھے، چنانچہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے یا ابا عمیر ما فعل النغیر اے ابو عمیر وہ نغیرہ کہاں جاتی رہی؟"
  2. "ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ، کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے مذاق بھی فرمالیتے ہیں ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں مگر میں کبھی غلط بات نہیں کہتا۔"
  3. "حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، کہ کسی شخص نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، کوئی سواری کا جانور مجھے عطا فرما دیا جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک اونٹنی کا بچہ تم کو دیں گے ۔ سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم! میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹ کا بچہ ہوتا ہے"
  4. "حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ، کہ ایک شخص جنگل کے رہنے والے جن کا نام زاہر بن حرام تھا ، وہ جب حاضر خدمت ہوتے جنگل کے ہدایا سبزی ترکاری وغیرہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور وہ جب مدینہ منورہ سے واپس جانے کا ارادہ کرتے تھے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شہری سامان خورد و نوش کا ان کو عطا فرماتے ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زاہر ہمارا جنگل ہے اور ہم اس کے شہر ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے خصوصی تعلق تھا زاہر کچھ بد شکل بھی تھے ایک مرتبہ کسی جگہ کھڑے ہوئے وہ اپنا کوئی سامان فروخت کر رہے تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے ان کی کولی (جپھی) اس طرح بھری کی وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے انہوں نے کہا ارے کون ہے مجھے چھوڑ دے لیکن جب کن انکھیوں وغیرہ سے دیکھ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تو اپنی کمر کو بہت اہتمام سے پیچھے کر کے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے ملنے لگے (کہ جتنی دیر بھی تلبس رہے ہزاروں نعمتوں اور لذتوں سے بڑھ کر ہے) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے ؟ زاہر نے عرض کی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ مجھے فروخت فرمادیں تو کھوٹا اور قیمت پائیں گے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اللہ کے نزدیک تو تم کھوٹے نہیں ہو یا یہ فرمایا کہ بیش قیمت ہو ۔"
  5. حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دعا فرما دیجئے کہ حق تعالی شانہ مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی وہ عورت رونے لگی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہو گی بلکہ حق تعالی جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نو عمر کنواریاں بنا دیں گے اور حق تعالی جل شانہ کے اس قول انا انشائناھن انشاء فجعلناھن ابکارا۔ الایة میں اس کا بیان ہے جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے ۔ یعنی ہم نے ان کو ایسا بنایا کہ وہ کنواریاں ہیں ۔ (بیان القرآن) یعنی ہمیشہ کنواریاں ہی رہتی ہیں صحبت کے بعد پھر کنواریاں بن جاتی ہیں ۔
  6. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک مرتبہ مزاحا یا ذالاذنین فرمایا اے دو کان والے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کا ذکر
  1. سائب بن یزید کہتے ہیں کہ مجھ کو میری خالہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا کہ یہ میرا بھانجا بیمار ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے دعائے برکت کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی پیا۔ میں اتفاقاً یا قصداً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت کھڑا ہوا تو میں نے مہر نبوت دیکھی جو مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی
  2. رمیثہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مضمون سنا اور میں اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنی قریب تھی کہ اگر چاہتی تو مہر نبوت کو چوم لیتی۔ وہ مضمون یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ کے حق میں یہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ان کی موت کی وجہ سے حق تعالی جل شانہ کا عرش بھی ان کی روح کی خوشی میں جھوم گیا۔
  3. "علباء بن احمر کہتے ہیں ، کہ مجھ سے عمرو بن اخطب صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قصہ بیان کیا۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کمر ملنے کے لئے ارشاد فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر ملنی شروع کی تو اتفاقاً میری انگلی مہر نبوت پر لگ گئی علباء کہتے ہیں کہ میں نے عمرو سے پوچھا کہ مہر نبوت کیا چیز تھی انہوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔"
  4. "بردة بن الحصیب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک خوان لے کر آئے جس میں تازہ کھجوریں تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سلمان یہ کیسی کھجوریں ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھیوں پر صدقہ ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھاتے اس لئے میرے پاس سے اٹھا لو (اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ ہم لوگ سے کیا مراد ہے ۔ بعض کے نزدیک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جسے جمع کے لفظ سے تشریفاً تعبیر فرمایا اور بعض کے نزدیک جماعت انبیاء مراد ہیں اور بعض کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وہ اقارب جن کو زکوة کا مال دینا جائز نہیں مراد ہیں ۔ بندہ ناچیز کے نزدیک یہ تیسرا احتمال راجح ہے اور علامہ مناوی کے اعتراضات جو اس تیسری صورت میں ہیں زیادہ وقیع نہیں) دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ سلمان کھجوروں کا طباق لائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر سلمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ہدیہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی نوش فرمایا۔ (چنانچہ بیجوری نے اسکی تصریح کی ہے۔ حضرت سلمان کا اس طرح پر دونوں دن لانا حقیقت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آقا بنانے کا امتحان تھا اس لئے کہ سلمان رضی اللہ تعالی عنہ پرانے زمانے کے علماء میں سے تھے اڑھائی سو برس اور بعض کے قول پر ساڑھے تین سو برس ان کی عمر ہوئی۔ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علامات میں جو پہلی کتب میں پڑھ رکھی تھیں یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صدقہ نوش نہیں فرماتے اور ہدیہ قبول فرماتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہے ، پہلی دونوں علامتیں دیکھنے کے بعد) پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی تو مسلمان ہو گئے سلمان رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت یہود بنی قریظہ کے غلام بنے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خریدا (مجازاً خریدا کے لفظ سے تعبیر کر دیا ورنہ حقیقت میں انہوں نے حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مکاتب بنایا تھا۔ مکاتب بنانا اس کو کہتے ہیں کہ، آقا غلام سے معاملہ کر لے کہ اتنی مقدار جو آپس میں طے ہو جائے کما کردے دو، پھر تم آزاد ہو) اور بدل کتابت بہت سے درہم قرار پائے اور نیز یہ کہ حضرت سلمان انکے لئے (تین سو) کھجور کے درخت لگائیں اور ان درختوں کے پھل لانے تک ان کی خبر گیری کریں ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ درخت لگائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ سب درخت اسی سال پھل لے آئے مگر ایک درخت نہ پھلا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ درخت حضرت سلمان فارسی کے ہاتھ کا لگایا ہوا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکالا اور دوبارہ اپنے دست مبارک سے لگایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ بے موسم لگایا ہوا درخت بھی اسی سال پھل لے آیا۔"
  5. "ابونضرة کہتے ہیں ، کہ میں نے ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کا حال پوچھا ، تو انہوں نے یہ بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت مبارک پر ایک گوشت کا ابھرا ہوا ٹکڑا تھا۔"
  6. "عبد اللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت مجمع تھا، میں نے اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت چکر لگایا (راوی نے اس جگہ غالباً چکر لگا کر فعلی صورت بیان کی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا منشاء سمجھ گئے اور اپنی پشت مبارک سے چادر اتاردی۔ میں نے مہر نبوت کی جگہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے ہم شکل دیکھا، جس کے چاروں طرف تل تھے جو گویا مسوں کے برابر معلوم ہوتے تھے۔ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور میں نے عرض کیا اللہ تعالی جل شانہ، آپ کی مغفرت فرمائے (یا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مغفرت فرما دی جیسا کہ سورة فتح میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے لیغفر لک اللہ ماتقدم من ذنبک)۔"
  7. "ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پوتے ہیں وہ کہتے ہیں، کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کیا کرتے تو یہ صفتیں بیان کرتے، اور حدیث مذکورہ سابق ذکر کی۔ منجملہ ان کے یہ بھی کہتے، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین تھے۔۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے موزہ کے بیان میں
  1. "بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، کہ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیاہ رنگ کے دو سادے موزے ہدیةً بھیجے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پہنا اور وضو کے بعد ان پر مسح بھی فرمایا۔"
  2. "مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ دحیہ کلبی نے دو موزے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کئے تھے ایک دوسری روایت میں موزوں کے ساتھ جبہ کے پیش کرنے کا ذکر بھی ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پہنا یہاں تک کہ وہ پھٹ گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تحقیق نہیں فرمائی کہ وہ مذبوح جانور کی کھال کے تھے یا غیر مذبوح۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین (جوتا) شریف کے ذکر میں
  1. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص تم میں سے جوتا پہنے تو دائیں سے ابتداء کرنی چاہیے اور جب نکالے تو بائیں سے پہلے نکالے دایاں پاؤں جوتا پہننے میں مقدم ہونا چاہیے اور نکالنے میں مؤخر۔
  2. "قتادہ کہتے ہیں ، کہ میں نے حضرت انس سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل شریف کیسے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ہر ایک جوتے میں تسمے تھے۔"
  3. "ابن عباس فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریف کے تسمہ دوہرے تھے۔"
  4. "عیسیٰ کہتے ہیں ، کہ حضرت انس نے ہمیں دو جوتے نکال کر دکھائے ان پر بال نہیں تھے مجھ سے اس کے بعد ثابت نے یہ بتلایا کہ وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریف تھے۔"
  5. عبید بن جریج نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بغیر بالوں کے چمڑے کا جوتا پہنتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جوتا پہنتے ہوئے اور اس میں وضو فرماتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے میں ایسے ہی جوتے پسند کرتا ہوں ۔
  6. "ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی یہی نقل فرماتے ہیں، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریف کے دو تسمے تھے۔"
  7. "عمرو بن حریث فرماتے ہیں ، میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جن میں دوسرا چمڑا سلا ہوا تھا۔"
  8. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کنگھی کرنے میں اور جوتا پہننے میں اور اعضاء وضو کے دھونے میں حتی الوسع دائیں سے ابتدا فرمایا کرتے تھے۔
  9. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریف کے دو تسمے تھے۔ ایسے ہی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جوتہ میں بھی دوہرا تسمہ تھا ایک تسمہ کی ابتداء حضرت عثمان نے فرمائی۔
  10. "حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھائے یا جوتا پہنے۔"
  11. "ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک جوتی پہن کر کوئی نہ چلے یا دونوں پہن کر چلے یا دونوں نکال دے۔"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل گھر میں پڑھنے کا ذکر
  1. عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نوافل مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دیکھتے ہو کہ میرا گھر مسجد سے کتنا قریب ہے۔ (جس کی وجہ سے مسجد میں آنے میں کسی قسم کی دقت یا رکاوٹ نہیں ہوتی۔ (لیکن اس کے باوجود) فرائض کے علاوہ مجھے اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد سے زیادہ پسند ہے۔
 
Top