• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کون ہیں؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم
امام ابن تیمیہ کون ہیں؟
میرے خیال میں ارسلان بھائی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مفصل حالات زندگی کے بارے جاننا چاہتے ہیں تو اس بارے ان شاء اللہ کوئی مفصل کتاب اپنی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کر دی جائے گی۔
ویسے شیخ ابو زہرہ نے امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ پر ایک جامع کتاب لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح مولانا علی میاں نے بھی تاریخ دعوت وعزیمت کی ایک جلد مکمل شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حالات وواقعات پر قلمبند کی ہے۔
http://kitabosunnat.com/kutub-library/hayaat-shaikh-ul-islam-ibne-temia.html
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
بن تیمیہ کون تھا اس کے عقائد کیا تھے؟في تاريخ ابن حمار
عقائد اسلامیہ کی تعبیر وتوجیہہ کے باب میں اسلاف ائمہ کرام میں سے امام ابن تیمیہ کومتنازع گرداناجاتا ہے ‘جب کہ حال یہ ہے کہ ان کاعقیدہ نہایت اعتدال پرمبنی ہے اوراگرموجودہ دورمیں اس کی کماحقہ غیر جانبدارانہ تعبیر وتشہیر کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں انتہائوں پر جاپہنچنے والے مسالک کوباہم قریب کیاجاسکے ‘سردست صورتحال کچھ یوں ہے کہ عقائد اسلامیہ میں اپنی کج فہمی کی بناء پر بدعات داخل کرنے والا گروہ امام تیمیہ کی تعلیمات کا من گھڑت تصورپیش کرکے ان سے اپنے خودساختہ عقائد کی بے جاتائید حاصل کررہاہے جب کہ صحیح اسلامی عقیدے پرکاربند کم پڑھے لکھے افراد امت حقائق سے عدم آگہی کے باعث امام ابن تیمیہ کوغیر اسلامی عقیدے کاحامل سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ۲۔بکرکی رائے‘ابن تیمیہ کااصل نام احمد‘اس کی کنیت ابوالعباس اورمشہور ابن تیمیہ ہے۶۲۱ھ میں پیدا ہوئے اور قلعہ دمشق ملک شام(سوریا) میں بحالت قید وبند۲۰ذوالقعدہ ۷۲۸ھ میں وصال ہوا‘ ابن تیمیہ نے مسلمانوں کے اجتماعی عقائد واعمال سے ہٹ کرایک نئی راہ ڈالی جس کے باعث اس کے ہمعصر اوربعدمیں آنے والے بڑے بڑے علماء کرام میں سے بعض نے ان کی تکفیر کی‘ بعض نے گمراہ کہا اوربعض نے بدعتی کے نام سے موسوم کیا ‘جن میں سے چند کی آراء یہ ہیں۔ ٭علامہ جلال الدین سیوطی شافعی کامؤقف’’میں نے ابن تیمیہ کاانجام یہ دیکھاکہ اس کوذلیل کیاگیااوراس کی برائی کی گئی اورحق وباطل سے اس کی تضلیل اورتکفیر ہوئی اور وہ ان خرافات میں پڑنے سے پہلے اپنی زندگی ہی میں سلف(بڑے بڑے علمائ) کے نزدیک (اپنے علم کے باعث) منوروروشن تھا‘پھر وہ(ابن تیمیہ) غلط اوربدعتی مسائل کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک اندھیرے والا اورگرہن والا غبار ہوگیا اوراپنے اعداء اورمخالفین کے نزدیک دجال ‘افاک(بڑابہتان تراش)کافرہوگیا اورعاقلوں‘ فاضلوں کے گروہوں کی نظر میں فاضل محقق بارع(ماہر)بدعتی ہوگیا۔ ٭علامہ ملاعلی قاری حنفی کامؤقف(نام کے)حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے تفریظ(کوتاہی اورکمی)کی ہے (معاذ اللہ)اس طرح کے روضہ رسول علیہ السلام کی زیارت کوحرام کہا‘جیساکہ اس کے غیر نے(یعنی اس کے مخالف اوررد کرنے والے نے) زیادتی کی حد سے بڑھاکراس طرح کہاکہ زیارت شریف کاقربت ہونا یہ ضرورت دین سے معلوم ہے اوراس کے منکرپرحکم کفرہے‘ امید ہے کہ یہ دوسرا(یعنی زیارت پرکفر کافتویٰ دینے والا) صواب(صحیح ہونے) کے زیادہ قریب ہے کیوں کہ اس چیز کوحرام کہنا جو باجماع واتفاق علماء مستحب ہو(جیسے مسئلہ زیارت)وہ کفر ہے کیونکہ اس معاملہ میں تحریم مباح(یعنی مباح کوحرام کہنے) سے بڑھ کر ہے جب مباح کوحرام کہنا کفر ہے تومستحب کوحرام کہنا بطریق اولیٰ کفر ہوگا(ماخوذ شرح الشفاء للعالامہ القاری ‘جلد ۳صفحہ۵۱۴ ہامش نسیم الریاض بحوالہ شواہد الحق) ابن تیمیہ کے بعض من گھڑت عقائد ومسائل:ا للہ تعالی کا جسم ہے اللہ تعالیٰ نقل مکانی کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ عرش کے برابر ہے‘ نہ اس سے بڑا نہ چھوٹا‘حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بہتان شنیع اورکفر قبیح سے پاک ہے اس کے متبع ذلیل ہوئے اوراس کے معتقد خائف وخاسر ہوئے‘ دوزخ فنا ہوجائیگی‘انبیاء کرام علیہ السلام غیر معصوم ہیں حضور علیہ السلام کاعنداللہ کوئی مقام نہیں‘ان کاوسیلہ جائز نہیں‘ روضہ انورعلیہ السلام کی طرف سفرزیارت کرنا گناہ ہے اوراس سفرمیں نماز قصر نہ پڑھی جائیگی‘ حائضہ کوطواف کعبہ جائز ہے اورا سپر کوئی کفارہ بھی نہیں ہے‘تین طلاقیں ایک ہی ہوں گی‘ حالانکہ اپنے دعویٰ سے پہلے اس نے اس کے خلاف(امت محمدیہ کا) اجماع نقل کیا(ازعلامہ ابن حجر مکی ھیتمی شافعی فتاویٰ حدیثیہ صفحہ۹۹ تا۱۰۱مطبوعہ حلبی‘ مصر) لہٰذادونوں میں حق بجانب کون ہے اورعوام وخواص کس کی پیروی کریں؟اللہ تعالیٰ آپ کواس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ (السائل :محمدعبدالکریم گاڈت‘میٹھادرکراچی) ……………………………………. باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب‘ تقی الدین ابن تیمیہ کی زندگی کے دودورتھے اوّل دوریعنی شورشباب میں علماء کرام نے اس کی خوب ستائش کی ‘جب یہ دورختم ہوا اورابن تیمیہ نے دورکہولت(جوانی) کی منزلیں طے کیں اورشیخوخت (بڑھاپے) میں داخل ہواتو اس کے یہی مداح اورمعاون اس سے برگشتہ ہوگئے‘چنانچہ علامہ زاہد الکوثری نے لکھا ہے کہ ’’یہ امر واقع ہے کہ ابن تیمیہ کی تعریف کرنے اوران کے طرفداربننے میں علماء نے عجلت سے کام لیا اورپھران کیلئے پلٹنا مشکل ہوگیا یہاں تک کہ ان تیمیہ اپنے تفردات میں بڑھتے چلے گئے جوکہ معروف ہیں لہٰذا علماء بھی یکے بعد دیگرے ان سے کٹنے لگے یہاں تک کہ جلالی قزوینی ‘قونوی اورحریری وغیرہم کاپیمانہ صبرلبریزہوگیا اورذہنی بھی ان سے کچھ منحرف ہوگئے جب کہ وہ ایک مدت تک مخالفوں کے جوش کوٹھنڈا کرنے میں مصروف رہے اور پوری کوشش کی کہ ابن تیمیہ کواس ورطہ سے نکالیں‘ جس نے بھی ان کی حیات کادقت نظر سے مطالعہ کیا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔(ابن تیمیہ اوران کے ہم عصر ص۵ مطبوعہ ضیاء اکیڈمی‘ کراچی) علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے لکھاہے کہ واول ماانکرو علیہ من مقالاتہ فی شہر ربیع الاوّل۶۲۸ھ قام علیہ جماعۃ من الفقاء بسب الحموتہ(الدررالکامنۃ حرف الالف ذکر مین اسمہ احد‘برقم۴۰۹‘۱/۱۴۴) یعنی‘ابن تیمیہ کی تحریرات پرناپسندیدگی کااظہار پہلی بار ماہ ربیع الاوّل ۶۹۸ھ میں ہوا جب کہ ان کے حموی فتویٰ کے خلاف علماء کی ایک جماعت کھڑی ہوئی۔ چونکہ ابن تیمیہ کی پیدائش ربیع الاوّل۶۶۱ھ ہے اس سے ظاہر ہے کہ مخالفت کی ابتداء اس وقت ہوئی ہے جب ابن تیمیہ کی عمرسینتیس (۳۷) سال کی تھی اورچونکہ فتویٰ حموی کاتعلق عقائد سے ہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کااختلاف عقائد کی بناء پرشروع پھر حافظ ابن حجر نے علماء کرام کی کتب سے ابن تیمیہ کی روح وستائش اوران کے ہفوات کابیان کیا ان میں تقریباً آٹھ صفحات محاسن پر اورتقریباً تین صفحات مساوی پر مشتمل ہیں اوردیکھنے میں آیا ہے کہ ابن تیمیہ کے پیروکار طرفداراس کے ہفوات ومزلات کوچھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علماء کرام کے حوالے سے بیاہ کردہ محاسن کوتوبیان کرتے ہیں اورمساوی ذکر نہیں کرتے حالانکہ ابن تیمیہ کے ہم عصر علماء میں سے صر ف دوتین ہی ایسے تھے کہ جنہوں نے اس کے مساوی کوبیان کرنے سے گریز کیاجیسے ابن قیم اورابن عبدالہادی وغیر دھما اوریہ توعلماء اعلام کی انصاف پسندی اورنیک نیتی تھی کہ انہوں نے ابن تیمیہ کی اچھی صفات کاانکارنہیں کیا اور خرابی اس سے دور سے پیدا ہوئی کہ علماء اعلام نے ابن تیمیہ کے محاسن بیان کرنے میں عجلت سے کام لیا جیساکہ علامہ کوثری نے ذکر کیااس سے ایک طرفہ تو اس کے طرفداروں نے اس کے بارے میں غلوکیا‘ دوسری طرف خود اس میں گھمنڈ پیدا ہوا اور وہ اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھنے لگا‘ سب ہی پرردکرنا شروع کردیں یہاں تک کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچ گیا اورکسی بات میں ان کوبرخطا کہہ دیا کہ یہ بات شیخ (ابواسحاق)ابراہیم(بن احمد بن محمد)الرقی تک پہنچی اورانہوں نے اس کاانکار کردیا‘چنانچہ ابن تیمیہ نے ان کے پاس جاکرعذر خواہی اوراستغفار کی‘ اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق کہہ دیا کہ ستر(۷۰) جگہ ان سے خطا ہوئی ہے اوروہ نص کتاب کی مخالفت کرگئے اوروہ حنبلیت کی بناء پراشاعرہ پراعتراضات کررہاتھاکہ امام غزالی کوگالی دے بیٹھا‘چنانچہ کچھ لوگ برافروختہ ہوگئے اورقریب تھاکہ اسے قتل کردیتے‘ الدرلکامنہ حرف الائف ذکر مین اسمہ احد برقم۰۹‘۱/۱۴۳‘۱۵) ابن تیمیہ نے جب بعض اہم مسائل میں اہل السنتہ کی مخالفت کی توعلماء کرام نے اس کابھرپورردکیا خصوصاً اللہ تعالیٰ کی جہت وجانب اورمکان ومحل کے عقیدہ کاردوابطال ‘چنانچہ امام یوسف بن اسماعیل نبہانی ‘ متوفی۱۳۵۰ لکھتے ہیں ابن تیمیہ کے معاصرین میں سے امام صدر الدین بن وکیل المعروف ابن مرحل شافعی ہیں جنہوں نے اس کے ساتھ مناظرہ بھی کیا تھااور امام ابو حیان ہیں جوکہ اس کے انتہائی گہرے دوست تھے مگر جب اس کی بدعات پر مطلع ہوئے تواس کوہمیشہ کیلئے ترک کردیاا ورلوگوں کواس سے دور رہنے کاحکم دیا ‘اورامام الدین ابن جماعہ ہیں جنہوں نے ابن تیمیہ کازبردست رد کیا‘ اور اس پر سخت تشیع کی‘ ابن تیمیہ پرردوقدح کرنے والوں میں سے امام کمال الدین زملکانی شافعی ہیں جن کی وفات۷۲۷ھ میں ہوئی ابن الوردی نے اپنی کتاب میں ان کے متعلق فرمایا کہوہ علم کے سمندرتھے‘ مختلف فنون پرکامل دسترس رکھتے تھے‘ فتوی میں انتہائی دقیقہ سنج تھے اورپختہ فکر کے مالک‘ کشف الظنون میں ان کی کتاب’’کتاب الدرہ امضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ) کاذکر کیاگیا ہے انہوں نے ابن تیمیہ کے ساتھ ان مسائل میں مناظرہ کیا جن میں اس نے مذاہب اربعہ سے شندوذ اورعلیحدگی اختیار کی تھی جس میں سے ایک انتہائی قبیح اوربدترین نظریہ یہ بھی تھاکہ انبیاء وصالحین کے ساتھ توسل واستغاثہ بھی ممنوع ہے اوران کااکابرین ملت میں سے امام کبیروشہیر تقی الدین سکبی شافعی ہیں جنہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتاب’’شفاء السقام فی زیارہ خیر الانام علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میں ابن تیمیہ کاردکرتے ہوئے فرمایا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ توسل استغاثہ اوران سے طلب شفاعت جائز ومستحسن ہے اوراس کاحسن اورجوازشرعی ہردیندار کے نزدیک معلوم ومعرف اورانبیاء ومرسلین ‘سلف صالحین اورعلماء عوام مسلمین کے معروف ومشہور سیرت وطریقہ سے ہے نہ کسی مومن نے اس کاانکار کیا ہے اورنہ ہی ابن تیمیہ کے ظہور سے قبل کسی زمانے میں اس کاانکار سننے میں آیا یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اس مسئلہ پر کلام کیا اورسادہ لوح حنیف ایمان والے لوگوں پر اس مسئلہ کوخلط ملط کردیا اور ایک ایسی بدعت پیدا کردی جس کا پہلے تمام زمانوں میں کسی نے نام تک نہیں لیا اور اس قول کی لغویت وبیہودگی کیلئے یہی قدرکافی ہے کہ ابن تیمیہ سے قبل کوئی عالم استغاثہ توسل کامنکر نہیں ہوا اور یہی شخض اس قبول کی وجہ سے اہل اسلام کے درمیان ضرب المثل بن گیا۔(شواہد الحق الباب‘ الرابع‘فی نقل عبارات علماء المذہب الاربعہ فی الردعلی ابن تیمیہ۱۳۲‘مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا) ابن حجر نے اپنی تصنیف فتح الباری شرح صحیح البخاری میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لاتشدالرحال الا الی تلاثۃ مساجد کے تحت امام سبکی کا ابن تیمیہ پرزیارت کوحرام قرا ردینے کاردذکرکرکے اورامام سبکی کی تائید وتصدیق کرتے ہوئے فرمایا‘زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سفر کرنا حرام قرار دینا ان مسائل میں سے قبیح ترین ہے جو ابن تیمیہ سے منقول ہیں(فتح الباری شرح صحیح البخاری‘ کتاب فضل الصلوہ فی مسجد مکۃ والمدینہ ‘باب فضل الصلوہ فی مسجد مکۃ والمدینہ الجز الثالث والرابع ص۸۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت الطبعۃ الثالثہ 1421ھء 2000ء
