• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام اور ان کا منہج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
مشہور صحابیہ ام سلیم بنت ملحان کے صاحبزادے تھے۔ والدہ خدمت رسول کے علاوہ انہیں آپ ﷺ کی شاگردی میں بھی دینا چاہتی تھیں جو انہیں نصیب ہوگئی۔ آپ ﷺ نے ان کے مال و اولاد اور عمر میں برکت کی دعا کی تھی جواللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اورتینوں میں ہر شے خوب عطاکردی۔دس سال خدمت کرنے کے بعد جب حجاب کی آیات اتریں تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے گھر منتقل ہوگئے۔نماز جب پڑھتے تو صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کی نماز یاد دلا دیتے۔ آخری عمر میں آپ بصرہ منتقل ہوگئے اور ۹۳ہجری میں ایک سو تین سال کی عمر پاکر بصرہ میں فوت ہوئے۔

ان سے سعید بن جبیر، انس بن سیرین ، حسن بصری، قتادۃ، ربیعہ الرائی، عبد اللہ بن دینار ، امام زہری ؒاور حمیدالطویلؒ جیسے مشہور تابعین نے روایت کی۔ابن الجوزیؒ نے ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دو سو چھیاسی لکھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ سیدتنا ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
جناب صدیق اکبر کی دختر اور جناب رسول اللہ ﷺ کی انتہائی محبوب زوجہ محترمہ تھیں۔بعثت نبوی سے چار یا پانچ سال بعدمکہ میں پیدا ہوئیں۔سفید وسرخ یعنی خوبصورت ہونے کی وجہ سے انہیں آپ ﷺ حمیراء بھی پکارتے۔ہجرت سے دو یا تین سال قبل رسول اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح ہوا اور ہجرت کے تین سال بعد ان کی رخصتی ہوئی ۔ اپنی اس شادی پر وہ دیگر ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتیں۔

شروع ہی سے آپ کی تربیت خانۂ نبوی میں ہوئی۔ جس میں علم، عبادت اور اخلاق سرفہرست ہیں۔ امام شعبی رحمہ اللہ جب ام المؤمنین کے علم اور فقہ پر غور کرتے تو فرمایا کرتے: مَا ظَنُّکُمْ بِأَدَبِ النُّبُوَّۃِ؟ نبوی تعلیم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ بہت ہی باحیا تھیں۔ خود فرماتی ہیں: میں اس کمرے میں داخل ہوتی جہاں رسول محترم اور میرے والد دفن ہیں۔تو میں اپنے سر سے کپڑا اتار دیتی۔ مگر جب سیدنا عمر ؓ دفن ہوئے تو ان کے بعد میں سر بخوبی ڈھانپ کر آتی کیونکہ مجھے سیدنا عمر ؓ سے حیاء آتی۔

ان کا علم:
فقہاء صحابہ میں ان کا شمار ہوتا جو فتوی دینے کے اہل تھے۔ جن میں سیدنا عمر، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں۔خواتین امت میں سب سے بڑی عالمہ اورممتاز فقیہہ تھیں اور سنت رسول کی محافظہ بھی۔ آل رسول سے جو شریعت روایت ہوئی اس میں نصف سے زائد مسائل کی راویہ ام المؤمنین ہی ہیں۔طب، فقہ اور شعر کی عالمہ تھیں۔انتہائی فصیح تھیں۔علم میراث کی ایسی ماہر کہ اکابر اصحاب آپ سے ہی آکر سوال پوچھتے۔صحابہ کرام کے بعض فقہی مسائل پر ان کے استدراکات ان کی فقاہت کا اعلی نمونہ ہیں۔جب صحابہ بعض اہم مسائل آپ سے آکر پوچھتے تو بڑے اعتماد سے پوچھنے کی اجازت دیا کرتیں اور فرماتیں: تم مجھ سے ایسے سوال کرسکتے ہو جس طرح اپنی ماں سے۔امام زہریؒ فرماتے ہیں: اگر تمام لوگوں کا علم جمع کرلیا جائے اور پھر ازواج مطہرات کا بھی۔ تو پھر بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کا علم سب سے زیادہ وسیع ہوگا۔ (المستدرک: ۴؍۱۱)

