اعتراضات کے خلاصے میں آپ نے اصل اعتراض کا ذکر نہیں کیا کہ صحیح بخاری کی مطابق آیت رجم حضرت عمر کو یاد تھی اور اس آیت کو نہ پاکر انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہآپ کے اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آیت رجم پہلے تلاوت کی جاتی تھی اور بعد میں قرآن میں نہیں لکھی گئی کیونکہ اسے بکری کھا گئی تھی۔
پہلی بات بالکل درست ہے کہ آیت رجم قرآن میں موجود تھی، اس کی تلاوت کی جاتی تھی، لیکن یہ بات غلط ہے کہ اس کے قرآن میں نہ لکھے جانے کی وجہ بکری کا کھا جانا تھا۔ یہ اہل تشیع کا عمومی بہتان ہے جو کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں۔
" اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔"
''جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اُس جیسی اور لے آتے ہیں۔''
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اللہ جس آیت کو منسوخ کردے یا بھلادے اس کی جگہ اس سے بہتر( یہاں بہتر سے مراد اس سے بھی ذیادہ واضح بھی ہوسکتا ہے) یا ایسی جیسی اور آیت نازل فرمادیتا ہے
یاد رہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ کے مطابق آیت رجم کو جس وقت بکری نے کھایا اس وقت تک قرآن کا نزول موقوف ہوچکا تھا یعنی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوچکا تھا اس لئے اس سے بہتر یا اس جیسی کسی اور آیت کا نزول ممکن نہیں تھا
دوسری بات یہ کہ آیت رجم اللہ تعالیٰ نے بھلائی بھی نہیں تھی کیونکہ یہ آیت حضرت عمر کو یاد تھی اور اس حد تک یاد تھی کہ اگر لوگ انہیں اس بات کا طعنہ نہ دیتے کہ عمر نے قرآن میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو وہ اس آیت کو قرآن میں لکھ دیتے
یہ سب باتیں ان احادیث سے ثابت ہورہی ہیں
ہائی لائٹ کردہ تینوں باتوں کے بارے میں قرآن و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دلیل بیان فرمادیں پھر آگے بات کرتے ہیںلہٰذا اہل سنت کا یہ مشہور عقیدہ ہے کہ قرآنی آیات میں نسخ ہے۔ اور وہ تین طرح کا ہے:
1۔ جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوں، جیسے رضاعت میں دس گھونٹ
2۔جس کی تلاوت منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو، جیسے رضاعت میں پانچ گھونٹ اور شادی شدہ زانی مرد وعورت کیلئے سنگسار کا حکم
3۔جس کا حکم باقی نہ ہو لیکن اس کی تلاوت باقی ہو۔
آپ ناسخ منسوخ کے عقیدہ میں ہم پر اعتراضات کر سکتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھ سکتے ہیں (حالانکہ تفسیر قمی میں قرآن میں ناسخ منسوخ کے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے)۔ لیکن اس عقیدہ کا موجودہ قرآن کریم کی صحت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر رجم کی آیت تھی اور تلاوت اٹھا لی گئی، تب بھی اور اگر آپ کے عقیدے کے مطابق رجم کی آیت تھی ہی نہیں، تب بھی، ہمارے نزدیک قرآن کہلانے کا حق دار فقط وہی ہے جو آج مصحف میں موجود ہے۔ موجودہ قرآن جس حالت میں ہے یہی ہمارے نزدیک قرآن ہے اور بالکل مکمل ہے۔
میں بھی یہی مانتا ہوں کہموجودہ قرآن جس حالت میں ہے یہی ہمارے نزدیک قرآن ہے اور بالکل مکمل ہے۔
مگر یہ بات صحابہ پرستوں کے لئے سوالیہ نشان ہے کہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ
کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ اصول کافی یا دیگر کتب کی ان روایت کی صحت کے بارے میں مجھ نہیں معلوم اس لئے کوئی بات نہیں کرسکتا لیکن میں نے جو احادیث آپ کی خدمت میں پیش کی ان کی صحت کے بارے آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھیآپ تو دھاگے کے تعلق سے یہ بتائیے کہ اصول کافی میں جو سترہ ہزار آیات کا تذکرہ ہے وہ کون سا قرآن ہے؟
وہ قرآن کون سا ہے جو آپ کے امام غار میں لے گئے ہیں؟
مصحف فاطمہ کا کیا ہوا جو موجودہ قرآن سے تین گنا بڑا ہے؟
موجودہ قرآن تو وہ ہے جو آپ کے نزدیک نعوذباللہ مرتدین اور منافقین نے جمع کیا ہے، کمال ہے آپ ایک ایسے قرآن پر ایمان لے آئے ہیں جس کے جامعین آپ کے نزدیک مسلمان بھی نہیں۔
سنی کتب میں مصحف حفصہ بنت عمر کا بھی ذکر آیا ہے اور اس مصحف کے ساتھ کیا ہوا یہ بھی آپ جیسے اہل علم سے پوشیدہ نہ ہوگا
قرآن پر میرا ایمان اس لئے نہیں کہ یہ فلاں نے یا فلاں نے جمع کیا بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے اپنے ذمے رکھا ہے