رشد: تجوید کے بعد آپ نے سبعہ شروع کی یا کتابیں؟
شیخ: تجوید پڑھنے کے بعد میں نے کتابیں شروع کیں۔ مدرسہ محمدیہ رینالہ خورد میں، جس کاموجودہ نام ابوہریرہ ہے۔ناظم حافظ عزیز الرحمن تھے جبکہ مولانا حبیب الرحمن اور حافظ شفیق الرحمن پڑھاتے تھے۔ مولانا حبیب الرحمن انتہائی متقی انسان اور صرف و نحوکے امام تھے۔ ان کے مزاج میں کھلا پن بھی کافی تھا۔ایک دن مجھ سے کہنے لگے۔ادھر آؤ میرے ساتھ وینی پکڑو۔ میں اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتا تھا اس لیے کچھ کہا تو انہوں نے دوبارہ پھر حکم دے دیا۔مولانابظاہر دیکھنے میں تو کافی کمزور نظر آتے تھے، لیکن جب ان کے کہنے پر پہلے میں نے ان کی وینی(زور آزمائی کے لیے ایک دوسرے کا بازو پکڑنا) پکڑی توپورے زور کے ساتھ تو انہوں نے ایک جھٹکے سے چھڑا لی۔پھر جب انہوں نے پکڑی تو اپنی پوری زور آزمائی کے باوجود میں وینی نہ چھڑا سکا۔
میں تقریباً ایک سال اس مدرسے میں رہا پھربیماری کی وجہ سے لاہور آگیا۔ حافظ اسماعیل ذبیح ہمارے عزیز تھے وہ ہمارے گھر آئے تو والدہ سے میری تعلیم کے متعلق دریافت کیا انہوں نے بتایا کہ رینالہ خورد میں پڑھتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اسے کسی بڑے مدرسے میں داخل کرواؤ۔ جامعہ اسلامیہ میں بھیج دو۔ اس وقت جامعہ اسلامیہ کی شہرت حضرت ابوالبرکات کی وجہ سے تھی ان کو علوم پر بہت عبور تھا۔ میں نے ان سے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ جس میں بخاری شریف، مسلم شریف، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ بھی شامل تھیں۔ جب میں نے ان سے بیضاوی اور جلالین پڑھی تو لفظ أأنذرتھم،میں جتنی قراء تیں ہیں سب پڑھ کر بتائیں۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا جس نے یہ تمام قراء تیں پڑھ کر بتائی ہوں۔