عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
گیارہویں قسط
حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________
مضمون اب تک
(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________
نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے
شیعہ حضرات کے عقیدہ امامت (جس کا تذکرہ تیسری اور چوتھی قسط میں کیا گیا تھا) کا یہ بھی لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کو قبول کر لینے کے بعد "ختم نبوت" کا عقیدہ ختم اور بے معنی ہو جاتا ہے.... ظاہر ہے کہ نبوت و رسالت اور ختم نبوت و ختم رسالت یہ صرف الفاظ کے پیرائے نہیں ہیں بلکہ ان کی ایک متعین اور معلوم حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " خاتم النبیین" ہیں اور اس کا یہ مطلب ہے کہ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی گئی ہے، آپ کے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آنے والا، آپ کو ماننا شرط نجات اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام آنے کا سلسلہ آپ پر موقوف ہو گیا، اب قیامت تک کے لئے آپ پر نازل کی گئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ کے ارشادات و اعمال (جن کا نام "سنت" ہے) ہی ہدایت کا سرچشمہ اور مرجع و ماخذ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخصیت ایسی نہ ہوگی جو انبیاء و رسل کی طرح بندوں کے لئے اللہ کی طرف سے حجت اور معصوم ہو... ختم نبوت کا مطلب یہی تھا، یہی ہے اور قیامت تک یہی رہے گا..........
لیکن شیعیت کے عقیدہ امامت کے مطابق (جس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں) جب یہ بات مان لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ ائمہ اللہ کی طرف سے نبیوں اور رسولوں ہی کی طرح اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے حجت ہیں، معصوم ہیں، ان کی معرفت اور ان کی اطاعت شرط نجات ہے، اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کو بھی ہدایت اور احکام ملتے ہیں، ان کو وہ سارے فضائل و کمالات حاصل ہیں جو انبیاء کو حاصل تھے، وہ مرتبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور بقیہ انبیاء و رسل سے برتر ہیں، وہ الہی صفات و اختیارات کے حامل بھی ہیں، ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں، کوئی بھی چیز ان سے پوشیدہ نہیں، وہ مختار کل ہیں، دنیا اور آخرت ان کی ملکیت ہے جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں اور ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے..... ظاہر ہے جب ان ائمہ کے تعلق سے ان ساری باتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ختم نبوت کا عقیدہ بے معنی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدہ یہ بنتا ہے کہ معاذ اللہ "گھٹیا درجے کی نبوت کا سلسلہ ختم ہو کر اب امامت کے عنوان سے ترقی یافتہ اور اعلی درجے کی نبوت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہو گیا ہے اور اس سلسلے کے خاتم امام مہدی غائب ہیں جن سے ان کمالات کا ظہور ہوگا جن کا ظہور خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں ہوا تھا"..... استغفر اللہ ربي واتوب الیہ..... مذہب شیعہ کا ترجمان اعظم علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ "امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری است" یعنی امامت کا درجہ پیغمبری سے بالاتر اور اعلی ہے.......... اس تفصیل کا ما حصل یہ ہے کہ
"عقیدہ امامت کو تسلیم کر لینے کا لازمی اور حتمی نتیجہ دو اور دو چار کی طرح یہ نکلتا ہے کہ "نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ" امامت" کے عنوان سے ترقی کے ساتھ جاری اور ساری ہے"........ (امام خمینی اور شیعیت از مولانا منظور نعمانی ص 243_241)
ویسے ہی ہم شیعوں کو کافر تھوڑی کہتے ہیں جناب، یہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا منکر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور آپ کا منکر اللہ کا منکر ہے اور جس نے اللہ کا انکار کیا وہ بہر صورت مسلمان نہ ہو کر کافروں میں اپنا شمار کرا لیتا ہے......
_____________________________
"رجعت" کا عقیدہ
"رجعت" کا عقیدہ بھی شیعہ حضرات کے مخصوص عقائد میں سے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "امام مہدی غائب جب ظاہر ہوں گے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امیر المومنین (حضرت علی رضی اللہ عنہ)، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن و حسین رضی اللہ عنہما، تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص مومنین زندہ ہو کر اپنی قبروں سے باہر آئیں گے اور یہ سب امام مہدی کی بیعت کریں گے، ان میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیعت کریں گے، ابو بکر و عمر، عائشہ اور ان سے محبت و مودت کا خصوصی تعلق رکھنے والے خواص کفار و منافقین بھی زندہ ہوں گے اور امام مہدی ان کو سزا دیں گے، ہزاروں بار ان کو مار مار کے جلائیں گے اور سولی پہ چڑھائیں گے، اس کے بعد اللہ جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور عذاب دیتا رہے گا... (حق الیقین از علامہ باقر مجلسی ص 145 در بیان رجعت)
شیعی کتاب "تحفۃ العوام" میں ایک جگہ "عقیدہ رجعت" کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
"اور رجعت پر بھی ایمان لانا واجب ہے یعنی جب امام مہدی ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر و منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا و تعزیر پاوے گا" ( تحفۃ العوام ص 5)
محترم قارئین! یہ تو تھا شیعوں کا عقیدہ، جبکہ جمہور امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد تمام بنی آدم، مومن و کافر اور صالح و فاسق دوبارہ صور پھونکنے کے بعد ہی زندہ کئے جائیں گے اور پھر حشر کے میدان میں اللہ ان کے درمیان جزا و سزا نیز جنت و جہنم کا فیصلہ کرے گا... لیکن شیعہ حضرات کے نزدیک قیامت سے پہلے بھی امام مہدی کے ظہور پر ایک قیامت قائم ہوگی اور نہ صرف یہ کہ نبی معصوم حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں گے بلکہ وہ امام مہدی کی بیعت بھی کریں گے... نعوذ باللہ... اس پر مستزاد یہ کہ کافر و فاجر اور مومن و صالح کے سلسلے میں سزا اور جزا دینے والے خود امام مہدی ہی ہوں گے.... فلعنۃ اللہ علی الظالمين و الکاذبین والفاجرین والکافرین
(جاری ہے)
اگلی قسط میں پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کا ایک بے ہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے"