• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعہ کے مطابق امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہی مرتے ہیں۔ معاذ اللہ

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
بہرام آپ اس بات سے کیا ثابت کرنا چاھتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے بھی ھو کہ یہ تہمت غلط ہے کیا آپ اس سے یہ ثابت کرنا چاھتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ جان بوجھ کر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا -
اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی سمجھ دیں - آمین
لگتا ہے کہ آپ نے بہرام سمجھ کرمیری تحریر کو کوٹ کردیا یہ حدیث غیب کے علم کی نفی میں پیش کی اگر اللہ کے رسولﷺ کو غیب کا علم ہوتا تو قرآن کی آیت کیوں نازل ہوتی۔ اس آیت کے نازل ہونے کی وجہ ہی دراصل یہ تھی کہ نبیﷺ کو غیب کا علم قطعی طور پر نہیں تھا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ دیں آپ نے کہا ہے کہ میں غیب کی تعریف اپنے الفاظ میں فرما دو شیطان نے بھی اپنی عقل استعمال کی تھی اور گمراہ ھو گیا جب کہ ٖقرآن کی واضح آیت موجود ہے علم غیب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا- جب اللہ تعالیٰ خود فرمائیں کہ زمین آسمان میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا اور آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے الفاظ میں تعریف بیان کروں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام کیا آپ کے لئے قرآن و حدیث کی سند کافی نہیں !


ان آیت کا آپ کے پاس کیا جواب ہے اور جو حدیث کے حوالہ اوپر پوسٹ کئے اس کا جواب آپ نے نہیں دیا دو پوسٹ دوبارہ کر دیتا ھو۔

جب اللہ تعالیٰ خود فرمائیں کہ زمین آسمان میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا اور نبی کریمﷺ فرمائیں کہ میں علم غیب نہیں جانتا تو پھر کیا کسی کی جرات ہے کہ وہ کہے کہ نہیں نہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو صحیح علم نہیں (نعوذ باللہ) یا نبی کریمﷺ صحیح بات نہیں فرما رہے (نعوذ باللہ!)
لیجئے خود قرآن کریم کا مطالعہ کر لیجئے۔

فرماِنِ باری:
﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴾ ... سورة النمل کہ ''
تم فرماؤ غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللہ اور انہیں خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی''

نیز فرمایا:
﴿ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ﴾ ... سورة الأنعامکہ
''اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی''


مزید فرمایا:
﴿ قُلْ لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ﴾ ... سورة الأنعام
کہ '' تم فرمادو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو اسی کا تا بع ہوں جو مجھے وحی آتی ہے ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی''



اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ اس فتوی کو آپ کے پاس کیا جواب ہے

763 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


اور اس حدیث کا آپ کے پاس کیا جواب ھے کہ (نعوذ باللہ) نبی کریمﷺ 70 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جان بوجھ کر قتل کروایا


765 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
قرآن کی واضح آیت موجود ہے علم غیب پراللہ کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے اب کون ہے جو انکار کرسکتا ہے ؟؟
یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔ سورہ یوسف : 102۔ ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )



غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا ۔ سورہ جن : 26
سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کر دیتا ہے۔ سورہ جن : 27 ۔ ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )


اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ التکویر : 24 ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
یہ سب بھی قرآنی آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ خود بنی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے غیب کے علم کو ثابت کررہا ہے اب کون ہے جو انکار کرسکتا ہے اگر پھر بھی آپ یہ ہی مانتے ہیں کہ غیب کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں جانتے تو پھر درج ذہل آیت کے نازل ہونے کے بعد تو آپ کے لئے غیب کا علم ثابت ہوجاتا ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔ النساء : 113۔ ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

بلفرض محال یہ مان لیا جائے کہ ایک وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے تو اس آیت میں اللہ فرمارہا ہے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کچھ سکھادیا جو نہیں جانتے تھے یعنی اگر غیب نہیں جانتے تھے تو وہ بھی سکھادیا
اور اللہ تبارک وتعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اس کے علاو غیب کی کنجیاں کسی اور کے پاس نہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے :
( اور اللہ تعالی ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور وہ جو کچھ سمندروں اور خشکی میں ہے اس کا علم بھی اس کے پاس ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور زمین کے تاریک حصوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ) الانعام / 59
اور اللہ وحدہ ہی یہ جانتا ہے کہ قیامت کب قائم ہو گی اور بارش کے نزول کا علم بھی اسی کے پاس ہے اور جو کچھ ماں کے رحم میں ہے اور انسان کے عمل وقت اور جگہ اور اس کی موت کا علم بھی اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہی ہے ۔
اور نہیں تو کم از کم آپ اپنی طرف سے مذکورہ بالا جو آیت کوٹ کی گئی ایسی پر غور کرلیتے اس میں ہےکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور جو پتّا گرتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو کتاب مبین میں لکھا نہ ہو اب یہ تمام غیب اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین یعنی قرآن میں لکھ دئے ہیں یعنی وحی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دئے گئے ہیں کہ جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور جو پتّا گرتا ہے وہ بھی لکھاہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک۔ یہ سب بھی کتاب مبین میں لکھا ہے اب کون سا غیب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوشیدہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
شیعہ کے مطابق امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہی مرتے ہیں۔
یہ سوال تھا؟؟؟۔۔۔

بہرام بھائی اگر آپ کے امام علم غیب جانتے تھے تو سوچ لیں پھر کیونکہ اب آپ کے ہت دھرمی اور ذہنی پستی بات کو دیکھیں کہاں سے کہاں لے جارہی ہے ملاحظہ کیجئے۔۔۔

اگر امام علم غیب جانتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کو اس بات کا پتہ تھا کہ انہیں کھانے کے لئے دسترخوان پر کیا پیش کیا جارہا ہے لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بات بھی ان کے سابقہ علم میں تھی اور یہ کہکھانا زہریلا ہے جس سے بچنا چاہئے علم ہونے کے باوجود ان کا اس کو کھانے سے پرہیز نا کرنا تو خودکشی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانے سے اپنے آپ کو لقمہ اجل بنایا ہے یعنی وہ خودکشی کرنے والے ہوئے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے متنبہ فرمادیا تھا کہ خودکشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے کیا شیعہ حضرات اپنے آئمہ کے اس انجام سے راضی ہیں؟؟؟۔۔۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیا تھا، جس وقت ان کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا اس کے برخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی جبکہ باعتبار وقت آپ رضی اللہ عنہ کے لئے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناسب تھا۔۔۔

اب مذکورہ صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر یعنی اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجود اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا حق ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت وقوت سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا اور اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔۔۔

اس سوال کا کیا جواب ہے آپ کا پاس؟؟؟۔۔۔
لہذا ہم اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لئے ہی وصیت کرسکتا ہے۔۔۔

اور اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لئے منفردنہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی امامت وعصمت پر زد پڑتی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور ان کی ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےدم سے ہی ان کی ذریت کی امامت وعصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فرع خود بخود باطل ہوگئی۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ سوال تھا؟؟؟۔۔۔

بہرام بھائی اگر آپ کے امام علم غیب جانتے تھے تو سوچ لیں پھر کیونکہ اب آپ کے ہت دھرمی اور ذہنی پستی بات کو دیکھیں کہاں سے کہاں لے جارہی ہے ملاحظہ کیجئے۔۔۔

اگر امام علم غیب جانتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کو اس بات کا پتہ تھا کہ انہیں کھانے کے لئے دسترخوان پر کیا پیش کیا جارہا ہے لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بات بھی ان کے سابقہ علم میں تھی اور کہ یہ کھانا زہریلا ہے جس سے بچنا چاہئے علم کے باوجود ان ک اس کو کھانے سے پرہیز کرنا تو خودکشی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانے سے اپنے آپ کو لقمہ اجل بنایا ہے تویا وہ خودکشی کرنے والے ہوئے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے متنبہ فرمادیا تھا کہ خودکشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے کیا شیعہ حضرات اپنے آئمہ کے اس انجام سے راضی ہیں؟؟؟۔۔۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیا تھا، جس وقت ان کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا اس کے برخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی جبکہ باعتبار وقت آپ رضی اللہ عنہ کے لئے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناسب تھا۔۔۔

اب مذکورہ صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر یعنی اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجود اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا حق ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت وقوت سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا اور اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔۔۔



لہذا ہم اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لئے ہی وصیت کرسکتا ہے۔۔۔

اور اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لئے منفرنہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی امامت وعصمت پر زد پرٹی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور ان کی ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ عہن کےدم سے ہی ان کی ذریت کی امامت وعصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فرع خود بخود باطل ہوگئی۔۔۔
دونوں شہزادے علیہ السلام حق پر ہی تھے اور قطعی جنتی بھی بلکہ اہل جنت کے سردار بھی اگر ناصبیت کی عینک اتار دیں گے تو آپ کو اپنی قرآن کے بعد اصح کتاب میں یہ سب نظر آجائے گا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
دونوں شہزادے علیہ السلام حق پر ہی تھے اور قطعی جنتی بھی بلکہ اہل جنت کے سردار بھی اگر ناصبیت کی عینک اتار دیں گے تو آپ کو اپنی قرآن کے بعد اصح کتاب میں یہ سب نظر آجائے گا
ابتسامۃ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔

دیکھو ہمارے محدث فورم کے شہزادے!۔
سیدنا محمد بن علی المشہور محمد بن الحنیفہ جو جنگ صفین کے ایک جانباز ہیرو تھے انہوں نے اپنے بھائی کو بڑی شدت سے روکا کہ کوفہ کا سفر نہ کیجئے مگر آپ نہ رُکے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ہر چند آپ کو روکا مگر اپ نے سب کی خواہشات کو ٹھکرا دیا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو آپ کے چچا زاد تھے انہوں نے ہر چند منع کیا اور نہایت رقت بھرے انداز میں کہا کہ مجھے آپ کی خاطر مطلوب ہے میں آپکو اس طرح پکڑ کر روکتا کہ لوگ تماشا دیکھتے بعض روایات میں آیا کہ میں تمہیں سر اور داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر روکتا۔۔۔

کیا اس بھری دنیا میں کسی ایک پر امیر یزید رحمہ اللہ علیہ کے خلاف جہاد کرنا ضروری نہ تھا اور لاکھو مربع میل میں پھیلی ہوئی وسیع سلطنت میں صرف ایک حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ہی جہاد فرض ہوکر رہ گیا تھا اور اگر آپ کا موقف مبنی برحق تھا تو مدینہ میں یا مکہ میں آپ نے اعلان جہاد کیوں نہ فرمایا؟؟؟۔۔۔ یہ سب کچھ صرف کوفہ پر ہی کیوں منحصر ہوکر رہ گیا؟؟؟۔۔۔

شہزادے!۔۔۔ یہ سب امور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ سفر محض اہل کوفہ رافضی شیعوں کے خطوط کی بنیاد پر کیا اور کسی حکومت کے خلاف خروج کرنے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے انہیں سراسر نظر انداز کردیا مگر جب آپ کو سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر ملی اور آپ نے اپنی تدبیر کو الٹ ہوتے دیکھا تو اپنی فراست ایمانی کی بناء پر اپنے مؤقف سے رجوع فرما لیا مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر سن کر آپ نے راستے سے ہی واپسی کا ارادہ کرلیا تھا کہا جاتا ہے کہ مسلم کے بھائیوں کہا ہم یا تو اپنے بھائی مسلم کے قتل کا بدلہ لیں گے یا خود لڑکر مرجائیں گے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بڑا صبر آزما وقت تھا خواتین حرم ماور چھوٹے چھوٹے بچے ہمراہ ہیں جس اُمید پر یہ دور دراز کا سفر کیا وہ ختم ہوچکی تھی مسلم کے بھائی واپسی کے ارادہ میں مانع تھے اور ساتھ ہی وہ ساٹھ کوفی جو مکہ سے آپ کو اپنے ہمراہ لائے تھے انکی تدابیر اور خواہشات بھی آپ کی واپسی کی صورت میں دم توڑتی نظر آتی تھیں چنانچہ انہوں نے بھی پینترا بدلا اور کہنا شروع کردیا۔۔۔

صرف باتیں کرنا ہوائی قلعے بنانا اور ہائے حسین رضی اللہ عنہ کے نعرے لگا کر سینہ کوبی کرکے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے محب حسین رضی اللہ عنہ ہونے کا حق ادا کردیا ہے الگ بات ہے مگر جو حالات اس موقع پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے تھے ان سے عہدہ برآ ہونا۔۔۔

شیر مرد باید دریائے مردانہ

یہاں جذبات کی وادی سے نکل کر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ جب آپ نے حالات کی نزاکت دیکھ کر واپسی کا ارادہ فرمایا تو کہاں رہ گیا فریضہ جہاد کا بلند وبانگ نظریہ؟؟؟۔۔۔ کیا اس وقت یزید رحمہ اللہ فاسق وفاجر نہیں رہا؟؟؟۔۔۔ اگر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے بھائی سفر جاری رکھنے پر بضد نہ ہوتے تو؟؟؟۔۔۔۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
والا نظریہ تو خاک میں مل جاتا ہے۔۔۔۔

شہزادے کیا سمجھے؟؟؟۔۔۔۔ یہ نہ کہنا ناصبی۔۔۔ ورنہ ہم کہہ دیں گے رافضی۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شیعوں کے امام مھدی کی آواز بقول شیعہ مناظر کے !!!
الامام الحجة ع يتصل على قناة صفاء (تسجيل صوتي)
---------------------------------------------------------
شیعوں کے مھدی کی صفاء چینل والوں کو کال۔ یہ آواز ایک شیعہ مناظر نے مناظرے کے دوراں سنائی ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہ شیعہ کے بارویں 12 کی آواز ہے جو غار میں چھبا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مزے کی بات یہ ہے کہ مھدی صاحب جب قرآنی آیات پڑھتا ہے تو اس میں بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ اور بھر اس میں شیخ ماھر المعیقلی جو امام کعبہ ہیں اس کی قرآت سے ہم نے صحیح قرانی آیب پیش کی ہے۔
اے شیعہ اللہ سے ڈرو اور اب تو کافی شیعہ پڑھے لکھے ہیں اب تو ان جھوٹی کہانیوں سے بچو۔ !!!
---------------------------------

 
Top