امام ابن تیمیہ اور علامہ شبلی نعمانی
الواقعۃ شمارہ 38 رجب المرجب 1436ھ
از قلم : محمد عزیر شمس، مکہ مکرمہ
برصغیر میں امام ابن تیمیہ کے افکار سے واقفیت اور ان کے تھوڑے بہت اثر کا سلسلہ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے۔ بعض محققین نے اس سلسلے میں متعدد شواہد اور قرائن پیش کیے ہیں جن کی تفصیل یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔(1) بعد کے ادوار میں شاہ ولی اللہ ، نواب صدیق حسن خاں اور سید نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ ( خصوصاً غزنوی علماء ) نے امام ابن تیمیہ کے تعارف و دفاع اور ان کی کتابوں کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا جس سے اہلِ علم کو امام صاحب کے حالات اور خدمات سے واقفیت ہوئی۔ علامہ شبلی نے محسوس کیا کہ ابھی اردو داں طبقہ امام ابن تیمیہ کی شخصیت اور ان کے تجدیدی کارناموں سے پورے طور پر واقف نہیں اس لیے انہوں نے ” الندوہ ” ( جولائی 1908ء ) (2) میں ان پر ایک مختصر مگر بھرپور مضمون شائع کیا ، جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ لکھا کہ جو شخص ریفارمر کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے وہ علامہ ابن تیمیہ ہیں ، مجددیت کی اصلی خصوصیتیں جس قدر ان کی ذات میں پائی جاتی ہیں ان کی نظیر بہت کم مل سکتی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے عربی کے اہم مآخذ کی روشنی میں ولادت سے وفات تک کے تمام حالات تحقیق سے لکھے ہیں مگر ان کی تصانیف و تحقیقات کا تذکرہ اور ان کے افکار و نظریات پر تبصرہ کرنے کا انہیں موقع نہ ملا۔ البتہ مضمون میں ” الفرقان بین اولیاء الرحمٰن و اولیاء الشیطان ” اور ” مناظرہ مصریہ ” کا ذکر آیا ہے۔ دوسری کتاب ( جس کا قلمی نسخہ اس نام سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی لائبریری میں ہے ) در حقیقت ” التسعینیه ” ہے جو مسئلہ کلام اللہ سے متعلق ہے ، اور کئی بار چھپ چکی ہے۔
عام طور پر لوگوں کو امام ابن تیمیہ سے متعلق علامہ شبلی کے صرف اسی مضمون کا علم ہے۔ میں نے جب ان کی دیگر تصانیف ، مقالات ، خطوط اور ” حیات شبلی ” کا مطالعہ کیا تو بعض دلچسپ معلومات دستیاب ہوئیں۔ مضمون میں ان ہی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
علامہ شبلی ایک زمانے میں متصلّب حنفی تھے ، قراء ت خلف الامام کے مسئلے میں ” ظل الغمام ” اور ” اسکات المعتدی ” ( عربی ) جیسی کتابیں لکھیں۔ دوسری کتاب مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی کے ردّ میں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے متشدد تھے۔ 1883ء میں علی گڑھ آنے کے بعد ان کے یہاں روشن خیالی آئی۔ تاریخ ، ادب ، فلسفہ اور مذہب کی تحقیقات سے واقف ہوئے۔ جدید عرب مصنفین کی کتابیں اور عربی رسائل و جرائد نظر سے گزرے۔ چنانچہ انہوں نے تصنیف و تالیف کا رخ نامورانِ اسلام کی طرف موڑ دیا ، اور اس سلسلے میں کئی مشہور کتابیں لکھیں اور شائع کیں۔ ان میں سے ” المامون ” ( 1887ء ) اور ” الفاروق ” ( 1897، 1898ء ) میں ابن تیمیہ کی طرف نہ تو کوئی اشارہ ہے اور نہ ہی ان کی کسی رائے کا تذکرہ ، جب کہ کئی موقع پر امام ابن تیمیہ کی ” منہاج السنۃ ” اور دوسری کتابوں میں موضوعِ بحث سے متعلق کافی مواد موجود تھا مگر اس وقت تک چونکہ یہ کتابیں طبع نہیں ہوئی تھیں اس لیے وہ ان کے زیرِ مطالعہ نہیں آئیں۔ ” سیرۃ النعمان ” ( 1891ء ) میں دو تین جگہ ابن تیمیہ کا ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ امام ابو حنیفہ کی امام جعفر صادق سے شاگردی کا مسئلہ زیر بحث ہے ، دوسری جگہ امام شافعی کی امام محمد بن حسن سے شاگردی کا مسئلہ ، علامہ شبلی دونوں کی شاگردی کے قائل اور امام ابن تیمیہ اس کے منکر ہیں۔ پہلی جگہ تو لگتا ہے کہ امام صاحب سے سخت ناراض ہیں ، یہاں تک لکھ گئے کہ ” یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اور خیرہ چشمی ہے۔” (3) دوسری جگہ تحریر فرمایا : ” اگلے زمانے میں ابن تیمیہ نے امام شافعی کی شاگردی سے انکار کیا تھا ، لیکن حق کو کون دبا سکتا ہے۔” (4)۔
واقعہ یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ نے ” منهاج السنة ” (5) میں ابن المطہّر کے دعوی ( بابت شاگردی ) کو تاریخی حقائق کی روشنی میں ردّ کیا ہے۔ چوں کہ اس وقت تک ” منهاج السنة ” طبع نہیں ہوئی تھی ، اور خود علامہ شبلی ابن تیمیہ کی تصانیف سے زیادہ واقف نہ تھے ، اس لیے ان کی رائے مخالفین کی کتابوں سے نقل کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ شبلی اس وقت تک اپنے پرانے مسلکی تعصب کے خول سے باہر نہیں آ سکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اس کتاب میں ہر جگہ اہل الرائے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ (6)۔
1901ء میں جب شبلی حیدرآباد گئے تو وہاں دوسرے مشاغل کے ساتھ علم الکلام کی تاریخ لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں ” الغزالی ” ( 1902ء ) ، ” علم الکلام ” ( 1903ء ) ، ” الکلام ” ( 1904ء ) اور ” سوانح مولاناے روم ” ( 1906ء ) شائع کیں۔ حیدر آباد میں انہوں آصفیہ لائبریری میں امام ابن تیمیہ کی ایک اہم کتاب ” الردّ علی المنطقیین ” کا منفرد قلمی نسخہ نظر آیا۔ (7) اس کے مطالعہ کے بعد انہیں امام صاحب کی عظمت کا احساس ہوا ، چنانچہ ” الغزالی ” میں ایک جگہ امام غزالی کی کتاب ” محکنّ النظر ” ( جو اس زمانے میں ناپید تھی ) کے اقتباسات ” الردّ علی المنطقیین ” کے واسطے سے نقل کیے ہیں۔ (8) دوسری جگہ مسئلہ صفات باری کی بحث میں امام ابن تیمیہ کا نقطہ نظر بطور لطیفہ ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ” علامہ ابن تیمیہ بظاہر تشبیہ کے قائل تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ اس عقیدے کی رو سے خدا کا ممکن الوجود ہونا لازم آتا ہے، کیوں کہ خدا عرش پر رہتا ہے تو اس کے جسم ہوگا، اور جسم ہوگا تو ممکن الوجود ہوگا، حالانکہ خدا واجب الوجود ہے۔ انہوں نے کہا : میرے عقیدے کے موافق خدا موجود تو ہوگا ممکن الوجود سہی۔ تمہارے اعتقاد کے موافق تو وہ ممکن بھی نہیں رہتا ، بلکہ نا ممکن اور محال بن جاتا ہے۔ کیوں کہ ایسی شئی جو ہر جگہ ہو اور کہیں نہ ہو ، عالم سے خارج بھی نہ ہو اور عالم میں بھی نہ ہو ، نہ متصل ہو نہ منفصل ، نہ ذو مکاں ہو نہ ذو جہت ، سرے سے ہو ہی نہیں سکتی ۔ کیوں کہ یہ ارتفاع النقیضین ہے، اور ارتفاع النقیضین محال ہے۔ (9)۔
