تقیہ کی شرعی حیثیت امام بخاری کی نظر میںتو کیا آپ تقیہ کو شرعی حیثیت دینے سے انکار کر رہے ہیں یا یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ تقیہ کرتے ہی نہیں!
ہم نے تو آپ کے عقیدے ہی کی بنیاد پر آپ سے ایک گمان رکھا تھا۔
صحیح بخاری
کتاب الاکراہ
باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر اس پر گناہ نہیں کہ
وقول الله تعالى { إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولكن من شرح بالكفر صدرا فعليهم غضب من الله ولهم عذاب عظيم} وقال { إلا أن تتقوا منهم تقاة} وهى تقية وقال { إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض} إلى قوله { عفوا غفورا} وقال { والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا} فعذر الله المستضعفين الذين لا يمتنعون من ترك ما أمر الله به، والمكره لا يكون إلا مستضعفا غير ممتنع من فعل ما أمر به. وقال الحسن التقية إلى يوم القيامة. وقال ابن عباس فيمن يكرهه اللصوص فيطلق ليس بشىء، وبه قال ابن عمر وابن الزبير والشعبي والحسن. وقال النبي صلى الله عليه وسلم " الأعمال بالنية ".ترجمہ از داؤد راز
جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب دردناک ہو گا اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔ اور سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے-----آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجالانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
یہ تو ہوا تقیہ کا جواز امام بخاری کے رائے کے مطابق اس سے یہ ثابت ہوا کہ تقیہ کرنا تو امام بخاری کا بھی عقیدہ ہے اور آپ کا بھی یقینا یہی عقیدہ ہوگا تو پھر یہ گمان آپ اپنے آپ پرکیوں نہیں فرماتے ؟؟؟
اگر اس قول امام بخاری پر آپ غور کریں کہ اس میں قرآنی آیت کو کس طرح اپنے مطلب کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے قرآن کے احکام کے بر عکس مطلب بیان کیا گیا ہے ۔
آئینہ سچ کا دکھایا تو برا مان گئے!!اور اب جب ہم نے اہل تشیع کا مکروہ چہرہ اسی آئینے میں آپ کو دکھایا ہے تو کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ذرا آپ بھی تفسیر اہلسنت کا مطالعہ فرمالیں کہ ان میں کس طرح تحریف قرآن کی بات کی گئی ہے نمونہ حاضر ہےفضول بات۔ غالباً موضوع سے ہٹانے کی ایک اور کاوش۔ ہم نے آپ کی اس دھاگے میں بھی پوسٹ کو اسی لئے برقرار رکھا ہے تاکہ آپ کوئی الزام نہ عائد کر سکیں۔ کیونکہ اہل تشیع اور عمومی طور پر تمام باطل گروہوں کا یہی وطیرہ ہے کہ آخر میں لے دے کر انتظامیہ ہی پر طعن کیا جاتا ہے۔ آپ اہل تشیع کے تحریف قرآن والے دھاگے میں اہل سنت کے عقیدے کی بحث چھیڑیں گے تو اسے غیرمتعلق ہی قرار دیا جائے گا۔ الگ دھاگے میں بھی ضرور پیش کریں گے، آپ کے بقول پہلے ایک دھاگے پر تو بات مکمل ہو جائے۔
ہاں تو اوپر اسکین حوالہ جات بھی پیش کئے گئے۔ آپ کی حدیث کی صحیح ترین کتاب اصول کافی سے بھی حوالہ جات پیش کر دئے گئے۔ قرآن کی شیعی تفاسیر سے بھی تحریف کا ثبوت پیش کر دیا گیا اور آخر میں آن لائن شیعہ لائبریری سے تین چار گھڑی گھڑائی سورتیں بھی پیش کر دی گئیں اور آپ کے پاس ان میں سے کسی دلیل کا کوئی جواب نہیں؟؟؟ ایسے مذہب پر لعنت کیوں نہیں بھیج دیتے کہ جس میں قرآن میں تحریف کا اعتقاد رکھنا لازم آتا ہو؟
[/h2]
عن أُبيِّ بنِ كعبٍ أنه سأل عن سورةِ الأحزابِ قال فقال نعدُّها ثلاثًا وسبعين آيةً فقال أُبيٌّ فوالّذي أنزل الكتابَ على محمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إن كانت لَتُوازِي سورةَ البقرةِ أو هي أطولُ من سورةِ البقرةِ وإن كان فيها لآيةُ الرجمِ قال قلتُ وما آيةُ الرجمِ يا أبا المُنذرِ قال الشيخُ والشيخةُ فارجُموهما البتَّة
الراوي: زر بن حبيش المحدث:ابن جرير الطبري - المصدر: مسند عمر - الصفحة أو الرقم: 2/873
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ قرآن کی آیت چھ ہزار ہیں اس سے اوپر اختلاف ہے بعض تو اس سے ذیادہ بتاتے ہیں بعض 204 آیت 6 ہزار سے زائد بتاتے ہیں بعض 2سو 14 آیات بعض 2سو 19 بعض 2سو 25 بعض 2سو 26
حوالہ : تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 28
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/1538-tafseer-ibne-kaseer-takhreej-shuda-1.html
اور محدث میگزین میں قرآنِ کریم کی کل آیات کی صحیح تعداد6236 بتائی گئی ہے
http://www.mohaddis.com/jun2008/1201-quran-e-kareem-ki-kul-ayat-ki-sahi-tadad.html
اب آپ ہی بتائے کہ صحیح تعداد کیا ہے قرآنِ کریم کی کل آیات
اس سے بڑھ کر صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن سے تحریف قرآن کا عقیدہ ظاہر ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہم ہرگز اپنے آپ کو اس بات کا مجاز نہیں سمجھتے کہ ایک مؤلف یا چند ضعیف روایات کی بنا پر اہل سنت کو تحریف قرآن کا ملزم ٹہرائیں اور ہم ان سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ ایک کتاب یا بعض ضعیف روایات کی بنا پر ـ جن سے تمام شیعہ اکابرین نے بیزاری کا اعلان کیا ہے ـ اہل تشیع پر عقیدہ تحریف کا الزام نہ لگائیں۔
اگر یہ الزام لگایا جاتا رہے گا تو جواب میں یہی ہوگا جو اس دھاگہ میں ہورہا ہے