سمجھ نہیں آتی شیخ سے کسی کو کیا دشمنی ہوگی۔شیخ صاحب تو ما شا اللہ بہت اچھی شخصیت ہیں اور ابھی تو وہ جامعہ رحمانیہ کے مدیر ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سنی تحریک جسے ہمارے کچھ بھائیوں نے کتی تحریک کا مناسب نام دیا ہے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ وہ اہل حدیثوں کو اتنا ڈرا دینا چاہتے ہیں کہ وہ شرک اور بدعتوں خصوصآ میلاد کے بارے میں کوئی لب کشائی نہ کرسکیں۔ ربیع الاول کے شروع کے بارہ دن تک ویسے ہی بریلویوں اور اہل حدیثوں کے درمیان سخت کشیدگی رہتی ہے۔ عبدالحنان سامرودی حفظہ اللہ نے بھی میلاد کی بدعت کے بارے میں کلاس میں گفتگو کی تھی جسے کے نتیجے میں یہ سانحہ رونما ہوا۔
پچھلے سال ہماری مسجد کے ایک بھائی نے ربیع الاول کے دنوں میں اپنے ایک بریلوی دوست کو میلاد کے رد میں ایک ایس ایم ایس کیا تو وہ بریلوی سنی تحریک کے لڑکوں کو اس بھائی کے گھر لے آیا ان بدبختوں نے گالیاں بھی دیں اور دھمکیاں بھی پھر اشتہارات چھپوا کر اس اہل حدیث اور اسکے اہل خانہ سے معاشی بائیکاٹ کی لوگوں سے درخواست کی کیونکہ اس اہل حدیث بھائی کی وہیں پر ایک بیکری بھی ہے جو بہت اچھی چلتی ہے۔ بعد میں بہت مشکل سے سنی تحریک کی اس شرط پر معاملہ رفع دفع ہوا کہ وہ اہل حدیث بھائی اپنے گھر کے سامنے اپنے خرچے پر میلاد کی محفل قائم کرینگے اور مجبورا’ انہیں ایسا کرنا پڑا۔
اس مرتبہ اورنگی ٹاون کی مسجد عثمانیہ کی جانب سے میلاد کے رد پر کچھ پرچے علاقے میں تقسیم کئے گئے تو سنی تحریک نے تھانے میں جاکر اس مسجد کے منتظمین کے خلاف پرچہ کٹوایا جس کے نتیجے میں مسجد کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا گیا اس کے دوسرے دن مسجد کی گلی کے کونے پر سنی تحریک کے کچھ لڑکے جمع ہوگئے نماز کے وقت ایک بھائی سائیکل پر مسجد کی جانب نماز کی ادائیگی کے لئے آیا تو ان لڑکوں نے اسے روک کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو اس نے کہا نماز کے لئے انہوں نے پوچھا کیا اہل حدیث ہو اس نے کہا ہاں تو اس اہل حدیث بھائی کو انہوں نے برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل حدیث بھی اس طرح کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کے آگے بند باندھنے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کریں۔