• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید ِ کربلا سیدنا حسین ؓ کی قربانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شہید ِ کربلا سیدنا حسین ؓ کی قربانی

حافظ محمد اسماعیل روپڑیؒ​
مناظر اسلام حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے بڑے بھائی حافظ محمد اسماعیل روپڑی ؒ … اللہ اُن پر اپنی کڑوڑہا رحمتیں نازل فرمائے… ماضی قریب کے عظیم دینی رہنما اور بے مثل خطیب ہوگزرے ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد کے دوعشرے سرزمین وطن کے گوشے گوشے میں آپ نے توحید وسنت کے پیغام کو پہنچانے میں دیوانہ وار صرف کئے بالخصوص لاہور، شیخوپورہ، سرگودھا اور کراچی کی بیسیوں مساجد آپ کی حسناتِ باقیات میں سے ہیں جو آپ کے لئے عظیم توشۂ آخرت ہیں۔ اسی طرح دورِ حاضر کے متعدد نامور اہل علم نے آپ کی مخلصانہ دعوت وتربیت کے نتیجے میں اس مقدس نبویؐ مشن کے راہی بننے کی سعادت حاصل کی۔
آپ کی زیر نظر تحریرقارئین ’محدث‘ کے لئے ایک نادر و نایاب تحفہ ہے جو ۱۹۵۰ء کے بعد پہلی مرتبہ مکمل صورت میں شائع ہورہی ہے۔ حکیم یحییٰ عزیز ڈاہروی نے اپنے ذاتی ریکارڈ سے اس قدیم تحریر کو ہمارے لئے میسر کیا ہے۔ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعہ پر آپ کی یہ مایہ ناز تحقیق جہاں علم وجستجو کی ایک درخشندہ مثا ل ہے، وہاں ذاتِ نبویؐ اور اہل بیت ِ عظامؓ سے والہانہ محبت کا ایک درد مندانہ اظہار بھی ہے۔یہ تحریر اس اہم ترین واقعہ پر ایک معتدلانہ اور محققانہ موقف کی آئینہ دار ہے!
اس تحریر کے مرتب حافظ روپڑی مرحوم، مدیر اعلیٰ ’محدث‘ کے قریبی رشتہ دار ہونے کے ساتھ خاص مربی بھی تھے۔اس اعتبار سے محدث کی ۴۰ سالہ خدمات میں بھی ان کا ایک حصہ موجود ہے اور ان کی اس تحریر کی اشاعت ہمارے لئے سعادت کادرجہ رکھتی ہے۔ حافظ موصوف کے اکلوتے فرزند حافظ ایوب اسمٰعیل بھی اپنے والد کے مخلصانہ جذبۂ ایمانی کے مصداق ہمیشہ سے ادارئہ محدث اور اس سے وابستہ دیگر اداروں کے خصوصی سرپرستوں اور معاونوں میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان علماے دین کی عظیم خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، اور اِن کے نیک کاموں کو جاری وساری رکھنے کی توفیق اَرزانی فرمائے۔ آمین! (حسن مدنی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلام ہو، محمد رسول اللہﷺ پر اور آپؐ کی آل پر… کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو رسول اللہﷺ اور آپؐ کی آلؓ کے اُسوۂ حسنہ کی اتباع کا فخر حاصل ہے اور وہ جادۂ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر شعبہ میں رسولؐ، آلِ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پرچلنے میں اپنی کامیابی اور نجات سمجھتے ہیں۔ دراصل انہی مقدس اور برگزیدہ ہستیوں کے اُسوۂ حسنہ کی متابعت عین ایمان ہے۔ جو لوگ اس راہِ عمل کے تارک ہیں یا اس میں حسب ِمنشا تغیر و تبدل کرتے ہیں، اُن کا ایمان مشتبہ اور مشکوک ہے، اس لئے اُن کی نجات محال ہے۔
ماہ محرم الحرام سے اسلامی سنہ ہجری شروع ہوتا ہے ۔ واقعۂ کربلا اسی ماہ میں پیش آیا۔ آج ملت ِاسلامیہ کا کارواں۱۳۷۰ھ (بمطابق۱۹۵۱ء) کے سفرکا آغاز کررہا ہے۔ ربّ العزت دنیاے اسلام کے لئے ہر نیاسال مبارک کرے اور اہلِ اسلام کو رسولﷺ ،آلِ رسولؐ اور صحابۂ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اَحکام و مسائل محرم الحرام
ماہِ محرم الحرام کے احکام و مسائل جو صحیح احادیث میں مروی ہیں اور جن پر رسول اللہﷺ، آلِ رسولؐ، اصحابِؓ رسول اور سلف صالحینؒ کا عمل رہا۔ وہ مختصر طور پر درج ذیل ہیں:
