• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایک انتہائی اہم بات کہ یزید کو اہلسنت والجماعت نا ہی کافرسمجھتی اور نا ہی ملعون۔
ایک انتہائی سادہ اور صاف الفاظ میں جب اہلسنت والجماعت کا نظریہ یزید کے متعلق موجود ہے تو پھر کیوں معاملہ کو پیچیدہ در پیچیدہ کیا جارہا ہےاور وہ نظریہ یہ ہے کہ ہم نا ہی یزید کے برائی کرتے ہے اور نا ہی اس سے محبت کرتے ہے( آج کل کی زبان میں اچھا نہیں سمجھتے) ہے۔
کفایت اللہ صاحب نے امام ذہبی کا حوالہ دیا اس میں بھی اسی چیز کی صراحت ہے۔
باقی جو لوگ یزید کو گالیں دیتے ہیں، بلا وجہ تو یقینا غلطی کرتے ہیں۔
مگریہ بھی خیال رہے کہ اگر ایک شخص اٹھ کر یزید کو کو ایک برگزیدہ انسان، خلیفۃ المسلمین اور امیر المؤمنین وغیرہ نا صرف سمجھنا شروع کرے بلکہ اسکا پرچار بھی کرے تو پھر یقینا
'' ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے ''
کے مصداق کے نتیجہ میں یزید کے شخصیت پر انگلی بھی اٹھے گے اور اس کے کردار پر بھی بات ہوگی۔لہٰذا یزید کو اگر اہلسنت والجماعت کے نظریہ کے مطابق مانا جائے تو کوئی اختلاف نا ہوگا۔
امام غزالی رح اپنی کتاب الاحیاء العلوم میں لکھتے ہیں - "یزید بن معاویہ رح ایک نیک اور عادل حکمران تھے -جو ان کو فاسق و فاجر سمجھتا ہے وہ صریح غلطی پر ہے -

امام غزالی رح صوفی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور صوفی شیعہ مذہب سے کافی متاثر ہیں اور جس طرح اہل تشیع اپنے آپ کو حضرت علی و حسین رضی الله عنہ کی آل سمجھتے ہیں اس طرح صوفی بھی اہل بیت سے اپنا خوصوصی تعلق بتاتے ہیں - اب جب کہ ایک صوفی کا یہ فرمان ہے کہ یزید بن معاویہ رح کو فاسق و فاجر کہنا سخت غلطی اور گمراہی ہے - تو اس کا مطلب ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو بیان کی جاتی ہے- حقیقت کچھ اور تھی -
 

قمرالزمان

مبتدی
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
6
اورہاں علی رضی اللہ عنہ کے مخالفت کو آپ کیا نام دیتے ہیں یہ بھی بتانا نہ بھولئے گا۔
سردست علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا ایک حوالہ ملاحظہ فرمالیں:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا بُويِعَ لِعَلِيٍّ أَتَانِي فَقَالَ : إنَّك امْرُؤٌ مُحَبَّبٌ فِي أَهْلِ الشَّام ، وَقَدِ اسْتَعْمَلْتُك عَلَيْهِمْ ، فَسِرْ إلَيْهِمْ ، قَالَ : فَذَكَرْت الْقَرَابَةَ وَذَكَرْت الصِّهْر ، فَقُلْتُ : أَمَّا بَعْدُ فَوَاللهِ لاَ أُبَايِعُك ، قَالَ : فَتَرَكَنِي وَخَرَجَ ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ جَاءَ ابْنُ عُمَرَ إلَى أُمِّ كُلْثُومٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهَا وَتَوَجَّهَ إلَى مَكَّةَ ، فَأُتِيَ عَلِيٌّ رحمه الله فَقِيلَ لَهُ : إنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ تَوَجَّهَ إلَى الشَّامِ ، فَاسْتَنْفِرَ النَّاسَ ، قَالَ : فَإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَعْجَلُ حَتَّى يُلْقِيَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِ بَعِيرِهِ ، قَالَ : وَأَتَيْت أُمَّ كُلْثُومٍ فَأُخْبِرَتْ ، فَأَرْسَلتْ إلَى أَبِيهَا : مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعُ ، قَدْ جَاءَنِي الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ، وَتَوَجَّهَ إلَى مَكَّةَ ، فَتَرَاجَعَ النَّاسُ.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح ]

