الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
شمائل ترمذی - حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان (یونیکوڈ)
ابن ربیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس (ان کے زمانہ خلافت میں) ایک مرتبہ (گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئ آپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور جب سوار ہو چکے تو الحمد للہ کہا پھر یہ دعا پڑھی سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لئے مسخر فرما دیا اور ہم کو اس کے مطیع بنانے کی طاقت نہ تھی اور واقعی ہم سب لوگ اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں علماء فرماتے ہیں کہ سواری چونکہ اسباب ہلاکت میں سے ہے اس لئے سواری کی تسخیر پر حق تعالی جل شانہ کے شکریہ کے ساتھ اپنی موت کے ذکر کو بھی متصل فرمادیا کہ ہم آخر کار مرنے کے بعد لوٹ کر اسی کی طرف جانے والے ہیں ۔) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے الحمد للہ تین مرتبہ کہا پھر اللہ اکبر تین مرتبہ کہا پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔ تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے اور میں نے تیری نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اور اوامر کی اطاعت نہ کرنے میں اپنے ہی نفس پر ظلم کیا ہے ۔ پس یا اللہ! آپ میری مغفرت فرمائیں ۔ کیونکہ مغفرت تو آپ کے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا اس دعا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنسے۔ ابن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں ۔ اور اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تبسم کی وجہ پوچھی تھی جیساکہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ حق تعالی جل شانہ بندہ کے اس کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا کوئی معاف نہیں کر سکتا ۔ خوش ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا ۔ اللھم رب اغفرلی ولوالدی وانہ لایغفر الذنوب الا انت اللھم لا احصی ثناء علیک لک الکبریاء والعظمة۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں کسی قدر باریک تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا ۔ جب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتا تو دل میں سوچتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سرمہ لگائے ہوئے ہیں حالانکہ اس وقت سرمہ لگائے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔
عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔
عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ ہی کی یہ بھی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کاہنسنا تبسم سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
"حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو سب سے اول جنت میں داخل ہو گا، اور اس سے بھی خوب واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا ۔ قیامت کے دن ایک آدمی دربار الٰہی میں حاضر کیا جائے گا اسکے لئے یہ حکم ہو گا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں کہ تو نے فلاں دن فلاں گناہ کئے ہیں تو وہ اقرار کرے گا ۔ اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور اپنے دل میں نہایت ہی خوفزدہ ہو گا کہ ابھی صغائر ہی کا نمبر ہے ۔ کبائر پر دیکھیں کیا گزرے؟ کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کے ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے ۔ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مقولہ نقل فرما کر ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوئے ۔ ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے ڈر رہا تھا ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا ۔"
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مسلمان ہونے کے بعد سے کسی وقت مجھے حاضری سے نہیں روکا ۔ اور جب مجھے دیکھتے تو ہنستے اور دوسری روایت میں ہے کہ تبسم فرماتے تھے۔
عامر بن سعید کہتے ہیں کہ میرے والد سعد نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے دن ہنسے ۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ عامر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کس بات پر ہنسے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز لیکن وہ اپنی ڈھال ادھر ادھر کر لیتا تھا جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا۔ (گویا مقابلہ میں سعد کا تیر نہ لگنے دیتا تھا۔ حالانکہ یہ مشہور تیر انداز تھے) سعد نے ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس کی کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے ) جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا فورا ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا ۔ ٹانگ بھی اوپر اٹھ گئی ۔ پس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس قصہ پر ہنسے میں نے پوچھا کہ اس میں کونسی ہنسنے کی بات ہے انہوں نے فرمایا کہ سعد کے اس فعل پر ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے اخیر میں آگ سے نکلے گا وہ ایک ایسا آدمی ہو گا کہ زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا کہ ( جہنم کے عذاب کی سختی کی وجہ سے سیدھے چلن پر قادر نہ ہو گا) اس کو حکم ہو گا کہ جا جنت میں داخل ہو جا ۔ وہ وہاں جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ سب جگہیں پر ہو چکی ہیں لوٹ کر بارگاہ الہی میں اس کی اطلاع کر یگا وہاں سے ارشاد ہو گا کہ کیا دنیوی منازل کی حالت بھی یاد ہے (کہ جب جگہ پر ہو جائے تو آنے والے کی گنجائش نہیں ہوتی اور پہلے جانے والے جس جگہ چاہیں قبضہ کر لیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے جگہ نہ رہے اس عبارت کا ترجمہ اکابر علماء نے یہ ہی تحریر فرمایا ہے مگر بندہ ناچیز کے نزدیک اگر اس کا مطلب یہ کہا جائے تو زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی وسعت اور فراخی بھی یاد ہے کہ تمام دنیا کتنی بڑی تھی۔ اور یہ اس لئے یاد دلایا تاکہ آئندہ تمام دنیا سے دس گنا زائد اس کو عطا فرمانے کا اعلان ہونے والا ہے تو ساری دنیا کا ایک مرتبہ تصور کرنے کے بعد اس عطیہ کی کثرت کا اندازہ ہو) وہ عرض کرے گا کہ رب العزت خوب یاد ہے اس پر ارشاد ہو گا کہ اچھا کچھ تمنائیں کرو جس نوع سے دل چاہتا ہے وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا وہاں سے ارشاد ہو گا کہ اچھا تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں اور تمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا وہ عرض کرے گا کہ یا اللہ آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر فرماتے ہیں (کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہے اور آپ تمام دنیا سے دس گنا زائد مجھے عطا فرما رہے ہیں) ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہنسی آ گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک بھی ظاہر ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں کا بیان
"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اولاً بالوں کو بغیر مانگ نکال کے ویسے ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے اور اہل کتاب نہیں نکالتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء ان امور میں جن میں کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے ۔ لیکن اس کے بعد یہ منسوخ ہو گیا اس لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مخالفتِ اہل کتاب کرنے لگے۔"
"حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نصف کانوں تک تھے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال مبارک ایسے پٹھوں سے جو کان کی لو تک ہوا کرتے ہیں ان سے زیادہ تھے۔ اور ان سے کم تھے جو مونڈھوں تک ہوتے ہیں ۔ یعنی نہ زیادہ لمبے تھے نہ چھوٹے بلکہ متوسط درجہ کے تھے۔
حضرت براء فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم متوسط القامۃ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا۔ آپ کے بال کانوں کی لو تک ہوتے تھے۔
"قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ، کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کیسے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ نہ بالکل پیچیدہ نہ بالکل کھلے ہوئے بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھنگریالہ پن لئے ہوئے تھے جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔"
ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد ایک مرتبہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال مبارک چار حصے مینڈھیوں کے طور پر ہو رہے تھے۔
ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار گیسوؤں والا دیکھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نصف کانوں تک ہوتے تھے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا کیسا برا آدمی ہے۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد اس کو حاضری کی اجازت مرحمت فرمادی اور اس کے اندر آنے پر اس کے ساتھ نہایت نرمی سے باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حاضر ہونے سے پہلے تو یہ لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اس قدر نرمی سے اس کے ساتھ کلام فرمایا یہ کیا بات ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ! بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص کہ لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیں ۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اول تو تمام لوگوں سے زیادہ ہر وقت ہی سخی تھے (کہ کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطاؤں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کے درجہ میں پہنی۔ جب ہی ایک شخص نے مانگ لی اور اس کو مرحمت فرما دی۔ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہو جائے گھر نہ جانا ایسے مشہور واقعات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا) بالخصوص رمضان المبارک میں تمام مہینہ اخیر تک بہت ہی فیاض رہتے ( کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ مہینے کی فیاضی بھی اس مہینے کی فیاضی کے برابر نہ ہوتی تھی) اور اس مہینہ میں بھی جس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام اللہ شریف سناتے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی اور نفع پہنچانے میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
"خارجہ کہتے ہیں کہ ایک جماعت زید بن ثابت کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سنائیں انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا حالات سناؤں ( وہ احاطہ بیان سے باہر ہیں) میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسایہ تھا (اس لئے تو یا ہر وقت حاضر باش تھا اور اکثر حالات سے واقف اس کے ساتھ ہی کاتب وحی بھی تھا) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلا بھیجتے میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ غایت درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے جس قسم کا تذکرہ ہم کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی تذکرہ فرماتے تھے۔ جب ہم لوگ کچھ دنیاوی ذکر کرتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا تذکرہ فرماتے (یہ نہیں کہ بس آخرت ہی کا ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اور دنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں) اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے، یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہو جاتا تو اسی کے حالات اور تفصیلات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے اور جب کچھ کھانے پینے کا ذکر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔ (کھانے کے آداب، فوائد، لذیذ کھانوں کا ذکر، مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ گذشتہ ابواب میں بہت سے ارشادات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے گزر چکے ہیں کہ سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے، زیتون کا تیل استعمال کیا کرو کہ مبارک درخت سے ہے وغیرہ) یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں ۔"
"حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قوم کے بدترین شخص کی طرف سے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تالیف قلوب کے خیال سے اپنی توجہ اور اپنی خصوصی گفتگو مبذول فرماتے تھے، (جس کی وجہ سے اس کو اپنی خصوصیت کا خیال ہو جاتا تھا) چنانچہ خود میری طرف بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات عالیہ اور کلام کا رخ بہت زیادہ رہتا تھا، حتیٰ کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں اسی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ توجہ فرماتے ہیں ۔ میں اسی خیال سے ایک دن دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں افضل ہوں یا ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ)۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عمر رضی اللہ عنہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عمر ( رضی اللہ عنہ)۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عثمان رضی اللہ عنہ ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عثمان (رضی اللہ عنہ)؟۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی مجھے کسی بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اف تک بھی نہیں فرمایا نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے (ایسے خلقت کے اعتبار سے بھی حتی کہ) میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم یا کوئی اور نرم چیز ایسی چھوئی جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار نہیں سونگھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا جس پر زرد رنگ کا کپڑا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ ناگوار بات کو منہ در منہ منع نہ فرماتے تھے اس لئے سکوت فرمایا اور جب وہ شخص چلا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس کو زرد کپڑے سے منع کر دیتے تو اچھا ہوتا۔