دوسری کتاب ” علم الکلام ” میں شبلی نے امام ابن تیمیہ کے حالات اور خدمات کا تحسین آمیز انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ (10) چنانچہ لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے متکلمین اشاعرہ کی مخالفت نہایت دلیری اور آزادی سے کی اور ظاہر کیا کہ جس چیز کو وہ مذہب کی تائید سمجھتے ہیں وہ در حقیقت مذہب کو اور نقصان پہنچانے والی ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اشاعرہ کے عقائد گو دلائل عقلی کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں لیکن اکابرِ سلف کے یہی عقائد تھے۔ ابن تیمیہ نے اس غلطی کا اکثر جگہ اظہار کیا ، اور نہایت آزادی اور بیباکی سے ان مسائل کا ابطال کیا۔ اخیر میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے عقائدِ اسلامی کو حشو و زوائد سے پاک کرکے پورا پورا وہ نمونہ قائم کرنا چاہا تھا جو قرونِ اولیٰ میں تھا۔ لیکن کچھ فقہا کے رشک و حسد اور کچھ خود علامہ موصوف کی درشتیِ تقریر کی وجہ سے تمام لوگوں میں اس قدر برہمی پیدا ہو گئی کہ ان کو مدت تک قید خانے میں زندگی بسر کرنی پڑی اور ان کا اثر دب کر رہ گیا۔
” علم الکلام ” میں امام ابن تیمیہ کی تصانیف کا بھی تذکرہ ہے۔ ان کی ” شرح حدیث النزول ” ( جو امرتسر سے 1314ھ میں چھپ چکی تھی ) سے ایک جگہ استفادہ کیا ہے۔ (11) ایک جگہ لکھتے ہیں : علامہ ابن تیمیہ نے خاص فلسفہ کے ردّ میں بھی چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی۔ (12) ان کا اشارہ ” درء تعارض العقل و النقل ” کی طرف ہے ، جو اس وقت تک طبع نہیں ہوئی تھی ، ورنہ اس کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے۔ ابن تیمیہ کی ” الرد علی المنطقیین ” کے اقتباسات کتاب میں جگہ جگہ دیے ہیں۔ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ کتاب میرے پاس ہے اور میں کسی موقع پر اس کی تحقیقات سے کام لوں گا، اور اس کے مضامین ناظرین کے سامنے پیش کروں گا۔ (13) چنانچہ "الندوہ” ( ستمبر 1904ء(14) ) میں ” فلسفہ یونان اور اسلام ” کے عنوان سے جو مضمون شائع کیا تھا، اس میں اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔ دوسرا مضمون جو "الندوہ” ( ستمبر، نومبر 1904ء(15) ) میں "فلسفہ یونان اور اسلام : یونانی منطق کی غلطیاں” کے عنوان سے چھپا تھا وہ تو پورا کا پورا امام ابن تیمیہ کی کتاب سے ماخوذ ہے۔ علامہ شبلی نے پہلی بار اردو داں طبقے کے سامنے اس موضوع سے متعلق امام صاحب کی تحقیقات کا خلاصہ پیش کیا تھا۔ عالم اسلام میں شاید اس سے قبل ( نواب صدیق حسن خاں کے علاوہ(16) ) کسی کو اس کتاب اور اس کے مضامین سے واقفیت نہ تھی۔
” علم الکلام ” کے مقدمے میں علامہ شبلی نے بطور مآخذ جن کتابوں کا ذکر کیا ہے ان میں ابن تیمیہ کی ” الکلام علی المحصّل ” کا بھی تذکرہ ہے۔ (17) میری معلومات کی حد تک یہ کتاب ناپید ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں میں اس کا کہیں وجود نہیں۔ پھر اس کا ذکر شبلی نے کیسے کیا ؟ تھوڑی دیر کے لیے مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے علامہ شبلی کو اس کا کوئی قلمی نسخہ ہاتھ آیا ہو ، کیوں کہ وہ ہمیشہ نادر مخطوطات کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ لیکن پھر جلد ہی یہ خیال دل سے نکال دیا ۔ در اصل امام ابن تیمیہ نے ” الرد علی المنطقیین ” میں پانچ جگہ اپنی اس کتاب کا ذکر کیا ہے(18) اور تفصیلی بحث کے لیے اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس لیے شبلی نے بطور خاص اس کا ذکر مقدمہ میں مناسب سمجھا ، حالانکہ وہ بالواسطہ اس سے استفادہ کر رہے تھے۔
