• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید ِ کربلا سیدنا حسین ؓ کی قربانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مروّجہ رسوم حضرت حسینؓ کی توہین ہیں
تعزیہ داری، گھوڑا وغیرہ جیسی رسوم کی حقیقت پر غور وخوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حضرت حسین ؓ کی مردانہ وار شہادت کا ان رسوم سے ذرہ بھر بھی تعلق نہیں بلکہ یہ رسوم اس عظیم الشان شہادت کی توہین کے مترادف ہیں۔
کاش یہ حضرات ان افعال و رسومات کی حقیقت و اصلیت اور نتائج و عواقب پر غور کریں اور حضرت حسین ؓ کی عظیم الشان قربانی کی ان بصیرتوں کے حصول کی کوشش کریں جو مسلمانوں کو ثریٰ سے نکال کر ثریا تک پہنچا سکتی ہیں۔
اب ہم حضرت حسین ؓ کی شہادت کے اصل واقعات اور آپؓ کی مختصر تاریخ جو صحیح و مستند کتب میں مروی ہیں کو ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں تا کہ حب ِحسین میں غلو کے نتیجے میں وضع کی گئی روایات سے مبرا حقائق سامنے لائے جائیں اورفرضی روایات سے بچا جا سکے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حضرت حسین ؓ کی سوانح حیات
حضرت حسین ؓ ۴ ہجری میں تولد ہوئے۔ حضرت فاطمتہ الزہراؓ ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت محمدﷺ کی مبارک و مقدس گودوں میں پرورش پاکر سنِ شعور کو پہنچے۔ آپؓ سات برس کے تھے کہ رسولِ اکرمﷺ نے اس دارِفانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔
خلافت ِحضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت آپؓ کی عمر آٹھ برس سے زیادہ نہ تھی۔ حضرت صدیقؓ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے اورحضرت عمرفاروقؓ کو بھی آپ سے بے انتہا اُلفت تھی۔
حضرت عمرؓ نے بدری صحابہ کے لڑکوں کا وظیفہ دو ہزار درہم سالانہ مقرر کیا تھا مگر حضرت حسین ؓ کو پانچ ہزار درہم سالانہ ملتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں آپ پورے شباب پر تھے۔ مفسدین کی شورش کے وقت آپ حضرت عثمانؓ (قصر خلافت) کے محافظ تھے۔ جنگ ِجمل اور جنگ ِصفین میں آپ اپنے والد ماجدؓ کے ساتھ شریک ہوئے۔ جب حضرت حسنؓ (آپ کے برادرِ بزرگوار) نے خلافت سے دست برداری کا ارادہ کیا تو آپ نے اُن کی پرزور مخالفت کی، لیکن فیصلہ کے بعد آپؓ کے ظاہری تعلقات امیرمعاویہؓ سے درست ہوگئے۔
چنانچہ۴۹ ہجری میں آپ جنگ ِقسطنطنیہ میں بھی شامل ہوئے۔ ۵۶ہجری میں امیرمعاویہؓ نے اہل مدینہ سے یزید کی ولی عہدی کے حق میں بیعت لینی چاہی مگر حضرت حسین ؓ وغیرہ اس سے متفق نہ ہوئے۔ اس پر امیرمعاویہؓ کوبھی آئندہ خطرات کا احساس ہوگیا۔
چنانچہ وفات کے وقت امیرمعاویہؓ نے یزید کو وصیت کی کہ اہل عراق حسینؓ کو تمہارے خلاف کھڑا کریں گے مگر تم ان کے حق اور قرابت ِنبویؐ کا احساس کرکے درگزر سے کام لینا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
امارت ِیزید
رجب ۶۰ ہجری میں حضرت امیرمعاویہؓ کی وفات ہوئی تو یزید کی بیعت کواکثریت نے قبول کرلیا۔ یزید کو سیدنا حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے خطرہ تھا۔ اس کو یقین تھا کہ وہ حجاز اور عراق کے مسلمانوں کو اس کے مقابلہ میں کھڑا کرسکتے ہیں لہٰذا اس نے تخت ِخلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی ولید بن عتبہ (حاکم مدینہ) کو تاکیدی حکم بھیجا کہ حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ دونوں سے بیعت لی جائے۔
ولید نے مروان بن حکم کو مشورہ دیا کہ اگر ذرا بھی لیت و لعل کریں تو قتل کردو۔ اگر یہ دونوں اس وقت نکل گئے تو پھر قابو نہ آئیں گے۔ ولید نے سیدنا حسین ؓ کو بلا بھیجا۔ چونکہ حضرت امیرمعاویہؓ کی علالت کی خبریں مدینہ میں مشہور تھیں، اس لئے سیدنا حسین ؓ اپنی حفاظت کے لئے ایک جماعت کو اپنے ساتھ لیتے گئے جب ملاقات ہوئی تو ولید نے بیعت کا مطالبہ کیا۔
آپؓ نے پہلے تو امیرمعاویہؓ کے انتقال کی تعزیت کی پھر فرمایا کہ میں چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، عام لوگوں کو بلاؤ گے تو میں بھی آجاؤں گا۔ اسی اثنا میں یہ خبر عبداللہ بن زبیرؓ کوبھی پہنچ گئی اور وہ رات ہی رات مکہ کی طرف نکل گئے۔ چونکہ ولید دن بھر اُن کی تلاش میں سرگرداں رہا، اس لئے وہ سیدناحسین ؓ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔
اس نے دوسرے دن آپ کو بلایا تو آپ نے ایک دن کی مہلت مانگی، اسی اثنا میں اہل عراق کے پے درپے پیغامات پہنچے کہ آپ خلافت کو قبول کیجئے۔ اسی کشمکش میں محمد بن حنفیہ کے مشورہ سے آپ شعبان ۶۰ ہجری میں مدینہ سے نکل کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
انکارِ بیعت کی وجوہات
1۔خلفاے راشدین خلیفہ کے انتخاب میں بہت محتاط تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب میں تو احادیث ِ نبویؐ کے ارشادات و کنایات سے کام لیا گیا اور حضرت عمرؓ کی نسبت بھی قریباً یہی چیز کام آئی۔ بعد میں شوریٰ سے انتخاب ہوتا رہا۔ مگر یزید کی امارت کے متعلق اس اُصول کی پابندی نہ کی گئی۔
2۔مسلمانوں میں یزید سے بہتر صحابہؓ و اہل بیتؓ موجود تھے جنہیں نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
3۔یزید ذاتی طور پر خلافت کا اہل نہیں تھا ، فسق وفجور اور کبیرہ گناہوں کا مرتکب تھا۔
4۔اہل عراق آپؓ کی خلافت کو پسند کرتے تھے۔
ان وجوہات کے باعث سیدناحسین ؓ یزید کی خلافت کے مخالف رہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت
مکہ مکرمہ پہنچ کر آپؓ نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو تحقیق حالات کے لئے کوفہ بھیجا اور ایک قاصد بصرہ کی طرف روانہ کیا۔ جاسوسوں نے یہ خبریں اسی وقت یزید کو پہنچائیں، اُس نے عبیداللہ بن زیاد (حاکم بصرہ) کو تاکیدی حکم بھیجا کہ مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ سے نکال دو، اگر مزاحمت کرے تو اسے قتل کردو۔ بصرہ میں حضرت حسین ؓکا بھیجا ہوا قاصد گرفتار کرکے قتل کردیا گیا۔