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعا فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں چلا کر (خلاف وقار) باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہ فرماتے تھے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی ظلم کا بدلہ لیا ہو۔ البتہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کا مرتکب ہوتا (یعنی مثلاً کسی حرام فعل کا کوئی مرتکب ہوتا۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ اسی میں آدمیوں کے حقوق بھی داخل ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غصے والا کوئی شخص نہیں ہوتا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی دو امروں میں اختیار دئیے جاتے تو ہمیشہ سہل کو اختیار فرماتے تاوقتیکہ اس میں کسی قسم کی معصیت وغیرہ نہ ہو ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے دن کے لئے کسی چیز کو ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے۔ تم میرے نام سے خرید لو جب کچھ آ جائے گا تو میں ادا کر دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں (اور جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرت میں نہیں ہے اس کا حق تعالیٰ شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکلف نہیں بنایا۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جس قدر جی چاہے خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے (کہ جو ذات پاک عرش بریں کی مالک ہے اس کے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کیا کمی ہو سکتی ہے)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا جس کا اثر چہرہ انور پر ظاہر ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے مجھے اس کا حکم فرمایا ہے۔"
ربیع کہتی ہیں کہ میں ایک طباق کھجوروں کا اور کچھ چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی ککڑیاں لے کر حاضر خدمت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا دستِ مبارک بھر کر سونا اور زیور مرحمت فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس پر بدلہ بھی دیا کرتے تھے۔
"حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے (میرے چھوٹے بھائی) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اہل مجلس کے ساتھ کا طرز پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ خندہ پیشانی اور خوش خلقی کے ساتھ متصف رہتے تھے (یعنی چہرہ انور پر تبسم اور بشاشت کا اثر نمایاں ہوتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم مزاج تھے (یعنی کسی بات میں لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہولت سے موافق ہو جاتے تھے) نہ آپ سخت گو تھے اور نہ سخت دل تھے۔ نہ آپ چلا کر بولتے تھے نہ فحش گوئی اور بدکلامی فرماتے تھے نہ عیب گیر تھے کہ دوسروں کے عیوب پکڑیں نہ زیادہ مبالغہ سے تعریف کرنے والے نہ زیادہ مذاق کرنے والے نہ بخیل (تین لفظ) اس جگہ نقل کیے گئے تینوں کا ترجمہ لکھ دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند بات سے اعراض فرماتے تھے۔ یعنی ادھر التفات نہ فرماتے گویا سنی ہی نہیں دوسرے کی کوئی خواہش اگر آپ کو پسند نہ آتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے تھے اور اس کا وعدہ بھی نہ فرماتے تھے آپ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا۔ جھگڑے سے اور تکبر سے اور بیکار بات سے اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے، نہ کسی کے عیوب تلاش فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وہی کلام فرماتے تھے جو باعث اجر وثواب ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو حاضرین مجلس اس طرح گردن جھکا کر بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ( کہ ذرا بھی حرکت ان میں ہوتی تھی کہ پرندہ ذرا سی حرکت سے اڑجاتا ہے) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو جاتے تب وہ حضرات کلام کرتے (یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے درمیان کوئی شخص نہ بولتا تھا جو کچھ کہنا ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چپ ہونے کے بعد کہتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات میں نزاع نہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی شخص بات کرتا تو اس کے خاموش ہونے تک سب ساکت رہتے ۔ ہر شخص کی بات (توجہ سے سننے میں) ایسی ہوتی جیسے پہلے شخص کی گفتگو یعنی بے قدری سے کسی کی بات نہیں سنی جاتی تھی، ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجلس کی ابتداء میں تو توجہ تام ہوتی ہے پھر کچھ دیر ہونے سے اکتانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ بے توجہی سی ہو جایا کرتی ہے) جس بات سے سب ہنستے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے اور جس سے سب لوگ تعجب کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب میں شریک رہتے یہ نہیں کہ سب سے الگ چپ چاپ بیٹھے رہیں بلکہ معاشرت اور طرز کلام میں شرکاء مجلس کے شریک حال رہتے) اجنبی مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بے تمیزی کے سوال پر صبر فرماتے (یعنی گاؤں کے لوگ جا بے جا سوالات کرتے آداب کی رعایت نہ کر کے ہر قسم کے سوالات کرتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر گرفت نہ فرماتے ان پر صبر کرتے) اور اس وجہ سے وہ لوگ ہر قسم کے سوالات کر لیتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اقدس تک مسافروں کو لے کر آیا کرتے تھے (تاکہ ان کے ہر قسم کے سوالات سے خود بھی منتفع ہوں اور ایسی باتیں جن کو ادب کی وجہ سے یہ حضرات خود نہ پوچھ سکتے تھے وہ بھی معلوم ہو جائیں) آپ یہ بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ جب کسی طالب حاجت کو دیکھو تو اس کی امداد کیا کرو ( اگر آپ کی کوئی تعریف کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گوارا نہ فرماتے البتہ) بطور شکریہ اور ادائے احسان کے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرماتے۔ یعنی حد سے تجاوز کرتا تو روک دیتے۔ کسی کی گفتگو قطع نہ فرماتے تھے کہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع نہ فرمائیں ۔ البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز لگتا تو اسے روک دیتے تھے یا مجلس سے تشریف لے جاتے تاکہ وہ خود رک جائے ۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ نوافل پڑھا کرتے تھے کہ پاؤں پر ورم ہو جاتا تھا کسی نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اگلے پچھلے سب گناہوں کی معافی کی بشارت نازل ہو چکی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کیوں مشقت برداشت فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر لمبی نفلیں پڑھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ورم کر گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں حالانکہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اول و آخر کے سب گناہ بخش دئیے ہیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( کہ جب حق تعالیٰ جل شانہ نے مجھ پر اتنا انعام فرمایا) تو کیا میں اس کا شکر ادا نہ کروں ؟۔
اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز یعنی تہجد اور وتر کے متعلق استفسار کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معمول تھا انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (عشاء کی نماز کے بعد) شب کے نصف اول میں استراحت فرماتے تھے اس کے بعد تہجد پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ اخیر شب ہو جاتی تب وتر پڑھتے۔ اس کے بعد اپنے بستر پر تشریف لے آتے۔ اگر رغبت ہوتی تو اہل کے پاس تشریف لے جاتے یعنی صحبت کرتے پھر صبح کی اذان کے بعد فوراً اٹھ کر اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ وضو فرما کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات (لڑکپن میں) اپنی خالہ حضرت میمونہ (ام المومنین رضی اللہ عنہا) کے یہاں سویا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل تکیہ کے طولانی حصہ پر سر رکھے ہوئے تھے اور میں تکیہ کے چوڑائی پر سر رکھے ہوئے تھا (قاضی عیاض وغیرہ حضرات نے بجائے تکیہ کے بسترے کا ترجمہ فرمایا ہے لیکن جب کہ لفظ کا اصل ترجمہ تکیہ ہی ہے اور تکیہ مراد لینے میں کوئی بُعد بھی نہیں تو پھر بستر مراد لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ مثلاً تکیہ لمبائی پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک رکھ کر قبلہ کی طرف منہ کر کے لیٹ گئے اور ابن عباس تکیہ کے چوڑان پر سر رکھ کر (یعنی قبلہ کی طرف سر رکھ کر لیٹ گئے ہوں) حضور اقدس صلی اللہ (اپنی اہلیہ سے تھوڑی باتیں فرمانے کے بعد) سو گئے اور تقریباً سو گئے اور تقریباً نصف رات ہونے پر یا اس سے کچھ پہلے بیدار ہوئے اور اپنے چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار کو دور فرمانے لگے اور پھر سورة آل عمران کے اخیر رکوع ان فی خلق السموات و الارض کو تلاوت فرمایا (علماء کہتے ہیں کہ جاگنے کے بعد تھوڑا سا قرآن شریف پڑھ لینا چاہئے کہ اس سے نشاط پیدا ہوتا ہے اور ان آیات کا پڑھنا مستحب ہے) اس کے بعد مشکیزہ کی طرف جو پانی سے بھرا ہوا لٹک رہا تھا تشریف لے گئے اور اس سے (برتن میں پانی لے کر) وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بھی وضو کر کے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے (بائیں جانب) برابر کھڑا ہو گیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس لئے کہ مقتدی کو دائیں جانب کھڑا ہونا چاہئے) میرے سر پر دست مبارک رکھ کر میرا کان مروڑا (تنبیہ کے لئے ایسا کیا ہو اور ایک روایت میں ہے کہ اونگھنے لگا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑا) ایک روایت میں ہے کہ کان پکڑ کر دائیں جانب کو کھینچا تاکہ سنت کے موافق امام کے دائیں جانب کھڑے ہو جائیں پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ معن رضی اللہ عنہ جو اس کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ چھ مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعت پڑھی ہو گی۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک تہجد کی بارہ رکعتیں ہیں) پھر وتر پڑھ کر لیٹ گئے صبح نماز کے لئے جب بلال بلانے آئے تو دو رکعت سنت مختصر قرات سے پڑھ کر صبح کی نماز کے لئے تشریف لے گئے ۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تہجد (مع وتر کبھی) تیرہ رکعت پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ جب کبھی کسی عارض کی وجہ سے رات کو تہجد نہیں پڑھ سکتے تھے تو دن میں چاشت کے وقت بارہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب رات کو تہجد کے لئے اٹھو تو شروع میں اول دو مختصر رکعتیں پڑھ لو۔
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن یہ ارادہ کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو آج غور سے دیکھوں گا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان یا خیمہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا (تاکہ غور سے دیکھتا رہوں) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اول دو مختصر رکعتیں پڑھیں ۔ اس کے بعد طویل طویل دو دو رکعتیں پڑھیں (تین دفعہ طول کا لفظ اس کی زیادتی طول بیان کرنے کے لئے فرمایا) پھر ان سے مختصر دو رکعتیں پڑھیں پھر ان سے بھی مختصر دو رکعتیں پڑھیں پھر وتر پڑھے یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئی۔
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں تہجد کی کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ( گویا آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر چنانچہ خود اس کی تفصیل فرماتی ہیں) کہ اول چار رکعت پڑھتے تھے یہ نہ پوچھ کہ وہ کتنی طویل ہوتی تھیں اور کس عمدگی کے ساتھ بہترین حالت یعنی خشوع و خضوع سے پڑھی جاتی تھیں اسی طرح پھر چار رکعت اور پڑھتے ان کی بھی لمبائی اور عمدگی کا حال کچھ نہ پوچھ۔ پھر تین رکعات پڑھتے تھے یعنی وتر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر سے پہلے سو جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ (یہ انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کے قلوب جاگتے رہتے ہیں )۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے جس میں ایک رکعت وتر ہوتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹتے تو اپنی دائیں کروٹ پر آرام فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعات پڑھتے تھے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات تہجد میں صرف ایک ہی آیت کا تکرار فرماتے رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( زمانہ ضعف میں) نوافل میں قرآن شریف چونکہ زیادہ پڑھتے تھے اس لئے بیٹھ کر تلاوت فرماتے اور رکوع میں تشریف لے جاتے اور کھڑے ہونے کی حالت میں رکوع فرماتے پھر سجدہ کرتے اور اسی طرح دوسری رکعت ادا فرماتے۔
عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کے متعلق دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے طویل حصہ میں نوافل کھڑے ہو کر پڑھتے تھے۔ اور طویل حصہ میں نوافل بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھتے تو رکوع وسجود بھی کھڑے ہونے کی حالت میں ادا فرماتے اور جب قرآن مجید بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع وسجود بھی بیٹھنے ہی کی حالت میں ادا فرماتے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نوافل بیٹھ کر پڑھتے اور اس میں کوئی سورت پڑھتے تو اس قدر ترتیل سے پڑھتے کہ وہ سورت اپنے سے لمبی سورت سے بھی بڑھ جاتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وصال کے قریب زمانہ میں اکثر نوافل بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعتیں ظہر سے قبل اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اپنے گھر میں اور دو عشاء کے بعد وہ بھی گھر میں پڑھیں ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے (میری بہن ام المومنین) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صبح صادق کے بعد جس وقت مؤذن اذان کہتا ہے اس وقت دو مختصر رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
"ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی یہ مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعتیں یاد کی ہیں ۔ دو ظہر سے قبل، دو ظہر کے بعد۔ دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد مجھے میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے صبح کی دو رکعتوں کی بھی خبر دی ہے جن کو میں نے نہیں دیکھا تھا۔"
عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (علاوہ فرض) کے متعلق سوال کیا۔ تو انہوں نے دو رکعت ظہر سے قبل اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز سے قبل بتلائیں ۔
"عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (علاوہ فرض) کے متعلق استفسار کیا۔ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں پڑھتے تھے (رات کے نوافل) یعنی تہجد وغیرہ ان کو پہلے سے معلوم ہوں گی۔ تہجد کی روایات بالخصوص کثرت سے منقول اور مشہور ہے) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اس کی طاقت کہاں رکھ سکتے ہو (یعنی جس اہتمام و انتظام اور خشوع و خضوع سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے وہ کہاں ہو سکتا ہے اس سے مقصود تنبیہ تھی کہ محض سوال اور تحقیق سے کیا فائدہ؟ جب تک عمل کی سعی نہ ہو ۔ ہم نے عرض کیا کہ جو طاقت رکھ سکتا ہو گا وہ پڑھے گا۔ اور طاقت نہیں رکھے گا وہ معلوم کر لے گا۔ تاکہ دوسروں کو بتلا سکے اور خود عمل کرنے کی کوشش کرے. اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صبح کے وقت جب آفتاب آسمان پر اتنا اوپر چڑھ جاتا جتنا اوپر عصر کی نماز کے وقت ہوتا ہے اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت (صلوة الاشراق) پڑھتے تھے اور جب مشرق کی طرف اس قدر اوپر ہو جاتا جس قدر ظہر کی نماز کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو اس وقت چار رکعت (چاشت کی نماز جس کا مفصل ذکر دوسرے باب میں آ رہا ہے) پڑھتے تھے۔ ظہر سے قبل چار رکعت پڑھتے تھے اور ظہر کے بعد دو رکعت (یہ چھ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں) اور عصر سے قبل چار رکعت پڑھتے تھے چار رکعت کے درمیان بیٹھ کر ملائکہ مقربین اور انبیاء مومنین پر سلام بھیجتے تھے۔"
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی طویل نماز پڑھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ورم کر آتے آپ صلی اللہ سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی طویل نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام فرمایا کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا کسی نے پوچھا کہ کس کام کا ارادہ کر لیا کہنے لگے کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دوں ۔
"حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک رات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ( بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ قصہ رمضان المبارک کی رات کا تھا اس لئے محتمل ہے کہ یہ تہجد کی نماز ہو یا تراویح ہو) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع فرما کر یہ دعا پڑھی۔ اللہ اکبر ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمة (اللہ جل جلالہ عم نو آلہ کی ذات و صفات سب سے برتر ہے وہ ایسی ذات ہے جو بڑی بادشاہت والی ہے۔ بڑے غلبہ والی ہے بڑائی اور بزرگی وعظمت والی ذات ہے) پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورہ فاتحہ پڑھ کر) سورہ بقرہ تلاوت فرمائی پھر رکوع کیا۔ یہ رکوع قیام ہی جیسا تھا ( اس کے دو مطلب علماء فرماتے ہیں اور دونوں محتمل ہیں ایک تو یہ کہ رکوع تقریباً اتنا ہی طویل تھا کہ جتنا قیام۔ یعنی اگر قیام مثلاً ایک گھنٹہ کا تھا تو تقریباً ایک ہی گھنٹہ کا رکوع بھی تھا۔ اس قول کے موافق اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر رکوع سجدہ نماز میں معمول سے زیادہ لمبا ہو جائے تو نماز ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جیسے قیام معمول سے زائد تھا۔ ایسے ہی یہ رکوع بھی معمول رکوع سے طویل تھا ۔ اس صورت میں قیام کے ایک گھنٹہ ہونے کی صورت میں رکوع اگر پندرہ منٹ کا بھی ہو گیا تو اس حدیث کا مصداق بن گیا۔ اس قول کے موافق نماز اپنے عام معمول کے موافق رہی یعنی جو رکن لمبا ہوتا ہے جیسا کھڑا ہونا وہ لمبا رہا اور جو مختصر ہوتا تھا جیسے رکوع یا سجدہ وہ مختصر رہا البتہ ہر رکن عام نمازوں کے اعتبار سے بڑھا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس رکوع میں سبحان ربی العظیم سبحان ربی العظیم فرماتے رہتے۔ پھر رکوع سے سر مبارک اٹھا کر کھڑے ہوئے اور یہ کھڑا ہونا بھی رکوع ہی جیسا تھا۔ اس وقت لربی الحمد لربی الحمد فرماتے رہے پھر سجدہ ادا کیا اور وہ سجدہ بھی کھڑے ہونے کے برابر ہی تھا۔ اس میں سبحان ربی الاعلی سبحان ربی الاعلیٰ فرماتے رہے پھر سجدہ سے اٹھ کر بیٹھے یہ بھی سجدہ کی طرح طویل تھا اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رب اغفر لی رب اغفرلی فرماتے رہے۔ غرض سورہ نساء، سورہ مائدہ یا سورہ انعام راوی کو ان اخیر کی دو سورتوں میں شک ہو گیا ہے کہ کونسی تھی لیکن اول کی تین محقق ہیں ۔ غرض تینوں سورتیں وہ اور ان دونوں میں سے ایک سورت یہ چاروں سورتیں تلاوت فرمائیں۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے مدینہ کی ہر چیز منور اور روشن بن گئی تھی ( اور جب انوار کی کثرت ہوتی ہے تو اس قسم کی روشنی محسوس بھی ہو جاتی ہے۔ رمضان المبارک کی اندھیری راتوں میں بسا اوقات انوار کی کثرت سے روشنی ہو جاتی ہے اور جس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو مدینہ کی ہر چیز تاریک بن گئی تھی ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مٹی سے ہاتھ بھی نہ جھاڑنے پائے تھے کہ ہم نے اپنے قلوب میں تغیر پایا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازؤں پر ہاتھ رکھ کر یہ فرمایا ہائے نبی ہائے صفی اور ہائے خلیل۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار نصیب ہوا وہ وقت تھا جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں دو شنبہ کے روز صبح کی نماز کے وقت دولت کدہ کا پردہ اٹھایا کہ امتیوں کی نماز کا آخری معائنہ فرمالیں ۔ لوگ اس وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے (صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر فرطِ خوشی میں پیچھے ہٹنے لگے اس خیال سے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہوں اس لئے کہ اس سے پہلے بھی بیماری کے ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے اور جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوتا تھا تشریف لا کر جماعت میں شرکت فرماتے تھے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور اسی دن وصال ہو گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وصال کے وقت میں نے حضور عالی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے سینہ پر سہارا دے رکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کے لئے طشت منگوایا اور پیشاب سے فراغت حاصل کی اور اس کے بعد پھر وصال ہو گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وصال کے وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ایک پیالہ میں پانی رکھا ہوا تھا کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ہاتھ ڈالتے تھے اور چہرہ مبارک پر پھیرتے تھے (کہ یہ شدت حرارت اور گھبراہٹ کے وقت سکون کا سبب ہوتا ہے) اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الٰہی میں یہ دعا فرما رہے تھے کہ یا اللہ موت کے شدت پر میری امداد فرما۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت تکلیف کے بعد اب مجھے کسی شخص کے مرض الموت میں تکلیف نہ ہونے پر رشک نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دو شنبہ کے روز ہوا۔