” علم الکلام ” اور ” الکلام ” کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شبلی نے اسلامی عقائد کو متکلمین اور حکمائے اسلام کی کتابوں سے چن کر یکجا کیا تھا۔ حالانکہ ان کا اصلی سر چشمہ کتاب الٰہی اور سنت نبوی ہے ۔ اگر یہ دونوں چیزیں براہ راست سامنے رکھی جاتیں تو منزلِ مقصود کا صحیح پتہ لگ جاتا۔ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں: ” اخیر زمانے میں امام ابن تیمیہ کی تصنیفات کے مطالعہ نے یہ نقطہ نظر ان کے سامنے کر دیا تھا، مگر تصنیفی عمل کا وقت گزر چکا تھا۔” (19)۔
علامہ شبلی اپنے ایک مضمون ( در : ” الندوہ ” اکتوبر 1905ء ) میں لکھتے ہیں کہ ایک مدت سے تمام اسلامی دنیا میں صرف اشاعرہ کی کتابیں متداول اور زیرِ درس ہیں۔ ماتریدیہ کے اقوال کہیں کہیں ان ہی کتابوں میں آ جاتے ہیں ، لیکن محدثین کی تصنیفات سرے سے ناپید ہیں اور ان کے اقوال بھی ( بجز صفات باری کے ) کسی مسئلے کے متعلق نہیں پائے جاتے ، حالانکہ اصولِ عقائد کے متعلق سب سے زیادہ انہی کی رائیں معتبر ہو سکتی ہیں۔(20)۔
محدثین کی تصانیف دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شبلی کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ان کی کتاب "علم الکلام” عقائد سے متعلق تمام مکاتب فکر کی تاریخ پر مشتمل نہیں۔ وہ ایک خط (مورخہ 9 مارچ 1903ء) میں حیدرآباد سے مولانا فراہی کو لکھتے ہیں:” میں نے علم الکلام نہایت نا تمام کتاب لکھی، اور وہ در حقیقت میری تصنیفات کا سب سے ناقص حصہ ہے۔” (21) سید سلیمان ندوی اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : نا تمامی کے معنی یہ ہیں کہ متکلمین اسلام کے جو مختلف اسکول ہیں ان میں "علم الکلام” صرف اشعری کلام کی تاریخ ہو کر رہ گئی ہے۔ جس تفصیل سے یہ باب لکھا ہے اسی تفصیل سے دوسرے فرقوں کے علم کلام کی تاریخ بھی لکھنی چاہیے تھی۔
ادھر ایک صدری کے اندر عقائد کے باب میں محدثین کی بیشتر کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سے ابن تیمیہ سے قبل کے مصنفین کی بعض مشہور اور جامع کتابیں یہ ہیں: السنة” لابن ابی عاصم ( م 287ھ ) و عبد اللہ بن احمد ( م 290 ) و ابی بکر الخلّال ( م” 311 )، "التوحید” لابن خزیمہ ( م 311 )، "الشریعة” للآجری ( م 360 )، "الابانة” لابن بطّہ ( م 387 )، "شرح اصول اعتقاد اهل السنة و الجماعة” للالکائی ( م 418 )، "عقیدۃ السلف” للصابونی ( م 449 )، "الاعتقاد” للبیہقی ( م 458 )، "الحجة علی تارک المحجة” لنصر المقدسی ( م 490 )، "الحجة فی بیان المحجة” لابی القاسم الاصبہانی ( م 535 )، ” عقیدة” عبد الغنی المقدسی ( م 600 ) اور "لمعة الاعتقاد” لابن قدامہ ( م 620 )۔ مگر افسوس کہ برصغیر میں اب تک اشعری و ماتریدی علم کلام رائج ہے۔ محدثین کے منہج سے عموماً لوگوں کو واقفیت نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابن تیمیہ اور ابن قیم اشعری علم کلام پر تنقید کی وجہ سے اہل سنت کے مسلّمہ عقائد کے مخالف ہیں، حالانکہ وہ عقائد اہل سنت اور منہجِ سلف کے حقیقی ترجمان ہیں۔ محدثین کی مذکورہ بالا تصانیف کے مطالعہ سے کوئی بھی اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ شبلی کی طرح حقیقت پسند ہو۔
شبلی کو جب اس مکتبِ فکر کی بعض کتابوں کے چھپنے کا علم ہوا تو اسے خوش آئند قرار دیا، فرماتے ہیں: "اب خوش قسمتی سے اس مقدس گروہ کی تصنیفات کی طرف توجہ مبذول ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن تیمیہ کی کتاب "العقل و النقل” و "منهاج السنة” اور ابن حزم کی کتاب "الملل و النحل” حال ہی میں چھپ کر شائع ہوئی ہے۔” (22)۔
