• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
اکتوبر 28، 2013
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
17

  • 5: اہل مدینہ میں پرحملہ کے وقت صرف ان لوگوں کے خلاف کاروائی کا حکم تھا جو بغاوت کے اصل ذمہ دار تھے
کفایت اللہ صاحب ذرا بغاوت کرنے والے یعنی باغی کا شرعی حکم بتلا دے۔
اور اس کے بعد بیٹھ کر سوچئے کہ یزید کو بےگناہ ثابت کرنے کے معاملہ میں کس کس کے گریبان تک ہاتھ پہنچتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے کہا کہ
واقعہ حرہ میں اہل بیت کے افراد یزید کی مخالفت میں شامل نہ تھے جیساکہ زین العابدین کی عدم شمولیت سے اشارہ ملتاہے۔اسی لئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا: وقد كان عبد الله بن عمر بن الخطاب وجماعات أهل بيت النبوة ممن لم ينقض العهد ولا بايع أحدا بعد بيعته ليزيد ، اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی جماعتوں نے یزید کے بیعت نہیں توڑی اور یزید کی بیعت کرنے کے بعد کسی اور کی بیعت بالکل نہیں کی [البداية والنهاية لابن کثیر : 8/ 232]
اب نا معلوم کہ مخالفت میں شامل نا ہونے سے آپ کیا مراد لے رہے ہیں۔اگر یہ کہ یہ حضرات یزید کے حمایتی ہے تو اس کا ثبوت چاہئے اور یقینا یہ حضرات اور خصوصا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ یزید کے حمایتی قطعا نہ تھے اگر آپ اسی البدایہ والنھایہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یزید کے لشکر کے خلاف نہ لڑنا کی وجہ بھی بتلادیتے تو معاملہ صاف ہوجاتا مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ دری ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جناب آپ کی ساری تحقیق کا خلاصہ یزید سے شروع ہوتا ہے اور یزید پر ختم ۔یہاں آپ نے امام ذہبی کو بھی رگڑا لگا دیا لیکن جو بات آپ کے کام کی تھی اس کو صحیح مان لیا ۔جو الزام آپ نے امام ذہبی پر لگائے ہیں تو امام صاحب کی اپنی ثقاہت ہی خطرے میں پڑ گئی ہے کہ وہ کسی کی تعریف پہ آتے تو جھوٹی روایات کو دلیل بنا لیتے ( یعنی حقائق کے خلاف من گھڑت باتیں لکھتے اور ان سے استدلال کرتے ) لیکن جناب نے بات شروع کی تو حوالہ امام ذہبی کا دیا آپ کے انصاف کے لئے ایک شعر عرض ہے
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
ہم نے امام ذہبی کے مجموعی طرزعمل کے بات نہیں کی ہے بلکہ ’’بعض‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے میری تحریر دوبارہ پڑھیں ۔
اور بعض کے مدح وذم میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے موضوع روایات استعمال کی ہیں یہ ایسی حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔
کیا امام ذہبی رحمہ اللہ نے یزید کوشرابی کہنے میں موضوع روایات نہیں استعمال کی ہیں ؟؟
اسی طرح کیا امام ابوحنیفہ کے مدح میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے موضوع روایات نہیں پیش کی ہیں؟؟

رہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ کو رگڑا لگانے کی تو واللہ ہم نے ایسا کچھ نہیں لکھا اور ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔
ہم امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس شاذ طرزعمل کو امام ذہبی رحمہ اللہ کا تساہل مانتے ہیں کہ انہوں نے ان روایات سے استدلال کرنے میں تساہل سے کام لیا ہے ۔ اوربعض مقامات پر ہر عالم سے تساہل ہوجاتاہے ۔ بلکہ بعض کی تصحیح وتضعیف میں تو بہت زیادہ تساہل ہوتاہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تساہل کی زبردست دلیل یزید سے متعلق ان کی یہ وضاحت ہے کہ ہم نہ یزید کو برا کہتے ہیں اور نہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔
اگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے تساہل کے بغیر پوری تحقیق سے کام لیا ہوتا تو سکوت کی بات نہ کرتے بلکہ بات یا تو ذم کی ہوتی یا مدح کی ہوتی ۔

