• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوال کے 6 روزے :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
11060949_864467783648083_2348846955625144203_n (1).png



شوال کے 6 روزوں کی فضیلت :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا من شَوَّالٍ كان كَصِيَامِ الدَّهْرِ
جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔


(رواه مسلم ، كتاب الصيام ، الحديث1164 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ماہ شوال کے چھ دن کے روزوں کی فضیلت و ثبوت

عن ابي ايوب قال:‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر ". وفي الباب عن جابر وابي هريرة وثوبان. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث ابي ايوب حديث حسن صحيح قال:‏‏‏‏ وقد روى عبد العزيز بن محمد عن صفوان بن سليم وسعد بن سعيد هذا الحديث عن عمر بن ثابت عن ابي ايوب عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا. وروى شعبة عن ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد هذا الحديث وسعد بن سعيد هو اخو يحيى بن سعيد الانصاري وقد تكلم بعض اهل الحديث في سعد بن سعيد من قبل حفظه.
سنن الترمذي ، حدیث نمبر: 759 ۔۔باب ما جاء في صيام ستة أيام من شوال ۔۔باب: شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1716)
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

اس حدیث کو درج کرنے کے امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال:‏‏‏‏ اخبرنا الحسين بن علي الجعفي عن إسرائيل ابي موسى عن الحسن البصري قال:‏‏‏‏ كان إذا ذكر عنده صيام ستة ايام من شوال فيقول:‏‏‏‏ والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.
کہ جناب حسن بصری کے پاس جب شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ،،
مزید لکھتے ہیں
وقد استحب قوم صيام ستة ايام من شوال بهذا الحديث قال ابن المبارك:‏‏‏‏ هو حسن هو مثل صيام ثلاثة ايام من كل شهر قال ابن المبارك:‏‏‏‏ ويروى في بعض الحديث ويلحق هذا الصيام برمضان واختار ابن المبارك ان تكون ستة ايام في اول الشهر وقد روي عن ابن المبارك انه قال:‏‏‏‏ إن صام ستة ايام من شوال متفرقا فهو جائز
کئی ائمہ نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں،
اور عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۔۔ اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۲۹ (۱۱۶۴)، سنن ابی داود/ الصیام ۵۸ (۲۴۳۳)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۳ (۱۷۱۶)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵)، (تحفة الأشراف : ۳۴۸۲) (حسن صحیح)وضاحت:
شرح
۱؎ : ” ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے “ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ما حكم صيام الستّ من شوال ، وهل هي واجبة ؟.
صيام ست من شوال بعد فريضة رمضان سنّة مستحبّة وليست بواجب ، ويشرع للمسلم صيام ستة أيام من شوال ، و في ذلك فضل عظيم ، وأجر كبير ذلك أن من صامها يكتب له أجر صيام سنة كاملة كما صح ذلك عن المصطفى صلى الله عليه وسلم
كما في حديث أبي أيوب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم
قال : " من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر . " رواه مسلم وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه.

وقد فسّر ذلك النبي صلى الله عليه وسلم بقوله : " من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة : (من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها ) .
" وفي رواية : " جعل الله الحسنة بعشر أمثالها فشهر بعشرة أشهر وصيام ستة أيام تمام السنة "
النسائي وابن ماجة وهو في صحيح الترغيب والترهيب 1/421
ورواه ابن خزيمة ،بلفظ : " صيام شهر رمضان بعشرة أمثالها وصيام ستة أيام بشهرين فذلك صيام السنة " .

وقد صرّح الفقهاء من الحنابلة والشافعية : بأن صوم ستة أيام من شوال بعد رمضان يعدل صيام سنة فرضا ، وإلا فإنّ مضاعفة الأجر عموما ثابت حتى في صيام النافلة لأن الحسنة بعشرة أمثالها .
ثم إنّ من الفوائد المهمّة لصيام ستّ من شوال تعويض النّقص الذي حصل في صيام الفريضة في رمضان إذ لا يخلو الصائم من حصول تقصير أو ذنب مؤثّر سلبا في صيامه ويوم القيامة يُؤخذ من النوافل لجبران نقص الفرائض كما قال صلى الله عليه وسلم : " إن أول ما يحاسب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة قال يقول ربنا جل وعز لملائكته وهو أعلم انظروا في صلاة عبدي أتمها أم نقصها فإن كانت تامة كتبت تامة وإن انتقص منها شيئا قال انظروا هل لعبدي من تطوع فإن كان له تطوع قال أتموا لعبدي فريضته من تطوعه ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم " رواه أبو داود . والله أعلم .


