• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
گیارہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے

شیعہ حضرات کے عقیدہ امامت (جس کا تذکرہ تیسری اور چوتھی قسط میں کیا گیا تھا) کا یہ بھی لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کو قبول کر لینے کے بعد "ختم نبوت" کا عقیدہ ختم اور بے معنی ہو جاتا ہے.... ظاہر ہے کہ نبوت و رسالت اور ختم نبوت و ختم رسالت یہ صرف الفاظ کے پیرائے نہیں ہیں بلکہ ان کی ایک متعین اور معلوم حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " خاتم النبیین" ہیں اور اس کا یہ مطلب ہے کہ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی گئی ہے، آپ کے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آنے والا، آپ کو ماننا شرط نجات اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام آنے کا سلسلہ آپ پر موقوف ہو گیا، اب قیامت تک کے لئے آپ پر نازل کی گئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ کے ارشادات و اعمال (جن کا نام "سنت" ہے) ہی ہدایت کا سرچشمہ اور مرجع و ماخذ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخصیت ایسی نہ ہوگی جو انبیاء و رسل کی طرح بندوں کے لئے اللہ کی طرف سے حجت اور معصوم ہو... ختم نبوت کا مطلب یہی تھا، یہی ہے اور قیامت تک یہی رہے گا..........
لیکن شیعیت کے عقیدہ امامت کے مطابق (جس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں) جب یہ بات مان لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ ائمہ اللہ کی طرف سے نبیوں اور رسولوں ہی کی طرح اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے حجت ہیں، معصوم ہیں، ان کی معرفت اور ان کی اطاعت شرط نجات ہے، اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کو بھی ہدایت اور احکام ملتے ہیں، ان کو وہ سارے فضائل و کمالات حاصل ہیں جو انبیاء کو حاصل تھے، وہ مرتبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور بقیہ انبیاء و رسل سے برتر ہیں، وہ الہی صفات و اختیارات کے حامل بھی ہیں، ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں، کوئی بھی چیز ان سے پوشیدہ نہیں، وہ مختار کل ہیں، دنیا اور آخرت ان کی ملکیت ہے جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں اور ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے..... ظاہر ہے جب ان ائمہ کے تعلق سے ان ساری باتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ختم نبوت کا عقیدہ بے معنی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدہ یہ بنتا ہے کہ معاذ اللہ "گھٹیا درجے کی نبوت کا سلسلہ ختم ہو کر اب امامت کے عنوان سے ترقی یافتہ اور اعلی درجے کی نبوت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہو گیا ہے اور اس سلسلے کے خاتم امام مہدی غائب ہیں جن سے ان کمالات کا ظہور ہوگا جن کا ظہور خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں ہوا تھا"..... استغفر اللہ ربي واتوب الیہ..... مذہب شیعہ کا ترجمان اعظم علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ "امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری است" یعنی امامت کا درجہ پیغمبری سے بالاتر اور اعلی ہے.......... اس تفصیل کا ما حصل یہ ہے کہ
"عقیدہ امامت کو تسلیم کر لینے کا لازمی اور حتمی نتیجہ دو اور دو چار کی طرح یہ نکلتا ہے کہ "نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ" امامت" کے عنوان سے ترقی کے ساتھ جاری اور ساری ہے"........ (امام خمینی اور شیعیت از مولانا منظور نعمانی ص 243_241)
ویسے ہی ہم شیعوں کو کافر تھوڑی کہتے ہیں جناب، یہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا منکر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور آپ کا منکر اللہ کا منکر ہے اور جس نے اللہ کا انکار کیا وہ بہر صورت مسلمان نہ ہو کر کافروں میں اپنا شمار کرا لیتا ہے......
_____________________________

"رجعت" کا عقیدہ

"رجعت" کا عقیدہ بھی شیعہ حضرات کے مخصوص عقائد میں سے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "امام مہدی غائب جب ظاہر ہوں گے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امیر المومنین (حضرت علی رضی اللہ عنہ)، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن و حسین رضی اللہ عنہما، تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص مومنین زندہ ہو کر اپنی قبروں سے باہر آئیں گے اور یہ سب امام مہدی کی بیعت کریں گے، ان میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیعت کریں گے، ابو بکر و عمر، عائشہ اور ان سے محبت و مودت کا خصوصی تعلق رکھنے والے خواص کفار و منافقین بھی زندہ ہوں گے اور امام مہدی ان کو سزا دیں گے، ہزاروں بار ان کو مار مار کے جلائیں گے اور سولی پہ چڑھائیں گے، اس کے بعد اللہ جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور عذاب دیتا رہے گا... (حق الیقین از علامہ باقر مجلسی ص 145 در بیان رجعت)

شیعی کتاب "تحفۃ العوام" میں ایک جگہ "عقیدہ رجعت" کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
"اور رجعت پر بھی ایمان لانا واجب ہے یعنی جب امام مہدی ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر و منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا و تعزیر پاوے گا" ( تحفۃ العوام ص 5)
محترم قارئین! یہ تو تھا شیعوں کا عقیدہ، جبکہ جمہور امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد تمام بنی آدم، مومن و کافر اور صالح و فاسق دوبارہ صور پھونکنے کے بعد ہی زندہ کئے جائیں گے اور پھر حشر کے میدان میں اللہ ان کے درمیان جزا و سزا نیز جنت و جہنم کا فیصلہ کرے گا... لیکن شیعہ حضرات کے نزدیک قیامت سے پہلے بھی امام مہدی کے ظہور پر ایک قیامت قائم ہوگی اور نہ صرف یہ کہ نبی معصوم حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں گے بلکہ وہ امام مہدی کی بیعت بھی کریں گے... نعوذ باللہ... اس پر مستزاد یہ کہ کافر و فاجر اور مومن و صالح کے سلسلے میں سزا اور جزا دینے والے خود امام مہدی ہی ہوں گے.... فلعنۃ اللہ علی الظالمين و الکاذبین والفاجرین والکافرین
(جاری ہے)

اگلی قسط میں پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کا ایک بے ہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے"
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بارہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے اور رجعت کا عقیدہ...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

شیعوں کا ایک بیہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے

اس ضمن میں ہم سب سے پہلے شریعت کی نظر میں "متعہ" کی حیثیت کا جائزہ لیں گے پھر اس سلسلے میں شیعوں کا عقیدہ ذکر کیا جائے گا....

متعہ کی تعریف: متعہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے مقررہ معاوضے کے بدلے مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کر لے مثلاً دو دن، تین دن یا اس کے علاوہ کسی متعینہ مدت تک کے لئے.....

متعہ کا حکم: نکاح کے سلسلے میں شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اس میں استمرار اور دوام ہو، موقّت شادی یعنی "متعہ" شروع اسلام میں جائز تھا پھر بعد میں اسے حرام کر دیا گیا اور اب قیامت تک کے لئے یہ عمل حرام ہی رہے گا.... اپنی اس بات پر ہم کچھ نبوی فرامین ذکر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:

1. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه:"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر" یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے سال متعہ کرنے سے منع کر دیا" (بخاری 3979، مسلم 1407).....

2. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: "أن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية" حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے "متعہ" کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے خیبر کے روز منع کر دیا تھا.... (بخاری 4216) اور یہ بات معلوم اور مشہور ہے کہ غزوۂ خیبر محرم سن7ھ میں پیش آیا.....

3. عن إياس بن سلمة عن أبيه قال:"رخّص رسول الله صلى الله عليه وسلم عام أوطاس في المتعة ثلاثا،ثم نهى عنها" ایاس بن سلمہ اپنے باپ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اوطاس" کے سال تین دن کے لئے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر اس سے منع کر دیا.... (مسلم 1405)
"اوطاس کے سال" سے مراد "غزوۂ حنین" کا سال ہے اور یہ واقعہ سن8ھ میں فتح مکہ کے بعد پیش آیا.....

4. عن سَبُرَة الجهني رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا أيها الناس إني قد كنت أذنت لكم في الأستمتاع ألا وإن الله قد حرمها إلى يوم القيامة , فمن كان عنده منهن شيء فَلْيُخَل سبيلها,ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئاً" سبرہ الجھنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ نے اسے روزِ قیامت تک کے لئے حرام قرار دے دیا ہے، پس جس کے پاس بھی ان عورتوں (متعہ والی) میں سے کوئی ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور تم جو کچھ انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو" (مسلم 1406).......

محترم قارئین! مذکورہ بالا ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "نکاح متعہ" پہلے حلال تھا پھر قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا... مزید آپ چند محدثین اور ائمہ کے اقوال بھی دیکھتے چلیں:

1. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "رخصت کے بعد چھ مختلف مقامات پر "نکاح متعہ" کا منسوخ ہو جانا مروی ہے: 1. خیبر میں (7ھ).... 2. عمرۃ القضاء میں (7ھ).... 3. فتح مکہ کے سال (8ھ).... 4. اوطاس کے سال (8ھ).... 5. غزوہ تبوک میں (9ھ).... 6. حجۃ الوداع میں (10ھ)...... (فتح الباری ج 9 ص 173)

2. امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں: "درست بات یہ ہے کہ متعہ دو مرتبہ جائز ہوا اور دو ہی مرتبہ حرام ہوا اور پھر قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا، یہ غزوۂ خیبر سے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر جائز کیا گیا (اور اسی کو "عام اوطاس" بھی کہتے ہیں) اس کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے حرام کر دیا گیا".... (شرح مسلم ج9 ص 181)

