• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ البا نی کی کتاب ”الضعیفہ” میں مو جود صحیح روا یا ت کا تحقیقی جا ئزہ-صحیحین کا مطا لعہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مشہور محقق ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ احادیث نبوی کو پرکھنے میں ان سے اکثر مقامات پر تساہل ہوا ہے-
بالکل غلط بات ۔
اکثر مقامات پر ان کی بات درست ہے ، ہاں البتہ تحقیق حدیث میں کئی مقامات پر بعض دیگر علماء کرام کو ان سے اختلاف بھی ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بالکل غلط بات ۔
اکثر مقامات پر ان کی بات درست ہے ، ہاں البتہ تحقیق حدیث میں کئی مقامات پر بعض دیگر علماء کرام کو ان سے اختلاف بھی ہے ۔
بات سمجھ نہیں آئی؟؟ اگر اکثر مقامات پر ان کی بات درست ہے تو علماء کو البانی کی تحقیق حدیث میں کئی مقامات پر ان سے اختلاف کیوں ؟؟- ظاہر جب متقدمین و محدثین کے احادیث پر حکم اور البانی کا حکم (موقف) ایک نہیں ہو گا تب ہی تو باہم اختلاف پیدا ہو گا؟؟ دوسری صورت میں اختلاف کی کوئی وجہ نہیں -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بات سمجھ نہیں آئی؟؟ اگر اکثر مقامات پر ان کی بات درست ہے تو علماء کو البانی کی تحقیق حدیث میں کئی مقامات پر ان سے اختلاف کیوں ؟؟- ظاہر جب متقدمین و محدثین کے احادیث پر حکم اور البانی کا حکم (موقف) ایک نہیں ہو گا تب ہی تو باہم اختلاف پیدا ہو گا؟؟ دوسری صورت میں اختلاف کی کوئی وجہ نہیں -
بات بالکل واضح ہے، آپ نے اس طرح کی بات کی کہ شیخ البانی اکثر مقامات پر تساہل کا شکار ہوئے ہیں ۔ میں نے اس کی تردید کی ۔ کیونکہ حقیقت میں ایسا نہیں ۔ اس میں سمجھ نہ آنے والی بات تو کوئی نہیں ۔
شیخ البانی نے پہلے علماء سے بعض روایات کی تحقیق میں اختلاف کیا ، شیخ کے معاصرین اور بعد والے علماء نے کئی ایک روایات میں ان سے اختلاف کیا ۔ منہج محدثین پر گامزن کئی علماء کا آپس میں کسی متعین حدیث پر حکم لگانے میں اختلاف ہوجاتا ہے ۔ اور یہ اختلاف متقدمین میں بھی رہا ، متاخرین میں بھی اور متاخرینِ متاخرین میں بھی ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ناصر البانی اگرچہ دور جدید کے
مشہور محقق ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ احادیث نبوی کو پرکھنے میں ان سے اکثر مقامات پر تساہل ہوا ہے-
کسی جارح کے متساہل ہونے کا حاکم کون؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
بات بالکل واضح ہے، آپ نے اس طرح کی بات کی کہ شیخ البانی اکثر مقامات پر تساہل کا شکار ہوئے ہیں ۔ میں نے اس کی تردید کی ۔ کیونکہ حقیقت میں ایسا نہیں ۔ اس میں سمجھ نہ آنے والی بات تو کوئی نہیں ۔
علمی لحاظ سے البانی کو ایک مقام حاصل تھا۔ کیا آپ اس مقام پر ہیں کہ ان کا تصفیہ کر سکیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
علمی لحاظ سے البانی کو ایک مقام حاصل تھا۔ کیا آپ اس مقام پر ہیں کہ ان کا تصفیہ کر سکیں؟
آپ علمی اعتبار سے اس مقام پر ہیں کہ اس سوال کے جواب کو سمجھ سکیں ؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
آپ علمی اعتبار سے اس مقام پر ہیں کہ اس سوال کے جواب کو سمجھ سکیں ؟
علمی لحاظ سے تو میں طالب علم ہی ہوں مگر علم کا ذخیرہ موجود ہے اور اس سے استفادہ کرنے کی کسی قدر صلاحیت موجود ہے۔
رہی بات سمجھنے کی تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے وافر مقدار میں عنایت فرمائی ہے۔
دراصل @محمد علی جواد کے اقتباس پر تبصرہ کرنا چاہ رہا تھا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
شیخ البانی کے منفرد اصول گنواتے ہوئے مصنف نے کہا ہے:
"اصول نمبر 1 علامہ البانی کے ہاں محدثین کے قول 'اس روایت کے رواۃ صحیح روایت والے ہیں' سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی۔"
اس اصول کے رد میں ثبوت کے طور پر مصنف نے ابن حجر وغیرہ کی چند مثالیں پیش کی ہیں جن میں انہوں نے اس اصطلاح (یعنی رجالہ رجال الصحیح) کو استعمال کیا ہے۔
حالانکہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی بات سو فیصد درست ہے، رجالہ رجال الصحیح سے حدیث کی صحت ہرگز لازم نہیں آتی۔ بعض محدثین سے محض اس اصطلاح کا ثبوت دکھا کر مصنف صاحب سمجھتے ہیں کہ رد ہو گیا۔ حالانکہ بات ثبوت کی ہرگز نہیں ہے۔ رجالہ رجال الصحیح کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہی ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں حالانکہ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں بنتا لیکن بالفرض اس کا مطلب یہی ہے تو مصنف کو اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ صحیح حدیث کی پانچ شرطیں ہیں اور صرف رجال کے ثقہ ہونے سے پانچوں شرطیں پوری ہونا لازم نہیں ہے۔ لہٰذا محض رجال کے ثقہ ہونے سے ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حدیث بھی صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
http://ar.islamway.net/fatwa/31245/يقولون-في-علم-التخريج-رجاله-ثقات-رجاله-رجال-قوي-الصحيح-وإسناده-صحيح-وجوده-فلان

