رشد: فارغ ہونے کے فوراً بعد آپ پاکستان آگئے؟
شیخ: اس وقت مکہ مکرمہ میں تدریب المعلّمین کا کورس ہوتا تھا۔ میں نے وہاں انٹرویو دیا تو اس میں پاس ہوگیا۔لہٰذا ایک سال مکہ مکرمہ میں گزارا۔ میری شدیدخواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو حج کرواؤں۔ اس سلسلے میں کچھ پیسے جمع کرنے کے لیے میں نے ایک دیو بندی دوست قاری سے رابطہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھے امامت کے لیے کوئی مسجد ڈھونڈ دیں۔ انہوں نے مکہ میں مجھے ایک مسجد ڈھونڈدی۔ پھر اللہ کے فضل سے میں نے اپنے والدین کو وہاں بلوایا انہیں اپنے پاس رکھا اور حج کروا کے واپس بھیجا۔میرا وہ ایک سالہ کورس مکمل ہوا تو رابطہ عالم اسلامی والوں نے مجھے نائیجیر یا بھیجنے کافیصلہ کیا۔ کاغذات وغیرہ مکمل تیار ہوچکے تھے، لیکن میں نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مجھ سے وجہ دریافت کیا تو میں نے کہا کہ میں نے اپنے ملک جانا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پاکستان کیوں جاناچاہتے ہو، میں نے کہا کہ میں اپنے ملک میں تجوید و قراء ات کا کام کرنا چاہتا ہوں۔وہ کہنے لگے کہ پاکستان میں تمہارے سوا کوئی قاری نہیں؟ میں نے کہا: موجود ہیں۔ کہنے لگے کہ تم سے پاکستان کے بارے میں پوچھ نہیں ہوگی جہاں میں تمہیں بھیج رہا ہوں اس کے بارے میں ضرور پوچھ ہوگی۔وہاں تو کوئی قاری موجود نہیں ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں وہاں نہیں جاسکتا۔ انہی دنوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کسی دورے پر وہاں تشریف لے آئے ۔ میں نے اپنا معاملہ ان کے گوش گزار کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ کل تم مجھے ان کے دفتر میں ملنا۔ میں اگلے دن وہاں پہنچا تو علامہ صاحب مجھے لے کر ناصر عبودی کے پاس چلے گئے اور اسے کہا کہ یہ شیخ پاکستان کا مقری کبیر ہے اوراس کے علاوہ میری بہت سی تعریف ان کے سامنے کی اور کہا میں اسے پاکستان لے جانا چاہتا ہوں۔ ناصر عبودی کہنے لگے علامہ صاحب آپ ہمارے دوست اور سلفی بھائی ہیں۔ ہم آپ کو کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتے۔ یہ امرمَلَکی ہے لہٰذا اس سال یہ اپنے ملک نہیں جاسکتا۔