امام باقر رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دو شنبہ کے روز ہوا۔ یہ روز اور سہ شنبہ کا روز انتظام میں گزرا اور منگل بدھ کی درمیانی شب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر شریف میں اتارا گیا۔ سفیان رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ امام باقر رحمة اللہ علیہ کی حدیث میں وہی ہے جو گزرا لیکن اور روایت میں یہ بھی ہے کہ اخیر حصہ شب میں پھاؤڑوں کی آواز آتی تھی۔
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دو شنبہ کے روز ہوا اور سہ شنبہ کو دفن کئے گئے۔
سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الوفات میں بار بار غشی ہوتی تھی اور جب افاقہ ہوتا تو زبان سے یہ نکلتا کہ نماز کا وقت ہو گیا یا نہیں اور نماز کا وقت ہو جانے کا حال معلوم ہونے پر چونکہ مسجد تک تشریف لے جانے کی طاقت نہ تھی اس لئے ارشاد عالی ہوتا کہ بلال رضی اللہ عنہ سے کہو کہ نماز کی تیاری کریں اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں ۔ متعدد مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ (لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ طبعی طور پر نرم دل پیدا ہوئے تھے رقت اکثر طاری ہو جاتی تھی اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کا تعلق ان کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جانتی تھیں کہ میرے باپ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالی جگہ نہ دیکھی جائے گی اس لئے) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے درخواست کی کہ میرا باپ ابوبکر رقیق القلب ہے جب حضور اکرم صلی اللہ کی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں گے تو رونے لگیں گے اور نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھیں گے اس لئے کسی اور کو فرما دیجئے کہ نماز پڑھائیں اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعدد مرتبہ سوال وجواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم یوسف علیہ السلام کے قصہ والی عورتیں بننا چاہتی ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ نماز پڑھائیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات کی سخت تکلیف برداشت فرما رہے تھے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ہائے ابا کی تکلیف! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد تیرے باپ پر کچھ تکلیف نہیں رہے گی۔ بے شک آج تیرے باپ پر وہ اٹل چیز اتری ہے یعنی موت جو قیامت تک کبھی کسی سے ٹلنے والی نہیں ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دو بچے ذخیرہ آخرت بن جائیں تو حق تعالیٰ شانہ ان کی بدولت اس کو ضرور جنت میں داخل فرمائیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کا ایک ہی بچہ ذخیرہ بنا ہو اس کا کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا ایک ہی بچہ چل دیا وہ بھی بخش دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جس کا ایک بچہ بھی نہ مرا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لئے میں ذخیرہ آخرت بنوں گا اس لئے کہ میری وفات کا رنج آل واولاد سب سے زیادہ ہو گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوا ( کسی نے مسجد نبوی کو پسند کیا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرب کی وجہ سے بقیع کو کسی کا خیال جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مدفن پر پہنچانے کا ہوا تو کسی کا وطن اصلی مکہ مکرمہ واپس لانے کا ۔ غرض مختلف رائیں ہو رہی تھیں) کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے جو مجھے خوب یاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا وصال اسی جگہ ہوتا ہے جہاں ان کا پسندیدہ دفن ہو۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے وصال ہی کی جگہ دفن کرنا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے وارث دینار اور درہم تقسیم نہ کریں میرے ترکہ سے اہل و عیال کا نفقہ اور میرے عامل کا نفقہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ صدقہ ہے۔
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دینار چھوڑا نہ درہم، نہ بکری، نہ اونٹ۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے غلام اور باندی کے ذکر میں شک ہو گیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ نہ غلام نہ باندی یا نہیں فرمایا۔"
عمرو بن الحارث جو ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکہ میں صرف ہتھیار اور اپنی سواری کا خچر اور کچھ حصہ زمین کا چھوڑا تھا اور ان کو بھی صدقہ فرما گئے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائیں اور دریافت فرمایا کہ تمہارا کون وارث ہو گا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے اہل و عیال۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا پھر میں اپنے والد کے متروکہ کی وارث کیوں نہیں بنی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ البتہ (میں وقف کا متولی ہونے کی وجہ سے) جن لوگوں کا روزینہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما رکھا تھا اس کو میں بھی ادا کروں گا اور جن لوگوں پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے ان پر میں بھی خرچ کروں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم انبیاء علیہ السلام کی جماعت جو مال چھوڑتی ہے وہ صدقہ ہوتا ہے۔
مالک بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پاس عبدالرحمن بن عوف اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص بھی تشریف لائے۔ (اس کے تھوڑی دیر بعد) حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جھگڑتے ہوئے تشریف لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب حضرات کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کیا تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا علم ہے ہم انبیاء کی جماعت کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے جو کچھ ہم ترکہ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ان سب حضرات نے فرمایا کہ بے شک یہ حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا ہے اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔
"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے حقیقتاً مجھ ہی کو دیکھا اس لئے کہ شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا۔"
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی آپ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے حقیقتا مجھ ہی کو دیکھا ہے اس لئے کہ شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا۔
"ابوالبختری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے پاس تشریف لائے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کر رہا تھا اور اس کو انتظام کے ناقابل بتا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکابر صحابہ حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم، ان سب حضرات کو متوجہ فرما کر یہ فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم سب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مال صدقہ ہوتا ہے بجز اس کے جو وہ اپنے اہل کو کھلائے ہم انبیاء علیہ السلام کی جماعت کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے۔ اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔"
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے بارے میں مختلف روایات
"امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا انہوں نے فرمایا کہ چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ حضرت میں حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا انہوں نے بتایا کہ ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے ۔ ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا میں نے ایسے ہی بچھا دیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو دریافت کیا کہ میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی ؟میں نے عرض کیا کہ وہی روز مرہ کا بستر تھا رات کو اسے چوہرا کر دیا تھا کہ زیادہ نرم ہو جائے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پہلے ہی حال پر رہنے دو، اس کی نرمی رات کو مجھے تہجد سے مانع ہوئی۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔ کھانے میں ثرید تھا اور اس پر کدو پڑا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو چونکہ مرغوب تھا اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے کدو نوش فرمانے لگے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرے لئے کوئی کھانا تیار نہیں کیا گیا جس میں مجھے کدو ڈلوانے کی قدرت ہو اور کدو اس میں نہ ڈالا گیا ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ حد سے افزوں نہ کرو جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا (کہ اللہ کا بیٹا ہی بنا دیا) میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس لئے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی عورت نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے کچھ تخلیہ میں عرض کرنا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی سڑک کے راستہ پر بیٹھ جائیں وہیں آ کر سن لوں گا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت فرماتے تھے جنازوں میں شرکت فرماتے تھے گدھے پر سوار ہو جاتے تھے غلاموں کی دعوت قبول فرما لیتے تھے آپ بنو قریظہ کی لڑائی کے دن ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پھرٹوں کی اور کاٹھی بھی اس کی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پرانی چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کو بھی بے تکلف) قبول فرما لیتے ۔ آپ کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ اخیر عمر تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے چھڑانے کے لائق دام نہیں ہوئے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے پالان پر حج کیا۔ اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہیں ہو گا۔ (یہ بھی ممکن ہے کہ اس پر سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا ہو یعنی آپ معمولی سی چادر اوڑھے ہوئے تھے جو چار درہم کی بھی نہیں تھی بعض فضلائے درس کے نزدیک یہ مطلب زیادہ پسندیدہ ہے۔ لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک پہلا مطلب زیادہ راجح ہے اور اس باب کی گیارہویں حدیث اس کی تائید کرتی ہے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرمائیو جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص دنیا میں نہیں تھا اس کے باوجود پھر بھی وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں تھا۔
"حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اکثر بیان کرتے تھے اور مجھے ان کے سننے کا اشتیاق تھا تو انہوں نے میرے پوچھنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ شریف کا ذکر فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند پایہ وبلند مرتبہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور بدر کی طرح چمکتا تھا اور پورا حلیہ شریف (جیسا کہ شروع کتاب میں پہلے باب کی ساتویں حدیث میں مفصل گزر چکا ہے) بیان فرمایا امام حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (بعض وجوہ سے) اس حدیث کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے ایک عرصہ تک ذکر نہیں کیا۔ ایک عرصہ کے بعد ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے اس حدیث کو سن چکے تھے اور صرف یہی نہیں کہ ماموں جان سے یہ حدیث سن لی ہو بلکہ والد صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ کے مکان میں تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور حضور اکرم صلی اللہ کا طرز وطریقہ بھی معلوم کر چکے تھے ۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔ ایک حصہ حق تعالیٰ شانہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے مثلاً ان سے ہنسنا بولنا بات کرنا ان کے حالات کی تحقیق کرنا تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لئے رکھتے تھے پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ اس طرح کہ خصوصی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس وقت میں داخل ہوتے ان خواص کے ذریعہ سے مضامین عوام تک پہنچتے۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھا کر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے امور میں نہ دنیوی منافع میں ۔ غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے) امت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی اہل علم وعمل کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے۔ اس وقت کو ان کے فضلِ دینی کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے بعض آنے والے ایک حاجت لے کر آتے اور بعض حضرات دو دو حاجتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے اور بعض حضرات کئی کئی حاجتیں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور اکرم صلی اللہ ان کی تمام حاجتیں پوری فرمایا کرتے تھے اور ان کو ایسے امور میں مشغول فرماتے جو خود ان کی اور تمام امت کی اصلاح کے لئے مفید اور کار آمد ہوں مثلاً ان دینی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی طرف سے مناسب امور کی ان کو اطلاع فرمانا اور ان علوم ومعارف کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمادیا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری اصلاحی امور کو غائبین تک بھی پہنچا دیں اور نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ کسی عذر (پردہ یا دوری یا شرم یا رعب) کی وجہ سے مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا سکو تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ لہٰذا تم لوگ اس میں ضرور کوششیں کیا کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ضروری اور مفید ہی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا اور ایسے ہی امور کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے خوشی سے سنتے تھے اس کے علاوہ لایعنی اور فضول باتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ ہوتی تھیں۔ صحابہ رضی اللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دینی امور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور بلا کچھ چکھے وہاں سے نہیں آتے تھے ( چکھنے سے مراد امور دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اور حسی چکھنا بھی مراد ہو سکتا ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ موجود ہوتا اس سے تواضع فرماتے اور خصوصی احباب کا جب مجمع ہوتا ہے تو موجودہ چیز کی تواضع ہوتی ہی ہے) صحابہ کرام حضور اقدس صلی اللہ علی وسلم کی مجلس سے ہدایت اور خیر کے لئے مشعل اور رہنما بن کر نکلتے تھے کہ وہ ان علوم کو حسب ارشاد دوسروں تک پہنچاتے رہتے تھے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے باہر تشریف آوری کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ ضروری امور کے علاوہ اپنی زبان کو محفوظ رکھتے تھے، فضول تذکروں میں وقت ضائع نہیں فرماتے تھے۔ آنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے ان کو مانوس فرماتے۔ متوحش نہیں فرماتے تھے (یعنی تنبیہ وغیرہ میں ایسا طرز اختیار نہ فرماتے جس سے ان کو حاضری میں وحشت ہونے لگے یا ایسے امور ارشاد نہ فرماتے تھے جن کی وجہ سے دین سے نفرت ہونے لگے) ہر قوم کے کریم اور معزز کا اکرام و اعزاز فرماتے اور اس کو خود اپنی طرف بھی اسی قوم پر متولی اور سردار مقرر فرما دیتے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ( یا مضر امور سے بچنے کی تاکید فرماتے یا لوگوں کو دوسروں سے احتیاط رکھنے کی تاکید فرماتے) اور خود اپنی بھی لوگوں کے تکلیف پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے حفاظت فرماتے لیکن باوجود خود احتیاط رکھنے اور احتیاط کی تاکید کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی کو نہیں ہٹاتے تھے۔ اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے اور لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرما کر ان کی اصلاح فرماتے اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بری بات کی برائی فرما کر اس کو زائل فرماتے اور روک دیتے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر امر میں اعتدال اور میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ تلون اور گڑبڑ کہ کبھی کچھ فرمادیا اور کبھی کچھ لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے تھے کہ مبادہ وہ دین سے غافل ہو جائیں یا کسی امر میں حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے دین سے اکتا جائیں (اس لئے حضور اکرم صلی اللہ ان کے حالات سے غفلت نہ فرماتے تھے) ہر کام کے لئے آپ کے یہاں ایک خاص انتظام تھا۔ امرِ حق میں نہ کبھی کوتاہی فرماتے تھے، نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے خلقت کے بہترین افراد ہوتے تھے۔ آپ کے نزدیک افضل وہی ہوتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہو، یعنی ہر شخص کی بھلائی چاہتا ہو آپ کے نزدیک بڑے رتبے والا وہی ہوتا تھا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے حالات دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی نشست وبرخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی اور جب کسی جگہ آپ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف رکھتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے کہ جہاں خالی جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جایا کریں ۔ لوگوں کے سروں کو پھلانگ کر آگے نہ جایا کریں یہ امر جدا گانہ ہے کہ جس جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے وہی جگہ پھر صدر مجلس بن جاتی، آپ حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا حق ہوتا اس کو پورا فرماتے کہ آپ کے پاس ہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرا سب سے زیادہ اکرام فرما رہے ہیں ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کسی امر میں آپ کی طرف مراجعت کرتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہی خود اٹھنے کی ابتدا کرے۔ جو آپ سے کوئی چیز مانگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مرحمت فرماتے یا اگر نہ ہوتی تو نرمی سے جواب فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی تمام لوگوں کے لئے عام تھی، آپ تمام خلقت کے شفقت میں باپ تھے اور تمام خلقت حقوق میں آپ کے نزدیک برابر تھی۔ آپ کی مجلس، مجلس علم وحیا اور صبر وامانت تھی (یعنی یہ چاروں باتیں اس میں حاصل کی جاتی تھیں یا یہ کہ یہ چاروں باتیں اس میں موجود ہوتی تھیں) نہ اس میں شور و شغب ہوتا تھا نہ کسی کی عزت وآبرو اتاری جاتی تھی آپس میں سب برابر شمار کئے جاتے تھے (حسب ونسب کی بڑائی نہ سمجھتے تھے البتہ) ایک دوسرے پر فضیلت تقویٰ سے ہوتی تھی ہر شخص دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آتا تھا، بڑوں کی تعظیم کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، اہل حاجت کو ترجیح دیتے تھے، اجنبی مسافر آدمی کی خبر گیری کرتے تھے۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے بکری کا ایک پیر بھی دیا جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر اس کی دعوت کی جائے تو میں ضرور جاؤں گا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (میری عیادت کے لئے) تشریف لائے نہ خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر (یعنی نہ گھٹیا سواری تھے نہ بڑھیا بلکہ پیادہ تشریف لائے)۔
عمرة کہتی ہیں کہ کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دولت کدہ پر کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے اپنے کپڑے میں خود ہی جوں تلاش کر لیتے تھے اور خود ہی بکری کا دودھ نکال لیتے تھے اور اپنے کام خود ہی کر لیتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کجاوہ پر حج کیا۔ جس پر ایک کپڑا تھا جس کی قیمت ہمارے خیال میں چار درہم ہو گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے کہ خدایا اس حج کو ریا اور شہرت سے مبرا فرمائیو۔
یوسف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف تجویز فرمایا تھا اور مجھے اپنی گود میں بٹھلایا تھا اور میرے سر پر دستِ مبارک پھیرا تھا۔