الشيخ محمد صالح المنجد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
سوال :
شوال کے چھ روزں کا حکم کیا ہے ، اورکیا یہ روزے واجب ہيں ؟

جواب :
الحمد للہ
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ مستحب ہیں ، اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کےبعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ اسے پورے سال کا اجر ملتا ہے ۔
ابوایوب انصاری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں ) صحیح مسلم ، سنن ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ۔


اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح اورتفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ :
جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔
( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا )
اورایک روایت میں ہے کہ :
اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لھذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اورچھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں ۔سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب ( 1 / 421 ) ۔
اورابن خزیمہ نے مندرجہ ذيل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :
( رمضان المبارک کےروزے دس گنا اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ) ۔

حنابلہ اورشوافع فقھاء کرام نے تصریح کی ہے کہ :رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا پورے ایک سال کے
فرضی روزوں کے برابر ہے ، وگرنہ تو عمومی طور پر نفلی روزوں کا اجروثواب بھی زيادہ ہونا ثابت ہے ، کیونکہ ایک نیکی دس کے برابر ہے ۔

پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزےرمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔
اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( روز قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہمارا رب ‏عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ، اگر تو مکمل ہونگي تومکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئي تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھوں میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تواس کے نوافل ہونگے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے )
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 733 ) ۔
واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
بہر حال اس کی فضیلت ہے اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔صرف 6 دن کے روزے سے پورے دہر کا ثواب ملتا ہے اب کون مسلمان اس اجر عظیم سے محروم ہونا پسند کرے گا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں ، شوال کے ان چھ روزوں سے اللہ تعالی اُس کوتاہی اور کمی کو دور فرما دیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے رہی نسبت ہوگی جو سنن و نوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالی سنن و نوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرما دیتا ہے جیسا کہ واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دور حا ضر کے بعد روشن خیا ل مجتہدین ما ہ شوال کے چھ روزوں کو مکرو ہ کہتے ہیں نیز امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ان کی کراہت منقو ل ہے اگر چہ متا خرین نے ان سے اتفا ق نہیں کیا تا ہم ان مفرو ط کا جا ئز ہ لینا ضروری ہے جن کی بنا پر ان چھ روزوں کو مکروہ کہا جاتا ہے کتاب و سنت کی رد سے عید الفطر کے بعد ما ہ شوا ل کے چھ روزے رکھنا مستحب ہیں احا دیث میں ان روزوں کی بہت فضیلت بیا ن ہو ئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ما تے ہیں :
"جس نے ما ہ رمضا ن روزوں سے گزارا پھر شوال کے چھ روزے رکھے اسے سال بھر کے روزے رکنھے کا ثواب ہو گا ۔(صحیح مسلم کتا ب الصوم )
بروایت طبرا نی حضرت ابو ایو ب انصا ری رضی ا للہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ ایک روزہ دس دنو ں کے برابر حیثیت رکھتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اب میں فر ما یا " ہا ں ایسا ہی ہے (ترغیب : 2/111)
حضرت ثو بان رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے مز ید وضا حت مر وی ہے کہ ما ہ رمضا ن کے روزے دس ما ہ کے برابر ہیں اور اس کے کے بعد شوال کے چھ روزے دو ما ہ کے مسا وی ثواب رکھتے ہیں اس طرح یہ سال بھر کے روزے ہوئے ۔(صحیح ابن خز یمہ : 2/298)
حضرت جا بر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" جس نے ما ہ رمضا ن کے مکمل اور ان کے بعد ما ہ شوال کے چھ روزے رکھے اس نے گو یا پو رے سا ل کے روزے رکھے ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :3/324)
