ہندوستانی شیعہ مفسر فرمان علی جن کے قرآنی ترجمہ و حواشی پر گزشتہ صدی کے بڑے بڑے شیعہ مجتہدین کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں، اپنے حاشیہ قرآن میں فرماتے ہیں:
"ذکر سے ایک تو قرآن مراد ہے۔ تب اس کی نگہبانی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو ضائع و برباد ہونے نہ دیں گے۔ پس اگر تمام دنیا میں ایک نسخہ بھی قرآن مجید کا اپنی اصلی حالت پر باقی ہو تب بھی یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ محفوظ ہے۔ اس (آیت) کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ اس (قرآن) میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اس زمانہ تک قرآن مجید میں کیا کیا تغیرات ہو گئے ہیں۔ کم سے کم اس میں تو شک ہی نہیں کہ ترتیب بالکل بدل دی گئی۔" (ترجمہ فرمان علی: ص 429)
اور شیعہ کا یہ عقیدہ کہ امام غائب کے پاس قرآن اصلی حالت میں محفوظ ہے، ہر ایک کو معلوم ہی ہے۔
لہٰذا جب کوئی رافضی یہ دعویٰ کرے کہ ہمارے نزدیک بھی قرآن بالکل محفوظ ہے اور تحریف سے پاک ہے، تو اُس کے نزدیک اس سے امام غائب کا قرآن مراد ہوتا ہے، کیونکہ بقول فرمان علی کہ ایک بھی نسخہ اگر اصلی حالت پر ہے تو یہ کہنا درست ہے کہ قرآن محفوظ ہے۔۔!!!
یہ ہے روافض کے نزدیک قرآن کی حفاظت کی درست تشریح۔
استغفراللہ واتوب الیہ