دکتور محمودالسید صبیح نے لکھا ہے کہ جن علماء نے ابن تیمیہ کی مذمت کی ان میں ابن الرفعہ‘ باجی‘ ابن الزملکانی‘ صفی الدین ہندی‘ ابن المرحل‘ تقی الدین سبکی‘ تقی الدین حضی‘علاء البخاری اوردوسرے ہیں(اخطاء ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اہل بیتہ ص۱۴) اورابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھاکہ دمشق میں حنابلہ کے کبار فقہا میں سے ابن تیمیہ تھے جو شام کے بڑے (عالم) تھے اورفنون میں کلام کرتے تھے مگران کی عقل میں کچھ فتورتھا‘میں جب دمشق میں تھا توجمعہ کے روزاس کے پِاس گیا اوروہ جامع مسجد میں منبر پرلوگوں کووعظ کررہاتھا اورانہیں نصیحت کررہاتھااس کے من جملہ کلام سے یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا سے نزول فرمائیگا‘ میرے اس نزول کی طرح اوریہ کہتے ہوئے وہ منبر کے درجوں میں سے ایک درجہ اترا۔ اورحافظ ولی الدین عراقی نے بھی فرمایا کہ مگرشیخ تقی الدین ابن تیمیہ توجیسا کہ اس کے بارے میں کہاگیا اس کاعلم اس کی عقل سے زائد تھا میں نے اس کوکثیر مسائل میں فرق اجماع تک پہنچادیا۔(اخطاء ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واہل بیتہ ص۱۵)اورعلامہ احمد بن حجرہیتمی شافعی ۹۷۳ھ نے الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم‘‘میں فرمایا میں کہتاہوں کہ وہ ابن تیمیہ کون ہے کہ اس کی طرف نگاہ کی جائے یا اموردین میں سے کسی شے میں اس کی جانب رجوع کیا جائے وہ نہیں ہے مگر جیساکہ ائمہ دین کی ایک بڑی جماعت نے کہاکہ جس جماعت نے اس کلمات فاسدہ اوراس کی کاسدہ حجتوں کاتعقب کیا ہے یہاں تک کہ اس کے گرے ہوئے ہونے اوراس کے اوہام کی قباحت اوراس کی غلطیوں کوظاہر کیا جیسے عزبن جماعہ کہ یہ ایک بندہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اوراسے رسوائی کی چادرپہنادی‘ افتراء وکذب کے قوت کاٹھکانہ دیا کہ جس کاانجام خواری ہے اور اس کے لئے محرومی کوواجب کردیا(ھدایتہ السالک ۳/۱۳۸۴)یہ جوابن تیمیہ سے واقع ہو اس میں سے جوذکر کیا گیا اگرچہ ایسا ہے جوہمیشہ کیلئے نہ کیاجائے اورایسی مصیبت ہے کہ جس کی شومی ہمیشہ رہے گی(الجوہرہ المنظم فی زیارہ القبور المکرم ‘تنبیہ ھام فی الرد علی من اعتقد ان الزیارہ تنافی التوحید‘ ص۵۸مطبوعہ دارالحاوی ‘دمشق الطبعۃ الاولیٰ ۱۴۲۷ھ۔۲۰۰۸ اورفتاویٰ حدیثیہ میں لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے بہت سے مسائل میں علمائے حق کی مخالفت کی ہے جس کی نشاندہی امام تاج الدین سبکی وغیرہ نے کی ہے توجن مسائل میں اس نے فرق اجماع کیا ان میں سے چند یہ ہیں حالت حیض میں اورجس طہر میں ہمبستری کی ہے طلاق واقع نہیں ہوتی نماز اگرقصداً چھوڑی جائے توا س کی قضا واجب نہیں اورحالت حیض میں طواف بیت اللہ جائز ہے اورکوئی کفارہ نہیں ‘تین طلاق سے ایک ہی پڑتی ہے اورتیل وغیرہ پتلی چیزیں چوہا وغیرہ مرنے سے نجس نہیں ہوتیں اور ہمبستری غسل کرنے سے پہلے رات میں نفل نماز پڑھناجائز ہے اگرچہ شہر میں ہو اور جوشخص اجماع امت کی مخالفت کرے اسے کافر وفاسق قرارنہیں دیاجائیگا اور خداتعالیٰ کی ذات میں تغیر وتبدل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اوراس کے لئے جہت اورایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کاقائل ہے اورکہتاہے کہ خدا تعالیٰ بالکل عرش کے برابرہے نہ اس سے چھوٹا ہے اورنہ بڑااوریہ بھی کہتا ہے کہ جہنم فنا ہوجائیگی‘ اوریہ بھی کہتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم نہیں ہیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی مرتبہ نہیں اوران کاوسیلہ بناناجائز نہیں اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی نیت سے سفرکرنا گناہ ہے ایسے سفرمیں نماز کی قصر جائز نہیں اور جوشخص ایسا کرے گا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا ملخصاً(الفتاویٰ الحدیثیہ مطلب فیما جری من ابن تیمیہ ص۱۰۰‘مطبوعہ مطبعہ مصطفی البابی واولادہ مصر ۱۳۵۶ھ۔۱۹۳۸ئ) اورلکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ایسا شخص ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نامرادکردیا اوراس کی بصارت وسماعت کوسلب فرمالیا اوراس کوذلت کے گڑھے میں گرادیا اوران باتوں کی تصریح ان آئمہ کرام نے فرمائی ہے جنہوں نے اس کے احوال کے فساد اوراس کے اقوام کے جھوٹ کاپول کھولا جوشخص ان باتوں کاتفصیلی علم حاصل کرناچاہئے وہ اس امام کے کلام کامطالعہ کرے جن کی امامت وجلالت پرسب علماء کرام کااتفاق ہے جو مرتبہ اجتہاد پرفائز ہیں یعنی حضرت ابوالحسن سبکی رحمتہ اللہ علیہ اورتاج الدین سبکی کے فرزند‘امام عزالدین بن جماعہ اوران کے ہمعصر شافعی‘ مالکی اورحنفی علماء کی کتب کوپڑھے‘ابن تیمیہ کے اعتراضات فقط متاخرین صوفیہ ہی پرنہیں بلکہ وہ توحد سے بڑھ گیا کہ امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب اور امیرالمومنین حضرت علی بن ابن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسی مقدس ذاتوں کوبھی اپنے اعتراضات کانشانہ بناڈالا‘خلاصہ یہ کہ ابن تیمیہ کے کلام میں کوئی وزن نہیں بلکہ وہ اس قابل ہیں کہ گڑھوں اورکنوئوں میں پھینک دی جائیں اورابن تیمیہ کے بارے میں یہی اعتقادرکھاجائے کہ وہ بدعتی ‘گمراہ دوسروں کوگمراہ کرنے والا‘جاہل اورحد سے تجاویز کرنے والاخدا تعالیٰ اس سے انتقام لے ہم سب لوگوں کو اس کی راہ اوراس کے عقائد سے اپنی پناہ میں رکھے(الفتاویٰ الحدیثہ مطلب‘اعترض ابن تیمیہ علی متاخری الصوفیہ ولہ خوارق الخ‘ص۹۹مطبوعہ مصطفی البابی واولادہ بمصر ۱۳۵۶ھ۔