3. جمہور سلف و خلف کا قول: نکاح متعہ منسوخ ہے (فتح الباری ج 9 ص 173)
4. قاضی عیاض رحمہ اللہ نے "نکاح متعہ" کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صرف شیعہ حضرات اسے جائز قرار دیتے ہیں (شرح مسلم للنووی ج 9 ص 79)
5. سعودی مستقل فتوی کمیٹی نے یہ فتوی دیا ہے کہ "نکاح متعہ" حرام ہے اور اگر واقع ہو جائے تو باطل ہے (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ج 18 ص 440)
____________________________

محترم قارئین! اب تک کی ہماری گفتگو سے ممکن ہے کہ "نکاح متعہ کی شرعی حیثیت" آپ کی سمجھ میں آ چکی ہو... یہ باتیں وہ تھیں جو شریعت کی تعلیمات کی روشنی میں ہم نے بیان کی ہیں..... اب آیئے اس نکاح کو جائز کہنے والے "رافضیوں" اور "شیعوں" کی باتوں کو بھی سمجھ اور جان لیتے ہیں... اس حوالے سے سب سے پہلے بات آپ یہ ذہن نشین کر لیں کہ "متعہ" مذہب شیعہ کا مشہور مسئلہ ہے، چنانچہ ایرانی انقلاب کے روح رواں سمجھے جانے والے خمینی صاحب نے اپنی کتاب "تحریر الوسيلة" میں "کتاب النكاح" کے تحت تقریباً چار صفحات پر "متعہ" سے متعلق جزوی مسائل لکھے ہیں، ہم ان میں سے ایک بات کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں، خمینی صاحب لکھتے ہیں:
"يجوز التمتع بالزانية على كراهة خصوصا لو كانت من العواهر المشهورات بالزنا وإن فعل فليمنعها من الفجور" یعنی "زانیہ عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ، خصوصاً جبکہ وہ مشہور پیشہ ور زانیہ ہو، اور اگر اس سے متعہ کر لے تو اسے (بطور نصیحت) بدکاری کے پیشہ سے منع کر دے" (تحریر الوسیلہ ج2 ص 292)......واہ بھائی واہ! گویا کہ چھوڑنے کا دل کر رہا ہے مگر پکڑنا بھی ضروری ہے....
(جاری ہے)

آگے پڑھیں ان شاء اللہ اگلی قسط میں "متعہ کے فوائد شیعوں کی نظر میں اور متعہ کے جواز پر شیعی دلیلیں"
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تیرہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت اور شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

محترم قارئین! پچھلی گفتگو میں ہم نے "متعہ کی شرعی حیثیت" اور "شیعوں" کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات کا تذکرہ کیا تھا... اب ان شاء اللہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شیعوں کی نظر میں "متعہ" کی فضیلت اور اس کے جواز پر ان کی دلیلیں نیز ان دلیلوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم رد کرنے کی کوشش کریں گے....
____________________________

"متعہ" کا مقام شیعوں کی نظر میں

"متعہ" یعنی زناکاری کو شیعہ نماز، روزہ اور حج سے بھی افضل عبادت مانتے ہیں، جو جتنی زیادہ زناکاری (متعہ) کرے اس کا رتبہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے یعنی ایسا کر کے وہ بتدریج اور بالترتیب حضرت حسین، حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے اور ان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے...
ہم اپنی اس بات کے لئے خمینی صاحب کی کتاب "منہج الصادقين" میں موجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث بطورِ دلیل پیش کئے دیتے ہیں:

"مَنْ تَمَتَّعَ مَرَّۃً فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحُسَین، وَمَن تَمَتَّعَ مَرَّتَین فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحَسَن ،وَمَن تَمَتَّعَ ثَلَاثَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ عَلِيٍّ، وَمَن تَمَتَّعَ اَربَعَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَتِي"....
یعنی جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسن علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو تین مرتبہ متعہ کرے وہ امیر المومنین علیہ السلام (علی رضی اللہ عنہ) کا درجہ پائے گا، اور جو چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا (پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) درجہ پائے گا.... (منہج الصادقين للخمینی ج 1 ص 356)

نعوذ باللہ من ذلك.... لیجئے صاحب! اب مقام و مرتبے اعمال صالحہ کرنے اور نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے سے نہیں بلکہ "زناکاری" (متعہ) کا ارتکاب کر کے حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے...

محترم قارئین! لیں اسی طرح کی ایک اور روایت بلکہ فضیلت پڑھتے ہوئے اپنی حیرت میں مزید اضافہ کریں...