وفات:
۱۷رمضان سن اٹھاون ہجری میں انتقال ہوا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی وصیت کے مطابق رات کے وقت ان کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔(تہذیب الکمال ۳۵؍۲۳۵)

مناقب وفضائل:
ام المؤمنین کے مناقب وفضائل تو بے شمار ہیں بطور خاص وہ جو آسمان سے آیات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کردئے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، امام ضحاک اور عبد الرحمن بن زید بن اسلم رحمہما اللہ کا کہنا ہے کہ بالخصوص یہ آیت: { إِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} ام المؤمنین کے بارے میں ہی اتری۔جو ان کی سب سے بڑی منقبت ہے۔

واقعہ افک پراللہ تعالیٰ نے آسمان سے سترہ آیاتِ براء ت قرآن کریم میں نازل فرما کر ہمیشہ کے لئے منافقوں کا منہ کالا کیااور ان کے مقام عالی اور عظیم احترام کو صفحات قرآن میں خراج تحسین پیش کیا۔اس لئے جب خط لکھتیں تواپنے آپ کو یوںمتعارف کراتیں : مِنَ الْمُبَرَّأَۃ ِفَوْقَ سَبْعِ السَّمَائِ وَمِنْ حِبِّ حَبِیْبِِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔اس خاتون کی طرف سے جس کی براء ت اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کی اور محبوب رسول اللہ کی محبوب کی طرف سے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: { وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ۔۔} یہ آیت اُم المؤمنینؓ کے بارے میں اتری کیونکہ رسول اکرم ﷺ ان سے دوسری ازواج کی نسبت بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے۔

احادیث میں یہی منقبت ہی کافی ہے:
آپ ﷺ کی دنیا کے بعد آخرت میں بھی زوجہ محترمہ ہیں۔۔ جبریل امین نے آپ ؓ کو سلام کیا۔آپ ﷺ نے ایک بار ان سے فرمایا: یا عائشُ! ہَذا جِبْرِیْلُ یُقْرِئُکِ السَّلاَمَ۔ عاشی! یہ جبریل ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔انہوں نے سلام کا بھرپورجواب دیا اور پھر آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھتی۔مراد جبریل علیہ السلام۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب آپ کو کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ۔ رضی اللہ عنہا۔آپ ﷺ جب ام المؤمنین کے ہاں ہوتے تو صحابہ آپ ﷺ کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے۔ اسی طرح ان کے مناقب میں ایک اہم منقبت یہ بھی ہے کہ آپﷺ پر کسی بیوی کے لحاف میں وحی نازل نہیں ہوئی سوائے ام المؤمنین ؓ کے۔خواب میں آپ ﷺ نے دو بار ام المؤمنین کو دیکھا۔ ایک بار یہ فرمایا گیا۔ کہ یہ آپ ﷺ کی بیوی ہیں۔ یاد رکھئے! انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ دوسری بار ام المؤمنین خود فرماتی ہیں: مجھے آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ایک بارریشم میں لپٹی ہوئی ایک چیز دیکھی تو مجھے کہا گیا: اللہ کے رسول! یہ آپﷺ کی بیوی ہیں۔ میں نے اس ریشم کو جب ذرا سرکایا: تو وہ تم ہی تھی۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ضرور ایسا ہوگا۔آپ طیبہ تھیں اور رسول محترم طیب کے علاوہ کسی کو پسند نہیں کیا کرتے تھے۔اکثر فرمایا کرتیں: آپ ﷺ میرے گھر میں فوت ہوئے۔ اور میری باری کے دن ہی فوت ہوئے۔اور میری گود میں آپ ﷺ کا سر مبارک تھا تب فوت ہوئے۔ اور موت کے قریب اللہ تعالیٰ نے میری اور آپ کی لعاب کو جمع بھی کردیا۔اسی مرض میں آپ ﷺ نے یہ حکم بھی دیا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ یہ کیسا عجیب اور قابل غور اتفاق ہے۔