شیخ البانی کے دوسرے "منفرد" اصول کے تحت مصنف لکھتے ہیں:
"علامہ البانی کے نزدیک ضعیف حدیث کو اس کے ضعف کی بیان کے بغیر ذکر کرنا جائز نہیں"
شیخ البانی کی اس رائے کے رد میں مصنف نے درج ذیل دلیل پیش کی ہے:
"یہ اصول شیخ کا تفرد معلوم ہوتا ہے کیونکہ صحاح ستہ کی ہر کتاب میں عند الشیخ ضعیف روایات موجود ہیں لیکن ان کے ساتھ اصحاب صحاح ستہ نے ان کا ضعف بیان نہیں کیا۔"
اولا: مصنف نے جہاں سے شیخ کا یہ قول نقل کیا ہے بالکل اسی کے ساتھ ہی شیخ نے دیگر حوالے بھی ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اس قول میں منفرد نہیں ہیں پھر بھی مصنف کا اسے شیخ کا تفرد کہنا سمجھ سے باہر ہے۔
شیخ البانی اسی قول کے تحت فرماتے ہیں:
"قال أبو شامة: "وهذا عند المحققين من أهل الحديث وعند علماء الأصول والفقه خطأ بل ينبغي أن يبين أمره إن علم وإلا دخل تحت الوعيد في قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين" رواه مسلم."
اس کے بعد شیخ نے درج ذیل قول بھی نقل کیا ہے:
قال ابن حبان في كتابه "الضعفاء" 1 / 7 - 8: "في هذا الخبر دليل على أن المحدث إذا روى ما لم يصح عن النبي مما تقول عليه وهو يعلم ذلك يكون كأحد الكاذبين على أن ظاهر الخبر ما هو أشد قال صلى الله عليه وسلم: "من روى عني حديثا وهو يرى أنه كذب ... " - ولم يقل: إنه تيقن أنه كذب - فكل شاك فيما يروي أنه صحيح أو غير صحيح داخل في ظاهر خطاب هذا الخبر" ونقله ابن عبد الهادي في "الصارم المنكي" ص 165 - 166 وأقره.
دوسری بات یہ کہ شیخ صاحب نے یہ اصول مطلقا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے انہوں نے دورِ حاضر کے آداب وطریقہ تالیف کے تحت ذکر کیا ہے یا اپنی اس تالیف یعنی تمام المنہ میں اپنے اسلوب وطریقے کی وضاحت کے لئے کیا ہے۔ جبکہ مصنف نے اسے مطلق حکم سمجھ کر صحاح ستہ کی مثال پیش کر کے اپنی طرف سے رد کرنے کی کوشش کی ہے جیسے شیخ البانی کو صحاح ستہ و محدثین کے طریقے کا پتہ ہی نہ ہو، اور مصنف نے آ کر شیخ البانی پر احسان کیا اور بات واضح کر دی۔
آگے جا کر شیخ البانی نے وضاحت بھی کی ہے کہ دور حاضر میں لوگوں کو ان کے فہم کے مطابق مخاطب کرنا چاہیے اس لئے روی عنہ وغیرہ جیسی اصطلاحات کی بجائے حدیث کی صحت وضعف کو واضحتا ذکر کر دینا ہی زیادہ مناسب ہے چنانچہ شیخ فرماتے ہیں:
"إذا كان من المسلم به شرعا أنه ينبغي مخاطبة الناس بما يفهمون ما أمكن وكان الاصطلاح المذكور عن المحققين لا يعرفه أكثر الناس فهم لا يفرقون بين قول القائل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" وقوله: "روي عن رسول الله في صلى الله عليه وسلم" لقلة المشتغلين بعلم السنة فإني أرى أنه لا بد من التصريح بصحة الحديث أو ضعفه دفعا للإيهام كما يشير إلى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم بقوله: "دع ما يريبك إلى مالا يريبك". رواه النسائي والترمذي وهو مخرج في "إرواء الغليل" 2074 وغيره."
لہٰذا شیخ البانی کے اس قول کے رد میں مصنف کا صحاح ستہ کے مصنفین کی مثال پیش کرنا کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔

تیسرے اصول کے تحت مصنف کہتے ہیں:
"علامہ البانی کے ہاں ضعیف حدیث کو روایت کرتے وقت اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرتے ہوئے یوں نہیں کہہ سکتے قال ﷺ او ورد عنہ یا اس قسم کی دوسری نسبت نہیں کر سکتے"
آگے کہتے ہیں:
"یہ اصول بھی علامہ البانی کا تفرد معلوم ہوتا ہے کیونکہ اصحاب صحاح ستہ ودیگر محدثین حدیث ضعیف کو بیان کرتے ہیں تو اس کے ساتھ قال ﷺ کا استعمال کرتے ہیں"
یہاں سے مصنف کے علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسناد کے ساتھ حدیث کو روایت کرنے اور بغیر اسناد کے حدیث کو ذکر کرنے کو مصنف نے ایک ہی بات سمجھ لیا ہے۔ اسناد میں مذکور قال قال رسول اللہ ﷺ راوی کا قول ہوتا ہے نہ کہ محدث کا۔ جبکہ حدیث کو اپنی طرف سے ذکر کرنے پر وہ محدث کا اپنا قول ہو گا۔ ورنہ محدثین کم از کم اس بات پر متفق ہیں کہ موضوع ومن گھڑت حدیث کو بغیر ضعف کے ذکر کرنا جائز نہیں لیکن ان کی اسانید میں بھی قال قال رسول اللہ ﷺ موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ مصنف کا اپنا قول نہیں ہوتا۔
لہٰذا مصنف کا حدیث کو ذکر کرنے اور حدیث کو اسناد کے ساتھ روایت کرنے کو ایک سمجھنا ان کی نری جہالت ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس کو شیخ البانی کا تفرد بتانا سفید جھوٹ ہے۔ کیونکہ یہ نا صرف شیخ البانی بلکہ تمام اہل حدیث محققین کا موقف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں سے مصنف نے شیخ البانی کا یہ قول نقل کیا ہے اسی کے بالکل اگلی لائن میں ہی شیخ امام نووی کا قول نقل کیا ہے:
قال النووي في "المجموع شرح المهذب" 1 / 63:"قال العلماء المحققون من أهل الحديث وغيرهم: إذا كان الحديث ضعيفا لا يقال فيه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو: فعل أو: أمر أو: نهى أو: حكم وما أشبه ذلك من صيغ الجزم وكذا لا يقال فيه: روى أبو هريرة أو: قال أو: ذكر ... وما أشبهه وكذا لا يقال ذلك في التابعين ومن بعدهم فيما كان ضعيفا فلا يقال في شيء من ذلك بصيغة الجزم وإنما يقال في هذا كله: روي عنه أو: نقل عنه أو: حكي عنه ... أو: يذكر أو: يحكى ... أو: يروى وما أشبه ذلك من صيغ التمريض وليست من صيغ الجزم. قالوا: فصيغ الجزم موضوعة للصحيح أو الحسن وصيغ التمريض لما سواهما. وذلك أن صيغة الجزم تقتضي صحته عن المضاف إليه فلا ينبغي أن يطلق إلا فيما صح وإلا فيكون الإنسان في معنى الكاذب عليه وهذا الأدب أخل به المصنف وجماهير الفقهاء من أصحابنا وغيرهم بل جماهير أصحاب العلوم مطلقا ما عدا حذاق المحدثين وذلك تساهل قبيح منهم فإنهم يقولون كثيرا في الصحيح: "روي عنه" وفي الضعيف: "قال" أو: روى فلان وهذا حيد عن الصواب".
اگر یہ قول ایک دو صفحوں کے بعد بھی ہوتا تو سوچا جا سکتا تھا کہ مصنف سے نظر انداز ہو گیا لیکن یہ قول بالکل اگلی ہی لائن میں مذکور ہے جہاں سے شیخ البانی کا قول لیا گیا ہے، اگر پھر بھی مصنف نے یہ نہیں دیکھا اور اسے شیخ البانی کا تفرد قرار دیا تو مصنف کو اپنی آنکھیں کسی اچھے ڈاکٹر سے دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ تو محض شیخ البانی کے اصولوں تک کی بات تھی اس سے آگے جو کچھ مصنف نے لکھا ہے اس سے مصنف کی اصل جہالت سامنے آتی ہے کیونکہ انہوں نے صحیح حدیث کی صحت پر شک ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں یہیں پر اکتفاء کروں گا، کیونکہ جس شخص کا علم حدیث میں حال یہ ہے اور پھر بھی شیخ البانی جیسے محدث پر اعتراض کرنے اور علم اسماء الرجال پر شک ڈالنے کی جرات کرے اس کو اس کے حال پر چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ وقت کی قلت کی وجہ سے میں آگے نہیں لکھ سکتا البتہ شیخ البانی پر غلط اعتراضات کا رد کرنا مجھ پر فرض تھا کیونکہ یہاں کسی نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
والسلام۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بات بالکل واضح ہے، آپ نے اس طرح کی بات کی کہ شیخ البانی اکثر مقامات پر تساہل کا شکار ہوئے ہیں ۔ میں نے اس کی تردید کی ۔ کیونکہ حقیقت میں ایسا نہیں ۔ اس میں سمجھ نہ آنے والی بات تو کوئی نہیں ۔
شیخ البانی نے پہلے علماء سے بعض روایات کی تحقیق میں اختلاف کیا ، شیخ کے معاصرین اور بعد والے علماء نے کئی ایک روایات میں ان سے اختلاف کیا ۔ منہج محدثین پر گامزن کئی علماء کا آپس میں کسی متعین حدیث پر حکم لگانے میں اختلاف ہوجاتا ہے ۔ اور یہ اختلاف متقدمین میں بھی رہا ، متاخرین میں بھی اور متاخرینِ متاخرین میں بھی ۔
چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں - اکثر مرتبہ نہیں تو بعض مرتبہ تو تساہل ہوا ہی ہے- کیا اس بات کو آپ مانتے ہیں؟؟ -یعنی انہوں نے کچھ احادیث کو پرکھنے میں صریح غلطی کی - جیسے میں نے روایت "من کنت مولا فعلی مولا' کی مثال دی. اس روایت سے متعلق شیخ البانی نے ابن تیمیہ رحم الله کی شدید الفاظ میں مذمت کی- کہ انہوں نے اس کو ضعیف کیوں قرار دیا- شیخ البانی بھول گئے کہ اس روایت کو محض ابن تیمیہ رحم الله ہی نے ہی نہیں- بلکہ ان سے پہلے کے محدثین کے گروہ نے بھی منگھڑت قرار دیا ہے اور اس پر تعن کیا ہے -جس میں امام بخاری رحم الله بھی شامل ہیں -