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ
"ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ "میں نے زنا کیا ہے لہذا آپ مجھے پاک کر دیجئے".... چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا...... لیکن جب اس کی اطلاع امیر المومنین علیہ السلام (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو دی گئی تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ "تو نے کس طرح زنا کیا تھا؟"...... اس عورت نے جواب دیا کہ "میں جنگل میں گئی تھی، وہاں مجھ کو سخت پیاس محسوس ہوئی، تو ایک اعرابی سے میں نے پانی کا سوال کیا، اس نے مجھے پانی پلانے کے لئے ایک شرط رکھی کہ میں اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دوں.... جب مجھ کو پیاس نے بہت زیادہ مجبور کر دیا اور مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہوا تو میں راضی ہو گئی اور میں نے اس کی شرط مان لی، اس نے مجھے پانی پلایا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا"..... یہ پورا معاملہ سننے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "قسم کعبہ کے رب کی، یہ تو زنا نہیں بلکہ نکاح ہے".... (فروع کافی ج 2، ص 198)
دیکھئے اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق زنا کا وجود دنیا سے اٹھ گیا ہے، بازاروں میں جس زنا کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں تو مرد و عورت دونوں باہم راضی ہو ہی جاتے ہیں... یہاں اس روایت کے مطابق اگر پانی کے بدلے زنا پر آمادگی و رضامندی دے دی تو وہاں اس سے بڑھ کر دولت و روپیہ دیا جاتا ہے... گواہ، وکیل، ولی اور ایجاب و قبول کی شرطیں نہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں.... شاباش....
بقول شاعر
منظور ہے کہ سیم تنوں کا وصال ہو
مذہب وہ چاہیئے کہ زنا بھی حلال ہو
___________________________

متعہ اور زنا میں مماثلت

محترم قارئین! ہماری اوپر کی گفتگو میں آپ نے بارہا "متعہ" کے بدلے لفظ "زنا" کا استعمال دیکھا اور پڑھا ہے... ایک سوال شاید آپ کے ذہن میں انگڑائیاں لے رہا ہو کہ میں نے آخر ایسا کیوں کیا... تو آیئے آپ کے اس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں:

* زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے...
* زنا کے لئے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک...
* زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے...
* زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو...
* زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے...
* زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی...
* زانیہ وارث نہیں بن سکتی...
* زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے...

اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ "زنا" نکال دیں اور اس کی جگہ "متعہ" کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے "زنا" کہا جاتا ہے اور اُسے "متعہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے... اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ کا فرمان بھی پڑھ لیں... "وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً" یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے... (بنی اسرائیل 32)
(جاری ہے)

آگے پڑھیں ان شاء اللہ "متعہ کے جواز کے لئے شیعی دلائل اور ان کا رد"
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
چودہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت، شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات اور شیعوں کی نظر میں متعہ کا مقام اور اس کی فضیلت نیز زنا اور متعہ میں مماثلت کی جانب اشارہ...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

متعہ کے جواز پر شیعی دلائل اور ان کا رد

محترم قارئین! رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں:

شیعی دلیل نمبر 1: اللہ کا فرمان ہے:
"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ" (النساء:24)
ترجمہ: "پس ان عورتوں میں سے جس سے بھی تم فائدہ اٹھاؤ تو ان کا مقرر کیا ہوا معاوضہ انہیں دے دو"...
شیعوں کا کہنا ہے کہ: "اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے....

دلیل نمبر 1 کا رد: 1. پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، جبکہ اِس آیت میں مرد کے لئے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے... مزید یہ کہ اللہ نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے، اور حدیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں...

2. دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے، اللہ نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے...
"یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" (الأحزاب 50)
ترجمہ: "اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ کے لئے آپ کی ان بیویوں کو حلال کیا ہے جنہیں آپ نے ان کی اجرت (مہر) دے دی ہے"...
اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے...

3. تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ "یہ آیت منسوخ ہے"... اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لئے اللہ نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے..... اور اس تعلق سے ہم نے کئی دلائل کا تذکرہ قسط نمبر 12 میں کیا تھا، قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں...
____________________________

شیعی دلیل نمبر 2: "بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں"...

دلیل نمبر 2 کا رد: روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں... ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں... یعنی کہ میٹھا میٹھا گپ، کڑوا کڑوا تھو...
رہی بات ان صحابہ کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لئے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا...
جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں... آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ: "اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! ذرا ٹھہرو! بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا" (مسلم 1407)
____________________________​

محترم قارئین! چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں... جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے... فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے:

دلائل قرآن سے:
1. سورۃ النساء آیت نمبر 25
2. سورۃ النور آیت نمبر 33
اور دیگر دوسری آیات

دلائل سنت مطہرہ سے:
1. صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407
2. صحيح مسلم 1406
3. تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154
4. ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318
5. صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022
6. صحيح مسلم 1405
7. صحيح بخاری 4216
8. صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154
9. صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400

(جاری ہے)

آگے پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کے چند چیدہ چیدہ عقائد"
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
پندرہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت، شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات اور شیعوں کی نظر میں متعہ کا مقام اور اس کی فضیلت نیز زنا اور متعہ میں مماثلت کی جانب اشارہ اور اخیر میں ان کے اس باطل عقیدے کی کچھ دلیلیں اور ان کے رد کا تذکرہ...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________​

شیعوں کے چند مزید متفرق عقائد و مسائل

محترم قارئین! گذشتہ سطور میں ہم نے جو تفصیل "شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں" کے عنوان سے آپ کے سامنے پیش کی وہ تمام ہی مسلمانوں کو شیعوں کی حقیقت اور ان کی حیثیت بتانے کے لئے کافی و شافی ہے، البتہ ہم اس تذکرے کے بعد بھی ان کے چند متفرق عقائد و مسائل کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں...