٭…بقول ابن الجوزیؒ مسند بقی بن مخلد میں ام المؤمنین کی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے۔اس کثرت کی ایک وجہ رسول اکرم ﷺ کی محبت بھی ہے۔اپنے والدمحترم ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث سنیں۔

اہل بیت سے محبت اور باہمی تعلقات:
اہل بیت کے ساتھ ان کے تعلقات محبت واحترام کے تھے۔ اور وہ بھی انہیں ماں کا احترام ومقام دیتے۔ یہی ام المومنین ہیں جو حدیث کساء(صحیح مسلم) کو روایت کرتی ہیں اور یہی ام المؤمنین ہیں جو سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بارے میں حدیث رسول سیدۃ نساء العالمین روایت کرتی ہیں جو سیدہ فاطمہ نے اپنی اس والدہ کو خود بتائی۔یہ دونوں کی باہمی محبت ہے اور ام المؤمنین کی اہل بیت سے محبت اور ان کی قدر ومنزلت کا اعتراف ہے۔ان کی چال میں شباہت کی حدیث بھی ام المؤمنین نے روایت کی ہے۔ اگر ام المؤمنین کو ان سے نعوذ باللہ کوئی بغض ہوتا تو وہ ان احادیث کو چھپاتیں مگر وہ تو صدیقہ بنت صدیق ہیں ایسا کیونکر کرسکتی تھیں۔جی ہاں یہی ام المؤمنین ہی ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ سیدنا حسنؓ کوآپ ﷺ نے اپنے ساتھ لگایا۔ اور دعا کی: اے اللہ! یہ میرا بیٹا ہے اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے تو اس سے بھی محبت کر۔اور یہی ام المؤمنین ہیں جو فرماتی ہیں: کچھ ازواج مطہرات نے سیدہ فاطمہ ؓ کو آپ ﷺ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے آنے کی اجازت چاہی آپ ﷺ نے دی۔ آپﷺ اس وقت میرے ساتھ میرے ہی بستر میں تھے۔ کہنے لگیں۔ کہ مجھے آپ کی کچھ ازواج نے آپ کے پاس بھیجا ہے جو آپ ﷺ سے ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں آپ ﷺ سے عدل کا تقاضا کررہی ہیں۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں: میں خاموش تھی۔ پھررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں؟ سیدہ فاطمہؓ بولیں: ابا حضور! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر عائشہ سے تم محبت کرو۔( مسلم: ۶۴۴۳، بخاری: ۲۵۸۱)

سیدہ فاطمہ الزہراء کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتماد:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ چکی پیستے پیستے تھک جاتیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے۔ تو فاطمہ آپ کے پاس آئیں۔ مگر آپ گھر میں نہیں تھے۔ سیدہ ام المؤمنین گھر میں تھیں تو انہیں بتایا کہ میں بابا سے ملنے آئی تھی۔ ۔ پھر جب رسول اکرم ﷺ تشریف لائے تو ام المؤمنین نے آپ ﷺ کو بتایا : کہ فاطمہ آپ سے ملنے آئی تھیں ۔ آپ ﷺ فوراًہمارے ہاں اس وقت تشریف لائے جب ہم بستر میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے چاہا کہ میں اٹھوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی جگہ لیٹے رہو۔ تو ہم دونوں کے درمیان آپﷺ بیٹھ گئے۔ میں نے آپ ﷺ کے پاؤں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر فرمایا: کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر نہ سکھاؤں جو تم نے مجھ سے مانگا ہے؟ جب تم بسترمیں لیٹنے لگو تو چونتیس بار اللہ اکبر اور تینتیس بار سبحان اللہ اور تینتیس بار الحمد للہ کہا کرو یہ تم دونوں کے لئے خادم سے بہتر ہے۔اس حدیث میں جہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی منقبت ہے وہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھرپور اعتماد بھی ہے۔کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ کو ان کی آمد کی اطلاع دی۔