کتاب "العقل و النقل” ( = درء تعارض العقل و النقل ) کا ایک تہائی حصہ پہلی بار مطبعۃ بولاق مصر سے 1321- 1322ھ / 1903-1904ء میں ” منهاج السنة ” کے حاشیے پر طبع ہوا تھا۔ کتاب چھپتے ہی جب شبلی تک پہنچی تو مولانا فراہی کے نام ایک خط ( مورخہ 6 اکتوبر 1905ء ) میں لکھتے ہیں: "ابن تیمیہ کی کتاب "العقل و النقل” چار جلدوں میں چھپ کر آ گئی ہے، باوجود پریشان گوئی کے بہت سے نوادر مل جاتے ہیں۔”(23)۔”
فلسفہ کے بارے میں محدثین کا مؤقف معروف ہے۔ شبلی لکھتے ہیں(24) کہ اس مقدس فرقے میں کوئی ایسا شخص نہیں پیدا ہوا جو فلسفی یا معقولی کے لقب سے ممتاز ہو۔ صرف دو شخص اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں: ابن تیمیہ اور ابن حزم ۔ ان دونوں بزرگوں کے معتقدات اور خیالات اس امر کے اندازہ کرنے کے لیے نہایت نتیجہ خیز ہیں کہ حدیث کو فلسفہ سے کس حد تک ربط ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں بزرگ بہت بڑے محدث اور ٹھیٹ مذہبی آدمی تھے، انہوں نے گو فلسفہ میں کمال پیدا کیا تھا لیکن فلسفہ کو بالکل حقیر سمجھتے تھے، اور اسی لیے فلسفہ کا ان پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔
شبلی نے اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں سیرۃ النبی کے تعلق سے احادیث کا مطالعہ شروع کیا تو ان کے خیالات میں بڑا انقلاب پیدا ہوگیا۔ ان کے ذہن و عقل کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔ ان کے اس انقلاب میں امام ابن تیمیہ کی تصنیفات کو بھی بڑا دخل تھا جیسا کہ سیّد سلیمان ندوی نے تصریح کی ہے۔ (25) خود مقدمہ "سیرۃ النبی” میں ایک جگہ (26) ابن تیمیہ کی کتاب "التوسل” سے متعدد اہم اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں مناقب و فضائل اعمال سے متعلق احادیث اور ان کی کتابوں پر بے لاگ تبصرہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ احادیث کی چھان پھٹک اور تحقیقی نیز کتبِ حدیث کی درجہ بندی سے متعلق وہ عام سیرت نگاروں کے روّیے سے مطمئن نہ تھے، انہیں اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ پر بڑا اعتماد تھا۔
اخیر عمر میں کتبِ حدیث و سیرت کے علاوہ امام ابن تیمیہ کی تصانیف کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ایک خط ( مورخہ 18 جولائی 1914ء ) میں سید صاحب کو لکھتے ہیں: ” جواہر خمسہ کے متعلق آج تصریح ملی۔ یعنی ہیولیٰ، صورت، جسم، عقل، نفس۔ مجھ کو یاد تھا لیکن ذہول ہو گیا تھا۔ آج ابن تیمیہ نے ” منهاج السنة ” میں یاد دلایا۔” (27)۔
سلسلہ کلام لکھتے وقت شبلی پر سب سے زیادہ غزالی کا اور پھر رازی کا اثر تھا۔ لیکن اس کے بعد جب ابن تیمیہ کی کتابیں چھپ چھپ کر آنے لگیں تو ان کا اثر غالب آنے لگا۔ اس اثر کا آغاز (جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا) ان کی کتاب "الرد علی المنطقیین” سے شروع ہوا اور آخر یہاں تک بڑھا کہ وہ وفات سے چار ماہ قبل سید صاحب کو ایک خط (مؤرخہ 28 جولائی 1914ء ) میں لکھتے ہیں کہ ” تم نے شروع کر دیا تو خیر ، ورنہ ابن تیمیہ کی لائف فرضِ اوّلین ہے۔ (28) مجھے اس شخص کے سامنے رازی و غزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ہر روز نئی باتیں ملتی ہیں۔ بار بار دیکھنا شرط ہے۔ اس شخص کی رائے ہے کہ یہود و نصاریٰ اگر اپنے مذہب پر قائم رہیں (تثلیث چھوڑ کر ) اور اعمالِ حسنہ بجا لائیں تو اسلام ان کو اجازت دیتا ہے۔ اس پر کافی بحث کی ہے۔” (29)۔