مسلم بن عقیل ؓ کو ہانی بن عروہ نے اپنے زنان خانہ میں ٹھہرایا اور یہیں چند روزمیں اٹھارہ ہزار اہل کوفہ نے سیدنا حسین ؓ کی بیعت قبول کرلی۔ ابن زیاد نے ہر چند مسلمؓ کی تلاش کی مگر کچھ سراغ نہ مل سکا۔ آخر کار اس کے غلام معقل نے اس خفیہ انتظام کا سراغ لگا لیا۔ ابن زیاد نے پہلے ہانی بن عروہ کو گرفتار کیا اور اس سے مسلمؓ کا مطالبہ کیا۔ مگر اس نے صاف انکارکردیا کہ میں موت کو قبول کروں گا مگر اپنے مہمان اور پناہ گزیں کو حوالے نہیں کرسکتا۔ اسی دوران میں یہ افواہ اُڑ گئی کہ ہانی کو قتل کردیا گیا۔ اس پرہانی کے قبیلہ کے ہزارہا لوگوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا اور مسلم بن عقیلؓ اپنے اٹھارہ ہزار رفیقوں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ اس وقت ابن زیاد کے ساتھ صرف پچاس آدمی موجود تھے، اس نے محل کا دروازہ بند کرلیا اور معززین شہر کو حکم دیا کہ چھتوں پر چڑھ کر لوگوں کو لالچ اور خوف سے منتشر ہونے کی ترغیب دی جائے۔ یہ تدبیر کارگرثابت ہوئی اور مسلمؓ کے رفقا منتشر ہونے لگے۔ شہر کے لوگ آتے تھے اور اپنے عزیزوں کو ہٹا کر لے جاتے تھے یہاں تک کہ مسلم بن عقیلؓ کے ہمراہ صرف تیس آدمی کھڑے رہ گئے۔ آپ اُن رفقا کے ساتھ محلہ کندہ کی طرف ہٹ آئے، یہاں یہ تیس بھی آپؓ سے جدا ہوگئے اور آپ تنہا کھڑے رہ گئے اور ایک عورت کے ہاں پناہ لی۔
ابن زیاد نے سراغ لگانے کے بعد آدمیوں کے ساتھ اس مکان کا محاصرہ کرلیا مگر مسلم بن عقیل ؓ خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ اس ہمت سے مردانہ وار مقابلہ کیا کہ سب کو مکان سے باہر کردیا۔ اُنہوں نے پھر حملہ کیا مگر آپ نے پھر اُنہیں دھکیل دیا۔ ایک شخص نے آپؓ کے چہرۂ مبارک پروار کیا جس سے آپ کا اوپر کا ہونٹ کٹ گیا اور دو دانت جھٹکا کھا گئے۔ باقی ۶۹ آدمی مکان کی چھت پر چڑھ کر آگ اور پتھر برسانے لگے اب مسلمؓ گلی میں نکل کر مقابلہ کرنے لگے اور لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوگئے جب قوت نے بالکل جواب دے دیا تو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت محمد بن اشعث نے انہیں پناہ کا وعدہ دے کر گرفتار کرلیا۔
اس کے بعد آپ کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ محمد بن اشعث نے کہا کہ میں مسلم کوپناہ دے چکا ہوں، لیکن ابن زیاد نے اسے تسلیم نہ کیا اور حکم دیا کہ اُنہیں قتل کردیا جائے۔ آپؓ نے ابن زیاد کی اجازت سے عمرو بن سعد کو وصیت کی کہ سیدنا حسین ؓ آرہے ہوں گے، ان کے پاس آدمی بھیج کر اُنہیں راستہ ہی میں واپس کردیا جائے۔ وصیت ہوچکی تو آپ کو محل کی بالائی منزل پر لے جاکر شہید کردیا گیا اور آپ کی لاش اورسر نیچے پھینک دیئے گئے۔ اس طرح حضرت مسلمؓ کی شہادت کی صورت میں حضرت حسین ؓ کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مکہ مکرمہ سے سیدنا حسین ؓ کی روانگی
مسلم بن عقیل ؓ نے پہلا خط جو سیدنا حسینؓ کی خدمت میں بھیجا تھا کہ تمام شہر آپ کی تشریف آوری کا منتظر ہے، تشریف لے آئیں۔ آپ یہ خط دیکھتے ہی سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ جب دوستوں اور عزیزوں کو علم ہوا تو اُنہوں نے آپ کونہایت شدت سے روکا۔ عمرو بن عبدالرحمن نے کہا کہ کوفہ کے لوگ روپے پیسہ کے غلام ہیں جو لوگ آج آپ کو بلاتے ہیں، وہی کل آپ سے جنگ کریں گے۔ عبداللہ بن عباسؓ نے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ آپ مکہ سے حرکت نہ کریں عراقی آپ کو یقینا بے یارومددگار چھوڑ دیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تدبیر اور تقدیر
حضرت عبداللہ بن عباسؓ پھر دوسرے دن آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اے میرے چچیرے بھائی! آپ کے سفر کے بارے میں میرا دل سخت بے قرار ہے۔ آپ صرف اہل کوفہ کو لکھیں کہ تم پہلے شامیوں کو نکال دو، پھر میں کوفہ پہنچ جاؤں گا۔ لیکن حضرت حسین ؓ رضا مند نہ ہوئے۔ عبداللہ بن عباسؓ جب بالکل مایوس ہوگئے تو کہا اگر جاتے ہو تو عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ آپ بھی عثمانؓ کی طرح عورتوں اور بچوں کے سامنے قتل نہ کردیئے جاؤ اور وہ دیکھتے ہی رہ جائیں، لیکن کارکنانِ قضا و قدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لئے حضرت ابنِ عباس ؓکی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔
آخر میں ابوبکر بن حارث نے کہا کہ ہم میں حضرت علیؓ سے بڑی شخصیت کس کی ہوگی؟ مگر اہل عراق نے دنیا کے لالچ میں ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا پھر حضرت حسنؓ سے بے وفائی کی۔ ان زندہ تجربات کے بعد آپ اپنے والد ماجد کے دشمنوں سے بھلائی کی کیا توقع رکھتے ہیں؟
لیکن سیدنا حسینؓ نے اس پر بھی اپنا ارادہ نہ بدلا اور اُنہیں صرف یہی جواب ملا کہ خدا کی مرضی پوری ہوکر رہے گی اور اہل بیت کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہوگئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حالاتِ سفر
اثناے سفر بھی آپ کے بعض احباب نے بذریعہ خطوط عرض کی کہ سفر کے ارادہ کو ترک کردیجئے مگر تقدیر آپ کو کشاں کشاں منزل مقصود یا میدانِ کربلا کی طرف لے جارہی تھی، اس لئے آپ پر کسی کی اپیل یا مشورے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ عمروبن سعد کے خط کے جواب میں لکھا کہ
’’جو شخص اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہے ۔ عمل صالح کرتا ہے اور اسلام کا معترف ہے، وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیونکراختلاف کرسکتا ہے۔ تم نے مجھے امان، بھلائی اور صلہ رحمی کی دعوت دی ہے۔ پس بہترین امان اللہ تعالیٰ کی امان ہے۔ جوشخص دنیا میں خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، خدا قیامت کے دن اُسے امن نہیں دے گا۔ اس لئے میں دنیا میں خدا کا خوف چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن میں اس کی امان کا مستحق ہوجاؤں۔ اگر خط سے تمہاری نیت میرے ساتھ صلہ رحمی اور بھلائی کی ہے تو خدا تمہیں دنیا و آخرت میں جزاے خیر دے۔‘‘
ادھر اہل بیت ِکرام کا قافلہ منازل طے کررہا تھا۔ ادھر ابن زیاد نے قادسیہ سے لے کر خفان، قطقطانہ اور جبل بَعْلع تک جاسوس اور سوار روانہ کردیئے تاکہ حضرت حسین ؓ کی نقل و حرکت کی جملہ خبریں ملتی رہیں۔
سیدناحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاجز پہنچ کر قیس بن مسہر کے ہاتھ اہل کوفہ کو اپنی آمد کا خط ارسال کیا، لیکن ابن زیاد کے تمام انتظام مکمل تھے۔ قیس کو قادسیہ میں گرفتار کرلیا گیا اور ابن زیاد نے اسے چھت سے گرا کر شہید کردیا۔
بطن رملہ کے مقام پر عبداللہ بن مطیع سے آپؓ کی ملاقات ہوئی، اس نے صاف طور پر بیان کردیا کہ آپ ہرگز ہرگز کوفہ کا قصدنہ کریں، آپ وہاں یقینا شہید کردیئے جائیں گے۔ جب ثعلبہ میں پہنچے تو آپؓ کو مسلم بن عقیلؓ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی المناک اطلاع ملی، اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر بہی خواہوں نے پھر عرض کیا کہ آپ یہیں سے واپس لوٹ جائیں، لیکن مسلمؓ کے بھائیوں نے پیش قدمی کی رائے دی۔ اس طرح اہل بیت کا قافلہ ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ زبار پہنچ کر آپ کو اپنے قاصد عبداللہ بن بقطر کے قتل کی اطلاع ملی اور ساتھ ہی مسلم بن عقیلؓ کی وصیت کے مطابق آدمی پہنچے کہ یہاں کا حال بدل چکا ہے۔ اس موقعہ پرسیدناحسین ؓ نے ساتھیوں کو جمع کرکے ایک پُردرد تقریر فرمائی ۔ جس میں آپؓ نے فرمایا:
’’ہمارے شیعوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ جو شخص لوٹنا چاہے وہ خوشی سے الگ ہوجائے، ہمیں کوئی شکایت نہیں۔‘‘
اس پر بے شمار لوگ جو راستہ میں آپ کے ساتھ ہوگئے تھے، الگ ہوگئے اور صرف وہی وفا شعار جاں نثار ساتھ رہے جو مدینہ سے آپؓ کے ساتھ آئے تھے۔ بطن عقبہ پر آپ کو پھر واپسی کی ترغیب دی گئی مگر آپ نے فرمایا:
’’خدا کے حکم کے خلاف نہیں کیاجاسکتا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خونیں سال کی ابتدا
جب آپ شراف میں پہنچے تو محرم ۶۱ہجری کا خونیں سال شروع ہوا اور اسی مقام پر حُر بن یزید تمیمی ایک ہزار سواروں کے ساتھ آپؓ کے مقابل آٹھہرا۔ نمازِ ظہر کے وقت آپ نے حُر کے لشکر کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا کہ
’’میں تمہاری دعوت اور عہدوپیمان کے مطابق یہاں آیا ہوں۔ میرے پاس اس مضمون کے تمہارے خطوط اور قاصد آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں۔ آپ آئیے شائد خدا آپ ہی کے ذریعے ہمیں سیدھے رستہ پر لگا دے۔چنانچہ اب میں آگیا ہوں، اگر تم لوگ میرے ساتھ پختہ وعدہ کرکے مجھے یقین دلا دو تو میں تمہارے شہر میں چلوں۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے اور تمہیں ہمارا آنا ناپسند ہو تو میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں لوٹ جاؤں۔‘‘
نمازِ عصر کے بعد آپ نے پھر اسی مضمون کی تقریر کی تو حُر نے جواب دیا کہ ہمارا خط لکھنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہم ابن زیاد کے سپاہی ہیں اور ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم آپ کے ساتھ لگے رہیں یہاں تک کہ کوفہ میں آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچا دیں۔ اس موقع پر سیدنا حسین ؓ نے قافلہ اہل بیت کو واپس لوٹانا چاہا مگر حُر نے راستہ روک لیا۔ آپؓ مدینہ طیبہ کی طرف جانا چاہتے تھے مگر حر چاہتا تھا کہ آپ کو کوفہ لے جایا جائے۔ مزید گفتگو کے بعد حُر نے یہ اجازت دی کہ اگر آپ کوفہ نہیں جانا چاہتے تو آپ ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ کو جائے اور نہ مدینہ کو۔ اسی دوران میں مَیں ابن زیاد کو لکھتا ہوں اور آپ یزیدکو لکھیں، ممکن ہے عافیت کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ اس قرار داد کے بعد آپ ایک ایسے راستے پر روانہ ہوئے جس کی آخری المناک منزل کربلا تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
میدانِ کرب و بلا از واقعۂ شہادت سیدناحسین ؓ
ابن زیاد کی طرف سے حُر کوحکم دیا گیاکہ قافلہ اہل بیت کو ایک ایسے میدان میں گھیر کر لے جاؤ جہاںکوئی قلعہ اور پانی کا چشمہ نہ ہو۔ اس حکم کے بعدحُرّ نے مزاحمت کی۔ یہ ۲ محرم ۶۱ہجری کا واقعہ ہے کہ قافلۂ اہل بیت اپنے آخری مستقر یعنی نینوا کے میدان کرب و بلا میں خیمہ زن ہوگیا۔ زہیر بن قیسؓ نے کہا: یا ابن رسول اللہؐ! آئندہ جو وقت آئے گا، وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ ابھی لڑنا آسان ہے، اس دستہ کے بعد جو فوجیں آئیں گی، ہم اُن کے ساتھ لڑ نہ سکیں گے، لیکن اس مجسمۂ ؓ شرافت و ایثار نے جواب میں فرمایا کہ
’’میں اپنی طرف سے لڑائی کی ابتدا نہ کروں گا۔‘‘
۳ محرم ۶۱ہجری کو عمرو بن سعد چار ہزار فوج کے ساتھ آپ کے مقابل آکھڑا ہوا۔ عمروبن سعد نے قرہ بن سعد حنظلی کو ملاقات کے لئے بھیجا تو سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے تمہارے شہر والوں نے خطوط لکھ کر بلایا ہے، اب اگر میرا آنا تم کو پسند نہ ہو تو میں لوٹ جاتا ہوں۔
ابن سعد اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور تمام واقعہ ابن زیاد کو لکھ کر بھیجا۔ اس نے جواب دیا کہ تم حسینؓ اور اس کے ساتھیوں سے یزید کی بیعت لو۔ اگر وہ بیعت کرلیں تو پھر دیکھا جائے گا۔
اس کے بعد ہی دوسرا حکم یہ پہنچا کہ قافلہ اہل بیت پر پانی بند کردیا جائے۔ اس حکم پر ابن سعد نے پانچ سو سواروں کا ایک دستہ دریاے فرات پر پانی روکنے کے لئے متعین کردیا۔ اس دستہ نے ساتویں محرم سے پانی روک دیا۔ عبداللہ بن ابو حسین شامی نے سیدنا حسینؓ سے مخاطب ہوکر کہا: حسینؓ پانی دیکھتے ہو، کیسا آسمان کے جگر کی طرح جھلک رہا ہے ،لیکن خدا کی قسم تمہیں ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم اسی طرح پیاسے مروگے!
جب لشکر ِحسین ؓ پر پیاس کا غلبہ ہوا تو حضرت حسین ؓ کے سوتیلے بھائی حضرت عباس بن علی بیس سواروں اور بیس پیادہ افراد کے ساتھ گئے اور پانچ سو شامیوں کا مقابلہ کرکے پانی کی مشکیں لے آئے۔
رات کے وقت ابن سعد اور سیدنا حسین ؓ کے درمیان بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ روایت ہے کہ سیدنا حسین ؓ نے تین تجویزیں پیش کیں:
اوّل: یہ کہ یزید کے پاس بھیج دیا جائے۔
دوم : واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
سوم: کسی سرحدی مقام پربھیج دیا جائے۔
مگر ابن سعد نے منظور نہ کیا۔ اسی دوران ابن زیاد کا دوسرا حکم پہنچا کہ تم حسین ؓ کے سفارشی بنتے ہو، اُ نہیں ڈھیل دیتے ہو، اگر وہ میرا حکم نہیں مانتے تو حملہ کرکے میدان صاف کردو۔ اگر تم اس کے لئے تیار نہیں ہو تو فوج کی کمان ذی الجوشن کے حوالے کردو۔
 
Top