۱۹۳۷ئ) علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی کے ردابن تیمیہ کااحوال امام یوسف بن اسماعیل نبہانی شافعی متوفی ۱۳۵۰ھ یوں لکھتے ہیں کہ امام موصوف نے ابن تیمیہ پرردوقدح کے معاملہ میں انتہائی شدت سے کام لیا جس میں دین متین کاتحفظ بھی مطلوب ہے‘ اہلسنّت پرشفقت بھی ہے تاکہ کہیں ابن تیمیہ کی لغزشات اورمعالظات فاحشہ ان تک بھی سرایت نہ کرجائیں اورخاص طورپرسید دوعالم فخر مرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی کج روی اورغلط سوچ سے اہل اسلام کاتحفظ ضروری ہے‘ اور جوشخص بھی بنظر انصاف اس امام زمانہ(یعنی ابن حجرہیتمی) کے اندازواسلوب کودیکھے گا وہ ان کی ولایت کی گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کومستقل قریب میں ابن تیمیہ کے اقوام پر مرتب ہونے والے نقصانات سے مطلع فرمادیا‘ یعنی فرقہ وہابیہ کاظہور وخروج جن کی اصل بنیاد یہی ابن تیمیہ ہے وہی ان کے عقائد ہیں جوابن تیمیہ کے تھے اوروہی ان کاسرمایہ ‘استدلال واستناد ہے اوروہی اس فساد کی جڑ ہے اورضررونقصان اہل اسلام کوان سے پہنچا ہے اورعلی الخصوص حرمین شریفین اورسرزمین عرب میں اہل اسلام اوراسلام کوان کی وجہ سے جو نقصان پہنچاوہ کسی بھی صاحب ایمان پر مخفی نہیں ہے لہٰذا عین ممکن ہے اوربالکل قرین قیاس یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام ابن حجر کواس امر پرازروائے کرامت مطلع کردیا ہے اوروہ اس کے اہل بھی ہیں کیونکہ وہ اکابرعلماء عاملین میں سے ہیں اورآئمہ ھادین ومہدیین سے ان کاعلم اوران کی کتب جوامت کیلئے انتہائی مفید ہیں اورانہوں نے اپنی تصانیف سے امت کی وہ خدمت کی ہے جس پراس وقت سے لے کرآج تک ان کاکوئی ہمسرنہیں ہے‘ انہوں نے اپنے فیوض وبرکات سے دنیا کومعمورکردیا ہے اورتمام بلاد اسلام میں خواص وعوام نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ جس شخص کایہ منصب ومقام ہوتوکیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوبعض غیوب پر اطلاع کی کرامت سے سرفراز فرمایا ہو اور اس ابن تیمیہ کے نامہ اعمال میں وہ فضائح وقبائح بھی مندرج ہیں جو اس کی اتباع میں فرقہ وہابیہ کی وجہ سے اہل اسلام اورملت اسلامیہ کونقصانات اٹھانے پڑے ہیں اسی لئے امام موصوف نے ابن تیمیہ پرسب ائمہ اعلام اورعلماء کرام کی نسبت سخت تنقید کی اورآپ بہت سخت عبارات کے ساتھ اس کاردفرماتے تھے جس میں اہل اسلام پرشفقت ہے اوردین متین کی حمایت وحفاظت ان کی عبارات تمام کتب میں موجود ہیں خصوصاً فتاویٰ حدیثیہ میں(شواہد الحق الباب الربع‘ص ۱۴۲‘مطبوعہ مرکز اہل السنتہ برکات رضا غجرات الھند الطبعتہ الاولیٰ۲۰۰۴ھ۴۳۵‘م) اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ان نقول وتصریحات اورعلماء اعلام کی تصانیف سے دوپہر کے آفتاب کی مانند واضح ہوگیاکہ مذہب اربعہ کے علماء اعلام ابن تیمیہ کے بدعات پرردوقدح میں متفق ہیں‘ بعض حضرات نے اس حوالہ جات کی صحت نقل کے لحاظ سے اس پراعتراض کیا ہے (یعنی ابن تیمیہ اس معاملہ میں بددیانتی سے کام لیتاتھا) اوربعض نے اس کے عقل کی کمی کے اعتبار سے اوراس کے مسائل پرطن وتشنیع اس کے علاوہ ہے جن میں اس کے شذواختیارکیا ہے اوراجماع امت کی مخالفت کی ہے اورخطاء فاحش کامرتکب ہوا، خصوصاً ان مسائل میں کہ جن کاتعلق سید المرسلین فخر الاولین والاآخرین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے‘جن حضرات نے اس پرعدم صحت نقل کے لحاظ سے اعتراض کیا ہے ان میں علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی شارح شفاء امام محمد زرقانی مالکی شارح مواہب اورامام سبکی شافعی قابل ذکر ہیں اورامام سبکی نے’’الشفاء السقام‘‘ میں ابن تیمیہ کی نظریاتی خطاء کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان احکام شرعیہ کی صحت نقل کے لحاظ سے بھی اس کی خطاء واضح کی ہے جن کومختلف علماء اعلام کی طرف منسوب کرکے اس (یعنی ابن تیمیہ) نے نقل کیا۔ تاکہ اپنی بدعات(وضلالات) کی تائید وتقویت حاصل کرے حالانکہ انہوں نے قطعاً یہ اقوام واحکام ذکر نہیں کئے تھے اور امام ابن حجرہیتمی نے بھی اپنے ردوقدح میں ابن تیمیہ پر یہ اعتراض کیا ہے۔ اوریہ امر کسی بھی صاحب ہوش وعقل پر مخفی نہیں ہے کہ نقل میں بددیانتی سے کام لینا عالم کے اندر بڑا عیب ہے اورانتہائی بداخلاقی جس سے اس پروثوق واعتماد ختم ہوجاتاہے اگرچہ واحفظ الحاظ واعلم العلماء کیوں نہ ہو(شواہد الحق الباب الرابع ص۱۴۳‘مطبوعہ مرکز اہل السنہ برکات رضا غجرات الہند اطبعہ الاوّلی ۲۰۰۴۔۱۴۲۵م) حافظ ابن حجر اورامام عینی کے استادحافظ کبیر زین الدین عبدالرحیم بن حسین عراقی نے بھی ابن تیمیہ کاردکیا جس سے ابن تیمیہ کی نقل کے غیر معتبر ہونے کی تائید ہوتی ہے حافظ عراقی نے ابن تیمیہ کے ایک جواب پراعتراض کرتے ہوئے فرمایا‘ مجھے ابن تیمیہ جیسے عالم سے سرزد ہونے والے یہ اقوال دیکھ کربہت زیادہ حیرانگی ہوئی کہ یہ شخص جس کے متعلق اس کے متبعین یہ کہتے ہیں کہ وہ علام سنت کااحاطہ کئے ہوئے ہیں اوران کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے الخ(شواھد الحق‘الباب الرابع‘ص۱۴۳‘۱۴۴‘مطبوعہ مرکز اہل لانستہ برکات رضا غجرات الہندالطبعہ الاولی۲۰۰۴۔۱۴۲۵م) اورکچھ نے ابن تیمیہ کی تکفیر بھی کی ہے جیسے ملاعلی قاری حنفی اور شہاب الدین خفاجی حنفی وغیر ہما(شواہد الحق الباب الرابع التنبیہ الثانی‘ص۴۰) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کی آنکھوں کا کانٹا ہیں جو رافضی ہیں یا پھر رفض کے عمل کرتے ہیں جاہل قبر پرست وغیرہ اسی طرح کے ایک نام نہاد سنی غالبن 12 صدی ہجری میں مخدوم معین الدین ٹھٹھوی نے امام ابن تیمیہ پر کتاب لکھ ماری اور ان پر کفر تک کا فتوی دی دیا ،ان کو اہل بیت کا دشمن قرار دیا معاذ اللہ ان کو ملعون تک کہ دیا اور لوگوں میں اس کا بہت چرچا ہوا اس کی کتاب مشہور ہونے لگی تو پھر ان ہی کے دور میں ایک دوسرے عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ نے اس کا رد لکھا جس نام شاید سندہی زبان میں تھا اس کا عربی ترجمہ بھی ہوا ہے اور اس کا عربی نام ہے الحجۃ القویۃ فی الرد علی من قدح فی الحافظ ابن تیمیہ ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کی آنکھوں کا کانٹا ہیں جو رافضی ہیں یا پھر رفض کے عمل کرتے ہیں جاہل قبر پرست وغیرہ اسی طرح کے ایک نام نہاد سنی غالبن 12 صدی ہجری میں مخدوم معین الدین ٹھٹھوی نے امام ابن تیمیہ پر کتاب لکھ ماری اور ان پر کفر تک کا فتوی دی دیا ،ان کو اہل بیت کا دشمن قرار دیا معاذ اللہ ان کو ملعون تک کہ دیا اور لوگوں میں اس کا بہت چرچا ہوا اس کی کتاب مشہور ہونے لگی تو پھر ان ہی کے دور میں ایک دوسرے عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ نے اس کا رد لکھا جس نام شاید سندہی زبان میں تھا اس کا عربی ترجمہ بھی ہوا ہے اور اس کا عربی نام ہے الحجۃ القویۃ فی الرد علی من قدح فی الحافظ ابن تیمیہ ۔


ایک مثال یہاں دیکھی جا سکتی ہے

http://islamicrch.org/maqalat/ibne_tamya.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام ابن تیمیہ اور علامہ شبلی نعمانی

الواقعۃ شمارہ 38 رجب المرجب 1436ھ
از قلم : محمد عزیر شمس، مکہ مکرمہ

برصغیر میں امام ابن تیمیہ کے افکار سے واقفیت اور ان کے تھوڑے بہت اثر کا سلسلہ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے۔ بعض محققین نے اس سلسلے میں متعدد شواہد اور قرائن پیش کیے ہیں جن کی تفصیل یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔(1) بعد کے ادوار میں شاہ ولی اللہ ، نواب صدیق حسن خاں اور سید نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ ( خصوصاً غزنوی علماء ) نے امام ابن تیمیہ کے تعارف و دفاع اور ان کی کتابوں کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا جس سے اہلِ علم کو امام صاحب کے حالات اور خدمات سے واقفیت ہوئی۔ علامہ شبلی نے محسوس کیا کہ ابھی اردو داں طبقہ امام ابن تیمیہ کی شخصیت اور ان کے تجدیدی کارناموں سے پورے طور پر واقف نہیں اس لیے انہوں نے ” الندوہ ” ( جولائی 1908ء ) (2) میں ان پر ایک مختصر مگر بھرپور مضمون شائع کیا ، جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ لکھا کہ جو شخص ریفارمر کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے وہ علامہ ابن تیمیہ ہیں ، مجددیت کی اصلی خصوصیتیں جس قدر ان کی ذات میں پائی جاتی ہیں ان کی نظیر بہت کم مل سکتی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے عربی کے اہم مآخذ کی روشنی میں ولادت سے وفات تک کے تمام حالات تحقیق سے لکھے ہیں مگر ان کی تصانیف و تحقیقات کا تذکرہ اور ان کے افکار و نظریات پر تبصرہ کرنے کا انہیں موقع نہ ملا۔ البتہ مضمون میں ” الفرقان بین اولیاء الرحمٰن و اولیاء الشیطان ” اور ” مناظرہ مصریہ ” کا ذکر آیا ہے۔ دوسری کتاب ( جس کا قلمی نسخہ اس نام سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی لائبریری میں ہے ) در حقیقت ” التسعینیه ” ہے جو مسئلہ کلام اللہ سے متعلق ہے ، اور کئی بار چھپ چکی ہے۔
عام طور پر لوگوں کو امام ابن تیمیہ سے متعلق علامہ شبلی کے صرف اسی مضمون کا علم ہے۔ میں نے جب ان کی دیگر تصانیف ، مقالات ، خطوط اور ” حیات شبلی ” کا مطالعہ کیا تو بعض دلچسپ معلومات دستیاب ہوئیں۔ مضمون میں ان ہی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
علامہ شبلی ایک زمانے میں متصلّب حنفی تھے ، قراء ت خلف الامام کے مسئلے میں ” ظل الغمام ” اور ” اسکات المعتدی ” ( عربی ) جیسی کتابیں لکھیں۔ دوسری کتاب مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی کے ردّ میں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے متشدد تھے۔ 1883ء میں علی گڑھ آنے کے بعد ان کے یہاں روشن خیالی آئی۔ تاریخ ، ادب ، فلسفہ اور مذہب کی تحقیقات سے واقف ہوئے۔ جدید عرب مصنفین کی کتابیں اور عربی رسائل و جرائد نظر سے گزرے۔ چنانچہ انہوں نے تصنیف و تالیف کا رخ نامورانِ اسلام کی طرف موڑ دیا ، اور اس سلسلے میں کئی مشہور کتابیں لکھیں اور شائع کیں۔ ان میں سے ” المامون ” ( 1887ء ) اور ” الفاروق ” ( 1897، 1898ء ) میں ابن تیمیہ کی طرف نہ تو کوئی اشارہ ہے اور نہ ہی ان کی کسی رائے کا تذکرہ ، جب کہ کئی موقع پر امام ابن تیمیہ کی ” منہاج السنۃ ” اور دوسری کتابوں میں موضوعِ بحث سے متعلق کافی مواد موجود تھا مگر اس وقت تک چونکہ یہ کتابیں طبع نہیں ہوئی تھیں اس لیے وہ ان کے زیرِ مطالعہ نہیں آئیں۔ ” سیرۃ النعمان ” ( 1891ء ) میں دو تین جگہ ابن تیمیہ کا ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ امام ابو حنیفہ کی امام جعفر صادق سے شاگردی کا مسئلہ زیر بحث ہے ، دوسری جگہ امام شافعی کی امام محمد بن حسن سے شاگردی کا مسئلہ ، علامہ شبلی دونوں کی شاگردی کے قائل اور امام ابن تیمیہ اس کے منکر ہیں۔ پہلی جگہ تو لگتا ہے کہ امام صاحب سے سخت ناراض ہیں ، یہاں تک لکھ گئے کہ ” یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اور خیرہ چشمی ہے۔” (3) دوسری جگہ تحریر فرمایا : ” اگلے زمانے میں ابن تیمیہ نے امام شافعی کی شاگردی سے انکار کیا تھا ، لیکن حق کو کون دبا سکتا ہے۔” (4)۔
واقعہ یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ نے ” منهاج السنة ” (5) میں ابن المطہّر کے دعوی ( بابت شاگردی ) کو تاریخی حقائق کی روشنی میں ردّ کیا ہے۔ چوں کہ اس وقت تک ” منهاج السنة ” طبع نہیں ہوئی تھی ، اور خود علامہ شبلی ابن تیمیہ کی تصانیف سے زیادہ واقف نہ تھے ، اس لیے ان کی رائے مخالفین کی کتابوں سے نقل کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ شبلی اس وقت تک اپنے پرانے مسلکی تعصب کے خول سے باہر نہیں آ سکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اس کتاب میں ہر جگہ اہل الرائے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ (6)۔
