ماہ شوال کے چھ دن کے روزوں کی فضیلت و ثبوت
عن ابي ايوب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر ". وفي الباب عن جابر وابي هريرة وثوبان. قال ابو عيسى: حديث ابي ايوب حديث حسن صحيح قال: وقد روى عبد العزيز بن محمد عن صفوان بن سليم وسعد بن سعيد هذا الحديث عن عمر بن ثابت عن ابي ايوب عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا. وروى شعبة عن ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد هذا الحديث وسعد بن سعيد هو اخو يحيى بن سعيد الانصاري وقد تكلم بعض اهل الحديث في سعد بن سعيد من قبل حفظه.
سنن الترمذي ، حدیث نمبر: 759 ۔۔باب ما جاء في صيام ستة أيام من شوال ۔۔باب: شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1716)
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
اس حدیث کو درج کرنے کے امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال: اخبرنا الحسين بن علي الجعفي عن إسرائيل ابي موسى عن الحسن البصري قال: كان إذا ذكر عنده صيام ستة ايام من شوال فيقول: والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.
کہ جناب حسن بصری کے پاس جب شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ،،
مزید لکھتے ہیں
وقد استحب قوم صيام ستة ايام من شوال بهذا الحديث قال ابن المبارك: هو حسن هو مثل صيام ثلاثة ايام من كل شهر قال ابن المبارك: ويروى في بعض الحديث ويلحق هذا الصيام برمضان واختار ابن المبارك ان تكون ستة ايام في اول الشهر وقد روي عن ابن المبارك انه قال: إن صام ستة ايام من شوال متفرقا فهو جائز
کئی ائمہ نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں،
اور عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۔۔ اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۲۹ (۱۱۶۴)، سنن ابی داود/ الصیام ۵۸ (۲۴۳۳)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۳ (۱۷۱۶)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵)، (تحفة الأشراف : ۳۴۸۲) (حسن صحیح)وضاحت:
شرح
۱؎ : ” ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے “ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