سید صاحب اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : مولانا روز بروز ابن تیمیہ کے بہت معتقد ہوتے جاتے تھے، بلکہ ایک بار مکتوب الیہ سے یہ بھی فرماتے تھے کہ میں عقائد اور فقہیات ہر چیز میں ابن تیمیہ کو تسلیم کرتا ہوں۔
سید صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں: آخر میں مجھ سے فرماتے تھے کہ "میں اب ہر چیز میں ابن تیمیہ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کو تیار ہوں۔” (30)۔
علامہ شبلی کی ان تصریحات کے بعد راقم الحروف یا کسی دوسرے کے لیے حاشیہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ امید کہ محبّانِ شبلی ان کے منہج اور طریقہ تحقیق کا تتبع کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ کی فکر سے مستفید ہوں گے، ان کی عبقریت کا اعتراف کریں گے اور مولانا آزاد، اقبال اور سید سلیمان ندوی کی خواہش کے مطابق علوم و معارف ابن تیمیہ کی اشاعت میں حصہ لیں گے جو ان کے بہ قول وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
حواشی
۔(1) تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی : (مقدمہٓ) حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع لاہور 1961ء۔ خلیق نظامی: سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ص 336 – 337، نیز ان کا مقالہ بعنوان The Impact of Ibn Taimiyya on south Asia, in Islamic Studies 1 (1990) P: 120 – 149, عبد الرحمن الفریوائی: شیخ الاسلام ابن تیمیۃ – علومہ و معارفہ و دعوتہ فی شبہ القارۃ الھندیۃ، فی مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، العدد 42 (ربیع الاول – جمادی الآخرۃ 1415ھ) ص 163 – 189
۔(2) بعد ازاں در: مقالات شبلی 5/ 50 – 62 طبع اعظم گڑھ 2007ء۔ محمد تنزیل الصدیقی نے شبلی اور حالی کے دونوں مقالے "امام ابن تیمیہ” کے عنوان سے ایک علمی مقدمہ کے ساتھ شائع کیے ہیں (کراچی 2006ء)۔
۔(3) سیرۃ النعمان ص 41 طبع اعظم گڑھ 1998ئ
۔(4) ایضاً ص 274
۔(5) 2/ 24، 4/143 طبع بولاق مصر 1321-1322ھ
۔(6) تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی حسن البیان عما فی سیرۃ النعمان (طبع لاہور 1966ء)، اور مولانا ابو الکلام آزاد کے حواشی بر سیرۃ النعمان، در :”حواشی ابو الکلام آزاد” (مرتبہ مسیح الحسن) ص 265 – 283 طبع دہلی 1993ء
۔(7) اس کا قلمی نسخہ آصفیہ لائبریری میں زیر رقم (219 کلام) موجود ہے۔ یہ امام صاحب کی زندگی میں لکھا گیا ہے بلکہ جگہ جگہ اس میں ان کے قلم سے تصحیحات اور اضافے بھی ہیں۔ اس نسخے کی تین نقل دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد، دار العلوم دیوبند اور دار المصنفین اعظم گڑھ میں میری نظر سے گزری ہے۔ آخر الذکر نسخہ مولانا فراہی کا نقل کردہ ہے۔ دائرۃ المعارف سے اس کی اشاعت کا منصوبہ تھا۔ مگر پتہ نہیں کیوں وہاں سے شائع نہ ہوئی۔ آخر مولانا عبد الصمد شرف الدین نے بمبئی سے 1949ء میں اسے شائع کیا ۔ اس پر سید سلیمان ندوی نے بہترین مقدمہ لکھا ہے جس میں کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے مباحث کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ اس مقدمہ کا اردو ترجمہ مولانا مجیب اللہ ندوی کے قلم سے معارف ( جون و جولائی 1953ء ) میں چھپا ہے۔