1901ء میں جب شبلی حیدرآباد گئے تو وہاں دوسرے مشاغل کے ساتھ علم الکلام کی تاریخ لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں ” الغزالی ” ( 1902ء ) ، ” علم الکلام ” ( 1903ء ) ، ” الکلام ” ( 1904ء ) اور ” سوانح مولاناے روم ” ( 1906ء ) شائع کیں۔ حیدر آباد میں انہوں آصفیہ لائبریری میں امام ابن تیمیہ کی ایک اہم کتاب ” الردّ علی المنطقیین ” کا منفرد قلمی نسخہ نظر آیا۔ (7) اس کے مطالعہ کے بعد انہیں امام صاحب کی عظمت کا احساس ہوا ، چنانچہ ” الغزالی ” میں ایک جگہ امام غزالی کی کتاب ” محکنّ النظر ” ( جو اس زمانے میں ناپید تھی ) کے اقتباسات ” الردّ علی المنطقیین ” کے واسطے سے نقل کیے ہیں۔ (8) دوسری جگہ مسئلہ صفات باری کی بحث میں امام ابن تیمیہ کا نقطہ نظر بطور لطیفہ ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ” علامہ ابن تیمیہ بظاہر تشبیہ کے قائل تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ اس عقیدے کی رو سے خدا کا ممکن الوجود ہونا لازم آتا ہے، کیوں کہ خدا عرش پر رہتا ہے تو اس کے جسم ہوگا، اور جسم ہوگا تو ممکن الوجود ہوگا، حالانکہ خدا واجب الوجود ہے۔ انہوں نے کہا : میرے عقیدے کے موافق خدا موجود تو ہوگا ممکن الوجود سہی۔ تمہارے اعتقاد کے موافق تو وہ ممکن بھی نہیں رہتا ، بلکہ نا ممکن اور محال بن جاتا ہے۔ کیوں کہ ایسی شئی جو ہر جگہ ہو اور کہیں نہ ہو ، عالم سے خارج بھی نہ ہو اور عالم میں بھی نہ ہو ، نہ متصل ہو نہ منفصل ، نہ ذو مکاں ہو نہ ذو جہت ، سرے سے ہو ہی نہیں سکتی ۔ کیوں کہ یہ ارتفاع النقیضین ہے، اور ارتفاع النقیضین محال ہے۔ (9)۔
دوسری کتاب ” علم الکلام ” میں شبلی نے امام ابن تیمیہ کے حالات اور خدمات کا تحسین آمیز انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ (10) چنانچہ لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے متکلمین اشاعرہ کی مخالفت نہایت دلیری اور آزادی سے کی اور ظاہر کیا کہ جس چیز کو وہ مذہب کی تائید سمجھتے ہیں وہ در حقیقت مذہب کو اور نقصان پہنچانے والی ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اشاعرہ کے عقائد گو دلائل عقلی کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں لیکن اکابرِ سلف کے یہی عقائد تھے۔ ابن تیمیہ نے اس غلطی کا اکثر جگہ اظہار کیا ، اور نہایت آزادی اور بیباکی سے ان مسائل کا ابطال کیا۔ اخیر میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے عقائدِ اسلامی کو حشو و زوائد سے پاک کرکے پورا پورا وہ نمونہ قائم کرنا چاہا تھا جو قرونِ اولیٰ میں تھا۔ لیکن کچھ فقہا کے رشک و حسد اور کچھ خود علامہ موصوف کی درشتیِ تقریر کی وجہ سے تمام لوگوں میں اس قدر برہمی پیدا ہو گئی کہ ان کو مدت تک قید خانے میں زندگی بسر کرنی پڑی اور ان کا اثر دب کر رہ گیا۔
” علم الکلام ” میں امام ابن تیمیہ کی تصانیف کا بھی تذکرہ ہے۔ ان کی ” شرح حدیث النزول ” ( جو امرتسر سے 1314ھ میں چھپ چکی تھی ) سے ایک جگہ استفادہ کیا ہے۔ (11) ایک جگہ لکھتے ہیں : علامہ ابن تیمیہ نے خاص فلسفہ کے ردّ میں بھی چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی۔ (12) ان کا اشارہ ” درء تعارض العقل و النقل ” کی طرف ہے ، جو اس وقت تک طبع نہیں ہوئی تھی ، ورنہ اس کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے۔ ابن تیمیہ کی ” الرد علی المنطقیین ” کے اقتباسات کتاب میں جگہ جگہ دیے ہیں۔ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ کتاب میرے پاس ہے اور میں کسی موقع پر اس کی تحقیقات سے کام لوں گا، اور اس کے مضامین ناظرین کے سامنے پیش کروں گا۔ (13) چنانچہ "الندوہ” ( ستمبر 1904ء(14) ) میں ” فلسفہ یونان اور اسلام ” کے عنوان سے جو مضمون شائع کیا تھا، اس میں اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔ دوسرا مضمون جو "الندوہ” ( ستمبر، نومبر 1904ء(15) ) میں "فلسفہ یونان اور اسلام : یونانی منطق کی غلطیاں” کے عنوان سے چھپا تھا وہ تو پورا کا پورا امام ابن تیمیہ کی کتاب سے ماخوذ ہے۔ علامہ شبلی نے پہلی بار اردو داں طبقے کے سامنے اس موضوع سے متعلق امام صاحب کی تحقیقات کا خلاصہ پیش کیا تھا۔ عالم اسلام میں شاید اس سے قبل ( نواب صدیق حسن خاں کے علاوہ(16) ) کسی کو اس کتاب اور اس کے مضامین سے واقفیت نہ تھی۔
” علم الکلام ” کے مقدمے میں علامہ شبلی نے بطور مآخذ جن کتابوں کا ذکر کیا ہے ان میں ابن تیمیہ کی ” الکلام علی المحصّل ” کا بھی تذکرہ ہے۔ (17) میری معلومات کی حد تک یہ کتاب ناپید ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں میں اس کا کہیں وجود نہیں۔ پھر اس کا ذکر شبلی نے کیسے کیا ؟ تھوڑی دیر کے لیے مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے علامہ شبلی کو اس کا کوئی قلمی نسخہ ہاتھ آیا ہو ، کیوں کہ وہ ہمیشہ نادر مخطوطات کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ لیکن پھر جلد ہی یہ خیال دل سے نکال دیا ۔ در اصل امام ابن تیمیہ نے ” الرد علی المنطقیین ” میں پانچ جگہ اپنی اس کتاب کا ذکر کیا ہے(18) اور تفصیلی بحث کے لیے اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس لیے شبلی نے بطور خاص اس کا ذکر مقدمہ میں مناسب سمجھا ، حالانکہ وہ بالواسطہ اس سے استفادہ کر رہے تھے۔
” علم الکلام ” اور ” الکلام ” کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شبلی نے اسلامی عقائد کو متکلمین اور حکمائے اسلام کی کتابوں سے چن کر یکجا کیا تھا۔ حالانکہ ان کا اصلی سر چشمہ کتاب الٰہی اور سنت نبوی ہے ۔ اگر یہ دونوں چیزیں براہ راست سامنے رکھی جاتیں تو منزلِ مقصود کا صحیح پتہ لگ جاتا۔ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں: ” اخیر زمانے میں امام ابن تیمیہ کی تصنیفات کے مطالعہ نے یہ نقطہ نظر ان کے سامنے کر دیا تھا، مگر تصنیفی عمل کا وقت گزر چکا تھا۔” (19)۔
علامہ شبلی اپنے ایک مضمون ( در : ” الندوہ ” اکتوبر 1905ء ) میں لکھتے ہیں کہ ایک مدت سے تمام اسلامی دنیا میں صرف اشاعرہ کی کتابیں متداول اور زیرِ درس ہیں۔ ماتریدیہ کے اقوال کہیں کہیں ان ہی کتابوں میں آ جاتے ہیں ، لیکن محدثین کی تصنیفات سرے سے ناپید ہیں اور ان کے اقوال بھی ( بجز صفات باری کے ) کسی مسئلے کے متعلق نہیں پائے جاتے ، حالانکہ اصولِ عقائد کے متعلق سب سے زیادہ انہی کی رائیں معتبر ہو سکتی ہیں۔(20)۔
محدثین کی تصانیف دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شبلی کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ان کی کتاب "علم الکلام” عقائد سے متعلق تمام مکاتب فکر کی تاریخ پر مشتمل نہیں۔ وہ ایک خط (مورخہ 9 مارچ 1903ء) میں حیدرآباد سے مولانا فراہی کو لکھتے ہیں:” میں نے علم الکلام نہایت نا تمام کتاب لکھی، اور وہ در حقیقت میری تصنیفات کا سب سے ناقص حصہ ہے۔” (21) سید سلیمان ندوی اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : نا تمامی کے معنی یہ ہیں کہ متکلمین اسلام کے جو مختلف اسکول ہیں ان میں "علم الکلام” صرف اشعری کلام کی تاریخ ہو کر رہ گئی ہے۔ جس تفصیل سے یہ باب لکھا ہے اسی تفصیل سے دوسرے فرقوں کے علم کلام کی تاریخ بھی لکھنی چاہیے تھی۔