1. گناہوں کے کفّارے کا ایک انوکھا عقیدہ


اس سلسلے میں شیعہ مصنف علامہ باقر مجلسی کی کتاب "حق الیقین" کی ایک روایت کو دو زاویوں سے پیش کرنا مناسب ہے...

زاویہ نمبر 1: مذکورہ کتاب کی ایک روایت میں امام جعفر صادق کے خاص مرید مفصل بن عمر کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفر صادق کا یہ ارشاد منقول ہے:
امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "اے مفصل! رسول خدا نے دعا کی کہ خداوندا! میرے بھائی علی بن ابی طالب کے شیعوں اور میرے اُن فرزندوں کے جو میرے وصی ہیں ان سب کے اگلے پچھلے اور روزِ قیامت تک کے سب گناہ تو میرے اوپر لاد دے اور شیعوں کے گناہوں کی وجہ سے پیغمبروں کے درمیان تو مجھے رسوا نہ کر، پس اللہ نے سبھی شیعوں کے تمام گناہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لاد دیا، اور پھر وہ سارے گناہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ نے بخش دیئے"... (حق الیقین ص 148)

زاویہ نمبر 2:
مفصل نے دریافت کیا کہ "اگر آپ کے شیعوں میں سے کوئی اس حال میں مر جائے کہ اس کے ذمے کسی مومن بھائی (یعنی شیعہ) کا قرضہ ہو تو اس کا کیا انجام ہوگا؟".... تو حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو وہ سب سے پہلے ساری دنیا میں یہ منادی کرائیں گے کہ ہمارے شیعوں میں سے اگر کسی پر کسی کا قرضہ ہو تو وہ آئے اور ہم سے وصول کر لے، پھر آپ سب قرض خواہوں کا قرضہ ادا فرما دیں گے"..... (حق الیقین 148)

قارئین دیکھیں کتنی ہوشیاری اور ہٹ دھرمی سے ان لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امام جعفر صادق پر یہ بہتان باندھا کہ ان دونوں نے ایسا اور ایسا کہا تھا... کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسی کوئی خواہش یا دعا اللہ سے کی کہ ان کافروں اور فاجروں کے گناہوں کو مجھ پر لاد دے اور مجھے رسوا نہ کرنا؟؟؟... ھاتوا برهانكم ان کنتم صادقین
____________________________​

2. کربلا کعبہ سے افضل، برتر اور بالاتر (نعوذ باللہ)

ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ دنیا کی تمام جگہوں میں سب سے مقدس، محترم، پاک، افضل اور بہتر و برتر جگہ "خانہ کعبہ" ہے، لیکن شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ نہیں، بلکہ کربلا دنیا کی تمام جگہوں میں سب سے افضل اور برتر ہے یہاں تک کی کعبہ سے بھی......
اسی "حق الیقین" نامی کتاب میں ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے اسی مرید مفصل بن عمر کو دینی حقائق و معارف بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
".......... واقعہ یہ ہے کہ زمین کے مختلف قطعات اور مقامات نے آپس میں ایک دوسرے پر فخر اور برتری کا دعوٰی پیش کیا کہ اسی اثناء میں خانہ کعبہ نے کربلائے معلّی کے مقابلے میں فخر اور برتری کا دعوٰی کر دیا، تو اللہ نے کعبہ کو وحی فرمائی کہ خاموش ہو جاؤ! کربلا کے مقابلے میں فخر اور برتری کا دعوٰی مت کرو".... (حق الیقین 145)
لیجئے صاحب! اب کعبہ کو بھی وحی آنے لگی اور جبرئیل کے وحی لانے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ جاری و ساری ہے..... اور تو اور یہاں زمینی مقامات بھی بحث اور مناظرے میں مشغول ہوتے ہیں اور کوئی شیعہ بڑے غور سے ان سب کو نوٹ کر رہا ہوتا ہے....
آگے مزید اسی روایت میں ہے کہ "اس موقع پر اللہ نے کربلا کی وہ خصوصیات اور فضائل بیان کیں کہ جن کی وجہ سے اس کا مرتبہ مکہ مکرمہ سے برتر اور بالاتر ہے"... (حق الیقین 145)
____________________________​

3. ایک انتہائی شرمناک مسئلہ

شیعہ حضرات کی مستند ترین کتابوں میں ائمہ کے حوالے سے ایسے بہت سارے مسائل بیان کئے گئے ہیں جو انتہائی شرمناک ہیں مگر دل گواہی دیتا ہے کہ ان مقدس بزرگوں نے ایسی کوئی بات ہرگز نہ کی ہوگی، بلکہ یہ سب انہی شیعوں کی کارستانیاں ہیں....... ایک مسئلہ بطور نمونہ ذکر کیا جاتا ہے اور پھر اسی پر بقیہ مسائل کو آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہوں گے اور ان کا معیار کیا ہوگا.......

