شیخ البانی کے منفرد اصول گنواتے ہوئے مصنف نے کہا ہے:
"اصول نمبر 1 علامہ البانی کے ہاں محدثین کے قول 'اس روایت کے رواۃ صحیح روایت والے ہیں' سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی۔"
اس اصول کے رد میں ثبوت کے طور پر مصنف نے ابن حجر وغیرہ کی چند مثالیں پیش کی ہیں جن میں انہوں نے اس اصطلاح (یعنی رجالہ رجال الصحیح) کو استعمال کیا ہے۔
حالانکہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی بات سو فیصد درست ہے، رجالہ رجال الصحیح سے حدیث کی صحت ہرگز لازم نہیں آتی۔ بعض محدثین سے محض اس اصطلاح کا ثبوت دکھا کر مصنف صاحب سمجھتے ہیں کہ رد ہو گیا۔ حالانکہ بات ثبوت کی ہرگز نہیں ہے۔ رجالہ رجال الصحیح کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہی ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں حالانکہ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں بنتا لیکن بالفرض اس کا مطلب یہی ہے تو مصنف کو اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ صحیح حدیث کی پانچ شرطیں ہیں اور صرف رجال کے ثقہ ہونے سے پانچوں شرطیں پوری ہونا لازم نہیں ہے۔ لہٰذا محض رجال کے ثقہ ہونے سے ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حدیث بھی صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
http://ar.islamway.net/fatwa/31245/يقولون-في-علم-التخريج-رجاله-ثقات-رجاله-رجال-قوي-الصحيح-وإسناده-صحيح-وجوده-فلان
شیخ البانی کے دوسرے "منفرد" اصول کے تحت مصنف لکھتے ہیں:
"علامہ البانی کے نزدیک ضعیف حدیث کو اس کے ضعف کی بیان کے بغیر ذکر کرنا جائز نہیں"
شیخ البانی کی اس رائے کے رد میں مصنف نے درج ذیل دلیل پیش کی ہے:
"یہ اصول شیخ کا تفرد معلوم ہوتا ہے کیونکہ صحاح ستہ کی ہر کتاب میں عند الشیخ ضعیف روایات موجود ہیں لیکن ان کے ساتھ اصحاب صحاح ستہ نے ان کا ضعف بیان نہیں کیا۔"
اولا: مصنف نے جہاں سے شیخ کا یہ قول نقل کیا ہے بالکل اسی کے ساتھ ہی شیخ نے دیگر حوالے بھی ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اس قول میں منفرد نہیں ہیں پھر بھی مصنف کا اسے شیخ کا تفرد کہنا سمجھ سے باہر ہے۔
شیخ البانی اسی قول کے تحت فرماتے ہیں:
"قال أبو شامة: "وهذا عند المحققين من أهل الحديث وعند علماء الأصول والفقه خطأ بل ينبغي أن يبين أمره إن علم وإلا دخل تحت الوعيد في قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين" رواه مسلم."
اس کے بعد شیخ نے درج ذیل قول بھی نقل کیا ہے:
قال ابن حبان في كتابه "الضعفاء" 1 / 7 - 8: "في هذا الخبر دليل على أن المحدث إذا روى ما لم يصح عن النبي مما تقول عليه وهو يعلم ذلك يكون كأحد الكاذبين على أن ظاهر الخبر ما هو أشد قال صلى الله عليه وسلم: "من روى عني حديثا وهو يرى أنه كذب ... " - ولم يقل: إنه تيقن أنه كذب - فكل شاك فيما يروي أنه صحيح أو غير صحيح داخل في ظاهر خطاب هذا الخبر" ونقله ابن عبد الهادي في "الصارم المنكي" ص 165 - 166 وأقره.
دوسری بات یہ کہ شیخ صاحب نے یہ اصول مطلقا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے انہوں نے دورِ حاضر کے آداب وطریقہ تالیف کے تحت ذکر کیا ہے یا اپنی اس تالیف یعنی تمام المنہ میں اپنے اسلوب وطریقے کی وضاحت کے لئے کیا ہے۔ جبکہ مصنف نے اسے مطلق حکم سمجھ کر صحاح ستہ کی مثال پیش کر کے اپنی طرف سے رد کرنے کی کوشش کی ہے جیسے شیخ البانی کو صحاح ستہ و محدثین کے طریقے کا پتہ ہی نہ ہو، اور مصنف نے آ کر شیخ البانی پر احسان کیا اور بات واضح کر دی۔
آگے جا کر شیخ البانی نے وضاحت بھی کی ہے کہ دور حاضر میں لوگوں کو ان کے فہم کے مطابق مخاطب کرنا چاہیے اس لئے روی عنہ وغیرہ جیسی اصطلاحات کی بجائے حدیث کی صحت وضعف کو واضحتا ذکر کر دینا ہی زیادہ مناسب ہے چنانچہ شیخ فرماتے ہیں:
"إذا كان من المسلم به شرعا أنه ينبغي مخاطبة الناس بما يفهمون ما أمكن وكان الاصطلاح المذكور عن المحققين لا يعرفه أكثر الناس فهم لا يفرقون بين قول القائل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" وقوله: "روي عن رسول الله في صلى الله عليه وسلم" لقلة المشتغلين بعلم السنة فإني أرى أنه لا بد من التصريح بصحة الحديث أو ضعفه دفعا للإيهام كما يشير إلى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم بقوله: "دع ما يريبك إلى مالا يريبك". رواه النسائي والترمذي وهو مخرج في "إرواء الغليل" 2074 وغيره."