ادھر ایک صدری کے اندر عقائد کے باب میں محدثین کی بیشتر کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سے ابن تیمیہ سے قبل کے مصنفین کی بعض مشہور اور جامع کتابیں یہ ہیں: السنة” لابن ابی عاصم ( م 287ھ ) و عبد اللہ بن احمد ( م 290 ) و ابی بکر الخلّال ( م” 311 )، "التوحید” لابن خزیمہ ( م 311 )، "الشریعة” للآجری ( م 360 )، "الابانة” لابن بطّہ ( م 387 )، "شرح اصول اعتقاد اهل السنة و الجماعة” للالکائی ( م 418 )، "عقیدۃ السلف” للصابونی ( م 449 )، "الاعتقاد” للبیہقی ( م 458 )، "الحجة علی تارک المحجة” لنصر المقدسی ( م 490 )، "الحجة فی بیان المحجة” لابی القاسم الاصبہانی ( م 535 )، ” عقیدة” عبد الغنی المقدسی ( م 600 ) اور "لمعة الاعتقاد” لابن قدامہ ( م 620 )۔ مگر افسوس کہ برصغیر میں اب تک اشعری و ماتریدی علم کلام رائج ہے۔ محدثین کے منہج سے عموماً لوگوں کو واقفیت نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابن تیمیہ اور ابن قیم اشعری علم کلام پر تنقید کی وجہ سے اہل سنت کے مسلّمہ عقائد کے مخالف ہیں، حالانکہ وہ عقائد اہل سنت اور منہجِ سلف کے حقیقی ترجمان ہیں۔ محدثین کی مذکورہ بالا تصانیف کے مطالعہ سے کوئی بھی اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ شبلی کی طرح حقیقت پسند ہو۔
شبلی کو جب اس مکتبِ فکر کی بعض کتابوں کے چھپنے کا علم ہوا تو اسے خوش آئند قرار دیا، فرماتے ہیں: "اب خوش قسمتی سے اس مقدس گروہ کی تصنیفات کی طرف توجہ مبذول ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن تیمیہ کی کتاب "العقل و النقل” و "منهاج السنة” اور ابن حزم کی کتاب "الملل و النحل” حال ہی میں چھپ کر شائع ہوئی ہے۔” (22)۔
کتاب "العقل و النقل” ( = درء تعارض العقل و النقل ) کا ایک تہائی حصہ پہلی بار مطبعۃ بولاق مصر سے 1321- 1322ھ / 1903-1904ء میں ” منهاج السنة ” کے حاشیے پر طبع ہوا تھا۔ کتاب چھپتے ہی جب شبلی تک پہنچی تو مولانا فراہی کے نام ایک خط ( مورخہ 6 اکتوبر 1905ء ) میں لکھتے ہیں: "ابن تیمیہ کی کتاب "العقل و النقل” چار جلدوں میں چھپ کر آ گئی ہے، باوجود پریشان گوئی کے بہت سے نوادر مل جاتے ہیں۔”(23)۔”
فلسفہ کے بارے میں محدثین کا مؤقف معروف ہے۔ شبلی لکھتے ہیں(24) کہ اس مقدس فرقے میں کوئی ایسا شخص نہیں پیدا ہوا جو فلسفی یا معقولی کے لقب سے ممتاز ہو۔ صرف دو شخص اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں: ابن تیمیہ اور ابن حزم ۔ ان دونوں بزرگوں کے معتقدات اور خیالات اس امر کے اندازہ کرنے کے لیے نہایت نتیجہ خیز ہیں کہ حدیث کو فلسفہ سے کس حد تک ربط ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں بزرگ بہت بڑے محدث اور ٹھیٹ مذہبی آدمی تھے، انہوں نے گو فلسفہ میں کمال پیدا کیا تھا لیکن فلسفہ کو بالکل حقیر سمجھتے تھے، اور اسی لیے فلسفہ کا ان پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔
شبلی نے اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں سیرۃ النبی کے تعلق سے احادیث کا مطالعہ شروع کیا تو ان کے خیالات میں بڑا انقلاب پیدا ہوگیا۔ ان کے ذہن و عقل کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔ ان کے اس انقلاب میں امام ابن تیمیہ کی تصنیفات کو بھی بڑا دخل تھا جیسا کہ سیّد سلیمان ندوی نے تصریح کی ہے۔ (25) خود مقدمہ "سیرۃ النبی” میں ایک جگہ (26) ابن تیمیہ کی کتاب "التوسل” سے متعدد اہم اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں مناقب و فضائل اعمال سے متعلق احادیث اور ان کی کتابوں پر بے لاگ تبصرہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ احادیث کی چھان پھٹک اور تحقیقی نیز کتبِ حدیث کی درجہ بندی سے متعلق وہ عام سیرت نگاروں کے روّیے سے مطمئن نہ تھے، انہیں اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ پر بڑا اعتماد تھا۔
اخیر عمر میں کتبِ حدیث و سیرت کے علاوہ امام ابن تیمیہ کی تصانیف کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ایک خط ( مورخہ 18 جولائی 1914ء ) میں سید صاحب کو لکھتے ہیں: ” جواہر خمسہ کے متعلق آج تصریح ملی۔ یعنی ہیولیٰ، صورت، جسم، عقل، نفس۔ مجھ کو یاد تھا لیکن ذہول ہو گیا تھا۔ آج ابن تیمیہ نے ” منهاج السنة ” میں یاد دلایا۔” (27)۔
سلسلہ کلام لکھتے وقت شبلی پر سب سے زیادہ غزالی کا اور پھر رازی کا اثر تھا۔ لیکن اس کے بعد جب ابن تیمیہ کی کتابیں چھپ چھپ کر آنے لگیں تو ان کا اثر غالب آنے لگا۔ اس اثر کا آغاز (جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا) ان کی کتاب "الرد علی المنطقیین” سے شروع ہوا اور آخر یہاں تک بڑھا کہ وہ وفات سے چار ماہ قبل سید صاحب کو ایک خط (مؤرخہ 28 جولائی 1914ء ) میں لکھتے ہیں کہ ” تم نے شروع کر دیا تو خیر ، ورنہ ابن تیمیہ کی لائف فرضِ اوّلین ہے۔ (28) مجھے اس شخص کے سامنے رازی و غزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ہر روز نئی باتیں ملتی ہیں۔ بار بار دیکھنا شرط ہے۔ اس شخص کی رائے ہے کہ یہود و نصاریٰ اگر اپنے مذہب پر قائم رہیں (تثلیث چھوڑ کر ) اور اعمالِ حسنہ بجا لائیں تو اسلام ان کو اجازت دیتا ہے۔ اس پر کافی بحث کی ہے۔” (29)۔
سید صاحب اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : مولانا روز بروز ابن تیمیہ کے بہت معتقد ہوتے جاتے تھے، بلکہ ایک بار مکتوب الیہ سے یہ بھی فرماتے تھے کہ میں عقائد اور فقہیات ہر چیز میں ابن تیمیہ کو تسلیم کرتا ہوں۔
سید صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں: آخر میں مجھ سے فرماتے تھے کہ "میں اب ہر چیز میں ابن تیمیہ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کو تیار ہوں۔” (30)۔
علامہ شبلی کی ان تصریحات کے بعد راقم الحروف یا کسی دوسرے کے لیے حاشیہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ امید کہ محبّانِ شبلی ان کے منہج اور طریقہ تحقیق کا تتبع کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ کی فکر سے مستفید ہوں گے، ان کی عبقریت کا اعتراف کریں گے اور مولانا آزاد، اقبال اور سید سلیمان ندوی کی خواہش کے مطابق علوم و معارف ابن تیمیہ کی اشاعت میں حصہ لیں گے جو ان کے بہ قول وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
حواشی
۔(1) تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی : (مقدمہٓ) حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع لاہور 1961ء۔ خلیق نظامی: سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ص 336 – 337، نیز ان کا مقالہ بعنوان The Impact of Ibn Taimiyya on south Asia, in Islamic Studies 1 (1990) P: 120 – 149, عبد الرحمن الفریوائی: شیخ الاسلام ابن تیمیۃ – علومہ و معارفہ و دعوتہ فی شبہ القارۃ الھندیۃ، فی مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، العدد 42 (ربیع الاول – جمادی الآخرۃ 1415ھ) ص 163 – 189
۔(2) بعد ازاں در: مقالات شبلی 5/ 50 – 62 طبع اعظم گڑھ 2007ء۔ محمد تنزیل الصدیقی نے شبلی اور حالی کے دونوں مقالے "امام ابن تیمیہ” کے عنوان سے ایک علمی مقدمہ کے ساتھ شائع کیے ہیں (کراچی 2006ء)۔
۔(3) سیرۃ النعمان ص 41 طبع اعظم گڑھ 1998ئ
۔(4) ایضاً ص 274
۔(5) 2/ 24، 4/143 طبع بولاق مصر 1321-1322ھ
۔(6) تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی حسن البیان عما فی سیرۃ النعمان (طبع لاہور 1966ء)، اور مولانا ابو الکلام آزاد کے حواشی بر سیرۃ النعمان، در :”حواشی ابو الکلام آزاد” (مرتبہ مسیح الحسن) ص 265 – 283 طبع دہلی 1993ء
۔(7) اس کا قلمی نسخہ آصفیہ لائبریری میں زیر رقم (219 کلام) موجود ہے۔ یہ امام صاحب کی زندگی میں لکھا گیا ہے بلکہ جگہ جگہ اس میں ان کے قلم سے تصحیحات اور اضافے بھی ہیں۔ اس نسخے کی تین نقل دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد، دار العلوم دیوبند اور دار المصنفین اعظم گڑھ میں میری نظر سے گزری ہے۔ آخر الذکر نسخہ مولانا فراہی کا نقل کردہ ہے۔ دائرۃ المعارف سے اس کی اشاعت کا منصوبہ تھا۔ مگر پتہ نہیں کیوں وہاں سے شائع نہ ہوئی۔ آخر مولانا عبد الصمد شرف الدین نے بمبئی سے 1949ء میں اسے شائع کیا ۔ اس پر سید سلیمان ندوی نے بہترین مقدمہ لکھا ہے جس میں کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے مباحث کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ اس مقدمہ کا اردو ترجمہ مولانا مجیب اللہ ندوی کے قلم سے معارف ( جون و جولائی 1953ء ) میں چھپا ہے۔
۔(8) الغزالی ص 114 طبع اول کانپور 1891ء
۔(9) ایضاً ص 157۔ واضح رہے کہ ابن تیمیہ نہ تشبیہ کے قائل ہیں نہ خدا کے ممکن الوجود ہونے کے۔ انہوں نے اپنی ساری کتابوں میں تشبیہ کی نفی کی ہے اور خدا کو واجب الوجود اور ان تمام صفات سے متصف بتایا ہے جن کا ذکر کتاب و سنت میں ہے۔
۔(10) علم الکلام ص 99-105 طبع اعظم گڑھ 1993ء
۔(11) ایضاً ص 179-180
۔(12) ایضاً ص 153
۔(13) ایضاً ص 102 ، 154
۔(14) بعد ازاں در : مقالات شبلی 7/1-10 طبع اعظم گڑھ 2007ء
۔(15) مقالات شبلی : 7/11-24
۔(16) نواب صاحب نے اپنی تفسیر "فتح البیان” میں چار جگہ اس کے اقتباسات دیے ہیں۔ دیکھیے: 1/ 186-187، 6/ 275-276، 8/ 79-80، 102-103 (طبع بیروت 1992ء )۔ یہ تفسیر پہلی بار بھوپال سے 4 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس پر تاریخ طبع درج نہیں۔ پھر تفسیر ابن کثیر کے ساتھ دس جلدوں میں مطبعہ بولاق مصر سے 1300-1302ھ میں چھپی۔ "الرد علی المنطقیین” کا قلمی نسخہ پہلے بھوپال میں تھا، پھر وہ حیدر آباد منتقل ہو گیا جیسا کہ سید سلیمان ندوی نے بیان کیا ہے ( مقالات سلیمان : 2/323 ) طبع اعظم گڑھ 2006ء
۔(17) علم الکلام ص 6
۔(18) الرد علی المنطقیین ص 37، 110، 122، 345، 357 (طبع بمبئی 1949ء )۔
۔(19) حیات شبلی ص 14 طبع اعظم گڑھ 2008ء
۔(20) مقالات شبلی 4/ 34-41 طبع اعظم گڑھ 1956ء
ۤۤۤۤۤ
۔(21) مکاتیب شبلی 2/12 طبع اعظم گڑھ 1971ء
۔(22) مقالات شبلی 4/35
۔(23) مکاتیب شبلی 2/22
۔(24) مقالات شبلی 4/34
۔(25) حیات شبلی ص 624
۔(26) سیرۃ النبی 1/ 46-47 طبع لاہور 1991ء
۔(27) مکاتیب شبلی 2/114۔ جواہر کی بحث کے لیے دیکھیے : منهاج السنة 3/112
۔(28) سیّد صاحب نے تو نہیں لیکن ان کی نگرانی میں محمد یوسف کوکن عمری نے 1937-1939ء میں ان کی مفصل سوانح عمری تیار کی جو "امام ابن تیمیہ” کے نام سے مدراس سے 1959ء میں شائع ہوئی۔ یہ اردو میں ابن تیمیہ پر شائع شدہ چند بہترین کتابوں میں سے ہے۔
۔(29) مکاتیب شبلی 2/115۔ ابن تیمیہ نے اس موضوع پر "الجواب الصحیح لم بدّل دین المسیح” میں تفصیلی بحث کی ہے۔ یہ پہلی بار چار جلدوں میں مصر سے 1322- 1323ھ/1904-1905ء میں چھپی تھی۔ پتہ نہیں شبلی نے ابن تیمیہ کی کس عبارت سے یہ مطلب نکالا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے الجواب الصحیح ( 2/62-64 طبعۃ المدنی جدہ ) میں نصاریٰ کے اس دعویٰ کی تردید کی ہے کہ قرآن نے تمام ادیان کو برابر کا درجہ دیا ہے اور ان آیات کی تفسیر بیان کی ہے جن سے وحدت ادیان کا تصور مستنبط کیا جاتا ہے۔ اور صاف لکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 62 اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 69 میں ( الذین آمنوا ) سے مراد محمد ﷺ پر ایمان لانے والے، ( الذین هادوا ) سے موسیٰ علیہ السلام کے متبعین جو نسخ و تبدیل سے پہلے ان کی شریعت پر عمل پیرا تھے، ( نصاریٰ ) سے عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین جو نسخ و تبدیل سے پہلے ان کی شریعت پر قائم تھے اور ( صابئین ) سے وہ حنفاء مراد ہیں جو نسخ و تبدیل سے قبل ابراہیم و اسماعیل و اسحاق علیہم السلام کے دین پر قائم تھے۔ اہل کتاب نسخ و تبدیل کے بعد سارے انبیاء پر جب تک ایمان نہ لائیں کافر ہیں۔
۔(30) حیات شبلی ص 630
 
Top