اورجو انصاف کی بات آپ نے کی ہے ہم تو اسی کو انصاف مانتے ہیں کہ جو بات ثابت شدہ ہو اسے لیا جائے اورجو بات ثابت نہ ہو اسے رد کردیا جائے ۔
ورنہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب امام ذہبی رحمہ اللہ یزید کو قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں شامل مانیں ، اس بات کو غلط کہا جائے حالانکہ اس بات کی دلیل موجود ہے بلکہ یہ بات اجماع امت کے موافق ہے ۔
اور دوسری طرف امام ذہبی کے حوالہ سے یزید کو شرابی بتلایا جائے جو بے دلیل بلکہ جھوٹی روایات پرمبنی بات ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کفایت اللہ صاحب ذرا بغاوت کرنے والے یعنی باغی کا شرعی حکم بتلا دے۔
بھائی بغاوت کا شرعی حکم میں کیا بتاؤں خود صحابی رسول عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کے حوالے سے ملاحظہ فرمالیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى 256) نے کہا:
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنِّي لَا أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ لَهُ الْقِتَالُ وَإِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْكُمْ خَلَعَهُ وَلَا بَايَعَ فِي هَذَا الْأَمْرِ إِلَّا كَانَتْ الْفَيْصَلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ[صحيح البخاري: 18/ 10 رقم 7111]۔
نافع روایت کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اوربچوں کو اکٹھا کیا اورکہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ : ہروعدہ توڑنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا،اورہم اس (یزید) کی بیعت اللہ اوراس کے رسول کے موافق کرچکے ہیں ، میں نہیں جانتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی بے وفائی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص کی بیعت اللہ اوراس کے رسول کے موافق ہوجائے پھر اس سے جنگ کی جائے ، تم میں سے جوشخص یزید کی بیعت توڑے گا ، اوراس کی اطاعت سے روگردانی کرے گا تو میرا اس سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہے گا۔


اب نا معلوم کہ مخالفت میں شامل نا ہونے سے آپ کیا مراد لے رہے ہیں۔اگر یہ کہ یہ حضرات یزید کے حمایتی ہے تو اس کا ثبوت چاہئے اور یقینا یہ حضرات اور خصوصا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ یزید کے حمایتی قطعا نہ تھے اگر آپ اسی البدایہ والنھایہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یزید کے لشکر کے خلاف نہ لڑنا کی وجہ بھی بتلادیتے تو معاملہ صاف ہوجاتا مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ دری ہے۔
مخالف میں شامل نہ ہونے کا مطلب یزید کی بیعت نہ توڑنا ہے یہ بات اوپر پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے پھر نا معلوم آپ کو اس میں کون سا ابہام نظر آتاہے؟
رہی بات حمایتی کی تو حمایتی سے آپ کی کیا مراد ہے یہ آپ کی تحریر سے واضح نہیں ہے اگر حمایتی سے مراد یزید کی بیعت اور اس پراستقامت ہے تو بلاشبہ یہ حضرات یزید کے حمایتی تھے ابن عمررضی اللہ عنہ تو حد درجہ حمایتی تھے جیساکہ بخاری کی مذکورہ حدیث سے واضح ہے۔
اوراگرحمایتی سے آپ کی مراد کچھ اور ہے تو یہ آپ سمجھا کریں ہماری بحث سے اس کا کیا تعلق ؟؟؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اور اس کے بعد بیٹھ کر سوچئے کہ یزید کو بےگناہ ثابت کرنے کے معاملہ میں کس کس کے گریبان تک ہاتھ پہنچتا ہے۔
پہلے آپ مجھے صحیح سندوں سے اہل مدینہ کے ان ناموں کی فہرست پیش کردیں تو یقینا میں بیٹھ کرسوچوں گا۔ اور اپنی سوچ سے آپ کو بھی آگاہ کروں گا۔
بڑی مہربانی ہوگی اگر صحیح سندوں اہل مدینہ کے مخالفین کا نام پیش کردیں ۔
بارک اللہ فیک۔


اورہاں علی رضی اللہ عنہ کے مخالفت کو آپ کیا نام دیتے ہیں یہ بھی بتانا نہ بھولئے گا۔
سردست علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا ایک حوالہ ملاحظہ فرمالیں:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا بُويِعَ لِعَلِيٍّ أَتَانِي فَقَالَ : إنَّك امْرُؤٌ مُحَبَّبٌ فِي أَهْلِ الشَّام ، وَقَدِ اسْتَعْمَلْتُك عَلَيْهِمْ ، فَسِرْ إلَيْهِمْ ، قَالَ : فَذَكَرْت الْقَرَابَةَ وَذَكَرْت الصِّهْر ، فَقُلْتُ : أَمَّا بَعْدُ فَوَاللهِ لاَ أُبَايِعُك ، قَالَ : فَتَرَكَنِي وَخَرَجَ ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ جَاءَ ابْنُ عُمَرَ إلَى أُمِّ كُلْثُومٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهَا وَتَوَجَّهَ إلَى مَكَّةَ ، فَأُتِيَ عَلِيٌّ رحمه الله فَقِيلَ لَهُ : إنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ تَوَجَّهَ إلَى الشَّامِ ، فَاسْتَنْفِرَ النَّاسَ ، قَالَ : فَإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَعْجَلُ حَتَّى يُلْقِيَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِ بَعِيرِهِ ، قَالَ : وَأَتَيْت أُمَّ كُلْثُومٍ فَأُخْبِرَتْ ، فَأَرْسَلتْ إلَى أَبِيهَا : مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعُ ، قَدْ جَاءَنِي الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ، وَتَوَجَّهَ إلَى مَكَّةَ ، فَتَرَاجَعَ النَّاسُ.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح ]