اس روایت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا اللہ کی قسم میں آپ سے بیعت نہیں کروں گا۔
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔[/quote]


ان کا موقف تھا کہ جس کے متعلق بھی اختلاف ہوگا، تو ان کی بیعت نہیں کی جائے گی۔ لہذا انہوں نے حضرت علی، حضرت عبداللہ بن زبیر اور عبد الملک کی بیعت نہیں کی، اور معاویہ کی بیعت تب کی جب حضرت حسن نے اس سے صلح کر لی۔ اور یزید کی بیعت تب کی،اس وقت یزید کا کوئی مخالف نہ تھا۔

وكان عبد الله بن عمر في تلك المدة امتنع ان يبايع لابن الزبير أو لعبد الملك كما كان امتنع ان يبايع لعلي أو معاوية ثم بايع لمعاوية لما اصطلح مع الحسن بن علي واجتمع عليه الناس وبايع لابنه يزيد بعد موت معاوية لاجتماع الناس عليه ثم امتنع من المبايعة لأحد حال الاختلاف إلى ان قتل بن الزبير وانتظم الملك كله لعبد الملك فبايع له حينئذ فهذا معنى قوله لما اجتمع الناس على عبد الملك وأخرج يعقوب بن سفيان في تاريخه من طريق سعيد بن حرب العبدي قال بعثوا إلى بن عمر لما بويع بن الزبير فمد يده وهي ترعد فقال والله ما كنت لأعطي بيعتي في فرقة ولا امنعها من جماعة

اور آپ کی یہ "شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح""

یہ روایت بسند صحیح نہیں بلکہ سخت منقطع ہے " وقال المدائني " مدائنی 224 ھ میں وفات پاگئے اور حافظ ذہبی 673 ھ میں پیدا ہوئے۔

خدا کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنا بند کریں اور یزید کی حمایت و وکالت میں صحابہ پر بہتان نہ باندھیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وكان عبد الله بن عمر في تلك المدة امتنع ان يبايع لابن الزبير أو لعبد الملك كما كان امتنع ان يبايع لعلي أو معاوية ثم بايع لمعاوية لما اصطلح مع الحسن بن علي واجتمع عليه الناس وبايع لابنه يزيد بعد موت معاوية لاجتماع الناس عليه ثم امتنع من المبايعة لأحد حال الاختلاف إلى ان قتل بن الزبير وانتظم الملك كله لعبد الملك فبايع له حينئذ فهذا معنى قوله لما اجتمع الناس على عبد الملك وأخرج يعقوب بن سفيان في تاريخه من طريق سعيد بن حرب العبدي قال بعثوا إلى بن عمر لما بويع بن الزبير فمد يده وهي ترعد فقال والله ما كنت لأعطي بيعتي في فرقة ولا امنعها من جماعة

اور آپ کی یہ "شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح""

یہ روایت بسند صحیح نہیں بلکہ سخت منقطع ہے " وقال المدائني " مدائنی 224 ھ میں وفات پاگئے اور حافظ ذہبی 673 ھ میں پیدا ہوئے۔