عہد ِجاہلیت میں قریش عاشورا (دسویں محرم) کو بیت اللہ شریف پر نیا غلاف پہناتے تھے اور اس دن کی تعظیم و تکریم میں روزہ رکھتے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب حضورﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ میں نزولِ اِجلال فرمایا تو یہود کو بھی اس دن روزہ رکھتے دیکھا۔ آپؐ نے اُن سے دریافت فرمایا کہ تم اُس دن کیوں روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ یہ ہمارا یومِ نجات ہے۔ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن فرعون سے نجات دلائی اور موسیٰ علیہ السلام نے اُس دن بطورِ شکرانہ روزہ رکھا۔ تورسولِ کریمﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام سے موافقت کرنے میں ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ لہٰذا آپؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور عام اہل اسلام کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دی
ا۔ البتہ جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص چاہے تو عاشورا کے دن کا روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔ مگر خود آپ کا فعل یہ تھا کہ آپﷺ روزہ رکھا کرتے اور ترغیب بھی دلاتے تھے۔
آپﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اُس دن کے روزہ سے ایک سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔نیز فرمایا کہ رمضان کے بعد بہتر روزہ ماہِ محرم کا روزہ ہے۔ بعد میں یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے نبی مکرمﷺ نے فرمادیا کہ
اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو محرم کی نویں کا روزہ رکھوں گا۔ آپﷺ آئندہ سال اس دارِفانی سے رحلت فرماگئے۔ لیکن اس ارشاد کی بنا پر صحابہ کرامؓ کا یہی عمل اور فتویٰ رہا۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد ، نسائی)
یہ ہیں ماہِ محرم اور یومِ عاشورا کے اصل احکام و مسائل جو صحیح روایات میں ہیں۔ مسلمان کے لئے لازم ہے کہ انہی کو بجا لانے پر اکتفا کرے۔ اس کے علاوہ محرم کے متعلق کئی فرضی ، خود ساختہ اور موضوع روایات بھی ہیں۔ چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اپنی تصنیف ما ثبت بالسنۃ میں ایسی بعض موضوع روایات کی نشاندہی کی ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محرم کے بارے میں موضوع روایات
1۔جو شخص یومِ عاشورا کا روزہ رکھے، اسے ساٹھ برس کے روزوں اور قیام اللیل کا ثواب ملے گا۔
2۔جو شخص عاشورا کے دن کا روزہ رکھے گا، اسکو دس ہزار فرشتوں کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
3۔جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا، اس کو ہزار شہید کا ثواب ملے گا۔
4۔جس نے عاشورا کے دن ایک بھوکے کو کھانا کھلایا، اس نے گویا اُمت ِمحمدیہ کے تمام فقراء ومساکین کو کھانا کھلایا۔
5۔جس نے اس دن یتیم کے سر پر دست ِشفقت پھیرا، اس کو ہر بال کے عوض جنت میں ایک درجہ ملے گا۔
6۔جس نے عاشورا کے دن ایک گھونٹ پانی پلایا، اس کا درجہ اس شخص کے برابر ہے جس نے تمام عمر ایک لحظہ کے لئے بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔
7۔جس شخص نے عاشورا کے دن مساکین کے گھر کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا، وہ قیامت کے دن پلِ صراط پر سے بجلی کی طرح گذر جائے گا۔
یہ روایات وہ ہیں جو اہلِ تشیع نے یومِ شہادتِ حسینؓ (۱۰ محرم ؍عاشورا)کے دن کو مزید مقدس اور اہم باور کرانے کے لیے وضع کیں۔ امام ابن جوزیؒ نے بھی اپنی کتاب الموضوعات میں اس قسم کی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔اس کے برعکس وضاعین وکذابین نے آل رسولؐ سے تعصب وعناد کے باعث ناصبیّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عاشورا کے دن کو مسرت وشادمانی کا دن باور کرانے کے لیے بہت ساری روایات گھڑ ڈالیں اور ایسی اکثر روایات حجاج بن یوسف کے زمانہ میں وضع کی گئیں۔ ان میں سے چندایک مندرجہ ذیل ہیں:
1۔جو شخص عاشورہ کے دن آنکھوں میں سرمہ لگائے گا، اس سال اس کی آنکھیں نہ دکھیں گی۔
2۔جس شخص نے اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے اور لباس میں فراخی کی، اللہ تعالیٰ اس پر سارا سال فراخی کرے گا۔