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2894/16/

علامہ ناصر البانی کا قول ابن تیمیہ رحم الله کے بارے من بھی ملاحظه فرمائیں - آپ جناب فرماتے ہیں _

میری تحقیق کے مطابق ابن تیمیہ کا حد سے زیادہ مبالغہ ہے کہ وہ کچھ احادیث کو غلط قرار دینے میں بہت جلد باز ہے اور مکمل طور پر احادیث کی چانچ پڑتال نہیں کرتا
(سلسلتہ الاحادیث الصحیحہ // البانی// ج 4// ص 344// طبع الریاض)

ایک جید محدث و محقق کے بارے میں ایسے بیانات دینا شیخ کو زیب نہیں دیتا- اور اس بات کی نشاندہی خود شیخ شعیب ارنوٴوط نے کی ہے کہ شیخ کا اپنے مخالفین کے ساتھ شدت آمیز رویہ رہا ہے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
میری تحقیق کے مطابق ابن تیمیہ کا حد سے زیادہ مبالغہ ہے کہ وہ کچھ احادیث کو غلط قرار دینے میں بہت جلد باز ہے اور مکمل طور پر احادیث کی چانچ پڑتال نہیں کرتا
یہ "ہے" اور "کرتا" کے الفاظ عربی متن میں ہیں یا آپ کی عنایت ہے؟ ابتسامہ
 
Top