اس روایت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا اللہ کی قسم میں آپ سے بیعت نہیں کروں گا۔
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جب اشعار کی رسم ڈال ہی دی گئی ہے تو یزید کے رونے پر ایک شعر میں بھی نذر کرتا ہوں

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا! کفایت اللہ بھائی!

اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
اور یزید سے متعلق روایات اور یزید کے کردار سے متعلق امام ذہبی نے کوئی تحقیق نہیں کی ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ وہ یزید پرجرح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ :​
ويزيد ممن لا نسبه ولا نحبه، وله نظراء من خلفاء الدولتين، وكذلك في ملوك النواحي، بل فيهم من هو شر منه
یعنی یزید ان لوگوں میں سے ہے جسے نہ ہم برا کہتے ہیں اور جس سے نہ ہم محبت کرتے ہیں اوربعد کے خلفاء وبادشاہوں میں اس طرح کے اور بھی کئی لوگ ہیں بلکہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں تو یزید سے کہیں زیادہ برے ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 36]۔​
اہل سنت والجماعت کا شروع سے یہی موقف رہا ہے
ناصبیت شیعت کا رد عمل ہے۔ اللہ تعالی ان دونوں فرقوں کے تعصب سےاہ ایمان کی حفاظت فرمائے۔
اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم
"میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا (اللہ نے) اس کی مغفرت کردی"
ایک طبقہ فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ضمن میں یزید کو مغفور سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث کا اطلاق اس جہاد میں شامل ہونے والے کی پوری حیات کو شامل ہے ؟
ایک شخص اس لشکر میں شریک ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کا عمل ،وہ کوئی کبیرہ گناہ کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، اسلام یا اسلامی تشخص کا نقصان پہنچاتا ہے،جو کچھ کرتا ہے کیا وہ سب معاف سمجھا جائے۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
ہم نے امام ذہبی کے مجموعی طرزعمل کے بات نہیں کی ہے بلکہ ’’بعض‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے میری تحریر دوبارہ پڑھیں ۔
اور بعض کے مدح وذم میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے موضوع روایات استعمال کی ہیں یہ ایسی حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔
کیا امام ذہبی رحمہ اللہ نے یزید کوشرابی کہنے میں موضوع روایات نہیں استعمال کی ہیں ؟؟
اسی طرح کیا امام ابوحنیفہ کے مدح میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے موضوع روایات نہیں پیش کی ہیں؟؟

رہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ کو رگڑا لگانے کی تو واللہ ہم نے ایسا کچھ نہیں لکھا اور ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔
ہم امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس شاذ طرزعمل کو امام ذہبی رحمہ اللہ کا تساہل مانتے ہیں کہ انہوں نے ان روایات سے استدلال کرنے میں تساہل سے کام لیا ہے ۔ اوربعض مقامات پر ہر عالم سے تساہل ہوجاتاہے ۔ بلکہ بعض کی تصحیح وتضعیف میں تو بہت زیادہ تساہل ہوتاہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تساہل کی زبردست دلیل یزید سے متعلق ان کی یہ وضاحت ہے کہ ہم نہ یزید کو برا کہتے ہیں اور نہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔
اگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے تساہل کے بغیر پوری تحقیق سے کام لیا ہوتا تو سکوت کی بات نہ کرتے بلکہ بات یا تو ذم کی ہوتی یا مدح کی ہوتی ۔

اورجو انصاف کی بات آپ نے کی ہے ہم تو اسی کو انصاف مانتے ہیں کہ جو بات ثابت شدہ ہو اسے لیا جائے اورجو بات ثابت نہ ہو اسے رد کردیا جائے ۔
ورنہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب امام ذہبی رحمہ اللہ یزید کو قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں شامل مانیں ، اس بات کو غلط کہا جائے حالانکہ اس بات کی دلیل موجود ہے بلکہ یہ بات اجماع امت کے موافق ہے ۔
اور دوسری طرف امام ذہبی کے حوالہ سے یزید کو شرابی بتلایا جائے جو بے دلیل بلکہ جھوٹی روایات پرمبنی بات ہے۔
اگر یہ بات تساہل ہے تو اہل سنت و الجماعت پوری متساہل ٹھہری صرف فیض عالم اور اس کے چند اور دوست ہی صحیح ٹھہرے ۔جو بات آپ کے مطلب کی ہو وہ بالکل ٹھیک اور جو خلاف ہو تساہل ۔ یہ متساہل بھی آپ نے اب کہا ہے جب میں نے پوسٹ کی ورنہ تو یزید کے دفاع میں امام ذہبی کے خلاف جو باتیں آپ نے کی ہیں اس سے امام ذہبی متساہل نہیں متشدد لگتے ہیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اہل سنت والجماعت کا شروع سے یہی موقف رہا ہے
ناصبیت شیعت کا رد عمل ہے۔ اللہ تعالی ان دونوں فرقوں کے تعصب سےاہ ایمان کی حفاظت فرمائے۔