اس قسم کی تمام روایات وضعی ہیں!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شیخ ابن حجر ؒ کا فتویٰ
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ ما ثبت بالسنۃ میں شیخ ابن حجرؒ مفتی مکہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’بعض ائمہ حدیث وفقہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیاکہ عاشورا کے دن سرمہ لگانا، غسل کرنا، مہندی لگانا، مختلف قسم کے کھانے پکانا، نئے کپڑے پہننا اور اُس دن خوشی کا اظہار کرنا کیسا ہے؟ سب نے متفقہ طور پر فتویٰ دیا کہ اس بارے میں کوئی صحیح حدیث رسول اللہﷺ سے یا کوئی روایت صحابہ کرامؓ سے ثابت نہیں ، نہ ائمہ اسلام نے ان چیزوں کو پسند کیا ہے اور نہ مستند کتب حدیث میں اس بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت موجود ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مروّجہ تعزیہ وغیرہ کی حقیقت اور شرعی حیثیت
اس کے علاوہ محرم کے ابتدائی دس دنوں میں رونا پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، چھاتی پیٹنا، سربرہنہ پھرنا، غسل چھوڑ دینا، سیاہ کپڑے پہننا، بچوں کو سیاہ اور سبز کپڑے اور مَوْلی پہنانا، شہدا کے نام کی نذر ونیاز دینا، ماتم کی محفلیں قائم کرنا، جنگ نامے پڑھنا، ماتمی جلوس، تعزیہ، مہندی، گھوڑا وغیرہ سب بدعات ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ صریح اُسوئہ حسنہ کے خلاف ہیں۔ اُسوئہ حسنہ تو صرف یہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا یعنی نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھا جائے جس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور بس!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہندوستان میں تعزیہ کب آیا؟
تعزیہ داری وغیرہ رسوم سے آٹھ سو سال تک ہندوستان بالکل پاک رہا۔
۸۰۱ ہجری میں تیمور لنگ ترکستان کا بادشاہ جو نسلاً تاتاری اور مذہبا ً شیعہ تھا، اس نے پہلے پہل اس رسم کو ایجاد کیا اور ہندوستان میں پہلا تعزیہ ۹۶۲ہجری میں ہمایوں بادشاہ کی معرفت آیا۔
اس نے اپنے وزیر بیرم خان کو بھیج کر۴۶ تولہ کا ایک زمردین تعزیہ منگوایا جہاں سے ہندوستان میں اس رسم کی ابتدا ہوتی ہے۔شریعت ِمحمدیہؐ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل بیت کا اُسوئہ حسنہ اور ’محبانِ اہل بیت ‘ کا طرزِ عمل
اب دیکھنا یہ ہے کہ آغازِ محرم سے جن حرکات و سکنات اور افعال و اعمال کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛کیا واقعتا وہ اہل بیت کی محبت کا تقاضا ہے؟
یہ ایک مسلمہ اُصول ہے کہ محبوب کی ہر اَدا پر محبت کرنے والا دل و جان سے شیدا ہوتا ہے اورمحبوب کا قرب حاصل کرنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرتاہے جو محبوب کے نزدیک اَنسب اور وجہ ِ مسرت ہو۔ اگر اس کے خلاف کرے گا تو محبوب کی ناراضگی اور مفارقت کا موجب ہوگا۔
افسوس اور صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان حضرات نے اہل بیت کی محبت میں وہ طریقہ اختیار کیا ہے جس پر اہل بیت اور خود رسولِ اکرمﷺسخت ناراض ہیں اور وہ اپنے اَعمال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے اُن کو محبت نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے اہل بیت ؓ نے ایسے افعال کا نہ تو حکم دیا اور نہ ہی خواہاں تھے،بلکہ آپﷺکی تعلیمات سے تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ وہ دین میں خرافات وبدعات کے سخت دشمن تھے، لہٰذا اس بنا پر ایسی خرافات کے مرتکب لوگوں کا محض دعویٰ محبت اُنہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت میں وہ گراں قدر بصیرتیں موجود ہیں جن سے اُمتِ مرحومہ کے دلوں میں عزم و استقلال، صبرو ثبات، استبداد شکنی، قیامِ خلافت، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی روح پیدا ہوتی ہے اور