ام المؤمنین سے سیدنا حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے صاحب زادے علی رحمہ اللہ نے علم ِحدیث سیکھا اور پھر ان سے روایت بھی کیا۔ ان میں کچھ احادیث صحیح مسلم میں مردی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے بیٹے محمد ابو جعفر رحمہ اللہ ، ام المؤمنین کی حیات طیبہ میں ہی پیدا ہوئے پھر بھی ان سے روایت کرتے ہیں حالانکہ محمد ابو جعفر ام المؤمنین سے ملے نہیں۔

اہل بیت کے یہ سادات اصحاب نبی ﷺ سے علم سیکھا کرتے تھے ۔ دوسروں کی طرح انہیں بھی علم کی ضرورت تھی۔ اہل بیت میں ان دونوں حضرات نے اس بات کو غلط ثابت کیا ہے کہ یہ ہستیاں دوسروں سے علم لینے کی محتاج نہیں۔بلکہ اگر ابوجعفر ام المؤمنین کو پالیتے تو ان سے استفادہ کا موقع ضائع نہ کرتے۔ جیسا کہ ان کے والد علی بن الحسین نے ام المؤمنین کے علم سے فائدہ اٹھایا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب امیر المؤمنین تھے : ام المؤمنین کا حال پوچھتے ہوئے عرض کی: کیف أنتِ یا أمَّہ۔ اماں محترم! آپ کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا: بِخَیْرٍ۔ بہتر ہوں۔(البدایۃ والنہایۃ۷؍۲۷۲) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران ان لوگوں کو جو سیدہ ام المؤمنین پر لفظ چھانٹتے تھے سو سو کوڑے لگوائے اور ان سے ان کی پوشاکیں اتار دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
سیدنا عباسؓ کے بیٹے اور آپ ﷺ کے چچازاد ہیں۔بچپن میں ہی صحبت رسول سے فیضیاب ہوئے اور وفات نبوی تک براہ راست علم حاصل کرنے کے بعد چودہ پندرہ برس کی عمر میں بزرگ صحابہ کے گھر جاکر علم رسول کے طالب ہوئے جسے وہ لکھا کرتے۔ ان میں سیدنا علی ، سیدنا عمر، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ بقول امام ابن القیم ۔۔ سیدنا ابن عباسؓ نے آپ ﷺ سے تقریباً بیس احادیث سنی تھیں جنہیں بوقت ِروایت وہ یہ کہتے : سَمِعْتُ، رَأَیْتُ ، مگر اکثر احادیث انہوں نے صحابہ سے سنی تھیں۔(الوابل الصیب)۔

٭…آپ ﷺ کی دعا کی برکت سے ابن عباس ؓنہ صرف تاویل کتاب کے بھرپور عالم وفقیہ بنے بلکہ علم رسول کے بھی محافظ بن گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے مدبر خلفاء نے ان کے علم کی قدر کی اور بزرگ قریشیوں کی محفل میں انہیں حاضر ہونے کی برملا اجازت دی۔ حرم کعبہ میں شاعر کے قصیدہ کو دور سے سن کر ازبر کرلیا اور شاعر کے چلے جانے کے بعد بغیر غلطی کئے اسے سنا بھی دیا۔

٭… روایت حدیث میں بھی بہت محتاط تھے۔ بشیر العدوی کو روایت حدیث میں بے احتیاطی برتنے پر فرماتے ہیں:
إِنَّا کُنَّا مَرَّۃً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلاً یَقُولُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ً اِبْتَدَرَتْہُ أَبْصَارُنَا وَأَصْغَیْنَا إِلَیْہِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَکِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُوْلَ لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ مَا نَعْرِفُ۔ ہم جب کسی سے سنا کرتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ تو ہماری نگاہیں اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ لیکن جب سے لوگوں نے کھرے کھوٹے میں تمیز ختم کردی تو ہم اب لوگوں سے احادیث نہیں لیا کرتے سوائے اس حدیث کے جسے ہم جانتے ہوں۔(مقدمہ صحیح مسلم)