ایک طبقہ فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ضمن میں یزید کو مغفور سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث کا اطلاق اس جہاد میں شامل ہونے والے کی پوری حیات کو شامل ہے ؟
ایک شخص اس لشکر میں شریک ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کا عمل ،وہ کوئی کبیرہ گناہ کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، اسلام یا اسلامی تشخص کا نقصان پہنچاتا ہے،جو کچھ کرتا ہے کیا وہ سب معاف سمجھا جائے۔
ہمارے معاشرے میں اکثریت جن میں رافضیوں کے علاوہ اہل سنّت کی بھی ایک بڑی تعداد ہے (معذرت کے ساتھ) ان کو یہ فکر کھاے جاتی ہے کہ ہم جنّت میں جائیں یا نہ جائیں لیکن یزید بن معاویہ رهمللہ کو جنّت میں جانے نہیں دیں گے - اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے پہلے یزید بن معاویہ کو قاتل حسین رضی الله عنہ بنایا گیا - پھر شرابی کبابی اور پھر کافر قرار دے دیا گیا تا کہ کوئی اشکال باقی نہ رہے ان کے جنّتی ہوںے کی -کیوں کہ یہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ انسان چاہے کتنے بھی برے اعمال کرتا رہے اگر مسلمان کی حیثیت سے فوت ہوتا ہے - تو آخری ٹھکانہ تو جنّت ہے چاہے عذاب بھگت کر ہی جائے - اور ہمارے رافضی اور اہل سنّت کی اکثریت کو یہ منظور نہیں -کہ یزید بن معاویہ رهمللہ اور حضرت حسین رضی الله عنہ جنّت میں اکھٹے رہ سکیں -اسی لئے سالوں سے یہ فسانے گھڑے جاتے رہے ہیں کہ یزید بن معاویہ رهمللہ سے بڑھ کر کوئی فاسق فاجر اور کافر نہیں - اور شاید اسی لئے ان کو زبردستی قسطنطنیہ کے پہلے معرکے سے خارج قرار دیا جاتا ہے کہ کہیں جنّتی نہ قرار پائیں -لیکن یہ بیچارے یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ قسطنطنیہ کے پہلے معرکے میں شریک نہیں تھے تو دوسرے یا تیسرے معرکے میں تو بہر حال شریک تھے - اور کافروں کے خلاف ایک مرتبہ کا جہاد کرنا بھی ان کو جنّتی بنا سکتا ہے
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2013
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
17
ایک انتہائی اہم بات کہ یزید کو اہلسنت والجماعت نا ہی کافرسمجھتی اور نا ہی ملعون۔
ایک انتہائی سادہ اور صاف الفاظ میں جب اہلسنت والجماعت کا نظریہ یزید کے متعلق موجود ہے تو پھر کیوں معاملہ کو پیچیدہ در پیچیدہ کیا جارہا ہےاور وہ نظریہ یہ ہے کہ ہم نا ہی یزید کے برائی کرتے ہے اور نا ہی اس سے محبت کرتے ہے( آج کل کی زبان میں اچھا نہیں سمجھتے) ہے۔
کفایت اللہ صاحب نے امام ذہبی کا حوالہ دیا اس میں بھی اسی چیز کی صراحت ہے۔
باقی جو لوگ یزید کو گالیں دیتے ہیں، بلا وجہ تو یقینا غلطی کرتے ہیں۔
مگریہ بھی خیال رہے کہ اگر ایک شخص اٹھ کر یزید کو کو ایک برگزیدہ انسان، خلیفۃ المسلمین اور امیر المؤمنین وغیرہ نا صرف سمجھنا شروع کرے بلکہ اسکا پرچار بھی کرے تو پھر یقینا
'' ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے ''
کے مصداق کے نتیجہ میں یزید کے شخصیت پر انگلی بھی اٹھے گے اور اس کے کردار پر بھی بات ہوگی۔لہٰذا یزید کو اگر اہلسنت والجماعت کے نظریہ کے مطابق مانا جائے تو کوئی اختلاف نا ہوگا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top