لہٰذا شیخ البانی کے اس قول کے رد میں مصنف کا صحاح ستہ کے مصنفین کی مثال پیش کرنا کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔
تیسرے اصول کے تحت مصنف کہتے ہیں:
"علامہ البانی کے ہاں ضعیف حدیث کو روایت کرتے وقت اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرتے ہوئے یوں نہیں کہہ سکتے قال ﷺ او ورد عنہ یا اس قسم کی دوسری نسبت نہیں کر سکتے"
آگے کہتے ہیں:
"یہ اصول بھی علامہ البانی کا تفرد معلوم ہوتا ہے کیونکہ اصحاب صحاح ستہ ودیگر محدثین حدیث ضعیف کو بیان کرتے ہیں تو اس کے ساتھ قال ﷺ کا استعمال کرتے ہیں"
یہاں سے مصنف کے علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسناد کے ساتھ حدیث کو روایت کرنے اور بغیر اسناد کے حدیث کو ذکر کرنے کو مصنف نے ایک ہی بات سمجھ لیا ہے۔ اسناد میں مذکور قال قال رسول اللہ ﷺ راوی کا قول ہوتا ہے نہ کہ محدث کا۔ جبکہ حدیث کو اپنی طرف سے ذکر کرنے پر وہ محدث کا اپنا قول ہو گا۔ ورنہ محدثین کم از کم اس بات پر متفق ہیں کہ موضوع ومن گھڑت حدیث کو بغیر ضعف کے ذکر کرنا جائز نہیں لیکن ان کی اسانید میں بھی قال قال رسول اللہ ﷺ موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ مصنف کا اپنا قول نہیں ہوتا۔
لہٰذا مصنف کا حدیث کو ذکر کرنے اور حدیث کو اسناد کے ساتھ روایت کرنے کو ایک سمجھنا ان کی نری جہالت ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس کو شیخ البانی کا تفرد بتانا سفید جھوٹ ہے۔ کیونکہ یہ نا صرف شیخ البانی بلکہ تمام اہل حدیث محققین کا موقف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں سے مصنف نے شیخ البانی کا یہ قول نقل کیا ہے اسی کے بالکل اگلی لائن میں ہی شیخ امام نووی کا قول نقل کیا ہے:
قال النووي في "المجموع شرح المهذب" 1 / 63:"قال العلماء المحققون من أهل الحديث وغيرهم: إذا كان الحديث ضعيفا لا يقال فيه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو: فعل أو: أمر أو: نهى أو: حكم وما أشبه ذلك من صيغ الجزم وكذا لا يقال فيه: روى أبو هريرة أو: قال أو: ذكر ... وما أشبهه وكذا لا يقال ذلك في التابعين ومن بعدهم فيما كان ضعيفا فلا يقال في شيء من ذلك بصيغة الجزم وإنما يقال في هذا كله: روي عنه أو: نقل عنه أو: حكي عنه ... أو: يذكر أو: يحكى ... أو: يروى وما أشبه ذلك من صيغ التمريض وليست من صيغ الجزم. قالوا: فصيغ الجزم موضوعة للصحيح أو الحسن وصيغ التمريض لما سواهما. وذلك أن صيغة الجزم تقتضي صحته عن المضاف إليه فلا ينبغي أن يطلق إلا فيما صح وإلا فيكون الإنسان في معنى الكاذب عليه وهذا الأدب أخل به المصنف وجماهير الفقهاء من أصحابنا وغيرهم بل جماهير أصحاب العلوم مطلقا ما عدا حذاق المحدثين وذلك تساهل قبيح منهم فإنهم يقولون كثيرا في الصحيح: "روي عنه" وفي الضعيف: "قال" أو: روى فلان وهذا حيد عن الصواب".
اگر یہ قول ایک دو صفحوں کے بعد بھی ہوتا تو سوچا جا سکتا تھا کہ مصنف سے نظر انداز ہو گیا لیکن یہ قول بالکل اگلی ہی لائن میں مذکور ہے جہاں سے شیخ البانی کا قول لیا گیا ہے، اگر پھر بھی مصنف نے یہ نہیں دیکھا اور اسے شیخ البانی کا تفرد قرار دیا تو مصنف کو اپنی آنکھیں کسی اچھے ڈاکٹر سے دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ تو محض شیخ البانی کے اصولوں تک کی بات تھی اس سے آگے جو کچھ مصنف نے لکھا ہے اس سے مصنف کی اصل جہالت سامنے آتی ہے کیونکہ انہوں نے صحیح حدیث کی صحت پر شک ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں یہیں پر اکتفاء کروں گا، کیونکہ جس شخص کا علم حدیث میں حال یہ ہے اور پھر بھی شیخ البانی جیسے محدث پر اعتراض کرنے اور علم اسماء الرجال پر شک ڈالنے کی جرات کرے اس کو اس کے حال پر چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ وقت کی قلت کی وجہ سے میں آگے نہیں لکھ سکتا البتہ شیخ البانی پر غلط اعتراضات کا رد کرنا مجھ پر فرض تھا کیونکہ یہاں کسی نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
والسلام۔