شیعوں کی اصح الکتب "الجامع الکافی" کے دوسرے حصہ "فروع کافی" میں پوری سند کے ساتھ امام جعفر صادق کا یہ ارشاد اور فتوی نقل کیا گیا ہے...
عَنْ اَبِی عَبدِ اللّه أنّه قَالَ: "اَلنَّظْرُ اِلَی عَوْرَۃٍ مَنْ لَیْسَ بِمُسْلِمٍ مِثْلُ نَظْرِكَ اِلَی عَوْرَۃِ الْحِمَارِ" (فروع کافی جلد 2، جزء ثانی، ص 61)
ترجمہ: "ابو عبد اللہ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "کسی غیر مسلم (عورت یا مرد) کی شرمگاہ کو دیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ گدھے (یعنی کسی جانور) کی شرمگاہ کو دیکھنا (مطلب یہ کہ کسی غیر مسلم عورت یا مرد کی شرمگاہ کو دیکھ لینے سے بندہ گنہگار نہیں ہوگا بلکہ اس کا حکم جانور کی شرمگاہ دیکھنے کی طرح ہوگا)...
........ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے........

حضرت امام جعفر صادق تو ایک صالح انسان تھے، کیا کوئی بھی سلیم الفطرت اور عقلمند نیز شریف انسان ایسی شرمناک اور حیا سوز بات اپنی زبان سے نکال سکتا ہے یا اپنے قلم سے لکھ سکتا ہے اور وہ بھی ایک شرعی مسئلے اور فتوے کے طور پر؟؟؟.... نہیں ہر گز نہیں....... اسی بنا پر تو ہم کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہے......

(جاری ہے)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سولہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت، شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات اور شیعوں کی نظر میں متعہ کا مقام اور اس کی فضیلت نیز زنا اور متعہ میں مماثلت کی جانب اشارہ، ان کے اس باطل عقیدے کی کچھ دلیلیں اور ان کا رد اور پھر اخیر میں ان کے چند متفرق عقائد و مسائل کا تذکرہ...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

یہودیت اور شیعیت: نام الگ مگر کام ایک

محترم قارئین! ہم نے اب تک شیعوں کے عقائد و نظریات کا مختصر مگر جامع تذکرہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کس قدر خبیث ہیں اور ان کے عقائد و نظریات کا معیار کیا ہے... اب آیئے ذیل کے چند سطور میں ہم "شیعیت" کا موازنہ اس قوم سے کر لیتے ہیں جسے اللہ نے سب سے بدترین قوم کہا ہے، جن پر اللہ کا غضب ہے اور جو مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن ہیں، میری مراد "یہودیت" ہے... اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شیعہ دراصل کافر ہیں، قوم یہود کے پروردہ اور انہی کی ایجاد کردہ ہیں اور یہ حقیقت تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ سانپ کا بچہ سپولا (سانپ) ہی ہوتا ہے، وہ انسان تو ہونے سے رہا....
_______________________​

یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں:

1. دین میں غلو اور مبالغہ آرائی: یہودیوں کی سب سے پہلی صفت جو شیعوں نے اختیار کی وہ "غلو" اور "مبالغہ" ہے... جیسا کہ اللہ یہودیوں کے تعلق سے کہتا ہے:
"وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّه"
یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں"...
(التوبة 30)
یہودیوں نے ایک نیک اور صالح انسان کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا، حالانکہ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی کسی کا باپ.... جس طرح یہودیوں نے اللہ کے بندے عزیر علیہ السلام کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیا ایسے ہی شیعوں نے اپنے "ائمہ معصومین" کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیتے ہوئے یہودی نسل سے ہونے کی ایک مضبوط دلیل پیش کی... ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ائمہ نبی اور رسول ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں، انبیاء و رسل ہی کی طرح امت پر ان کی اطاعت فرض ہوتی ہے اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے یہ تمام انبیاء سے افضل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہیں...
چنانچہ ایران کے مقتدر شیعی رہنما جناب آیت اللہ خمینی صاحب لکھتے ہیں:
"وَاِنَّ مِنْ ضَرُوْرِیَّاتِ مَذْھَبِنَا أَنَّ لِاَئِمَّتِنَا مَقَاماً لَا یَبْلُغُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ"
یعنی ہمارے مذہب (شیعیت) کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے کہ جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا"
(الحکومۃ الاسلامیۃ آیت اللہ خمینی 52)

اسی طرح سے تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر ہر چیز پر اللہ کی حکومت ہے اور تمام چیزیں اس کی مطیع و منقاد ہیں اور یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں، صرف اللہ کی ہے.... لیکن اہل تشیع کا غلو اور مبالغہ سے بھرپور یہ عقیدہ ہے کہ
"فَاِنَّ لِلْاِمَامِ مَقَاماً مَحْمُوْداً وَدَرَجَةً سَامِیَةً وَخِلَافَةً تَکْوِیْنِیَّةً تَخْضَعُ لِوِلَایَتِھَا وَ سَیْطَرَتِھَا جَمِیْعُ ذَرَّاتِ الْکَوْنِ"
مطلب امام کو مقام محمود، بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم اور اقتدار کے آگے سرنگوں ہے"
(الحکومة الإسلامية 52)....... نعوذ باللہ من ذلك
دیکھیں کس قدر ائمہ کی شان میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے، بھلا بتاؤ کیا ایسی صورت میں اِن میں اور اُن میں کوئی فرق رہ جاتا ہے؟؟....
_____________________​

2. اپنے دینی رہنماؤں کو اللہ کے اختیارات سے متّصف کرنا:
یہ وہ دوسری صفت ہے جو شیعوں نے یہودی قوم سے وراثت میں حاصل کی ہے، اللہ یہودیوں کی اس صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
"اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّه"
کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں اور علماء کو اپنا رب بنا لیا"...
(التوبة 31)

یہ مذموم اور مشرکانہ عقیدہ شیعوں کے یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ "اصول کافی" کے دو اقتباس آپ ملاحظہ کریں:

1. محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن علی نقی (نویں امام) سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ:
"اے محمد! اللہ ازل سے اپنی وحدانیت میں منفرد رہا، پھر اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کو پیدا کیا، پھر یہ لوگ ہزاروں سال باقی رہے، اس کے بعد اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا، پھر مخلوقات کی تخلیق پر ان حضرات کو گواہ بنایا اور ان کی اطاعت ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان حضرات کے حوالے کر دیئے، اب یہ حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کر دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں حرام کر دیتے ہیں، اور یہ وہی چاہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے"...
(الصافی شرح اصول کافی جزء 3، جلد 2، ص 149)

واضح رہے کہ اس روایت میں محمد، علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں....

2. اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے:
"وِلَایَتُنَا وِلَایَةُ الله اَلَّتِي لَمْ یُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ اِلَّا بِھَا"
ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت) بعینہ اللہ کی ولایت و حاکمیت جیسی ہے، جو نبی بھی اللہ کی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم دے کر بھیجا گیا"...
(اصول کافی 276)

محترم قارئین! دیکھیں ان شیعی روایات کے مطابق ان کے تمام ائمہ الہی صفات کے مالک ہیں، انہیں ما کان و ما یکون کا علم ہے، کوئی بھی چیز ان سے مخفی نہیں، ان کے بارے میں غفلت، سہو اور نسیان کو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ کی حکومت جیسی ان کی بھی حکومت ہے، وہ دنیا و آخرت کے مالک ہیں، جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں محروم کر دیں، حلال و حرام کے فیصلے کی اتھارٹی بھی ان کے پاس ہے.... اور ان جیسے دوسرے مذموم اور مشرکانہ عقائد.... انا للہ و انا الیہ راجعون.... کیا اب بھی ان کے کافر ہونے میں کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟؟؟؟

(جاری ہے)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سترہویں قسط

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________​

مضمون اب تک

(تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت، شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات اور شیعوں کی نظر میں متعہ کا مقام اور اس کی فضیلت نیز زنا اور متعہ میں مماثلت کی جانب اشارہ، ان کے اس باطل عقیدے کی کچھ دلیلیں اور ان کا رد، شیعوں کے چند متفرق عقائد و مسائل کا تذکرہ اور پھر اخیر میں یہودیت و شیعیت میں یکسانیت کا بیان جس کے دو پوائنٹس ذکر گئے تھے...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________

یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں

محترم قارئین! اس ذیلی عنوان کے تحت ہم نے گذشتہ قسط میں دو پوائنٹس کا تذکرہ کیا تھا، اب اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہم مزید کچھ نکات کا تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے:

3. التباس اور کتمان حق:
قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہود و نصاری کے اندر جو خامیاں اور برائیاں ہیں ان میں سے ایک بری صفت یہ بھی ہے کہ وہ حق کو چھپانے والے اور دین کی سچی تعلیمات پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کا جرم کرنے والے ہیں.... جیسا کہ اللہ سورہ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
"یَآ اَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ"
"اے اہل کتاب! تم حق کو باطل سے کیوں ملاتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو، حالانکہ تمہیں معلوم ہے"
(آل عمران 71)

