میں آسان اسلوب ،مختصر مگر جامع بیانات کے ساتھ ان کو دعوت حق دینا چاہتی ہوں۔اس کے بعد اگر وہ معترض ہوں ، تو ان کے موقف پر ان کی راہنمائی کی جائے گی۔ان شاء اللہ
بہنا اسکے لئے مخاطب کے حالات اور اپنی معلومات کے تناظر میں کچھ باتیں طے کر لیں
1۔بات کس موضوع پر کرنی ہے
اس کیس میں توحید ہی ہے جیسے کہ بخاری کتاب التوحید کی حدیث
فلیکن اول ما تدعوھم الیہ---- سے پتا چلتا ہے کیونکہ جب کوئی توحید صحیح معنی میں سمجھ لیتا ہے تو باقی خرافات اس میں ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں
اس کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ ایک دفعہ محنت کر کے بہت سی بدعات سیوے ہی ختم ہو جاتی ہیں مثلا کچھ لوگ عید میلاد النبی کے جلوس یا محرم کے جلوس نہ نکالنے پر قائل کرتے ہیں کچھ اسی طرح کی اور بدعات پر قائل کرتے ہیں تو جب وہ قائل ہو بھی جائیں تو پھر بھی باقی چیزیں آپ کو دوبارہ سے سمجھانی پڑیں گی اور اگر اسنے میلاد النبی اور محرم کے جلوس اوپ پیٹنا چھوڑ بھی دیا تو باقی شرک کی وجہ سے اس کا فائدہ نہیں ہو گا لیکن جب اسی پیٹنے والے کو جب آپ توحید پر قائل کر لیں گے تو جب بھی وہ پیٹنے لگے گا یا کوئی اور بدعت کرنے لگے گا تو آپ اسکو ایک آسان بات کہ دیں کہ اگر کوئی مؤحد عالم کہتا ہے تو کر لو ورنہ مشرک عالم کا کہنا اور ابوجہل کا کہنا تو برابر ہے اس طرح آپ کافی زیادہ بدعات سے بھی اس کی جان بغیر محنت کے چھڑا دیں گے
2۔دلائل کے لئے متفقہ مصادر کون سے ہیں
یعنی آپ نے انکو توحید پر جب دعوت دینی ہے تو دلیل کہاں سے دینی ہے جسکو وہ بھی مان لے- اس میں ایک تو یہ طریقہ ہے کہ آپ انکی کتابوں سے ہی ڈاکٹر نائیک حفظہ اللہ کی طرح حوالے دے کر توحید ثابت کریں لیکن چونکہ انکی کتابوں میں دونوں طرح کی باتیں ملیں گی تو اسکے لئے آپ کا انکی کتابوں کا مطالعہ اور انکی بہترین تطبیق بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح چاہئے- دوسرا یہ کہ انکے کچھ صحیح عقائد و اعمال و اقوال کو ہی لے لیا جائے جس سے انکے باقی غلط عقائد کی تطہیر کی جائے- جیسے میں فرصت ملنے پر ان شاءاللہ اپنے تھریڈ "مخلص بریلوی کے لئے حقائق- حب رسول کی شرائط" میں کوشش کروں گا-
میرے خیال میں ایک مشرک کو مندرجہ ذیل ترتیب سے توحید پر قائل کریں
1-مشرک کو پہلے اس بات پر قائل کریں کہ تمام انبیاء کو بھیجنے کا مقصد شرک سے بچانا ہے بریلوی تو آسانی سے قائل ہو جائیں گے اور عام اہل تشیع بھی قائل ہو جائیں گے کچھ ہٹ دھرم قسم کے نہ ہوں تو اسکے دلائل پر بعد میں بات کریں گے
2-توحید کی اہمیت اور شرک کے نبصانات متفقہ مصدر یا انکے مصادر سے بہت اچھی طرح اجاگر کرنا- مثلا قرآن، عقل وغیرہ
3-اب شرک کے صحیح مفہوم کو ڈھونڈنے کی جستجو پیدا کریں اور کہیں کہ آج کل تو پتا نہیں چلتا کہ ایک کہتا ہے یہ شرک ہے دوسرا کہتا ہے نہیں ہے تو جب اتنا اہم معاملہ ہے تو کیوں نہ ہم اللہ کے نبی کے دور پر غور کریں وہاں بھی تو اصل مسئلہ شرک ہی تھا تو وہ شرک کیا تھا آپ نے اسکے منہ سے اس شرک کی شکل کو واضح کروانا ہے