۔(8) الغزالی ص 114 طبع اول کانپور 1891ء
۔(9) ایضاً ص 157۔ واضح رہے کہ ابن تیمیہ نہ تشبیہ کے قائل ہیں نہ خدا کے ممکن الوجود ہونے کے۔ انہوں نے اپنی ساری کتابوں میں تشبیہ کی نفی کی ہے اور خدا کو واجب الوجود اور ان تمام صفات سے متصف بتایا ہے جن کا ذکر کتاب و سنت میں ہے۔
۔(10) علم الکلام ص 99-105 طبع اعظم گڑھ 1993ء
۔(11) ایضاً ص 179-180
۔(12) ایضاً ص 153
۔(13) ایضاً ص 102 ، 154
۔(14) بعد ازاں در : مقالات شبلی 7/1-10 طبع اعظم گڑھ 2007ء
۔(15) مقالات شبلی : 7/11-24
۔(16) نواب صاحب نے اپنی تفسیر "فتح البیان” میں چار جگہ اس کے اقتباسات دیے ہیں۔ دیکھیے: 1/ 186-187، 6/ 275-276، 8/ 79-80، 102-103 (طبع بیروت 1992ء )۔ یہ تفسیر پہلی بار بھوپال سے 4 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس پر تاریخ طبع درج نہیں۔ پھر تفسیر ابن کثیر کے ساتھ دس جلدوں میں مطبعہ بولاق مصر سے 1300-1302ھ میں چھپی۔ "الرد علی المنطقیین” کا قلمی نسخہ پہلے بھوپال میں تھا، پھر وہ حیدر آباد منتقل ہو گیا جیسا کہ سید سلیمان ندوی نے بیان کیا ہے ( مقالات سلیمان : 2/323 ) طبع اعظم گڑھ 2006ء
۔(17) علم الکلام ص 6
۔(18) الرد علی المنطقیین ص 37، 110، 122، 345، 357 (طبع بمبئی 1949ء )۔
۔(19) حیات شبلی ص 14 طبع اعظم گڑھ 2008ء
۔(20) مقالات شبلی 4/ 34-41 طبع اعظم گڑھ 1956ء
ۤۤۤۤۤ
۔(21) مکاتیب شبلی 2/12 طبع اعظم گڑھ 1971ء
۔(22) مقالات شبلی 4/35
۔(23) مکاتیب شبلی 2/22
۔(24) مقالات شبلی 4/34
۔(25) حیات شبلی ص 624
۔(26) سیرۃ النبی 1/ 46-47 طبع لاہور 1991ء
۔(27) مکاتیب شبلی 2/114۔ جواہر کی بحث کے لیے دیکھیے : منهاج السنة 3/112
۔(28) سیّد صاحب نے تو نہیں لیکن ان کی نگرانی میں محمد یوسف کوکن عمری نے 1937-1939ء میں ان کی مفصل سوانح عمری تیار کی جو "امام ابن تیمیہ” کے نام سے مدراس سے 1959ء میں شائع ہوئی۔ یہ اردو میں ابن تیمیہ پر شائع شدہ چند بہترین کتابوں میں سے ہے۔
۔(29) مکاتیب شبلی 2/115۔ ابن تیمیہ نے اس موضوع پر "الجواب الصحیح لم بدّل دین المسیح” میں تفصیلی بحث کی ہے۔ یہ پہلی بار چار جلدوں میں مصر سے 1322- 1323ھ/1904-1905ء میں چھپی تھی۔ پتہ نہیں شبلی نے ابن تیمیہ کی کس عبارت سے یہ مطلب نکالا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے الجواب الصحیح ( 2/62-64 طبعۃ المدنی جدہ ) میں نصاریٰ کے اس دعویٰ کی تردید کی ہے کہ قرآن نے تمام ادیان کو برابر کا درجہ دیا ہے اور ان آیات کی تفسیر بیان کی ہے جن سے وحدت ادیان کا تصور مستنبط کیا جاتا ہے۔ اور صاف لکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 62 اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 69 میں ( الذین آمنوا ) سے مراد محمد ﷺ پر ایمان لانے والے، ( الذین هادوا ) سے موسیٰ علیہ السلام کے متبعین جو نسخ و تبدیل سے پہلے ان کی شریعت پر عمل پیرا تھے، ( نصاریٰ ) سے عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین جو نسخ و تبدیل سے پہلے ان کی شریعت پر قائم تھے اور ( صابئین ) سے وہ حنفاء مراد ہیں جو نسخ و تبدیل سے قبل ابراہیم و اسماعیل و اسحاق علیہم السلام کے دین پر قائم تھے۔ اہل کتاب نسخ و تبدیل کے بعد سارے انبیاء پر جب تک ایمان نہ لائیں کافر ہیں۔
۔(30) حیات شبلی ص 630