خدا کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنا بند کریں اور یزید کی حمایت و وکالت میں صحابہ پر بہتان نہ باندھیں۔
آپ صاحب علم معلوم ہوتے ہیں۔ مجھے زیادہ علم نہیں۔ لیکن علماء کی صحبت میں اتنا تو سیکھ ہی لیا ہے کہ آپ جس بات کو بنیاد بنا کر روایت میں انقطاع پیش کر رہے ہیں، وہ بذات خود غلط ہے۔ کیونکہ صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ یزید کی مخالفت میں دور حاضر میں کوئی سا بھی لٹریچر تحریری ، تقریری اٹھا کر دیکھ لیجئے، معلوم نہیں کیوں خاص اس معاملے میں جذبات کو عقل و نقل پر ترجیح دی جاتی ہے، ہر شخص ہی غصے اور جذبات میں جھاگ اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بھئی علمی اختلاف ہے، آرام سے بات کر لیجئے۔ اپنی بات دلائل سے رکھ دیں، دوسرے کی ٹھنڈے دل سے سن لیں، اس کی ٹھیک ہو تو مان لیجئے، ٹھیک نہ لگے تو اس کی تردید کر دیجئے احسن انداز میں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ شوق تردید میں علم الحدیث کے اصولوں کی پروا ہے نہ اہل علم کا کوئی احترام۔

ایک بات کا جواب دیا جا چکا ہے تو وہی بات دہرانے سے کیا حاصل؟ جواب کا جواب دیجئے؟ شوق تردید میں کچھ نہ کچھ لکھ ڈالنے ہی کو جواب سمجھنا بھی عجیب ہے۔ اب ملاحظہ کیجئے کہ جو اعتراض آپ یہاں کر رہے ہیں، محترم شیخ کفایت اللہ صاحب اس کا پہلی ہی پوسٹ میں جب مفصل جواب دے چکے ہیں، تو اعتراض دہرانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟

واضح رہے کہ امام مدائنی رحمہ اللہ صاحب تصنیفات ہیں خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی تصنیفات کے بارے میں کہا:
وهو صاحب المصنّفات المشهورة
یعنی امام مدائنی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں[تاريخ الإسلام ت بشار 5/ 638]۔
اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی کئی تصانیف کی ذکر بھی کیا ہے۔

اور صاحب تصنیف محدث کے حوالہ سے مع سند کوئی بات نقل کی جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ناقل نے اسے صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کیا ہے اور کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر ہوتی ہے ۔عصر حاضر کے محققین بھی اس کی طرح کے نقول کو حجت سمجھتے ہیں مثلا دکتور شیبانی نے اپنی کتاب مواقف المعارضہ میں اس طرح کی کئی روایات کو امام ذہبی وغیرہ سےنقل کرکے اس کی سندوں پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے اور دیگر اہل اعلم نے اس پر اعتبار کیا ہے اور اس کا حوالہ دیا ہے۔

محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ایسی روایت کی تصحیح کی ہے جو اصل مصنف کی کتاب میں‌موجود نہیں بلکہ دیگرناقلین نے اسے اپنی کتاب میں سند کے ساتھ نقل کردیا ہے ، مثلا ارواء میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے قنوت سے متعلق ایک روایت کو اس لئے حسن کہا کیونکہ اس کی ایک حسن سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کررکھا ہے ، اوراصل کتاب مفقود ہے۔

اسی طرح امام منذری کی ترغیب کی تحقیق میں بھی ایک روایت کی سند کو محض امام منذری کے نقل پر اعتماد کرتے ہوئے حسن کا ہے۔

معاصرین میں حافظ‌ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی دو رکعت میں تورک والی حدیث‌ کو حسن کہا ہے کیونکہ ابن سیدالناس نے اس کی سند کو نقل کررکھا ہے۔

اسی طرح موصوف نے ابن بطال کی شرح بخاری سے بزار کی ایک روایت کو نقل کرکے حسن کہا ہے اور ابن بطال نے یہاں پر محض بزار کے حوالے سے ایک سند ذکر کی ہے اور بزار کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔

حافظ ابن حجر اورابن سیدالناس تو ثقہ محدثین ہیں ، آج حال تو یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ مدرک رکوع سے متعلق ایک روایت کو مع سند مسائل احمد واسحاق سے نقل کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

لیکن یہ روایت مسائل احمد واسحاق کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے اسی طرح مسائل احمد کے جتنے بھی مخطوطات عام ہیں ان میں‌ بھی یہ روایت نہیں ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف ایک مخطوطہ سے اسے مع سند نقل کیا لیکن محققین ان کی نقل کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔

موجودہ دور میں بریلوی حضرات تاریخ میلاد سے متعلق ابن ابی شیبہ سے ایک روایت پیش کرتے ہیں لیکن ابن ابی شیبہ کی کتاب میں یہ روایت موجود ہی نہیں‌ ہے بلکہ امام ابن کثیر نے اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سےنقل کیا ہے چنانچہ:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔ [البداية والنهاية لابن کثیر: 3/ 109]

یہ روایت بریلوی حضرات ربیع الاول میں بڑے زور وشورسے پیش کرتے ہیں ، لیکن کوئی بھی بریلوی اس روایت کو ابن ابی شیبہ کی کتاب میں دکھا سکتا ہے؟؟؟؟

یاد رہے کہ میلاد سے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ کی مع سند نقل کردہ روایت کو ہم ضعیف کہتے ہیں ، لیکن اس لئے نہیں کہ یہ روایت اصل کتاب میں‌موجود نہیں بلکہ اس لئے کہ نقل کردہ یہ سند ہی ضعیف ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھیں میرا مضمون ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ''
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
امام غزالی رح اپنی کتاب الاحیاء العلوم میں لکھتے ہیں - "یزید بن معاویہ رح ایک نیک اور عادل حکمران تھے -جو ان کو فاسق و فاجر سمجھتا ہے وہ صریح غلطی پر ہے -

امام غزالی رح صوفی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور صوفی شیعہ مذہب سے کافی متاثر ہیں اور جس طرح اہل تشیع اپنے آپ کو حضرت علی و حسین رضی الله عنہ کی آل سمجھتے ہیں اس طرح صوفی بھی اہل بیت سے اپنا خوصوصی تعلق بتاتے ہیں - اب جب کہ ایک صوفی کا یہ فرمان ہے کہ یزید بن معاویہ رح کو فاسق و فاجر کہنا سخت غلطی اور گمراہی ہے - تو اس کا مطلب ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو بیان کی جاتی ہے- حقیقت کچھ اور تھی -

امام غزالی نے تو احیاء العلوم میں اور بھی بہت کچھ بولا ہے وہ بھی مانتے ہے یہ صوفی تھے صوفی شیطان کو لعن نہیں کرتا تو یزید تو انسان تھا اس سے یہ قیاس کرنا کہ وہ یزید کااچھا مانتے تھے پھر اور بھی باتیں مان لیں جو اس میں لکھی ہیں .
میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یزید کا رونا سیاسی تھا اس کو کوئی غم نہیں تھا اور یہ سب اچھی طرح جانتے ہے کہ یہ سیاسی لوگ کیسے خود مرواتے ہے پھر روتے ہے اگر یزید کے رونے کو غم اور اس کی بے گناہی مانے گے اور یہ کہ اس نے یہ قتل نہیں کروایا تو پھر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی ان کو کنواں میں نہیں ڈالا تھا کیوں کے وہ اس سے بھی شدت سے روئے تھے (سوره یوسف )

 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
یزید کا رونا سیاسی تھا اس کو کوئی غم نہیں تھا اور یہ سب اچھی طرح جانتے ہے کہ یہ سیاسی لوگ کیسے خود مرواتے ہے پھر روتے ہے اگر یزید کے رونے کو غم اور اس کی بے گناہی مانے گے اور یہ کہ اس نے یہ قتل نہیں کروایا تو پھر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی ان کو کنواں میں نہیں ڈالا تھا کیوں کے وہ اس سے بھی شدت سے روئے تھے (سوره یوسف )