4-زیادہ چانس ہیں کہ اس دور میں شرک یہ تھا کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے یا اسی سے ملتا جلتا جملہ کہے گا
5-ان سے کہیں کہ شرک کے تعین کے لئے آپ کی بات میں موجود دو لفظوں یعنی بت اور
پوجا کی وضاحت کرتے ہیں
6-اللہ کے نبی کے دور میں بت کن کے تھے اس پر قرآن سے آپ مختلف طریقوں سے قائل کر سکتے ہیں کہ بت نیک بزرگوں کے تھے قرآن سے نہ مانے تو عقل سے بھی قائل کر سکتے ہیں کہ کیا آج کوئی بت کی پوجا کرتا ہے اگر وہ کہے کہ ہاں ہندو کرتا ہے تو اس سے پوچھیں میں ایک بت بناتا ہوں اور ہندو کے پاس جا کے دیتا ہوں کیا وہ پوجا کرے گا تو حقیقت یہی ہے کہ ہندو پوچھے گا کہ جی یہ ہمارے کون سے بزرگ کا بت ہے رام یا کرشنا وغیرہ کا ہے یا ویسے ہی ہے- پس وہ پوجا نہیں کرے گا جب تک اسکو کسی بزرگ کا کہ کر نہ دیا جائے اس پر آپ شرط بھی لگا سکتے ہیں کہ ہندو ایسا کھبی نہیں کرے گا پس اس پر آپ نے بت کا مفہوم واضح کر دیا کہ وہ بزرگ ہیں
7-اب پوجنے کی وضاحت کریں کہ کیا آپ متفق ہیں کہ پوجنے سے مراد عبادت کرنا ہے اور آپ کی بڑی بڑی عبادتوں میں
نماز، روزہ، حج، زکوۃ(نذر و نیاز) اور دعا آتے ہیں تو میرے خیال میں وہ انکار نہیں کرے گا-اب اس سے پوچھیں کہ آپ کے مطابق شرک سے بچنے کے لئے بتوں (بزرگوں) کی پوجا(عبادت) نہیں کرنی چاہئے تو قرآن نے بھی مشرکین مکہ کو بتوں (بزرگوں) کی کسی عبادت سے ہی منع کیا ہو گا اور اسکا ذکر بھی قرآن میں لازمی کیا ہو گا تو وہ ان بڑی بڑی عبادتوں میں سے کون سی عبادتیں تھیں
8-پورے قرآن میں یا حدیث میں اللہ کے علاوہ کسی کی نماز یا روزہ یا حج سے منع نہیں کیا گیا بلکہ غالبا مسلم میں حدیث ہے کہ ابو ذر غفاری مسلمان ہونے سے دو سال پہلے بھی اللہ کی نماز پڑھتے تھے اور حج کے بارے تو صحیح مسلم کی مشرکین مکہ کے حج کی مشہور حدیث لبیک اللھم لبیک والی تو آپ نے سنی ہو گی اسی طرح مشرکین مکہ کا اللہ کے لئے عاشورہ کے روزہ کا بھی پتا ہو گا- قرآن میں مشرکین مکہ کی ان عبادتوں کے غیر اللہ کے لئے ہونے کی بات نہیں بلکہ اگلی عباتوں یعنی زکوۃ (نذر و نیاز) اور دعا کا غیر اللہ کے لئے ہونے کا ذکر ہے جیسے وجعلوا للہ مما زرع من الحرث والانعام نصیبا فقالوا ھذا للہ وھذا لشرکائنا-------- میں غیر اللہ کی نذر و نیاز کا بتایا گیا ہے- اور غیر اللہ کی دعا سے قرآن کی آیتیں بھری پڑی ہیں جیسے قل ارئیتم ان اتاکم عذاب اللہ او اتتکم الساعۃ اغیر اللہ تدعون ان کنتم صدقین بل ایاہ تدعون فیکشف ما تدعون الیہ ان شاء وتنسون ما تشرکون (ہیاں تدعون کا معنی دعا ہی ہے کیوں کہ آگے یکشف ما تدعون سے پتا چلتا ہے کہ جو دعا کی گئی وہ پوری ہو گی
9-پس اس کو کہیں کہ جب مشرکین مکہ بتوں سے مانگنے کی وجہ سے ہی مشرک کہے گئے تو اس سے مراد ہے کہ یہ آج بھی شرک ہو گا
بھائی غلطی پر اصلاح کر دیں یا بہتری کا مشورہ ضرور دیں اللہ جزا دے
باقی باتیں بعد میں حسب ضرورت -ان شاءاللہ