حضرت ابن عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں ان روزوں کی فضیلت ایک دوسر ے اندا ز سے بیا ن ہو ئی ہے ارشا د نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس نے ما ہ رمضا ن کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے بھی چھ روزے پو رے کیے وہ گنا ہو ں سے یو ں پاک ہو جا تا ہے گو یا آج ہی شکم ما در سے پیدا ہو ا ہے ۔(ترغیب :2/111)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اور حضرت براء بن عاز ب رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے بھی ما ہ شوال کے چھ روزوں کی ترغیب و فضیلت کے متعلق احا دیث مروی ہیں بہتر ہے کہ عید الفطر کے متصل بعد چھ روزے مسلسل رکھ لیے جا ئیں تا ہم اگر ماہ شوال میں متفرق طور پر بھی رکھ لیے جا ئیں تو بھی جا ئز ہے ۔(ترغیب)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے متعلق کر اہت منقو ل ہے ؛
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ : میں نے کسی اہل علم کو یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا اور نہ مجھے ان کے متعلق اسلاف کا طرز عمل پہنچا ہے بلکہ اہل علم انہیں مکرو خیا ل کر تے ہیں اور ان کے بد عت ہو نے کا اندیشہ رکھتے ہیں مز ید یہ بھی اند یشہ ہے کہ نا دا ن لو گ اپنی جہا لت کی وجہ سے رمضا ن کے سا تھ ایک ایسی چیز کا الحا ق کر دیں گے جو اس سے نہیں ہے ۔( مؤطا امام ملک رحمۃ اللہ علیہ )
جہاں تک ان کے بد عت ہو نے کا تعلق ہے تو یہ ایک بے بنیا د شو شہ ہے کیو نکہ متعدد صحا بہ کرا م رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے ان روزوں کی مشرو عیت مرو ی ہے جیسا کہ پہلے بیا ن ہو ا ہے با قی امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ میں نے کسی اہل علم یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا تو اس کے متعلق علا مہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں "مخفی نہ ہے کہ اگر لو گ سنت پر عمل کر نا ترک کر دیں تو ان کا یہ عمل ترک سنت کے لیے دلیل نہیں بن سکتا ۔(نیل الا وطا ر ؒ4/322)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شر ح مسلم میں لکھتے ہیں جب سنت ثا بت ہو جا ئے تو اسے با یں وجہ نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا ۔(شرح مسلم :1/329)
عین ممکن ہے کہ امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ تک مذکو رہ احا دیث نہ پہنچی ہو ں یا وہ انہیں صحیح نہ سمجھتے ہو ں اسی طرح امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے چند ایک وجو ہ کے پیش نظر اسے قا بل عمل نہیں سمجھا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے : شوال کے روزوں کو ما ہ رمضا ن کے روزوں کے ساتے ملا کر رکھنے کو زما نہ بھر کے روزوں سے تشبیہ دی گئی ہے حا لا نکہ ہمیشہ روزہ رکھنے سے متعلق حکم امتنا عی متعد د احا دیث میں مروی ہے چنا نچہ حضرت ابن عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے اس کی کیا حیثیت ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :کہ اس نے نہ روزہ رکھا نہ افظا ر کیا ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے روزوں کی کو ئی شرعی حیثیت نہیں ہے یہ اعتراض اس لیے بے بنیا د ہے کہ حدیث میں صرف ثوا ب کو تشبیہ دی گئی ہے بلا شبہ ہمیشہ کے روزے رکھنا منع ہے لیکن ما ہ شوال کے روزوں کو حقیقت کے اعتبا ر سے نہیں بلکہ اجر و ثو اب کے لحا ظ سے انہیں صیا م الد ھر کہا گیا ہے لہذا یہ حکم امتنا عی میں شا مل نہیں ہیں جیسا کہ ہر ما ہ کے تین روزے رکھنے کے متعلق حدیث ہے :" کہ اس نے گو یا زما نہ بھر کے روزے رکھے ۔(سنن نسا ئی کتا ب الصو م )
ان پر مد اومت کر نے سے عوام النا س میں یہ اعتقاد ابھر نے کا اند یشہ ہے کہ شا ید بھی ضروری ہیں حا لا نکہ اس اعتراض کی کو ئی حیثیت نہیں ہے کیو نکہ اس قسم کے اندیشہ ہا ئے دو دراز کی وجہ سے کس سنت کا خو ن کیا جا ئے گا عا شو ر ہ اور یو م عر فہ کے روزے بھی اس ضا بطہ کی زد میں آتے ہیں اگر چہ امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ما ہ شوال کے ان چھ روزوں کے متعلق کراہت کا اظہا ر کیا ہے لیکن متا خر ین احنا ف نے امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس مو قف سے اتفا ق نہیں کیا چنانچہ لکھا ہے :"امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نز دیک ما ہ شوال کے چھ روزے مکرو ہ ہیں خو اہ مسلسل رکھے جا ئیں یا متفرق طور پر البتہ مام یو سف رحمۃ اللہ علیہ مسلسل رکھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں جب کہ متفرق طور پر رکھنے کو جا ئز کہتے ہیں لیکن متا خرین احنا ف نے ان دونو ں حضرات سے اتفا ق نہیں کیا بلکہ ان کے نز دیک یہ چھ روزے رکھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے اور صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ ان روزوں کے رکھنے میں کو ئی مضا ئقہ نہیں ۔(فتا و ی عا لمگیری:1/280)
مختصر یہ ہے کہ ما ہ شوال کے چھ روزے بڑی فضیلت کے حا مل ہیں تکفیر سیئات اور رفع درجا ت کا ذریعہ ہے( اللہ تعا لیٰ عمل کی تو فیق دے ) آمین ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث

ج1ص218

محدث فتویٰ
 
Last edited:

بیبرس

رکن
شمولیت
جون 24، 2014
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
43
جزاک اللہ خيرا
اللہ شوال کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ -

شیخ محترم اسحاق سلفی بھائی اگر کوئی شخص رات کو شوال کے روزے کی نیت کر کے سوئے اور سحری میں اس کی آنکھ نہ کھلے تو کیا وہ بغیر سحری کے روزہ رکھ لے
 
Top