یہ هے علم الکلام کی ادنی سی مثال کہ اپنے قیاس کو ، شک کو آیت قرآنی کے مصداق سمجہیں ۔ چلو بهئی سمجها تو سمجها اب اپنے اس قیاس کو بصورت وسوسہ دوسرے انسانوں کے قلوب میں داخل کرنیکی جستجو میں رہیں !
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ هے علم الکلام کی ادنی سی مثال کہ اپنے قیاس کو ، شک کو آیت قرآنی کے مصداق سمجہیں ۔ چلو بهئی سمجها تو سمجها اب اپنے اس قیاس کو بصورت وسوسہ دوسرے انسانوں کے قلوب میں داخل کرنیکی جستجو میں رہیں !
مجھے کوئی شک نہیں ہے میں نے قرآن سے مثال پیش کی ہے کہ بھائیوں کا یہ رد عمل قرآن بتا رہا ہے تو یہ کوئی بعید نہیں کہ اقتدار کے بھوکے خود مراواکر ڈرامہ کر رہے ہوں اور ویسے بھی اس کی سند کون سی صحیح ہے اس قسم کی تاریخ روایت کا جھانسہ عام لوگوں کو کیونکہ وہ اصول کی ا ب بھی نہیں جانتے یا انہوں نے کون سا تحقیق کرنی ہے عمرو بن دینار سے روایت کرنے والوں میں ابراہیم بن محمد نام کا کوئی بھی روایت کرنے والا نہیں ہے اور جس کو ابرہیم بن محمد بن جعفر اس روایت میں بنا کر پیش کیا ہے وہ عمرو بن دینار سے روایت کرنے والوں میں شامل ہی نہیں ہے یہ کون سا مجہول راوی ہے جس کا پتا ہی نہیں ہے اس کو زبردستی ابراہیم بن محمد بن جعفر بنا دیا گیا ہے صرف یزید کو نیک کرنے کے لیے کہ وہ بڑا غم زدہ تھا۔ سنابلی صاحب نے لکھا ہے کہ جس طبقے میں مشہور راوی ہوتا ہے اسی کو لیا جاتا ہے یہ اصول کہاں ہے دوسری بات اہل شام کی فوج کو معصوم ثابت کرنا تھا تو اہل شام الزام کے متعلق پانچوں روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں مھدی بن ابی مھدی دو ہیں ایک العبدی ہے اس نے عکرمہ سے روایت کیا اور اس نے عبیداللہ سدوسی سے دوسرے نے ہشام بن یوسف سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کے اساتزہ میں عبدالملک بن الذماری کا نام نہیں ہے اور نہ ان کے تلامذہ میں یعقوب الفسوی کا نام ہے تو اپنے لئے تو اساتذہ اور تلامذہ کی فہرست کو دلیل بنایا جا رہا مگر کوئی اگر اس بنیاد پر کہہ کہ ابرہیم بن محمد کے اساتذہ میں کسی عمرو بن دینار کا نام نہیں اور نہ عمرو بن دینار کے تلامذہ میں ایسا کوئی نام ہے تو یہ اصول غلط ہے اس فہرستوں میں کم از کم معروف تلامذہ اور شاگردوں کے نام ضرور ہوتے ہیں مجہول کے نام نہیں ہوتے اور بقول سنابلی صاحب کے ابرہیم بن محمد مشہور راوی ہے تو اس کا عمرو بن دینار کے تلامذہ میں شامل نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ یہ کوئی مجھول ابراہیم بن محمد ہے جس کو یزید کی محبت میں ابراہیم بن محمد بن جعفر بنا دیا گیا ہے۔ اللہ ہدایت دے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس طرح کے ملتے جلتے موضوعات پر فورم پر دونوں طرف سے اتنا لکھا جا چکا ہے ، اور اس تکرار کے ساتھ لکھا جا چکا ہے کہ شاید کچھ نئی بات سامنے نہ آئے ، لہذا کم از کم اس فورم کی حد تک اس موضوع پر بات بالکل نہ کریں ، اور جتنے بھی احباب اس قسم کی بحثوں میں شریک رہے ، میری ان سے گزارش ہے کہ دیگر اہم اور مفید موضوعات میں بھی اپنا حصہ ڈالیں ، لوگوں اور بھی بہت سارے مسائل کی حاجت ہے ، چاروں طرف اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل کو بکھیرنے کی بجائے ، عوام کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی طرف توجہ کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top