یہودیوں کی یہ مذموم صفت شیعہ قوم نے بھی اختیار کی، ان لوگوں نے بھی حق کو خلط ملط کرنے اور اسے چھپانے کا کام کیا بلکہ اس معاملے میں یہ اپنے گرو سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں، کیونکہ "التباس" اور "کتمان حق" شیعوں کے نزدیک باقاعدہ "تقیہ" اور "کتمان" کے عنوان سے عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات کی وضاحت ہم نے گزشتہ سطور میں تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے.... اگر اس معاملے میں یہودیوں اور شیعوں کے مابین کچھ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دنیاوی مفاد کے لئے حق کو باطل میں خلط ملط کرنے اور اللہ کی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے یا ہیں جبکہ ان کے یہ معنوی "سپوت" یعنی شیعہ حضرات اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں اپنے باطل عقائد و نظریات کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں....

تقیہ اور کتمان کے باب میں ہم نے شیعوں کی کتاب سے بہت ساری دلیلیں ذکر کی تھیں، یہاں ہم ان دلیلوں میں سے صرف ایک دلیل کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:
قَالَ اَبُوْ جَعْفَر عَلَیْهِ السَّلَام: "اَلتَّقِیَّةُ مِنْ دِیْنِیْ وَ دِیْنِیْ آبَائِیْ وَلَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا تَقِیَّةَ لَهُ"
امام باقر ابو جعفر نے فرمایا: "تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے، جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان کی نہیں ہے"...
(اصول کافی 484)
حقیقت یہ ہے کہ "تقیہ" اور "کتمان" کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عقائد کو امت مسلمہ میں نافذ کرنے اور مسلمانوں کے درمیان نفاق و تفرقہ کی بیج بونے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور ذریعے سے ممکن نہ تھی، ظاہر ہے کہ یہودیت تو براہ راست مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اثر انداز نہ ہو سکتی تھی اس لئے یہودیت نے شیعیت کے روپ میں ایک نئے فرقے کو جنم دیا اور جب یہ فرقہ جوان ہوا تو اس نے مسلمانوں کو مختلف کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں پوری طرح یہودیوں کی مدد کی اور ان کے لئے اپنے مشن میں کامیابی پانے کا "تقیہ" اور "کتمان" سے بہتر کوئی اور راستہ نہ تھا.... اور آج حالت یہ ہے کہ کھلے عام یہ لوگ اپنے معتقدین پر "شیعیت" یا دوسرے لفظوں میں "یہودیت" کی دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے....
اللہ امت مسلمہ کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھے آمین....
____________________​

4. مسلمانوں سے شدید عداوت و دشمنی:

اس صفت کے تعلق سے قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ "یہودی" مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہیں...
اللہ کا فرمان ہے:
"لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً للَّذِیْنَ آمَنُوْا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا"
"تم مومنوں کا سب سے سخت دشمن ان لوگوں کو پاؤ گے جو یہودی ہیں اور ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا"
(المائدة 82)
دیکھیں یہ ہے قرآن کی گواہی اور اللہ کی سچی بات..... وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّه حَدِیْثاً....
یہودیوں کی مسلمانوں سے یہ عداوت و دشمنی ان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا وجود ختم کر دیں، چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں سے اپنی شدید دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ان لوگوں نے "شیعیت" کے روپ میں آ کر عام مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت اور تبرّا کا محاذ کھول دیا، یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیر القرون کے مسلمانوں سے عام لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے ہر اس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا...

شیعوں کی مسلمانوں خصوصاً صحابہ سے دشمنی کی چند مثالیں:

1. ابو بكر وعمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) تینوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ترک کر دینے کی وجہ سے ایمان و اسلام سے خارج اور مرتد ہو گئے...
(اصول کافی:265)

2. عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر شہید کر دیا تھا...
(حیات القلوب، ملا باقر مجلسی، ص:870)

3. عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) دونوں بدبخت ہیں... معاذ اللہ
(حیات القلوب، ملا باقر مجلسی، 742)

4. ان دونوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی لعنت ہو...
(کتاب الروضة، ابو جعفر کلیدی، 115)

5. مہدی علیہ السلام جب ظاہر ہوں گے تو عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو زندہ کر کے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے...
(حق الیقین، ملا باقر مجلسی، 139)

6. مہدی جب ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے پہلے سنّیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر کے نیست و نابود کر دیں گے....
(حق الیقین، ملا باقر مجلسی، 138)
اللہ تم سب کو نیست و نابود کرے آمین....

(جاری ہے)
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
@عمر اثری بھائی یہ مضمون یہاں ختم ہو گیا آگے کا حصہ چاہیے، اگر مہیا ہو جائے تو مہربانی ہوگی
 
Top