٭… سیدنا ابن عباس سے کل روایات کی تعداد۔۔بقول امام ابن الجوزیؒ۔۔ ایک ہزار چھ سو ساٹھ ہے۔ان کے معروف شاگردوں میں سعید بن جبیر، عطاء بن ابی رباح، عامر شعبی اور مجاہد جیسی نابغۂ روزگار شخصیات ہیں۔سن اڑسٹھ ہجری میں اکہتر برس کی عمر میں ان کا انتقال طائف میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ:
نبوت کے بارہویں سال بیعت عقبہ ثانیہ میں اپنے والد عبد اللہ ؓ کے ساتھ یہ بھی شریک تھے۔ باپ ، بیٹا دونوں رسول اللہ ﷺ پر جان سے فدا تھے۔ سیدنا جابرؓ نے تقریباً ہر غزوہ میں شرکت کی ۔ علم سے شغف رکھنے والے یہ صحابی بہت ہی سادہ مزاج تھے۔ انہوں نے علم نبوی کو سیکھنے، یاد کرنے ، اور پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جہاں تشریف لے جاتے لوگ آپ سے مسائل واحکام ،حدیث ِرسول کی روشنی میں سننے جمع ہوجاتے۔ محض ایک حدیث کی تاکید کی خاطر مدینہ سے مصر کا سفر کیا۔ جب رسول اکرم ﷺ کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی عمر اکتیس برس تھی۔ سن چوہتر میں چورانوے برس کی طویل عمر پا کر فوت ہوئے۔ ان کی مرویات کی تعداد۔۔بقول ابن الجوزی۔۔ ایک ہزار پانچ سو چالیس ہے۔اور مشہور شاگرد ابو الزبیر محمد بن مسلم تدرس، عطاء بن رباح، عمرو بن دینار اور امام شعبی، وغیرہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔سیدنا ابو سعید سعد بن مالک الخدری رضی اللہ عنہ:
انصاری، خزرجی تھے۔ بہادر باپ مالک کے بیٹے تھے جنہوں نے بہت کوشش کی کہ میرا یہ تیرہ سالہ بیٹا بھی میدان احد میں لڑائی کی سعادت حاصل کرسکے مگر آپ ﷺ نے انہیں کم عمر پاکر اجازت نہ دی۔ والد تو شہید احد بن گئے مگر بعد میں ابو سعید ؓنے بھی تمام اہم غزوات میں بھرپور شرکت کی۔ان کی ہمشیرہ فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہابھی مشہور صحابیہ ہیں۔ خود بہادر ، حق گو ، باعمل اور علم سے دل چسپی رکھنے والے تھے۔

٭…احادیث رسول کو انہوں نے یاد کیا، انہیں جمع کیا اور بعد از وفات ِرسول اس سرما یہ کو اپنے ساتھی صحابہ اور اگلی نسل تک من وعن منتقل کیا۔ ان کی مرویات۔۔بقول ابن الجوزیؒ۔۔۔ ایک ہزار ایک سو ستر ہے۔جو انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے علاوہ خلفاء اربعہ، سیدنا اسید بن حضیر، جابر بن عبد اللہ، زید بن ثابت، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن سلام ، ابو موسیٰ اشعری، ابوقتادہ رضی اللہ عنہم سے براہ راست حاصل کیں اور ابراہیم نخعی، حسن بصری، سیدنا جابر بن عبد اللہ، سعید بن جبیر اور دیگر بہت سے افراد نے ان سے احادیث روایت کیں۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: ان میں تینتالیس احادیث بخاری ومسلم میں ہیں، سولہ احادیث میں امام بخاری منفرد ہیں اور باون میں امام مسلم۔امام ابن عبد البر ؒ لکھتے ہیں:
أَوَّلُ مَشَاہِدِہِ الْخَنْدَقُ، وَغَزَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ اِثْنَتَیْ عَشَرَ غَزْوَۃً، وَکَانَ مِمَّنْ حَفِظَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِﷺ سُنَناً کَثِیرۃً وَعِلْمًا جَمًّا، وَکَانَ مِنْ نُجَبَائِ الصَّحَابَۃِ وَعُلَمَائِہِمْ وَفُضَلاَئِہِمْ۔ ان کا پہلا غزوہ جنگ خندق ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ بارہ غزوات میں انہوں نے شرکت کی۔ یہ ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے سنن رسول اور بے شمار علم کوبہت یاد کیا ہوا تھا۔نجیب صحابہ میں سے تھے۔ علماء وفضلاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
سن چونسٹھ میں تقریباً چوہتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیگر صحابہ کی مرویات:
تقریباً تین سو صحابہ ایسے ہیں جنہوں نے رسول اکرم ﷺ سے احادیث روایت کیں اوران کی مرویات ہزار سے کم، سو سے اوپر ہیں۔ ان میں:

… سیدنا عبد اللہ بن مسعود کی مرویات آٹھ سو اٹھتر
…عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی مرویات سات سو
…سیدنا عمر بن خطاب کی مرویات پانچ سو سینتیس
…سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مرویات پانچ سو چھتیس
…سیدنا عثمان ذو النورین کی مرویات ایک سو چھیالیس اور
… سیدنا ابو بکر صدیق کی مرویات ایک سو بیالیس ہیں ۔۔رضی اللہ عنہم۔

جو ۔۔بقول ابن الجوزیؒ۔۔ مسند بقی بن مخلد میں درج ہیں۔ورنہ ایک سے بیس تک احادیث روایت کرنے والے صحابہ کی تعدادہزار سے بھی زائد ہے۔رضی اللہ عنہم۔

٭…سینئر صحابہ ہوں یا جونیئر سبھی ایک دوسرے کے علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اور پھر رسول اللہ ﷺ کی ان احادیث کو روایت کرتے۔ایسی مرویات محدثین کے ہاں مراسیل صحابہ کہلاتی ہیں جو محدثین کے نزدیک متصل احادیث کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ تمام صحابہ عادل وثقہ تھے اور وہ جھوٹ بولنا نہیں جانتے تھے۔ خود رسول اکرم ﷺ اپنے ان ساتھیوں کے حالات کریدے بغیران پر اعتماد کرتے ۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں:
جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّیْ رَأَیْتُ الْہِلاَلَ یَعْنِیْ رَمَضَانَ۔ فَقَالَ: أَتَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہ ُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ قَالَ: یَا بِلاَلُ! أَذِّنْ فِی النَّاسِ فَلْیَصُوْمُوْا غَدًا۔ ایک اعرابی نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: میں نے ہلال رمضان دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تُو لاإلہ إلا اللہ کی شہادت دیتا ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کیا تُومحمد ﷺ کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اس نے کہا : جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بلال ! اٹھو اور اعلان کردو کہ لوگ کل روزہ رکھیں۔(صحیح ابن خزیمہ وصحیح ابن حبان)

٭٭٭٭٭
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اسی طرح وہ لوگ بھی صحابی نہیں ہوسکتے جو آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں مسلمان تو تھے مگر آپ ﷺ کو مل نہ سکے۔ جیسے ابوعبد اللہ الصنابحی۔ مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں اس چارپائی پر دیکھا جس پر آپ ﷺ کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی۔

البانی صاحب نے سلسلہ الصحیحہ میں ام المومینن حضرت ام سلمہ سے ایک روایت نقل کی ہے
مفہوم حدیث

ام المومینن ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا کہ

میرے صحابہ میں وہ بھی ہیں جو مجھے کبھی نہ دیکھیں گے جب میں ان سے جدا ہو جاؤں گا۔
السلسلة الصحيحة -الصفحة أو الرقم: 6/1202
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا فقال يا رسولَ اللهِ أحدٌخيرٌمنا أسلمْنا معك وجاهدْنا معك یا رسول اللہ!کیا ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ کی ہی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا قال : نعم، قومٌ يكونون من بعدِكم ؛ يؤمنون بي ولم يَرَوْنِيآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا
الراوي:حبيب بن سباع أبو جمعةالمحدث:الألباني - المصدر:تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 6246
خلاصة حكم المحدث:إسناده صحيح
وہ لوگ جو صحابہ سے بہتر ہونگے ان کی کچھ صفات یہ بھی ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہیں

طوبى لِمَنْ رآني وآمنَ بي مرَّةً ، وطوبِى لِمَنْ لم يراني وآمنَ بي سبعَ مرَّاتٍ
الراوي: أبو أمامة و أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3924
خلاصة حكم المحدث: صحيح

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔ ‘‘

مِن أشدِّ أمَّتي لي حبًّا، ناسٌ يَكونونَ بَعدي ، يودُّ أحدُهُم لَو رآني ، بأَهْلِهِ ومالِهِ
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2832
خلاصة حكم المحدث: صحيح

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔ ‘‘

إِنَّ أُناسًا من أُمَّتي يَأْتُونَ بَعْدِي ، يَوَدُّ أحدُهُمْ لَوِ اشْتَرَى رُؤْيَتِي بِأهلِهِ و مالِهِ
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1676
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً میری اُمت میں میرے بعد ایسے لوگ بھی آئیں گے جن میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ اپنے اہل و مال کے بدلے (اگر) میرا دیدار (ملے تو وہ) خرید لے (یعنی اپنے اہل و مال کی قربانی دے کر ایک مرتبہ مجھے دیکھ لے)۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا فقال يا رسولَ اللهِ أحدٌخيرٌمنا أسلمْنا معك وجاهدْنا معك یا رسول اللہ!کیا ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ کی ہی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا قال : نعم، قومٌ يكونون من بعدِكم ؛ يؤمنون بي ولم يَرَوْنِيآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا
الراوي:حبيب بن سباع أبو جمعةالمحدث:الألباني - المصدر:تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 6246
خلاصة حكم المحدث:إسناده صحيح
وہ لوگ جو صحابہ سے بہتر ہونگے ان کی کچھ صفات یہ بھی ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہیں

طوبى لِمَنْ رآني وآمنَ بي مرَّةً ، وطوبِى لِمَنْ لم يراني وآمنَ بي سبعَ مرَّاتٍ
الراوي: أبو أمامة و أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3924
خلاصة حكم المحدث: صحيح

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔ ‘‘

مِن أشدِّ أمَّتي لي حبًّا، ناسٌ يَكونونَ بَعدي ، يودُّ أحدُهُم لَو رآني ، بأَهْلِهِ ومالِهِ
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2832
خلاصة حكم المحدث: صحيح

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔ ‘‘

إِنَّ أُناسًا من أُمَّتي يَأْتُونَ بَعْدِي ، يَوَدُّ أحدُهُمْ لَوِ اشْتَرَى رُؤْيَتِي بِأهلِهِ و مالِهِ
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1676
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً میری اُمت میں میرے بعد ایسے لوگ بھی آئیں گے جن میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ اپنے اہل و مال کے بدلے (اگر) میرا دیدار (ملے تو وہ) خرید لے (یعنی اپنے اہل و مال کی قربانی دے کر ایک مرتبہ مجھے دیکھ لے)۔
یہ تمام احادیث صحیح ہیں (ہو سکتا ہے ان میں سے کسی محدث کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف ہو بہرحال) ہم ان تمام احادیث کو مانتے ہیں، بغضِ صحابہ میں آپ نے دعویٰ تو کر دیا لیکن ان میں تو کہیں نہیں لکھا کہ ہم صحابہ سے بہتر ہیں؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ تمام احادیث صحیح ہیں (ہو سکتا ہے ان میں سے کسی محدث کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف ہو بہرحال) ہم ان تمام احادیث کو مانتے ہیں، بغضِ صحابہ میں آپ نے دعویٰ تو کر دیا لیکن ان میں تو کہیں نہیں لکھا کہ ہم صحابہ سے بہتر ہیں؟
صحابہ نے عرض کی
فقال يا رسولَ اللهِ أحدٌخيرٌمنا
کیا ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
قال : نعم،
ہاں تم سے بھی بہتر ہیں
قومٌ يكونون من بعدِكم ؛ يؤمنون بي ولم يَرَوْنِي
وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا
 
Top