حضرت حسین ؓ کی قربانی کا مقصد ہی یہ تھاکہ میرے نانا کی اُمت اچھے اوصاف سے متصف ہوجائے مگر لوگوں نے اس عظیم الشان قربانی کا مضحکہ اُڑانا شروع کردیا اور تعزیوں کے جلوسوں کو حضرت حسینؓ کی عظمت کے لئے کافی سمجھ لیا اور ماتم کرنے، بال نوچنے، چھاتی پیٹنے ، بدن زخمی کرنے اور نوحہ اور بین کرنے کو اہل بیت کی محبت کا معیار قرا ردے دیا۔ ع
بریں عقل و دانش بباید گریست​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوحہ کے بارے میں دربارِ نبوت کا حکم و عمل
اسلام میں خویش و اقارب اور گذشتہ بزرگوں پر ماتم و بین کرنا اور اس قسم کی حرکات کرنا جو آج اکثر طور پر کی جاتی ہیں، سخت منع ہے۔چنانچہ سرکارِ مدینہﷺ کا فرمان ہے:
’’ أَنَا بَرِیٌٔ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ‘‘ (صحیح مسلم:۱۰۴)
’’ جس نے (نوحہ کے لیے) سر کے بال منڈوا دیئے یابلند آواز سے بین کئے یا کپڑے پھاڑے، میں اس سے بیزار ہوں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ لیس مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدودَ وشقَّ الجُیُوب ودَعا بدعوٰی الجاھلیۃ‘‘
’’جس نے(نوحہ کے لیے) کرتے ہوئے منہ کو پیٹا، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کے بین کئے، وہ ہم سے نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۹۷ )
اس کے علاوہ نبی کریمﷺ نے عملاً یہ اُسوئہ حسنہ پیش کیا کہ اپنے فرزند دل بند ابراہیم ؓ کی وفات پر فرمایا:
’’ العینُ تدمع والقلب یحزُن ولا نقول إلا ما یرضٰی ربنا‘‘
’’دل غمگین ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگر زبان سے وہی لفظ نکلیں گے جن سے ہمارا ربّ راضی ہو۔‘‘ (صحیح بخاری :۱۳۰۳ )
اور اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے لڑکے کی وفات کی خبر سن کر اس کو یہ پیغام بھیجا:
’’ إن ﷲ ما أخَذَ ولہ ما أعطٰی وکل عندہ بأجل مسمّٰی فَلتصبر ولتحتسب‘‘
’’اللہ کا مال تھا جو اُس نے لے لیا اور جو اُس نے دے رکھا ہے، وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لئے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے۔ چنانچہ(بیٹی تو) صبر سے کام لے اور اس پر اللہ سے ثواب کی اُمیدوار رہ۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۸۴)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی زینبؓ کے فوت ہوجانے پر عورتوں نے رونا شروع کردیا۔ حضرت عمرفاروقؓ ان عورتوں کو اپنے کوڑے سے مارنے لگے۔ رسولِ اکرمﷺ نے دیکھا تو اُن عورتوں کو پیچھے ہٹایا اور فرمایا: اے عمرؓ! ٹھہر جا۔ پھر عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو! شیطانی آواز مت نکالو۔ پھر آپؐ نے فرمایا:
’’ إنہ مھما کان من العین والقلب فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ وما کان من الید ومن اللسان فمن الشیطان‘‘ (مسنداحمد:۱؍۲۳۷)
’’میت کے غم میں جہاں تک دل کے غم اور آنسوؤں کا تعلق ہے، سو یہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور انسانی ہمدردی اور رحم کا نتیجہ ہے۔ مگر ہاتھ (سے پیٹنا )اور زبان (سے بین کرنا) یہ سب شیطانی اعمال ہیں۔‘‘
اور
’’ نہٰی رسول اﷲ ! عن المراثي ‘‘(سنن ابن ماجہ:۱۵۹۲)
’’رسول اللہﷺ نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوستو!
یہ ہے وہ اُسوئہ حسنہ جس کی اتباع ہر مسلمان کا فرضِ اوّلین ہے اور ایک خاص طبقہ کا سال محرم کے دس ابتدائی دنوں میں نت نئے افعالِ کا ارتکاب سنت ِنبوی کے سراسر خلاف ہے بلکہ حضرت حسینؓ کی قربانی سے استہزا ہے۔ یہ کس قدرمضحکہ خیزی کی بات ہے کہ
حضرت حسینؓ تو ملت ِاسلامیہ کے سامنے شجاعت سے ودلیری سے اُسوۂ شہادت پیش کریں اور ہم میں سے کچھ لوگ اس عظیم اُسوۂ شہادت پر سینہ کوبی کریں۔
ایک مسلمان کا یہ افسوسناک منظر دیکھ کر کلیجہ شق ہوجاتا ہے کہ حضرت حسینؓ ایسے مجاہد و موحد کی عظیم الشان شہادت کی یادگار کو تعزیوں کی صورت میں بازاروں اور گلی کوچوں میں اُٹھائے پھرنا اور پھر ایک فرضی کربلا میں یہ تعزیے پھینک دینا اور پھر سارا سال اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
 
Top