میں نے ایک بار پھر اس روایت کو بڑے غور سے پڑھا ہے لیکن معاف کیجئے گا مجھے اس روایت میں رسول اللہﷺ کو اپنے وصال کی خبر بذریعہ وحی ملنے کے الفاظ نہیں ملے ( یہ تو ہوا وہابی طرز استدلال)بنیادی طور پر یہ بات سمجھنے کی ہے، اور میں ایک دوسرے تھریڈ میں بھی آپ کو یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ انبیاء و رسل علیھم السلام کے پاس وحی نازل ہوتی ہے، اور وحی میں جس چیز کی بھی اللہ تعالیٰ چاہے خبر دے دے، نبی اور رسول وہی اپنی امت کو بتا دیتے ہیں، اب ہم میں سے کوئی انسان سال بعد آنے والے وقت کی خبر تو دور کی بات یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ شام کو ہم کس صورتحال میں ہوں گے، لیکن انبیاء اور رسول جیسے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے حالات بذریعہ وحی بتا دئیے۔
چلیں پھر بھی ہم مان لیتے ہیں ایسا ہی ہوا کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ پتہ چل گیا کہ آپ ﷺ کا وصال اسی مرض میں ہو جائے گا اور آپ ﷺ کے بعد اہل بیت اطہار میں سے حضرت فاطمہ کا وصال ہوگا لیکن بات تو پھر وہیں کی وہیں ہے کہ آپﷺ کو معلوم تھا کہ آپ کا وصال ہونے والا ہے اور یہ معلوم ہونا بذریعہ وحی تھا ، رسول اللہﷺ کی زبردست فہم کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ زبردست فہم تو صرف حضرت ابو بکر کے پاس تھی جو آپ نے بیان کیا ہے
لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم
حدیث کے الفاظ سے کیونکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا وصال اسی مرض میں ہوجائے گا اور یہ مرض آپﷺ کو مدینہ منورہ میں لگا تھا اطباء آج کے ترقی یافتہ دور کے ذرائع آمد و رفت کے ہوتے ہوئے مریض کو سفر سے منع کرتے ہیں پھر رسول اللہﷺ کے عہد کے انتہائی درجہ دشوار ذرائع آمد و رفت میں مریض کے لئے سفر کیوں کر ممکن ہوگا ، یہ ایک عقلی دلیل ہےیہ مفہوم آپ نے کہاں سے کشید کیا، اس کی کوئی دلیل بھی دیں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ آپ کے اس موقف کے پیچھے کیا کیا دلائل ہیں۔ جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واہ بھولے بادشاہ واہ !اس روایت سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے، کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی وفات کا علم ہو جاتا تھا،
یہ لوگوں کی بات کہاں سے آگئی !
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا کہ ابن عباس و عمر کو رسول اللہﷺ کے وصال کی خبر پہلے سے ہی ہوگئی تھی
اب آپ یہ فرمائیں گے کہ حضرت ابن عباس و عمر کو ان کی زبردست فہم کی بناء پر یہ خبر ہوگئی ہوگی کیونکہ یہ زبردست فہم سوائے رسول اللہ ﷺ کے سارے لوگوں کو تھی
لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم
یعنی صاحب قرآنﷺ سے بھی زیادہ وحی کا فہم حضرت ابوبکر کو تھا ؟؟؟؟؟جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آیت (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ) کی تلاوت کی تو دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین خوش ہو گئے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے، رونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پیار کرتے تھے اور ساری زندگی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت اور فرمانبرداری میں گزاری اسی لئے انہوں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کی تلاوت کرنے سے یہ مفہوم لیا، اور یہاں بھی یہ بات زہن نشین رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کی نسبت کوئی بدعقیدگی اختیار نہ کی جائے کہ معاذاللہ ان کو بھی وفات کا علم ہو جاتا تھا، یہ ایک فہم ہے، جیسے ایک شخص اگر ہنس ہنس کر اپنے دکھ کر چھپانے کی کوشش کر رہا ہوں تو اکثر لوگ اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ شخص ہنس تو رہا تھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کو بہت دکھ ہے، تو یہ ایک فہم ہے جس سے کوئی عقیدہ گھڑ لینا عقل مندی نہیں۔
بخاری کی روایت کو مانے میں اس قدر پس وپیش ؟؟؟؟جی ہاں! اسے انبیاء علیھم السلام کا خاصہ کہا جا سکتا ہے، یہ کسی عام انسان کے لئے نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انبیاء علیھم السلام کو زندگی اور موت کا اختیار تھا کیونکہ زندگی اور موت کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے (تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾) اور یہاں سے بریلوی عقائد کی بھی نفی ہوتی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے لئے موت نہیں ، کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ) تو اس سے ثابت ہوا کہ تمام انسانوں نے بشمول انبیاء و رسل علیھم السلام نے فوت ہونا ہے، اور باقی صرف اللہ کی ذات ہے (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾...سورۃ الرحمن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
پہلے مانا پھر انکار بھی کردیا
یعنی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی